میر تقی میر

  1. میم الف

    میر تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں • میر تقی میرؔ

    آج میں آپ کو میرؔ صاحب کی ایک غزل سنانا چاہتا ہوں۔ سیدھی سادی سی ہے۔ لیکن میرؔ صاحب کی سیدھی سادی باتیں بھی دل میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ یہ غزل تو مجھے اپنی ہی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔ امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی: تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں سو آئنہ سا صورتِ دیوار ہوا میں جب دور گیا...
  2. سیما علی

    ہادی علی رفیق علی رہنما علی

    ہادی علی رفیق علی رہنما علی یاور علی ممدّ علی آشنا علی مرشد علی کفیل علی پیشوا علی مقصد علی مراد علی مدعا علی جو کچھ کہو سو اپنے تو ہاں مرتضےٰ علی نور یقیں علی سے ہمیں اقتباس ہے ایمان کی علی کی ولا پر اساس ہے یوم التناد میں بھی علی ہی کی آس ہے بے گاہ و گاہ ناد علی اپنے پاس ہے قبلہ علی امام...
  3. عاطف سعد

    اندوہ و غم کے جوش سے دل رک کے خوں ہوا

  4. منیب فیض

    انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے (میر)

    انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے واں آرسی ہے وہ ہے یاں سنگ ہے چھاتی ہے گذرے ہے جو کچھ ہم پر سو اس کی بلا جانے ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی ہے حق بہ طرف اس کے چکھے تو مزہ جانے میں خط جبیں اپنا یارو کسے دکھلاؤں قسمت کے لکھے کے تیں یاں کون مٹا جانے...
  5. فرخ منظور

    میر دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا ۔ میر

    دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک سر سے سودائے جستجو نہ گیا سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں لیکن اے داغ دل سے تُو نہ گیا دل میں کتنے مسودے تھے ولے ایک پیش اس کے روبرو نہ گیا سبحہ گرداں ہی میرؔ ہم تو رہے دستِ کوتاہ تا سبو نہ گیا میر تقی میر
  6. منیب فیض

    کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں (میر)

    کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے جیسے اسیر تازہ بیتاب ہو قفس میں جانکاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں بیتاب دل کسو کا رکھا ہے کیا جرس...
  7. فرخ منظور

    میر خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی ۔ میر تقی میر

    خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی نگاہِ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم اسی آتش کے پر...
  8. فرخ منظور

    میر موسم آیا تو نخلِ دار میں میرؔ ۔ میر تقی میر

    دیر بد عہد وہ جو یار آیا دور سے دیکھتے ہی پیار آیا بیقراری نے مار رکھا ہمیں اب تو اس کے تئیں قرار آیا گردِ رہ اس کی اب اٹھو نہ اٹھو میری آنکھوں ہی پر غبار آیا اک خزاں میں نہ طیر بھی بولا میں چمن میں بہت پکار آیا ہار کر میں تو کاٹتا تھا گلا وہ قماری گلے کا ہار آیا طائرِ عمر کو نظر میں رکھ...
  9. طارق شاہ

    میر تقی مِیؔر ::::::مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف::::::Mir -Taqi -Mir

    غزل میرتقی میؔر مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام...
  10. فرخ منظور

    میر ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ ۔ میر تقی میرؔ

    ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ تم اور ہم سے محبت تمھیں خلاف خلاف ہم اور الفتِ خوب دگر دروغ دروغ غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے شبِ فراق کو کب ہے سحر دروغ دروغ کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو...
  11. میم الف

    میر دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں - میر تقی میرؔ

    دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں ٹک سن کہ سو برس کی ناموسِ خامشی کھو دو چار دل کی باتیں اب منھ پرآئیاں ہیں ہم وے ہیں خوں گرفتہ ظالم جنھوں نے تیری ابرو کی جنبش اوپر تلواریں کھائیاں ہیں آئینہ ہو کہ صورت معنی سے ہے لبالب رازِ نہانِ حق میں کیا خود نمائیاں...
  12. فرخ منظور

