اُن کو مجرا تھے جو زیرِ آسماں بیٹھے ہوئے - داغ دہلوی (سلام)

حسان خان

لائبریرین
اُن کو مجرا تھے جو زیرِ آسماں بیٹھے ہوئے
بھوکے پیاسے بے وطن بے خانماں بیٹھے ہوئے

شورِ ماتم سن کے اہلِ بیت کا سب اہلِ شام
شادیاں کرتے تھے گھر میں شادماں بیٹھے ہوئے

شاہ اس پر بھی اٹھا دیتے تھے اعدا کے قدم
تیر تن پر، دل پہ داغِ جاں ستاں بیٹھے ہوئے

وا دریغا دستِ عابد میں تو ہو اُن کی مہار
اور اونٹوں پر چلیں کچھ سارباں بیٹھے ہوئے

کربلا سے شام تک دم دم کی جاتی تھی خبر
جا بجا تھے ڈاک پر سب خط رساں بیٹھے ہوئے

امتِ عاصی کے حق میں شاہ نے مانگی دعا
جانبِ قبلہ زمیں پر نیم جاں بیٹھے ہوئے

جب مدینے میں شہادت کی خبر اڑ کر گئی
کچھ کھڑے روتے تھے کچھ پیر و جواں بیٹھے ہوئے

کوفیوں نے خود بلا کر یہ ستم برپا کیا
اپنے گھر تھے چین سے شاہِ زماں بیٹھے ہوئے

حلق پر خنجر چلا سبطِ رسول اللہ کے
کھائی ہیں عابد نے غم کی برچھیاں بیٹھے ہوئے

بیٹھے بیٹھے پشتِ زیں پر ہی پڑھی شہ نے نماز
زخم کاری تھے بہت تا استخواں بیٹھے ہوئے

راہِ تسلیم و رضا میں اہلِ بیتِ مصطفیٰ
صبر کا کرتے تھے باہم امتحاں بیٹھے ہوئے

کہہ رہے تھے العطش جس وقت سب اہلِ حرم
سب کی سنتے تھے شہِ کون و مکاں بیٹھے ہوئے

(قطعہ)

حضرتِ عابد کو زنداں میں بھی تھا اتنا لحاظ
ہم سے غافل ہوں نہ در پر پاسباں بیٹھے ہوئے

رات کو چپ چاپ ہوتی تھی کوئی دم کو اگر
پھر ہلا دیتے تھے اپنی بیڑیاں بیٹھے ہوئے

شاہ کے ماتم میں روئے ہیں بہت حور و ملک
دیکھنا جنت میں بھی ہوں گے مکاں بیٹھے ہوئے

حج زیارت کر چکے اب کربلا کو بھی چلو
داغ مدت ہو گئی تم کو یہاں بیٹھے ہوئے
(داغ دہلوی)
 
Top