حسان خان
لائبریرین
افسوس که ایامِ شریفِ رمضان رفت
سی عید به یک مرتبه از دستِ جهان رفت
افسوس که سی پارهٔ این ماهِ مبارک
از دست به یک بار چو اوراقِ خزان رفت
ماهِ رمضان حافظِ این گلّه بُد از گرگ
فریاد که زود از سرِ ایِن گلّه شبان رفت
شد زیر و زبر چون صفِ مژگان، صفِ طاعت
شیرازهٔ جمعیتِ بیداردلان رفت
بیقدریِ ما چون نشود فاش به عالم؟
ماهی که شبِ قدر در او بود نهان، رفت
برخاست تمیز از بشر و سایرِ حیوان
آن روز که این ماهِ مبارک ز میان رفت
تا آتشِ جوعِ رمضان چهره برافروخت
از نامهٔ اعمال، سیاهی چو دُخان رفت
با قامتِ چون تیر درین معرکه آمد
از بارِ گنه با قدِ مانندِ کمان رفت
برداشت ز دوشِ همه کس بارِ گنه را
چون باد، سَبُک آمد و چون کوه، گران رفت
چون اشکِ غیوران به سراپردهٔ مژگان
دیر آمد و زود از نظر آن جانِ جهان رفت
از رفتنِ یوسف نرود بر دلِ یعقوب
آنها که به صائب ز وداعِ رمضان رفت
(صائب تبریزی)
ترجمہ:
افسوس کہ ایامِ شریفِ رمضان گذر گئے؛ تیس عیدیں ایک ہی دفعہ دنیا کے ہاتھوں سے چلی گئیں۔
افسوس کہ اس ماہِ مبارک کے سی پارے خزاں کے پتّوں کی طرح ہاتھوں سے ناگہاں چلے گئے۔
ماہِ رمضان اس گلّے کا بھیڑیوں سے محافظ تھا؛ فریاد کہ بہت جلد اس گلّے کے سر سے چوپان رخصت ہو گیا!
صفِ مژگاں کی طرح صفِ طاعت زیر و زبر ہو گئی؛ بیدار دلوں کی جمعیت کا شیرازہ چلا گیا۔
(اب) ہماری بے قدری دنیا پر فاش کیسے نہ ہو؟ وہ ماہ کہ جس میں شبِ قدر نہاں تھی، چلا گیا۔
جس روز کہ یہ ماہِ مبارک درمیان سے گیا، (اُس روز) بشر اور دیگر حیوانوں کے مابین تمیز بھی اٹھ گئی۔
جیسے ہی رمضان کی گرسنگی کی آتش نے چہرہ مشتعل کیا، نامۂ اعمال سے سیاہی دھوئیں کی طرح چلی گئی۔
(ماہِ رمضان) تیر جیسی قامت کے ساتھ اس معرکے میں آیا اور (ہمارے) گناہوں کے بار کے سبب کمان کی مانند قد کے ساتھ رخصت ہوا۔
(ماہِ رمضان) نے ہر شخص کے دوش سے بارِ گناہ رفع کر لیا؛ وہ ہوا کی طرح سَبُک آیا اور کوہ کی طرح گراں گیا۔
پلکوں کے پردے پر غیرت مند لوگوں کے اشکوں کی طرح وہ جانِ جہاں دیر سے آیا اور جلد ہی نظروں سے نہاں ہو گیا۔
جو کچھ صائب پر وداعِ رمضان سے گذرا ہے وہ یوسف کے جانے سے یعقوب کے دل پر بھی نہیں گذرتا۔
× مُشتعِل = شعلہ ور، برافروختہ
سی عید به یک مرتبه از دستِ جهان رفت
افسوس که سی پارهٔ این ماهِ مبارک
از دست به یک بار چو اوراقِ خزان رفت
ماهِ رمضان حافظِ این گلّه بُد از گرگ
فریاد که زود از سرِ ایِن گلّه شبان رفت
شد زیر و زبر چون صفِ مژگان، صفِ طاعت
شیرازهٔ جمعیتِ بیداردلان رفت
بیقدریِ ما چون نشود فاش به عالم؟
ماهی که شبِ قدر در او بود نهان، رفت
برخاست تمیز از بشر و سایرِ حیوان
آن روز که این ماهِ مبارک ز میان رفت
تا آتشِ جوعِ رمضان چهره برافروخت
از نامهٔ اعمال، سیاهی چو دُخان رفت
با قامتِ چون تیر درین معرکه آمد
از بارِ گنه با قدِ مانندِ کمان رفت
برداشت ز دوشِ همه کس بارِ گنه را
چون باد، سَبُک آمد و چون کوه، گران رفت
چون اشکِ غیوران به سراپردهٔ مژگان
دیر آمد و زود از نظر آن جانِ جهان رفت
از رفتنِ یوسف نرود بر دلِ یعقوب
آنها که به صائب ز وداعِ رمضان رفت
(صائب تبریزی)
ترجمہ:
افسوس کہ ایامِ شریفِ رمضان گذر گئے؛ تیس عیدیں ایک ہی دفعہ دنیا کے ہاتھوں سے چلی گئیں۔
افسوس کہ اس ماہِ مبارک کے سی پارے خزاں کے پتّوں کی طرح ہاتھوں سے ناگہاں چلے گئے۔
ماہِ رمضان اس گلّے کا بھیڑیوں سے محافظ تھا؛ فریاد کہ بہت جلد اس گلّے کے سر سے چوپان رخصت ہو گیا!
صفِ مژگاں کی طرح صفِ طاعت زیر و زبر ہو گئی؛ بیدار دلوں کی جمعیت کا شیرازہ چلا گیا۔
(اب) ہماری بے قدری دنیا پر فاش کیسے نہ ہو؟ وہ ماہ کہ جس میں شبِ قدر نہاں تھی، چلا گیا۔
جس روز کہ یہ ماہِ مبارک درمیان سے گیا، (اُس روز) بشر اور دیگر حیوانوں کے مابین تمیز بھی اٹھ گئی۔
جیسے ہی رمضان کی گرسنگی کی آتش نے چہرہ مشتعل کیا، نامۂ اعمال سے سیاہی دھوئیں کی طرح چلی گئی۔
(ماہِ رمضان) تیر جیسی قامت کے ساتھ اس معرکے میں آیا اور (ہمارے) گناہوں کے بار کے سبب کمان کی مانند قد کے ساتھ رخصت ہوا۔
(ماہِ رمضان) نے ہر شخص کے دوش سے بارِ گناہ رفع کر لیا؛ وہ ہوا کی طرح سَبُک آیا اور کوہ کی طرح گراں گیا۔
پلکوں کے پردے پر غیرت مند لوگوں کے اشکوں کی طرح وہ جانِ جہاں دیر سے آیا اور جلد ہی نظروں سے نہاں ہو گیا۔
جو کچھ صائب پر وداعِ رمضان سے گذرا ہے وہ یوسف کے جانے سے یعقوب کے دل پر بھی نہیں گذرتا۔
× مُشتعِل = شعلہ ور، برافروختہ
آخری تدوین: