تعارف امجد علی راجا - تعارف

جناب امجد علی راجا صاحب کے توسط سے ایک بات (جو میرے نزدیک اہم ہے) احباب تک پہنچانا لازمی سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔
ہم روا روی میں کہہ دیتے ہیں، اور لکھ بھی دیتے ہیں ’’میں مشکور ہوں‘‘؛ مفہوم اس کا ہوتا ہے ’’میں شکرگزار ہوں، یا، شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ اس تناظر میں یہ لفظ ’’مشکور‘‘ یہاں درست نہیں ہے۔ مشکور کا معنی ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے، یا، کیا گیا۔ شکریہ ادا کرنے والا مشکور نہیں، وہ شاکر ہے، متشکر ہے، یا شکرگزار ہے۔

روئے سخن کسی کی طرف نہیں۔ آداب
 
ایک اور بات، کہ علم رکھتے ہوئے بھی ہم اس کا دھیان نہیں رکھتے۔
نذر ۔۔۔ وتد مفروق ۔۔۔ قربان کرنا، پیش کرنا وغیرہ
نظر ۔۔۔ وتد مجموع ۔۔۔ دیکھنا، دیکھنے کا عمل وغیرہ

اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں​
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں​

آداب
 
چلتے چلتے ایک بات اور ذہن میں آ گئی۔ ہماری کوئی کاوش، کوئی بات احباب کو پسند آ جائے تو ہم کہہ دیتے ہیں یا لکھ دیتے ہیں:
’’آپ کی پسندیدگی کے لئے مشکور ہوں‘‘ ۔۔۔ اس میں ایک تو وہ مشکور والی بات آ گئی اور دوسرے ’’پسندیدگی‘‘۔
پسندیدگی کا اصل مفہوم ہے کسی شے، بات، امر کا پسندیدہ ہونا: ’’فلاں کتاب کی پسندیدگی شک و شبہ سے بالا تر ہے‘‘ یا ’’یہ تو آپ کے کام کی پسندیدگی پر منحصر ہے‘‘ ۔۔ وغیرہ درست سمجھا جائے گا۔ پسندیدہ اسمِ مفعول ہے: میری پسندیدہ کتاب، آپ کا پسندیدہ رنگ؛ وغیرہ۔
’’آپ کی پسندیدگی کے لئے مشکور ہوں‘‘
اس جملے میں ’’آپ‘‘ فاعل ہے، اس لئے وہ پسندیدگی کا حامل نہیں، پسند کا ’’عامل‘‘ ہے۔ ہمیں یوں کہنا چاہئے: ’’آپ کی پسند آوری کے لئے ۔۔۔‘‘
’’آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ؟‘‘ نہیں صاحب! اگر آپ نے میری حوصلہ افزائی کی ہے تو وہ تو میری ہوئی، آپ کی تو نہ ہوئی! مجھے کہنا چاہئے ’’آپ کی جانب سے حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں‘‘، یا پھر سیدھا سیدھا اور مختصر ’’حوصلہ افزائی پر شکریہ‘‘، وغیرہ۔
 
آپ نے "مشکور" کو "منظور" کر کے مجھے "مجبور" کردیا کہ میں تھوڑا سا "مغرور" ہو جائوں، لیکن ڈر ہے کہیں آپ کے ہاتھوں مغفور" نہ ہوجائوں (مغفور لفظی معنوں میں نہ لیجئے گا)۔ اب میں آپ کا "مشکور" نہیں، ممنون ہوں :)
 

متلاشی

محفلین
وعلیکم اسلام
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں جھکتا
ٹوٹے جو ستارہ وہ زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کبھی دریا میں سمندر نہیں گرتا
خوش آمدید امجد علی راجا بھائی ۔۔۔۔!
میری دانست میں یہ شعر یوں ہے ۔۔۔۔!

ٹوٹے بھی ستارہ تو زمیں پر نہیں گرتا
حالات کی چوکھٹ پہ قلندر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

اساتذہ کی رائے درکار ہے ۔۔۔۔!
محمد وارث
الف عین
محمد یعقوب آسی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خوش آمدید امجد علی راجا بھائی ۔۔۔ ۔!
میری دانست میں یہ شعر یوں ہے ۔۔۔ ۔!

ٹوٹے بھی ستارہ تو زمیں پر نہیں گرتا
حالات کی چوکھٹ پہ قلندر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

اساتذہ کی رائے درکار ہے ۔۔۔ ۔!
محمد وارث
الف عین
محمد یعقوب آسی
یہ غزل محفل پہ یہاں موجود ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/حالات-کے-قدموں-پہ-قلندر-نہیں-گرتا-قتیل-شفائی.13438/
 
Top