اُسے ہر جگہ جلوہ گر پارہے ہیں - جلال لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(جلال لکھنوی)
اُسے ہر جگہ جلوہ گر پارہے ہیں
تصور سے تصویر کِھچوارہے ہیں
تسلّی یہ خوب آپ فرما رہے ہیں
کہ ٹھہرے ہوئے دل کو تڑپا رہے ہیں
غلط ہے اجی عشق کا ان سے دعویٰ
چلو جھوٹ ہی قسمیں ہم کھا رہے ہیں
میں دیتا تھا دل جب کسی نے نہ روکا
نہ دو جان اب لوگ سمجھا رہے ہیں
وہ جلوہ دکھاتے تو کیا حال ہوتا
یہاں لن ترانی میں غش آرہے ہیں
سر اپنا تو قدموں سے انکے لگا ہے
بلا سے اگر ٹھوکریں کھا رہے ہیں
بیاں ان سے کرتے ہیں ہم دل کی اُلجھن
مقدر کی گھتّی کو سلجھا رہے ہیں
ہوا دے کے آنچل کی کہنا کسی کا
یہ خوب آپ دانستہ غش لا رہے ہیں
جلال اُٹھے جاتے ہیں دنیا ہی سے ہم
وہ کیا بزم سے اپنی اُٹھوا رہے ہیں
 
Top