انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

258

دعوے کو یار آگے معیوب کرچکے ہیں
اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کرچکے ہیں

مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو
اس کام کا بھی ہم کچھ اسلوب کرچکے ہیں

حسنِ کلام کھینچے کیوں کر نہ دامنِ دل
اس کام کو ہم آخر محبوب کرچکے ہیں

ہنگامہء قیامت تازہ نہیں جو ہوگا
ہم اس طرح کے کتنے آشوب کرچکے ہیں

رنگِ پریدہ، قاصد، بادِ سحر، کبوتر
کس کس کے ہم حوالے مکتوب کرچکے ہیں

کیا جانیے کہ کیا ہے اے میر وجہ ضد کی
سوبار ہم تو اس کو محجوب کرچکے ہیں​
 
259

جو حیدری نہیں، اُسے ایمان ہی نہیں
ہو گو شریفِ مکہ، مسلمان ہی نہیں

خال و خط ایسے فتنے، نگاہیں یہ آفتیں
کچھ اک بلا وہ زلفِ پریشان ہی نہیں

دیکھی ہو جس نے صورتِ دل کش وہ ایک آن
پھر صبر اُس سے ہوسکے، امکان ہی نہیں

یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی
کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی نہیں!

سجدہ اُس آستاں کا نہ جس کو ہوا نصیب
وہ اپنے اعتقاد میں انسان ہی نہیں

کیا تجھ کو بھی جنوں تھا کہ جامے میں تیرے میر
سب کچھ بچا ہے، ایک گریبان ہی نہیں​
 
259

ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں

عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا
اس مشتِ خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں

صورت پذیر ہم بِن ہرگز نہیں وے معنے
اہلِ نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں

عشق اُن کی علق کو ہے جو ماسوا ہمارے
ناچیز جانتے ہیں، نابود جانتے ہیں

اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گرہوئے تھے
اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں

یارب کسے ہے نامہ ہر غنچہ اس چمن کا
راہِ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں

مر کر بھی ہاتھ آوے تو میر مفت ہی وہ
جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں​
 
260

تلوار غرقِ خوں ہے، آنکھیں گلابیاں ہیں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں

جب لے نقاب منھ پر تب دید کر کہ کیا کیا
درپردہ شوخیاں ہیں، پھر بے حجابیاں ہیں

چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر
دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیان ہیں

جی بکھرے، دل ڈہے ہے، سر بھی گرا پڑے ہے
خانہ خراب تجھ بِن کیا کیا خرابیاں ہیں

مہان میر مت ہو خوانِ فلک پہ ہرگز
خالی یہ مہر و مہ کی دونوں رکابیاں ہیں​
 
261

سن گوشِ دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
مذکور کرچکا ہے مرا حال ہر کہیں

اب فائدہ سراغ سے بلبل کے، باغباں!
اطرافِ باغ ہوں گے پڑے مُشتِ پر کہیں

عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہوگیا
مرنا پڑا ہے ہم کو، خدا سے تو ڈر کہیں

(ق)

کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں مَیں
آشفتہ طبع میر کو پایا اگر کہیں

سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو
جاتا تھا اضطراب زدہ سا اُدھر کہیں

لگ چل کے میں برنگِ صبا یہ اُسے کہا
کاے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں!

آشفتہ جابجا جو پھرے ہے تُو دشت میں
جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں

خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر
رکھ ٹک تو اپنے حال کو مدنظر کہیں

آسودگی سے جنس کو کرتا ہے کون سوخت
جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں!

موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف
یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لختِ جگر کہیں

تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی
اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی، مر کہیں

کہنے لگا وہ ہو کے پُر آشفتہ یک بہ یک
مکسن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں!

آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں
مت کہیو ایسی بات تُو بارِ دگر کہیں

تعیینِ جا کو بھول گیا ہوں ، پہ یہ ہے یاد
کہتا تھا ایک روز یہ اہلِ نظر کہیں

بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اُٹھا
کرتا ہے جائے باش کوئی رہ گزار کہیں!