    میر تقی میر اور عشق ، تحریر: سعد اللہ خان سبیل

    میر تقی میر اور عشق تحریر: سعد اللہ خان سبیل قبل اس کے کہ میرؔ کی شاعری میں عشق و حسن کا جائزہ لیں ضروری ہے کہ میرؔ کی زندگی کے نشیب و فراز پر طائرآنہ نظر ڈالیں تاکہ ان کے شاعری میں عشق کی بہتات اور حسن کے اذکار کی وجوہات کا اندازہ ہوسکے ۔ میر تقی میر ؔ 1722 ء کو اکبرآباد میں پیدا ہوئے ان کے...
  13. میم الف

    اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

    آج میرے 50 مراسلے پورے ہو گئے ہیں۔ یعنی اب میں آپ دوستوں کی لڑیوں اور تبصروں کو ریٹنگز دے سکتا ہوں۔ اِن شاء اللہ، وہ دن دور نہیں جب میرے مراسلوں کی تعداد 5000 ہو جائے گی۔ تب تک کے لیے: اِس (چھوٹی سی) خوشی کے موقعے پر میں آپ کو میرؔ صاحب کی ایک (بڑی سی) غزل سناتا ہوں۔ کچھ دنوں پہلے فرخ صاحب کے...
  14. منہاج علی

    (میر تقی میر) منقبت در مدحِ امیر المومنین حضرت علیؑ

    گاہ بے گاہ کر علیؑ خوانی ہے علی دانی ہی خدا دانی مہر کا اس کی رہ سرآشفتہ ہے ولاے علیؑ‘ مسلمانی فرشِ راہِ علیؑ کر آنکھوں کو یوں بچھا تو بساطِ ایمانی مورِ بے زور ہو علیؑ کا تُو کہ جہاں میں کرے سلیمانی چاہ میں اس کی آپ کو گم کر تا کہیں تجھ کو ماہِ کنعانی ہے وہی مہرِ چرخ عرفاں کا ہے...
  15. منہاج علی

    میر تقی میر کا ایک عارفانہ شعر

    چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ (میر تقی میر)
  16. فرخ منظور

    میر دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے ۔ میر تقی میر

    دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا، جانا ہے اس کی نگاہِ تیز ہے میرے دوش و بر پر ان روزوں یعنی دل پہلو میں میرے تیرِستم کا نشانہ ہے دل جو رہے تو پاؤں کو بھی دامن میں ہم کھینچ رکھیں صبح سے لے کر سانجھ تلک اودھر ہی جانا آنا ہے سرخ کبھو آنسو ہیں ہوتے...
  17. فرخ منظور

    میر دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا ۔ میر تقی میر

    دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا لڑکا سا ان دنوں تھا اس کو شعور کیا تھا گردن کشی سے اپنی مارے گئے ہم آخر عاشق اگر ہوئے تھے ناز و غرور کیا تھا غم قرب و بعد کا تھا جب تک نہ ہم نے جانا اب مرتبہ جو سمجھے وہ اتنا دور کیا تھا اے وائے یہ نہ سمجھے مارے پڑیں گے اس میں اظہارِ عشق کرنا ہم کو...
  18. فرخ منظور

    میر جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا ۔ میر تقی میر

    غزل جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا کاو کاوِ مژۂ یار و دلِ زار و نزار گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا گرم رو راہِ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ...
  19. فرخ منظور

    میر لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں ۔ میر تقی میرؔ

    غزل لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا رویئے کب تک پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف نقاب وے رخسار کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں تن کے معمورے میں یہی دل و چشم گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے جگر و دل کباب ہیں دونوں سو جگہ اس کی آنکھیں...
  20. فرخ منظور

    میر جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا ۔ میر تقی میر

    جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا اب بھی دماغِ رفتہ ہمارا ہے عرش پر گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا جانی نہ قدر اس گہرِ شب چراغ کی دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا تقصیر جان دینے میں...
Top