انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

20

مر رہتے جو گُل بِن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا

میں گریہء خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ
یک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا

بِن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو
پُرسش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا​
 
21

اُس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ!
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہوا

مرچلے بے قرار ہوکر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہوا

وہ جو خنجر بکف نظر آیا
میر سو جان سے نثار ہوا
 
22

مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا
القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا

احوال خوش انھوں کا، ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا

شہرِ دل ایک مدت، اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اُس کا قرار پایا

اتنا نہ تجھ سے ملتے، نَے دل کو کھو کے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے، ویسا ہی یار پایا

کیا اعتبار یاں کا، پھر اُس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں‌ آکر کچھ اعتبار پایا

آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میر سے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا​
 
23

اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا

پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا

تاچرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے ، میں ہاتھ ہی اُٹھایا

آخر کو مر گئے ہیں اُس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اُسے نہ پایا


لگتی نہیں ہے دارو، ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بِساہا، جی کو کہاں لگایا​
 
24

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

گریے پہ رنگ آیا، قیدِ قفس سے شاید
خوں ہوگیا جگر میں اب داغ گلستاں کا

دی آگ رنگِ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں ،سن حال آشیاں کا

ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا، شیوہ اس آسماں کا

فتراک جس کا اکثر لوہو میں‌ تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صیدِ ناتواں کا

کم فرصتی جہاں کے مجمعے کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلسِ رواں کا

ناحق شناسی سے یہ، زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا

ناحق یہ ظلم کرنا، انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا، کس شہر کا، کہاں کا

(ق)

یاروئے یا رُلایا، اپنی تو یوں ہی گزری
کیا ذکر ہم صفیراں ، یارانِ شادماں کا

قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا

پوچھو تو میر سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اُتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا​
 
25

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

قسم جو کھایئے تو طالعِ زلیخا کی
عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا

خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہِ مست نے ساقی کی انتقام لیا

وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے اُن نے مرا سلام لیا

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
 
26

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تِیر کا

سب کھلا باغِ جہاں اِلا یہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا

بوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے اے بادِ بہار
ہوگیا ہے چاک دل شاید کسو دل گیر کا

رہ گزر سیلِ حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا

بس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے دردِ سر
کامِ جاں آخر ہوا، اب فائدہ تدبیر کا

جو ترے کوچے میں آیا پھر وہیں گاڑا اُسے
تشنہء خوں میں تو ہوں اس خاکِ دامن گیر کا

لختِ دل سے جوں چھڑی پھولوں کی گوندھی ہے ولے
فائدہ کچھ اے جگر، اس آہِ بے تاثیر کا

کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اُڑا جاتا ہے، ٹک چہرہ تو دیکھو میر کا

 
27

شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
آیا شبِ‌ فراق تھی یا روزِ جنگ تھا

کثرت میں‌درد و غم کی نہ نکلی کوئی تپش
کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا

لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذبِ عشق
جس بے وفا کو نام سے بھی مرے ننگ تھا

دل سے مرے لگا نہ ترا دل، ہزار حیف
یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاقِ سنگ تھا

مت کر عجب جو میر ترے غم میں مرگیا
جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا!
 
28

دل میں بھرا زبسکہ خیالِ شراب تھا
مانند آئنے کے مرے گھر میں‌ آب تھا

موجیں کرے ہے بحرِ جہاں میں‌ ابھی تو تُو
جانےگا بعدِ مرگ کہ عالم حباب تھا

اگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہم
صحنِ چمن نمونہء یوم الحساب تھا

ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اُس دم کی حسرتیں
جس دم یہ سوجھے گی کہ یہ عالم بھی خواب تھا

دل جو نہ تھا تو رات زخود رفتگی میں میر
گہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا​
 
29

کیا طرح ہے آشنا گاہے، گہے نا آشنا
یا تو بیگانے ہی رہیے، ہو جیے یا آشنا

پائمالِ صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزہء بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا

کون سے یہ بحرِ خوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میرے موجِ دریا آشنا

(ق)

بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاش کے
یک مژہ رنگِ فراری اس چمن کا آشنا

جس کی میں‌ چاہی وساطت اُس نے یہ مجھ سے کہا
ہم تو کہتے ، گر میاں! ہم سے وہ ہوتا آشنا

داغ ہے تاباں علیہ الرحمتہ کا چھاتی پہ میر
ہونجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا​
 
30

گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

دل نے ہم کو مثالِ آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا

کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا

عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
قیس کی آبرو کا پاس کیا

صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا

ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں!
میر کو تم عبث اداس کیا

 
31

مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا
اک مغ بچہ اُتار کے عمامہ لے گیا

داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے عشق
میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا

پہنچا نہ پہنچا آہ گیا، سو گیا غریب
وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا

اُس راہزن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ
اک مرتبہ جو میر جی کا جامہ لے گیا​
 
32

اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا
غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا

موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں
کب درمیاں سے وعدہء دیدار جائے گا

چُھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیوں کے تاسرِ‌دیوار جائے گا

دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

آئے بِن اُس کے ، حال ہوا جائے ہے تغیر
کیا حال ہوگا پاس سے جب یار جائے گا

کوچے میں اُس کے رہنے سے باز آ وگرنہ میر
اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا​
 
کیا کہوں، کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا
قافلہ جاتا رہا، میں صبح ہوتے سو گیا

بےکسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا، رو گیا

کچھ خطرناکی طریقِ عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس رہ ہو کر جو گیا

مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا

میر ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آکر بال اپنے دھو گیا
 
33

مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمالِ راہ کا
خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر، اللہ کا

سیکڑوں طرحیں نکالیں یار کے آنے کی لیک
عذر ہی جاہے چلا اس کے دلِ بد خواہ کا

گر کوئی پیرِ مغاں مجھ کوکرے، تو دیکھےپھر
مے کدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا

کاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میں
ظلم ہے اک خلق پر آشوب اُن کی آہ کا
 
34

ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
جس کُوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا

آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اےگل
آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا

ناکامیِ صد حسرت خوش لگتی نہیں، ورنہ
اب جی سےگزر جانا کچھ کام نہیں لگتا

ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں
مانند نےِ نرگس جو جام نہیں رکھتا

یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے
اک میر ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا
 
35

خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہوگیا
گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہوگیا

کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر
میں تو اسی خیال میں بیمار ہوگیا

ہے اس کے حرفِ زیر لبی کا سبھوں میں‌ ذکر
کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہوگیا

تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہوگیا

کیا کہیے آہ، عشق میں خوبی نصیب کی
دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا

کب زد ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کومیر
ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا

 
36

تیر جو اس کمان سے نکلا
جگرِ مرغ جان سے نکلا

نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی
میں ہی اک امتحان سے نکلا

گو کٹے، سر کہ سوزِ‌ دل جوں شمع
اب تو میری زبان سے نکلا

مرگیا جو اسیر قیدِ حیات
تنگنائے جہان سے نکلا

دل سے مت جا کہ حیف اُس کا وقت
جو کوئی اُس مکان سے نکلا

نامرادی کی رسم میر سے ہے
طَور یہ اُس جوان سے نکلا
 
37

ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا

گرمیِ عشق مانعِ نشوونما ہوئی
میں وہ نہال تھا کہ اُگا اورجل گیا

مستی میں چھوڑ دَیر کو کعبے چلا تھا میں
لغزش بڑی ہوئی تھی و لیکن سنبھل گیا

عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میر
مجنوں کے دشتِ خار کا داماں بھی چل گیا​
 
38

سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا اُن ستم کے ماروں کا

ہزار رنگ کھلےگل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کےشہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

عرق فشانی سے اُس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا ہے تاروں کا

علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں‌کا

تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھاویں گے
جو کوئی مانگے کا نامہ سیاہ کاروں کا

تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اُسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا

تڑپ کے خرمنِ گل پر کبھی گر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے، شیخ جی، ہم بھی گناہ گاروں کا
 
Top