اُمید افزا اور ہمت بڑھانے والے اشعار

ویسے اقبال سے بڑا ستم ظریف کوئی کیا ہو گا!
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ۔۔ اتنے گہرے غم میں رجائیت کے کیا کیا پہلو نہیں نکالے اس اللہ کے بندے نے!
اپنے بھائی کے حوالے سے رجائیت کا عجب پہلو نکالا ہے!

تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی​
شرکتِ غم سے وہ اُلفت اور محکم ہو گئی​
۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے تو خواجہ حیدر علی آتش کی یہ مکمل غزل ہی لاجواب ہے۔ اور عینی نے بھی اک شعر اسکا شامل کر دیا ہے دھاگے کی مناسبت سے۔۔۔ پر میں اسکے تین اشعار اور شامل کرنا چاہوں گا۔

طریق عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
طریق عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سن
ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
 
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ سلسلہ ہے احمد میاں ۔
اور سبھی دوستوں سے بہت اچھے اچھے اشعارپڑھنے کو ملے ۔۔۔ڈھیروں داد آپ سب کے لیئے :)
اُمید ہے کہ اسی جوش وخروش سے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سلامت و شاد رہیئے آپ سب ۔
ہم بھی کوشش کریں گے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی :) ابتدا کیئے دیتے ہیں ۔۔۔ایک انتخاب پیش خدمت ہے ۔

زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے
خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں ۔۔۔۔ اُجالا ہے

ظہیر کاشمیری
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
زمانہ منقلب ہے انقلاب آیا ہی کرتے ہیں​
اندھیرے رات میں کچھ دیر کو چھایا ہی کرتے ہیں​
مہ و خورشید کو بھی لگ ہی جاتا ہے گہن اک دن​
پھر اس کے بعد پیہم نور برسایا ہی کرتے ہیں​
خزاں کے بعد دورِ فصلِ گل آتا ہے گلشن میں​
چمن والو! خزاں میں پھول مرجھایا ہی کرتے ہیں​
جنھیں عزمِ جواں ملتا ہے راہِ زندگانی میں​
مصائب، راہِ منزل ان کو دکھلایا ہی کرتے ہیں​
سکھا دیتی ہے قدرت جن کو اندازِ جہانبانی​
وہ ہر الجھی ہوئی گتھی کو سلجھایا ہی کرتے ہیں​
لگن ہو جن کے دل میں وہ پہنچ جاتے ہیں منزل تک​
حوادث راستے میں دام پھیلایا ہی کرتے ہیں​
جو چلتے ہیں انہیں کو راہ میں ٹھوکر بھی لگتی ہے​
یہ ٹھوکر کھاکے خوش قسمت سنبھل جایا ہی کرتے ہیں​
جواں ہمت سبق لیتے ہیں دنیا میں حوادث سے​
زبوں ہمت جو ہوتے ہیں وہ پچھتایا ہی کرتے ہیں​
یہ دنیا عیش و غم کی دھوپ چھاؤں سے عبارت ہے​
خوشی ہو یا الم دونوں گزر جایا ہی کرتے ہیں​
وہی ہیں مرد جن پر یاس کے سائے نہیں پڑتے​
وہ بڑھ کر تند طوفانوں سے ٹکرایا ہی کرتے ہیں​
زکی کیفی​
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
دشتِ امکاں میں بہر گام سنبھالا تم نے
میرے نادیدہ سہارو نظر آؤ مجھ کو
زنجیرِ صبح و شام سے آزاد ہوکے دیکھ
ہر لمحہء حیات ہے اک عمرِ جاوداں
زندگی ہے تو سحر بھی ہوگی
اے شبِ غم یہ مِرا دعویٰ ہے
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مِری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اِن آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر
اپیا بہت ہی خوب!
لاجواب!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فاتح بھائی نے یہاں اپنی خوبصورت آواز میں پڑھ رکھی ہے۔ اور ساتھ میں ہم جیسے لکھ چوروں کے لیئے لکھ بھی رکھی ہے۔ وہاں سے اٹھا کر ادھر امید والے دھاگے میں لے آیا ہوں

چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز​
ظلم کی چھاؤں میں دَم لینے پہ مجبور ہیں ہم​
اک ذرا اور ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں​
اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم​
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں​
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں​
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں​
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں​
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں​
لیکن اب ظلم کی میعاد کےدن تھوڑے ہیں​
اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں​
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں​
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے​
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم​
آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے​
یہ ترے حُسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد​
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار​
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد​
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار​
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز​
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ سلسلہ ہے احمد میاں ۔
اور سبھی دوستوں سے بہت اچھے اچھے اشعارپڑھنے کو ملے ۔۔۔ ڈھیروں داد آپ سب کے لیئے :)
اُمید ہے کہ اسی جوش وخروش سے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سلامت و شاد رہیئے آپ سب ۔
ہم بھی کوشش کریں گے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی :) ابتدا کیئے دیتے ہیں ۔۔۔ ایک انتخاب پیش خدمت ہے ۔
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے

خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے۔

بہت شکریہ مدیحہ صاحبہ۔۔۔!

حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ اور عرفان صدیقی کے خوبصورت کلام کے ذریعے اس سلسلے میں شرکت کا اور بھی شکریہ۔ :)

مزید کا بھی انتظار رہے گا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں ۔۔۔ ۔ اُجالا ہے

ظہیر کاشمیری

بہت خوب۔۔۔! شہزاد صاحب

بہے زمیں پہ جو میرا لہو تو غم مت کر
اسی زمیں سے مہکتے گلاب پیدا کر

بہت شکریہ زبیر بھائی۔۔۔!
 
Top