]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
میں نے اس دھاگے کو آج ہی دیکھا اور اس اہم موضوع پر اتنی تفصیلی اور مدلل بحث دیکھ کر خوشی ہوئ۔

اصل میں ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننا اور اپنی بات دلیل سے دینا خود ایک خوبصورت عمل ہے، جس کا کم از کم ہمارے معاشرے میں بڑا فقدان ہے۔

ہاں البتہ اس پوری بحث میں ایک کمی لگی کہ اصل فساد کی جڑ یعنی موسیقی کی اصطلاح کی تعریف اور سکوپ کو کسی نے واضح نہیں کیا ۔

مثلاً کیا اس میں ہر طرح کی موسیقی شامل ہے جیسے سازوں کے ساتھ اور بغیر آلات موسیقی کے، یا کسی بھی چیز کا ردہم میں گانا ، بجانا، سنانا وغیرہ وغیرہ۔

شاید اس سے کوئ مدد ملے؟؟؟

آپ کا بڑا اچھا پوائنٹ ہے میں نے بھی یہیں کہیں اٹھا یا تھا مگر شاید کسی کی نظر نہیں پڑی، برادرمن یہ بڑاپیچیدہ موضوع ہے اور بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک جا پہنچی ہے اگر موسیقی کی درجہ بندی کی جاتی تو شاید کافی کا بھلا ہو جاتا۔
 
شاید فاروق بھائی کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کو صحابہ کے فہم پر سمجھنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ میں نے اوپر قرآن کریم کی دو آیات نقل کی تھیں اور سوال اٹھایا تھا ک نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف الفاظ کی تعلیم دی تھی یا معانی بھی سکھائے تھے؟ ابھی تک اس کا جواب موصول نہیں ہوا۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، بھائی عبداللہ حیدر، فاروق بھائی بہت لمبی لبی باتیں لکھتے ہیں ، دوسروں کے اکثر سوال گول کر جاتے ہیں ان کی باتوں کے دیے ہوئے جوابات پر بھی نظر کیے بغیر ہی گذر جاتے ہیں ، اور خوب الزام تراشی کرتے ہیں ، کبھی نیت پر ، کبھی ایمان پر ، اللہ نے کس کو کیا علم دیا ہے نہیں جانتے اور اپنی طرح دوسروں کو بھی ترجموں کا محتاج سمجھتے ہیں ،
کہیں تسبیح کا معنی sing پڑھ لیا تو اسے اپنی لیے دلیل بنا لیا ، کہیں الامانت کا معنی your trust or vote of trust پڑھ لیا تو ووٹ لینے دینے کی بات کرنے لگے ، اب کوئی ان سے پوچھے تو سہی کہ اگر الامانات کا یہی معنی ہے تو پھر امین کو کیا کہیں گے ؟؟؟ اور اور اور ،،، قسیم بھائی ابھی تو میری طرف سے بات شروع ہی نہیں ہوئی ،
جی تو چاہتا ہے کہ ان سے گذارش کروں کہ ساری بحث عربی میں کر لیتے ہیں ، اور الگ دھاگے کھول کر تمام مختلف موضوعات پر بحث کرتے ہیں ، اور عربی میں کرتے ہیں ، ان شا اللہ سب کو پتہ چل جائے گا کہ کٹ پیسٹ کون کرتا ہے ؟
میں انتظامیہ کی طرف سے اس دھاگے میں ہونے والی مختلف بحوث کو الگ الگ کیے جانے کا منتظر ہوں ،
اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر یہیں ان شا اللہ بھائی فاروق کی ساری باتوں کا جواب دیتا رہوں گا ، و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
 
میں نے اس دھاگے کو آج ہی دیکھا اور اس اہم موضوع پر اتنی تفصیلی اور مدلل بحث دیکھ کر خوشی ہوئ۔

اصل میں ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننا اور اپنی بات دلیل سے دینا خود ایک خوبصورت عمل ہے، جس کا کم از کم ہمارے معاشرے میں بڑا فقدان ہے۔

ہاں البتہ اس پوری بحث میں ایک کمی لگی کہ اصل فساد کی جڑ یعنی موسیقی کی اصطلاح کی تعریف اور سکوپ کو کسی نے واضح نہیں کیا ۔

مثلاً کیا اس میں ہر طرح کی موسیقی شامل ہے جیسے سازوں کے ساتھ اور بغیر آلات موسیقی کے، یا کسی بھی چیز کا ردہم میں گانا ، بجانا، سنانا وغیرہ وغیرہ۔

شاید اس سے کوئ مدد ملے؟؟؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، موسیقی کے آلات میں سے صرف دف کا مشروط استعمال ہی سنت سے جواز پاتا ہے ، اس پوری بحث میں فساد کی اصل جڑ سنت کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں ،اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایسا کرنے والے بے چارے کیوں ایسا کر رہے ہیں ، یہ بحث صرف موسیقی کے بارے میں نہیں رہی بلکہ اردو و انگلش ترجمے پڑھ پرح کر اور ان کے ذریعے قران کو سمجھ سمجھ کر امت کے اتفاق سے صدیوں سے ثابت شدہ سنت کو عدالت میں کھڑا کیا گیا ہے ، اسی کو معنوی تحریف کہتے ہیں ، الفاظ وہی ہوں گے تفسیر کچھ کی کچھ ، اللہ تعالی ہماری خیر کرے ، و السلام علیکم۔
 

دوست

محفلین
محترم فاروق صاحب ، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ درج بالا حدیث کے ان جملوں پر غور کریں:
حضرت ابوبکر صدیق نے سختی سے ڈانٹ کر کہا کہ " رسول اللہ کے گھر میں شیطانی گانا بجانا کر رہی ہو۔"
[b
][/b] حضور پاک نے فرمایا : " یا ابابکر لکل قوم عیدا، وھذا یوم عیدنا" اے ابوبکر ! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے ، آج ہمارا بھی عید کا دن ہے"

آپ اس بات پر غور کریں کہ ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے "شیطانی گانا بجانا" کے الفاظ ادا کئے ، مگر اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں فرمایا۔
آخر کیوں ؟؟ بقول آپ کے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک "گانا بجانا" حرام نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ کہہ کر سرزنش کیوں نہیں کی کہ :
ایک حلال چیز (بقول "غنا" کو حلال سمجھنے والوں کے) کو شیطان سے نسبت کیوں دے رہے ہو؟؟

حافظ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
[arabic]هذ الحديث حجتنا لأن أبا بكر سمى ذلك مزمور الشيطان ولم ينكر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على أبي بكر قوله[/arabic]
یہ حدیث تو ہماری (غنا کا ردّ کرنے والوں کی) دلیل ہے کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کا ساز کہا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تردید نہیں کی۔
بحوالہ : تلبیس ابلیس ، ابن جوزی ، ص:79
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود بھی کہا :
[arabic]قد نفخ الشيطان في منخريها[/arabic]
شیطان نے اس کے (گانے والی کے) نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔
مسند احمد ، المجلد الثالث ، حديث السائب بن يزيد رضي الله تعالى عنه

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی تو عید کے موقع پر بیان جواز کے لیے تھی۔
اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیتے تو عید پر اس قسم کا اظہار ناجائز اور حرام قرار پاتا۔
جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے "غنا" کی اصلیت اور حقیقت کی بنا پر اسے "شیطانی ساز" قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید بھی نہ فرمائی۔

لہذا ثابت ہوا کہ خلیفۂ اول کی مذمت "غنا" کی اصل حقیقت کی بنا پر تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی خاص مواقع پر صرف بیان جواز کے لیے تھی۔

