قلزم درد اک رواں دل میں
آرزو بھی کہیں نہاں دل میں
÷÷کچھ دو لخت لگتا ہے۔
منزلیں کھو گئیں، سفر جاری
عشق جویائے لامکاں دل میں
÷÷ٹھیک
ایک وحشت ہے دشت میں چھائی
حسنِ احوال اب کہاں دل میں
÷÷حسن احوال؟ عجیب سی ترکیب لگ رہی ہے۔ غلط تو نہیں۔
تم کو شاہِ جنوں بلاتے ہیں
چل مرے ساتھ آسماں دل میں
÷÷یہ بھی واضح نہیں۔
نقش باقی ہیں اب تلک تیرے
عہد پارینہ جاوداں دل میں
÷÷عہد پارینہ کے بعد خطابیہ لگاؤ تو واضح ہو جائے
عہد پارینہ! جاوداں دل میں
تم کو شاہِ جنوں بلاتے ہیںشاہ جنوں والا مصرع تو لا جواب ہے۔ بس گرہ ٹھیک نہیں بیٹھ رہی۔
باقی درست ہیں۔
یہ بھی بس بھرتی کا ہی مصرع ہےتم کو شاہِ جنوں بلاتے ہیں
ذوق دیوانگی! وہاں دل میں
لگتا ہے خرد کے لئے ہی بلاوا ہے اسی کو کہتا ہوں مگر کیسے! یہ سوچتا ہوںیہ بھی بس بھرتی کا ہی مصرع ہے
شاہ جنوں والا مصرع تو لا جواب ہے۔ بس گرہ ٹھیک نہیں بیٹھ رہی۔
باقی درست ہیں۔
جی سر زبردست مجھے تگ و دو کے بعد بھی قافیہ نہیں مل رہا تھا جو خرد کو مدعو کرتا مگر آپ نے کرم نوازی کی شکریہ. غزل مکمل ہو گئی سریہ مکیسا رہے گا
تجھ کو شاہِ جنوں بلاتے ہیں
آخرد ہو جا میہماں دل میں