کہتے تھے آئے لے کے سرِ پُر خیال، پر
ایسے گئے کہ کچھ نہیں اُس کا اثر کہیں​
 
262

اب کچھ ہمارے حال پہ تم کو نظر نہیں
یعنی تمہاری ہم سے وے آنکھیں نہیں رہیں

اُس بزم کے چراغ بجھے تھے جو یار میر
اُن کے فروغِ باغ ہیں گُل ہو کہیں کہیں​
 
263

میں پھاڑ گریباں کو، درویش ہوا آخر
وے ہاتھ سے دامن کو اب تک بھی جھٹکتے ہیں

تو طرہء جاناں سے چاہے ہے ابھی مقصد
برسوں سے پڑے ہم تواے میر! لٹکتے ہیں​
 
264

سب خوبیاں ہیں شیخ مشیخت پناہ میں
پر ایک حیلہ سازی ہے اُس دستِ گاہ میں

مانند شمع ہم نے حضور اپنے یار کے
کارِ وفا تمام کیا ایک آہ میں

میں صید جو ہوا تو ندامت اُسے ہوئی
اک قطرہ خون بھی نہ گرا صید گاہ میں

پہنچے نہیں کہیں کہ نہیں واں سے اُٹھ چلے
القصہ ایک عمر سے ہم ہیں گے راہ میں

نکلا تھا آستین سے کل مغ بچے کا ہاتھ
بہتوں کے خرقے چاک ہوئے خانقاہ میں

بختِ سیہ تو دیکھو کہ ہم خاک میں ملے
سرمے کی جائے ہو تری چشمِ سیاہ میں

بیٹھے تھے میر یار کے دیدار کو سو ہم
اپنا یہ حال کرکے اُٹھے اک نگاہ میں​
 
265

کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں

کہے تو نخلِ صنوبر ہوں اس چمن میں میں
کہ سر سے پاؤں تلک دل ہی بار لایا ہوں

نہ تنگ کر اسے اے فکرِ روزگار کہ میں
دل اُس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں

پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور
کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار لایا ہوں

چلا نہ اُٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر
ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں​
 
266

جفائیں دیکھ لیاں، بے وفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب بُرائیاں دیکھیں

ترے وصال کے ہم شوق میں ہو آوارہ
عزیز دوست، سبھوں کی جدائیاں دیکھیں

ہمیشہ مائلِ آئینہ ہی تجھے پایا
جو دیکھیں ہم نے یہی خود نمائیاں دیکھیں

شہاں کہ کحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
اُنھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں​
 
267

آؤ یادِ بُتاں پہ بھول نہ جاؤ
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں

صدقے ہو لے ویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں

ہفت اقلیم ہر گلی ہے، کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں

اُس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میر جی یوں ہی خوار ہوتے ہیں
 
268

وے جو حسن و جمال رکھتے ہیں
سارے تیرا خیال رکھتے ہیں

گُل ترے روزگارِ خوبی میں
منھ طمانچوں سے لال رکھتے ہیں

دہنِ تنگ کے ترے مشتاق
آرزوئے محال رکھتے ہیں

اہلِ دل چشم سب تری جانب
آئنے کی مثال رکھتے ہیں

خاکِ آدم ہی ہے تمام زمین
پاؤں کوہم سنبھال رکھتے ہیں

یہ جو سر کھینچے تو قیامت ہے
دل کو ہم پائمال رکھتے ہیں

گفتگو ناقصوں سے ہے، ورنہ
میر جی بھی کمال رکھتے ہیں
 
269

صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
اس میں حیراں ہوں بہت، کس کس کا میں ماتم کروں

موسمِ حیرت ہے دل بھر کر تو رونا مل چکا
اتنے بھی آنسو بہم پہنچیں کہ مژگاں نم کروں

ہوں سیہ مستِ سرِ زلفِ صنم، معذور رکھ
شیخ اگر کعبے سے آوے، گفتگو درہم کروں

ریزہء الماس یا مشتِ نمک ہے کیا بُرا
جو میں اپنے ایسے زخمِ سینہ کو مرہم کروں

گرچہ کس گنتی میں ہوں ، پر ایک دم مجھ تک تو آ
یا ادھر ہوں یا اُدھر کب تک شمارِ دم کروں

بس بہت رسوا ہوا میں، اب نہیں مقدور کچھ
وہ طرح ڈھونڈوں ہوں جس میں ربط تجھ سے کم کروں