اب اس حدیث سے جو لوگ گلوکاروں کی موسیقی اور گانوں کو سند جواز دینا چاہتے ہیں ، اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور خلیفۂ اول (رضی اللہ عنہ) قطعاً بری ہیں !!
میرا سوال یہ ہے کہ ابوبکر رض کو یہ پتا ہے کہ یہ شیطانی آواز ہے اور رسول اللہ ﷺ کو نہیں پتا نعوذ بااللہ؟
یا اس حدیث سے ہم یہ مطلب نکالیں کہ عید پر اگر یہ شیطانی آواز جائز ہے تو عید پر شراب پینا، زنا کرنا، اور دوسرے شیطانی کام بھی نعوذ بااللہ جائز ہیں؟
اگر یہ شیطانی آواز ہی ہے تو رسول اللہ ﷺ اس کو روکتے کیوں نہیں ہیں بلکہ الٹا ابوبکر رض کو منع کردیتے ہیں؟
دوسری حدیث جس کا ٹوٹا آپ نے اپنے مطلب کی بات نکالنے کے لیے پیش کیا وہ یہ ہے۔
نسائی سائب بن یزید سے اور طبرائی جعید سے روایت کرتے ہیںٴ
ان أمرۃ جاءت الی رسول اللہ ﷺ فقال یا عائشہ الؑفرفین حذہ فقالت لا یا نبی ﷺ حدثنا قال ھذہ قینۃ بنی فلان تحبین ان تغنیک فغنھتھا فقال النبی ﷺ قد نفخ الشیطان فی منخریھا
ایک عورت رسول ﷺ کے پاس آئی آپ ﷺ نے پوچھا عائشہ رض تم اسے پہچانتی ہو؟ کہا نہیں، حضور ﷺ نے فرمایا یہ فلاں قبیلے کی میراثن (گانے والی) ہے، کیا تم اس کا گانا سننا پسند کرو گی؟ اس کے بعد اس نے عائشہ رض کو گانا سنایا، حضور ﷺ نے سن کر فرمایا یہ تو بلا کی گانے والی ہے۔
یہاں بعض لوگ نفخ فی منخریھا کا لفظی ترجمہ یوں کریں گے کہ شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔ اس غلط لفظی ترجمے سے یہ مفہوم پیدا ہوگا کہ گانا ایک شیطانی فعل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ عربی کا ایک محاورہ ہے اور منجد میں ہے:
نفخ الشیطان فی انفۃ ای لطاول الٰی ما لیس لہ۔
نفح الشطیان فی انفہ کے معنی ہیں کہ وہ اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے جو اس کے بس کی بات نہ تھی۔
یہ اسی قسم کا محاورہ ہے جیسے ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ اس نے غضب کردیا۔ وہ بلا کا فنکار ہے۔ پھرتیلے آدمی کو ہم کہتے ہیں کہ اس میں بجلی بھری ہے، عفریت ہے، وہ جن سے کم نہیں۔ یا حسن و جمال کو دیکھ کر ہم توبہ شکن، تقوی شکن، ایمان سوز وغیرہ کہہ دیتے ہیں۔ نفح الشیطان فی منحریھا بھی کچھ اسی قسم کا محاورہ ہے، محض لفظ شیطان سے اس کے مذموم ہونے پر استدلال درست نہیں۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک گانے والی آتی ہے، وہ عائشہ رض سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس کو جانتی ہو؟ جواب میں پتا چلتا ہے وہ نہیں جانتیں۔ حضور ﷺ خود جانتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلے کی گانے والی ہے اور بتاتے بھی ہیں پھر پوچھتے ہیں عائشہ گانا سنو گی۔ پھر حضور ﷺ کی موجودگی میں عائشہ گانا سنتی ہیں اور یہی گانا سن کر حضور ﷺ فرماتے ہیں بلا کی گانے والی ہے۔
ہم اس کا ترجمہ یہ کرلیتے ہیں اس کے نتھنوں میں شیطان نے پھونک ماری ہے، یعنی یہ جو حدیث بالا میں کام ہوا ہے یہ شیطانی ہے۔
حیرت ہے، صد حیرت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کے سامنے ایک شیطانی کام ہورہا ہے اور وہ اس کو روک نہیں رہے۔ بلکہ الٹا خود پوچھ کر گانا سنوایا ہے اور پھر آخر میں اسے شیطانی بھی قرار دے دیا ہے۔ نعوذ بااللہ ،اللہ مجھے معاف کرے نبی ﷺ سے کیسی کیسی باتیں منسوب کی جارہی ہیں۔
معانی کی ہم آہنگی پیدا کرنے والے کہاں ہیں اس حدیث کے معنی میں بھی ہم آہنگی پیدا کریں۔ یا تو اللہ کا نبی ﷺ اور اس کی زوجہ جو سن رہے ہیں وہ شروع سے ہی شیطانی ہے یا پھر وہ شیطانی نہیں ہے۔ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
وسلام
 

میاں شاہد

محفلین
بحث اپنے اصل موضوع سے ہٹتی نظر آ رہی ہے۔

اگر تواراکین نے اپنے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں تو اس بحث کو ختم کر دیا جائے یا پھر صرف اصل موضوع پر رہا جائے تو پڑھنے والوں کا بہت بھلا ہو گا۔
السلام و علیکم
بہت مفید گفتگو ہو رہی ہے مگر کچھ اِدھر اُدھر ہو رہی ہے
میں اس بات کی تائید کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ آف ٹاپک پوسٹوں کو کسی دوسرے تھریڈ میں منتقل کردیں تاکہ اصل گفتگو تسلسل کے ساتھ جاری رہے
 
آپ کی پوسٹ‌نمبر 115 بیانیہ تھی۔ سوالیہ کوئی بات نہیں۔ اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں جو مسلمانوں کو نہیں معلوم۔ آپ کے اس بیان پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
صاحب آپ نے بجا فرمایا کہ
1۔ اللہ تعالی نے رسول صلعم کو قرآن کے الفاظ وحی کیا اور بیان کیا یعنی سمجھایا بھی
2۔ نبی کریم نے قرآن کے الفاظ صحابہ کو سکھائے اور اس کے معانی بھی بتائے۔

ذہن میں رکھئے کہ قرآن اور اس کے معانی بتائے۔ غیر القرآن اور اس کے معانی نہیں سمجھائے۔

اب آتے ہیں‌آپ کے اس بیان سے کئے جانے والے آپ کے استدلال پر۔ آپ کیا یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ اب اگر ان اصحابہ کرام سے کچھ بھی غیر قرآنی منسوب کیا جائے تو وہ صرف اس لئے قابل قبول ہے کہ یہ ان اصحابہ کرام سے منسوب ہے۔

