اِس موڑ سے جاتے ہیں
کچھ سُست قدم رستے
کچھ تیز قدم راہیں
پتھر کی حویلی کو
شیشے کے گھروندوں میں
تنکوں کے نشیمن تک
آندھی کی طرح اُڑکر
اک راہ گزرتی ہے
شرماتی ہوئی کوئی
قدموں سے اُترتی ہے
ان ریشمی راہوں میں
اک راہ تو وہ ہوگی
تم تک جو پہنچتی ہے
اک دُور سے آتی ہے
پاس آکہ پلٹتی ہے
اک راہ اکیلی سی
رکتی ہے نہ چلتی ہے
یہ سوچ کہ بیٹھا ہوں
اک راہ تو وہ ہوگی
تم تک جو پہنچتی ہے