گو دھواں اُٹھنے لگا دل سے مرے پُر پیچ و تاب
میر اس پر قطعِ‌ ربطِ زلفِ خم در خم کروں​
 
270

کیا میں نے رو کر فشارِ گریباں
رگِ ابر تھا تار تارِ گریباں

نشاں اشکِ‌ خونیں کے اُڑتے چلے ہیں
خزاں ہو چلی ہے بہارِ گریباں

جنوں‌تیری منت ہے مجھ پر کہ تُو نے
نہ رکھا مرے سر پہ بارِ گریباں

کہیں جائے یہ دورِ دامن بھی جلدی
کہ آخر ہوا روزگارِ گریباں

پھروں میر عریاں، نہ دامن کا غم ہو
نہ باقی رہے خار خارِ گریباں​
 
271

بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں

عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں
رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں

نونہال آگے ترے ہیں، جیسی ہوں
ڈالیاں ٹوٹی ہوئیں مرجھائیاں

ایک بھی چشمک نہ اُس مہ کی سی کی
آنکھیں تاروں نے بہت جھمکاریاں

ایک صورت نہ پکڑی پیشِ یار
دل میں شکلیں سیکڑوں ٹھہرائیاں

بوسہ لینے کا کیا جس دم سوال
اُن نے باتیں ہی ہمیں بتلائیاں

مضطرب ہو کر کیا سب میں سبک
دل نے آخر خفتیں دلوائیاں

چل چمن میں یہ بھی ہے کوئی روشن
ناز تاکے! چند بے پروائیاں

شوقِ قامت میں ترے اے نونہال
گُل کی شاخیں لیتی ہیں انگڑائیاں

پاس مجھ کو بھی نہیں ہے میر اب
دُور پہنچی ہیں مری رسوائیاں​
 
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں
اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں

ٹک سن کہ سو برس کی ناموسِ خامشی کھو
دو چار دل کی باتیں اب منھ پہ آئیاں ہیں

ہم وے ہیں خوں گرفتہ ظالم جنھوں نے تیری
ابرو کی جنبش اُوپر تلواریں کھائیاں ہیں

آئینہ ہو کے صورت معنی سے ہے لبالب
رازِ نہانِ حق میں کیا خود نمائیاں ہیں​
 
میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں

جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے، میں طبعِ‌رواں ہوں

پنجہ ہے مرا پنجہء خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایہ روِ زلفِ بُتاں ہوں

دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعثِ آشفتگیِ طبعِ جہاں ہوں

تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبشِ لب کی
میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیرِ زباں ہوں

ہوں زرد غمِ تازہ نہالانِ چمن سے
اس باغِ خزاں دیدہ میں مَیں برگِ خزاں ہوں

رکھتی ہے مجھے خواہشِ دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں

اک وہم نہیں بیش مری ہستیِ موہوم
اس پر بھی تری خاطرِ نازک پہ گراں ہوں

خوش باشی و تنزیہ و تقدیس تھی مجھے میر
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں​
 
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
نہ پوچھو جوکچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں

جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد
ہمیں آکے اُس کے قدم دیکھتے ہیں

گہے داغ رہتا ہے دل، گہ جگر خوں
ان آنکھوں سے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں

اگر جان آنکھوں میں اُس بِن ہے تو ہم
ابھی اور بھی کوئی دم دیکھتے ہیں

لکھیں حال کیا اُس کو، حیرت سے ہم تو
گہے کاغذ و گہ قلم دیکھتے ہیں

وفا پیشگی قیس تک تھی بھی کچھ کچھ
اب اس طور کے لوگ کم دیکھتے ہیں

کہاں تک بھلا روؤگے میر صاحب!
اب آنکھوں کے گرد اک ورم دیکھتے ہیں​
 
275

بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں

نہ ہوویں شیفتہ کیوں اضطراب پر عاشق
کہ جی کو کھوکے دلِ بے قرار پاتے ہیں​
 
عام حکمِ شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں

ٹک تو رہ اے بِنائے ہستی تُو
تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں

سر تلک آبِ تیغ میں ہوں غرق
اب تئیں آب آب کرتا ہوں

جی میں پھرتا ہے میر وہ میرے
جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں​
 
Top