اجازت دیجئے کہ میں‌ اپنے سوچنے کے اندازکو واضح‌کروں ۔
1۔ میں قرآن کو، قران کے اپنے الفاظ میں، ‌مفصل اور مکمل یقین کرتا ہوں۔ لہذا جو کتاب مکمل ہو اور مفصلل ہو وہ اپنے الفاظ کے معانی خود بیان کرتی ہے۔
2، ہر روایت کو آپ ضوء القرآن میں دیکھیں گے تاکہ صحیح سنت یعنی مستند سنت واضح ہو کر سامنے آئے۔ بیشتر، جی! زیادہ تر روایات میں‌ مستند سنت موجود ہے۔
3۔ قرآن یقینی طور پر رسول اکرم نے صحابہ کو سمجھایا۔ لیکن خلاف قرآن اور غیر القرآن ( قران سے باہر)‌ نہیں‌سمجھایا۔ لہذا صحابہ سے منسوب وہ روایات جو خلاف قرآن اور غیر القرآن ہوں ان کو ضوء القرآن یعنی قرآن کی آیات کی روشنی میں‌پرکھنا بہتر ہے۔

اب آئیے اس لفظ کی طرف جو میرے بھائی یہاں زیر بحث ہے۔ لَھْوَ الْحَدِيثِ - اس کی تعریف بھائی عادل سہیل کے الفاظ میں عبد اللہ ابن مسعود نے "غناء " کی ہے۔ لَھْوَ الْحَدِيثِ کا استعمال قرآن میں‌دیکھئے۔

[ayah]6:32[/ayah] [arabic] وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ [/arabic]
اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے

[ayah]47:36 [/ayah] [arabic]إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ [/arabic]
بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوٰی اختیار کرو تو وہ تمہیں تمہارے (اعمال پر کامل) ثواب عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرے گا

[ayah]57:20[/ayah] [arabic]اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [/arabic]
جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے

آپ ان میں سے کسی بھی آیت پر کلک کیجئے اور دیکھئے کہ لھو الحدیث کو کس طور پھیلا کر غناء‌بنایا جارہا ہے۔ یا تو قران میں اس لفظ کا استعمال غلط ہے یا پھر ان صحابی سے یہ بات کسی نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے منسوب کی ہے۔

اس دنیاوی زندگی کو کھیل اور تماشا قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کو کھیل(‌ لعب )‌ اور لھو (تماشہ)‌ کے معنوں میں رکھا ہے۔ اب یا تو اللہ تعالی کا اس لفظ کا تماشہ کے معنوں‌میں استعمال کرنا درست ہے یا پھر جن صاحب نے ایک جلیل القدر صحابی سے منسوب کرکے اس کے معنی گانا رکھے ہیں وہ درست ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ کسی شخص نے ان صحابی سے یہ بات کسی نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے منسوب کی ہے۔

[ayah]31:6[/ayah] [arabic]وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ [/arabic]
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
یہ آیت اس بے کار و بے معنی کلام کے بارے میں ہے جو اللہ کی راہ سے ہٹا دے، اللہ کی راہ کا تعین قرآن حکیم اللہ کے الفاظ کرتے ہیں اور اس سے بھٹکانے والی کتب بہت ہی واضح ہیں جو غیر القرآن اور خلاف القران پر یقین رکھنے کا کہتی ہیں۔ دعا یہ ہے کہ ہم سب قرآن کی طرف آئیں اور غیر القران اور خلاف القرآن روایات کو رسول اکرم کی ہدایت کے مطابق تلف کردیں۔


ایسا کیوں؟ اس لئے کہ وہ روایات موجود ہیں جن میں غناء کو رسول اکرم نے سنا۔ دوست نے اس پر بہت محنت سے معلومات فراہم کیں۔
اگر غناء کے بارے میں قرآن میں نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ خومخواہ کے سوالات سے گریز کیا جائے۔ اور اپنی صوابدید پر فیصلہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگا۔ دیکھئے۔

[ayah]5:101 [/ayah] اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے

آپ کو جو معانی اچھے لگیں وہ دیکھئے۔ نغمہ یا غناء کے بارے میں خالق حقیقی کا کوئی واضح حکم نہیں ہے۔ یہ بات اس قدر مشکل کیوں‌لگتی ہے صاحب؟
میں نے نہایت سادہ سوال کیا تھا آپ نے اس کے جواب میں عبث اتنی سطور لکھ دیں ہیں۔ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کا جواب میری تشفی نہیں کر سکا ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قرآن کی وضاحت بھی وحی کی گئی تھی، اور انہوں نے اس کی تعلیم صحابہ کو دی تھی۔ یہاں تک ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تشریح اور وضاحت کیا تھی؟ عربی ان کی مادری زبان تھی اس لیے وہ تو انہیں سیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ تو آخر کون سی وضاحت تھی جس کے بیان کرنے کا وعدہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے؟ حوالہ پوسٹ 115 میں ملاحظہ کیجیے۔
آپ کا کہنا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہے اور اس کی تشریح جو اللہ نے سکھائی تھی وہ ختم ہو گئی۔ یہ سراسر غیر قرآنی طرز فکر ہے۔
 
شاہد بھائی! اھلا و سھلا۔
میں بھی انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں کہ احادیث کے بارے میں پوسٹس کو الگ دھاگے میں منتقل کر دیا جائے تو بہتر ہو گا یا پھر اس بحث کے لیے نیا عنوان کھول لیا جائے۔
 

سعود الحسن

محفلین
میں نے اس دھاگے کو آج ہی دیکھا اور اس اہم موضوع پر اتنی تفصیلی اور مدلل بحث دیکھ کر خوشی ہوئ۔

اصل میں ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننا اور اپنی بات دلیل سے دینا خود ایک خوبصورت عمل ہے، جس کا کم از کم ہمارے معاشرے میں بڑا فقدان ہے۔

ہاں البتہ اس پوری بحث میں ایک کمی لگی کہ اصل فساد کی جڑ یعنی موسیقی کی اصطلاح کی تعریف اور سکوپ کو کسی نے واضح نہیں کیا ۔

مثلاً کیا اس میں ہر طرح کی موسیقی شامل ہے جیسے سازوں کے ساتھ اور بغیر آلات موسیقی کے، یا کسی بھی چیز کا ردہم میں گانا ، بجانا، سنانا وغیرہ وغیرہ۔

شاید اس سے کوئ مدد ملے؟؟؟



اگر موضوع کی طرف آتے ہوے میرے کیے گئے سوال کا جواب بھی مل جاے تو کیا بات ہے۔

اس کے علاوہ اگر اس بحث میں کچھ اور ایسے ہی معاملات کو بھی شامل کرلیا جاے جہسے تصویر کشی کا حرام ہونا تو یہ بحث ہم نو آموزوں کے لیے اور مفید ہوجاے گی۔

امید ہے میرے مشورے پر غور کیا جاے گا۔
 

دوست

محفلین
میرے بھائی یہ تو کسی پاسّے لگ نہیں رہی تصویر کشی کی صورت میں ایک اور پٹارہ کھل جائے گا۔ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔
 

سعود الحسن

محفلین
میرے بھائی یہ تو کسی پاسّے لگ نہیں رہی تصویر کشی کی صورت میں ایک اور پٹارہ کھل جائے گا۔ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔

اصل میں، میں یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ کس طرح تصویر کشی جو اسلام میں قرآن و سنت کے حساب سے حرام قرار دی جاتی رہی، وہ اچانک حلال کیسے ہو گئ۔

شاید اس ہی اصول پر یہ معاملہ (موسیقی کے حرام ہونے کا) بھی سدھر جاے۔
 

باسم

محفلین
[ARABIC]‏حدثنا ‏ ‏مسلم بن إبراهيم ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏سلام بن مسكين ‏ ‏عن ‏ ‏شيخ ‏
‏شهد ‏ ‏أبا وائل ‏ ‏في وليمة فجعلوا يلعبون يتلعبون يغنون فحل ‏ ‏أبو وائل ‏ ‏حبوته ‏ ‏وقال سمعت ‏ ‏عبد الله ‏ ‏يقول ‏ ‏سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏الغناء ينبت النفاق في القلب
[/ARABIC]
باب كراهية الغناء والزمر، کتاب الأدب، سنن أبي داود

ترجمہ :عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا
"غناء دل میں نفاق اگاتا ہے"۔
 
میں نے نہایت سادہ سوال کیا تھا آپ نے اس کے جواب میں عبث اتنی سطور لکھ دیں ہیں۔ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کا جواب میری تشفی نہیں کر سکا ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قرآن کی وضاحت بھی وحی کی گئی تھی، اور انہوں نے اس کی تعلیم صحابہ کو دی تھی۔ یہاں تک ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تشریح اور وضاحت کیا تھی؟ عربی ان کی مادری زبان تھی اس لیے وہ تو انہیں سیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ تو آخر کون سی وضاحت تھی جس کے بیان کرنے کا وعدہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے؟ حوالہ پوسٹ 115 میں ملاحظہ کیجیے۔
آپ کا کہنا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہے اور اس کی تشریح جو اللہ نے سکھائی تھی وہ ختم ہو گئی۔ یہ سراسر غیر قرآنی طرز فکر ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی عبداللہ حیدر ، ہمارے یہ بھائی اپنی عقل مندی اور اپنی قران فہمی جو ترجموں کی محتاج ہے پر کافی بھروسہ کیے ہوئے ہیں ، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے آپ کو کہا تھا کہ میں نے ابھی اپنی بات شروع ہی نہیں کی ، بھائیوں کا آنا جانا دیکھ رہا ہوں ، عقل مندی اور قران فہمی دیکھ رہا ہوں ، مجھے کہتے ہیں کہ نامکمل آیات کو حوالہ بنا رہا ہوں اور خود ایک ہی موضوع سے متعلقہ اُس موضوع کا دوسرا رخ بتانے والی آیات کو یکسر فراموش کر جاتے ہیں، جیسا کہ فاروق بھائی نے علم الغیب کی بحث شروع کرتے ہوئے کیا ،
اور اسی طرح یہ بھی شاید ان صاحبان کو یاد نہیں کہ اللہ تعالی نے وحی متلو یعنی قران ، وحی غیر متلو یعنی حدیث ، کے نزول کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف ایک اور چیز اتارنے کی خبر بھی دی ہے ، اور وہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو سکھائی ، پھع کسی بھی اور کو وہ چیز صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے ہی ملی ، اس کے علاوہ کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں ، اور یہی برھان قاطع ہے ، اپنی عقل کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم سے بہتر یا کم از کم برابر ہی سمجھنے والوں کے خلاف ، اور صحابہ کی تفسیر و شرح کو حجت نہ ماننے والوں کے لیے ، قران سے """ روایات سے نہیں """ و للہ الحمد ،
اب ذرا بھائی فاروق سے ہی پوچھتے ہیں کہ ان کی قران فہمی سے یہ معاملہ کیوں غائب ہے ؟؟؟
میں ، انشاء اللہ ابھی تھوڑی دہر میں اس چیز کا ذکر ارسال کرتا ہوں ، فی الحال میں تازہ مراسلات پڑھ رہا ہوں ،
اگر انتظامیہ یہاں زیر بحث موضوعات کو الگ دھاگوں میں کھول دے تو بڑی اچھی بات ہے ، و السلام علیکم،
 
