محمد طلحہ گوہر چشتی
محفلین
فاعلاتن مفاعلن فعلن
گر میں ان سے ملا نہیں ہوتا
عشق کا سانحہ نہیں ہوتا
حادثے تو بہت ہوئے لیکن
جانے کیوں تو مرا نہیں ہوتا
بد گماں مجھ سے کر گیا کوئی
ورنہ وہ تو خفا نہیں ہوتا
سوز ہم کو ملے مگر دائم
گاہے گاہے بُکا نہیں ہوتا
چاہتیں ہیں کہ جو بدلتی ہیں
عشق تو بارہا نہیں ہوتا
ان کے دربار کا جو سائل ہے
وہ کسی کا گدا نہیں ہوتا
جانے کیسے وفا پرست ہیں وہ
جن سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
اک تری دید خارج از امکاں
"ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا"
جب سے دیکھا ہے روبرو ان کو
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
کون کہتا ہے عشق میں گوہرؔ
"رنج راحت فزا نہیں ہوتا"
گر میں ان سے ملا نہیں ہوتا
عشق کا سانحہ نہیں ہوتا
حادثے تو بہت ہوئے لیکن
جانے کیوں تو مرا نہیں ہوتا
بد گماں مجھ سے کر گیا کوئی
ورنہ وہ تو خفا نہیں ہوتا
سوز ہم کو ملے مگر دائم
گاہے گاہے بُکا نہیں ہوتا
چاہتیں ہیں کہ جو بدلتی ہیں
عشق تو بارہا نہیں ہوتا
ان کے دربار کا جو سائل ہے
وہ کسی کا گدا نہیں ہوتا
جانے کیسے وفا پرست ہیں وہ
جن سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
اک تری دید خارج از امکاں
"ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا"
جب سے دیکھا ہے روبرو ان کو
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
کون کہتا ہے عشق میں گوہرؔ
"رنج راحت فزا نہیں ہوتا"
آخری تدوین: