الفت ہی نہیں اور بھی آزار بہت ہیں - محمد زکی کیفی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
الفت ہی نہیں اور بھی آزار بہت ہیں
اس ٹوٹے ہوئے دل کے خریدار بہت ہیں

ہم لوگ خطاکار گنہگار بہت ہیں
یعنی تری رحمت کے سزاوار بہت ہیں

جلوے بھی ہیں شوخی بھی ادا بھی ہے حیا بھی
کیا ان سے کہیں حال کہ اغیار بہت ہیں

باقی ہے فقط ہم سے یہاں شورِ سلاسل
کہنے کو تو زنداں میں گرفتار بہت ہیں

کیا لے کے ہمیں جائے گا صیّاد چمن سے
آنکھوں میں سمائے ہوئے گلزار بہت ہیں

ویرانیِ دل حالِ زبوں،دیدئہ پُرنم
خاموش ہیں لیکن لبِ اظہار بہت ہیں

فیضانِ جنون سے ہمیں آساں نظر آئے
وہ مرحلے جو عشق میں دشوار بہت ہیں

یہ حسنِ جفا جوُ کو بھی معلوم نہیں ہے
ہم لوگ جفاؤں کے پرستار بہت ہیں

ہے جبرِ مشیت کہ ڈرے موت اُنھیں سے
جو لوگ یہاں جینے سے بیزار بہت ہیں

کیا ان کے تصوّر میں بھی وہ آئے ہیں کیفی
دہکے ہوئے کیوں پھولوں کے رخسار بہت ہیں
محمّد زکی کیفی
 
ویرانیِ دل حالِ زبوں،دیدئہ پُرنم
خاموش ہیں لیکن لبِ اظہار بہت ہیں
بہت خوب !!واہ واہ کیسا اچھا انتخاب لائی ہیں اپ .بہت شکریہ
 
Top