آپ سے استدعا کی تھی کہ اس روایت کی اسناد اور ان میں کمی کو واضح‌فرمائیے۔ بناء حوالہ پیش کررہا ہوں، اصل روایت: تحقیق آپ فرمائیے۔ تاکہ اندازہ ہو کہ آپ ادھر ادھر سے کٹ پیسٹ کرتےہیں یا کسی کتاب روایت کو بھی دیکھتے ہیں

السلام علیکم ، فاروق بھائی ، جواباً گذارش ہے ::: بھائی صاحب سب جوابات توجہ سے پڑھا کیجیے ، میں اس روایت کی سند مراسلہ رقم 106 میں ارسال کر چکا ہوں ، اور جناب اس میں کمی و نقص کے دعوی دار آپ ہیں ، اور جو دعوی کرتا ہے گواہی اور دلیل اسے لانا ہوتی ہے ، جو آپ لائے ہیں ابھی انشاء اللہ اس پر بات کرتا ہوں ،
یہ روایت جو کچھ حرام قرار دے رہی ہے وہ صحیح حدیث کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ شیخ‌محمد الحنوطی۔ کیوں؟ (‌کتاب کے نام اور صفحہ کا حوالہ آپ کے ذمہ)
ابھی گذارش کر چکا ہوں جناب ، آپ دعوی دار ہیں آپ گواہی بھی لائیے ، اور یوں بھی کتاب کا نام اور حوالہ مجھے درکار نہیں آپ اس عیب کا ذکر کر ہی رہے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو یہ حدیث صحیح نہیں لگتی ، اس کا جواب ابھی حاضر کرتا ہوں ان شا ء اللہ ،
امام البخاری نے حدیث‌ المعازف (‌اس کتاب کا نام آپ کے لئے چھوڑ رہا تھا لیکن سوچا کہ بہت آسان ہے، صفحہ نمبر آپ نایت کیجئے)‌ میں خود لکھا کہ اس روایت کی اسناد ٹوٹی ہوئی ہیں۔ دوسرے راوی اور بخاری کے درمیان خلاء ہے لہذا اس نے ان اسناد کے پہلے راوی کا نام نہیں‌لکھا۔ اس کو کہیں‌گے کہ یہ روایت معلق ہے۔
فاروق بھائی ، پھر گذارش ہے کہ بات کو توجہ سے پڑھا کیجیے اور یاد رکھا کیجیے ، محترم میں نے جہاں ابتدائی مضمون میں یہ حدیث ذکر کی ہے وہاں مکمل حوالہ بھی ہے ، یاد نہیں رہا تو پھر لکھے دیتا ہوں """ صحیح البُخاری / حدیث٥٥٩٠/ کتاب الأشربہ /باب ٦ """ ، اور میرے پاس یہ """ فتح الباری شرح صحیح البخاری مطبوعہ دار الفیحاء ، دمشق ، کی جلد 10 کے صفحہ نمبر67 پر موجود ہے ،
ماشا اللہ ، فاروق بھائی """ معلق روایت """ الحمد للہ پچھلے انیس سال سے دینی علوم کے سمندر میں غوط زنی کر رہا ہوں اور ہر غوطے میں سے اللہ کوئی نہ کوئی موتی دے کر ہی نکالتا ہے و لہ لاحمد و المِنۃ ، یہ اصطلاح """ معلق روایت """ کہیں نہ ُپڑھنے سننے کو ملی ، کچھ بتانا پسند فرمائیں گے کہ کہاں سے ہے ؟؟؟ اگر آپ کی مراد صحیح البخاری میں تعلیقیا لکھی روایات ہیں تو ان رویات کو معلق روایت نہیں کہا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ """ ذکرہ معلقا """ ای ما ذکرہ البخاری رحمہ اللہ و لم یجزم بصحتہ و لا یعنی انہ لیس بصحیح بل یعنی انہ لیس علی شرطہ ، و ھل تدری یا اخ ان معلقا ، اسم صفت یطلق علی تلک الروایہ و لیس اسم لذاتھا ، ، ترجمہ آپ فرما دیجیے ، کٹ پیسٹ !!! بلا تحقیق !!!
ان کنت لا تدری فتلک المصیبۃ ::: و ان کنت تدری فالمصیبۃ اعظمیٰ ،
ابن حجار نے اس ٹوٹی ہوئی اسناد کو جوڑنے کی کوشش کی میں بہت ریسرچ کی لیکن اس کے باوجو ابتدائی راویوں میں سے ایک ہشام ابن عمار ، جس کا تذکرہ ---- ابن حجار کی کتاب تہذیب التہذیب ۔۔۔۔ (جلد نمبر اور صفحہ نمبر کا ‌آپ حوالہ دیجئے) میں‌کیا گیا ہے، بیشتر سکالرز کے لئے قابل قبول راوی نہیں ہے۔
سبحان اللہ ، ایک دفعہ نہیں تین چار دفعہ آپ لکھ رہے ہیں ""' ابن حجار """ جب کہ جن کا ذکر آپ کر رہے ہیں ان کا نام """ احمد بن علی بن حَجر العسقلانی """ ہے رحمہ اللہ تعالی ، اور عام طور پر انہیں ""' الامام الحافظ ابن حجر العسقلانی """ کہا جاتا ہے ، چلیے یہ تو جملہ معترضہ سہی ، آگے چلتے ہیں ،
بھائی اگر میں اپنے حوالہ جات میں کتاب کے اندر کتاب اور باب تک کا حوالہ دوں تو میں کاپی پیسٹ کرنے والا ، اور آپ اپنی اسی خامی کو چھپانے کے لیے کہ آپ اصل کتابوں کو دیکھے بغیر ہی حوالے لکھ رہے ہیں ، جلد اور صفحہ نمبر میرے ذمے لگا رہے ہیں ، سبحان اللہ ، کیا علمی انداز ہے ،
یہ بھی سہی لیکن صرف ایک ہی دفعہ آئیندہ اپنے حوالہ جات کی تکمیل خود فرمایے ، ورنہ میں ہی نہیں تمام قرائین یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آپ بذات خود مطالعہ نہیں کر رہے بلکہ ریڈی میڈ میٹرئیل استعمال کر رہے جس کا حکم آپ نے مجھ پر لگایا ہے ، اس کی بات آئیندہ انشاء اللہ،
فاروق بھائی ، ھشام بن عمار بن نضیر بن میسرۃ کا ذکر امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے تہذیب التہذیب مطبوعہ دار الفکر ، بیروت ، میں جلد ۱۱ میں صفحہ 46 تا 48 تک میں ہے ، لیجیے بھائی جان ، کتاب کی جلد اور صفحہ نمبر میں نے مہیا کر دیا الحمد اللہ ، اور اب آپ یہ کیجیے کہ ذرا وہ عربی عبارت لا دیجیے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ یہ روای بیشتر سکالرز کے لیے قابل قبول نہیں ،
اس کے علاوہ التعدیل و التجریح ، علامہ سلیمان بن خلف ، مطبوعہ دار اللواء ، الریاض جلد ۳صفحہ ۱۱۷۳ میں بھی دیکھیے گا ، مزید مدد ملے گی ، امید ہے آپ اسی طرح جواب عنایت فرمائیں گے جس طرح میں نے آپ کی بے جا فرمائش پوری کی ہے ،
اس روایت میں مستند حرام اور غیر مستند حرام و حلال کو ملایا گیا ہے۔ شراب و زنا حرام ہیں۔ ہر مسلمان مانتا ہے
سبحان اللہ ، کس نے ملایا ہے ؟؟؟ اور اس ملاوٹ کا ثبوت بھی فراہم کیجے ، جس طرح مجھ سے طلب فرماتے ہیں اسی طرح کے حوالہ جات کے ساتھ ،
لیکن ریشم حرام ہے یا حلال کوئی نہ مانے تو کفر نہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ صحیح بات کو نہ ماننا کس درجے میں آتا ہے یہ بحث پھر سہی ،
اسی طرح آلات موسیقی ہیں‌ کہ جن کے بارے میں نہ کوئی روایت ہے اور نہ ہی کوئی آیت۔ جبکہ دوسری روایات جو دوست نے پیش کی ہیں وہ رسول اکرم و امہات مومنیں کی موجودگی میں --- المعازف --- موسیقی و غناء‌ وقوع پذیر ہونا ثابت کرتی ہیں۔ لہذا یہ روایت بہت ہی کمزور یا ضعیف روایات میں‌شمار ہوتی ہے۔
المعازف ، جمع کا صیغہ یعنی تمام آلات موسیقی اور صرف ایک دف ، کوئی فرق نہیں آپ کے ہاں !!! ؟؟؟ اور کئی آلات کا نام لے لے کر حرام قرار دیے جانے والی احادیث میں اپنے مضمون میں بیان کر چکا ہوں ، شاید آپ کو یاد نہیں ، خیر کوئی بات نہیں ایسا بھی ہوتا ہے ،


چلئے آپ کی خدمت میں ٹوٹی ہوئی اور مشتبہ اسناد کا متن پیش کردیا اب دیکھتے ہیں کہ آپ جلد نمبر اور صفحہ نمبر کا حوالہ کب لاتے ہیں۔ دو کتب کے نام بھی فراہم کردئے ہیں۔ اگر آپ یہ تحقیق نہ کرسکیں تو وعدہ کیجئے کہ بنا تحقیق ادھر ادھر سے کٹ ‌پیسٹ نہیں کریں گے جب تک خود آپ کو یقین نہ ہو کہ یہ درست ہے۔
جواب اوپر دیا جا چکا و للہ الحمد ، اب آپ کے جواب سے کٹ پیسٹ اور بلا تحقیق حوالہ جات کا بھید کھل جائے گا ان شاء اللہ ،
اور بھائی صاحب یہ ٹوٹی ہوئی سند کا واویلا کرنے سے بہتر تھا کہ ، آپ انہی امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی """ تغلیق التعلیق """ مطبوعہ مکتب الاسلامی ،بیروت ، کا مطالعہ فرما لیتے ، چلیے اب ہی سہی ، ملاحظہ فرمایے ، جلد ۵ ، صفحہ ۱۷ تا ۲۲ ، اور اسی روایت کی متصل سند سنن ابو داود ، کتاب اللباس ، باب ۸ ، میں بھی دیکھ لیجیے ، کٹ پیسٹ ، بلا تحقیق ، کہاں ؟؟؟ و السلام علیکم
 
سلام مسنون۔
قران کی وضاحت قرآن کی مخالف روایات سے کس طور کی جاتی ہے۔ خلاف قرآن روایات سنت رسول کس طور بن جاتی ہے۔ اس پر نظر کیجئے۔والسلام
و علیکم السلام ، محترم یہ آپ کی قران فہمی کا اعجاز ہے کہ صحیح اور غیر صحیح کی تمیز رکھے بغیر سنت کو چھانٹی کرنے کا ایک ایسا انداز اپنایا ہے جو بے چاری امت کو چند سال پہلے تک پتہ نہیں تھا اور لاکھوں عام اور خاص ، جاہل و عالم ، خلاف قران کرتے چلے گئے اور کر رہے ہیں ، اگر ایسی نظر کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ،
آپ کے زیادہ تر اعتراضات فضول اور کسی بھی سوال سے عاری ہیں۔ والسلام
بہت شکریہ ، جو سوال صریح سوال ہیں ان کا جواب تو صراحت سے دیجیے ،
مجھے تو طاہر القادری کے "نماز کا نظام" اور "زکواۃ کے انتظام: کے استعمال میں کچھ عجیب نہیں‌لگا۔ یہ ترجمہ نہیں قبول تو اپنی پسند کا ترجمہ استعمال کرلیجئے۔ ان ترجموں کی آڑ میں چھپنے والوں کے لئے ہی ایک سے زیادہ ترجمے لگائے ہیں‌میں نے۔ اور اگر آپ کو کوئی ترجمہ بہتی ہی پسند ہے۔ تو اوپن برہان ڈاؤن لوڈ‌ کرکے اس میں‌ اس ترجمے کا اضافہ کیجئے اور پیش کیجئے سب کو۔ تاکہ آپ کو شکایت نہ ہو ترجمے کی کہ یہ والے ترجمے تو اٹک جاتے ہیں صاحب جان کو :)
والسلام
"نماز کا نظام" اور "زکوۃ کے انتظام" یہ ترجمہ کسی کا بھی ہو یہ میرا سوال نہیں تھا ، مجھے اپنی قرن فہمی کی ضو میں بتایے کہ یہ ترجمہ کس طرح اور پھر اس سے کیا مفہوم اخذ کیا جانا چاہیے ،
الحمد للہ ، میں پہلے بھی گذارش کر چکا ہوں شاید آپ کی نظر نہیں پڑی یا یاد نہیں رہا ، کہ ، اللہ تعالی کے مجھ پر جو انعامات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے تقریبا ترجموں کی محتاجی سے نجات دے رکھی ہے ،
بات اعتراض کی نہیں ، وضاحت طلب کی ہے ، عنایت فرمایے ، ورنہ سب کو سوچنا ہی پڑے گا کہ کٹ پیسٹ اور بلا تحقیق بات کہاں سے آ رہی ہے ، و للہ الحمد ، والسلام علیکم
 
یہ بھی دیکھیے اور غور فرمایے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائیو ، ان آیات کو غور سے پڑہیے ، حدیث قول ، فعلی اور تقریری ، کی حجت اور حیثیت اور حفاظت ، اور ، صحابہ کے فہم کی حجت و حیثیت اور صحیح حدیث میں کسی بات کی وضاحت نہ ملنے کی صورت میں ان کی اجتماعی بلا خلاف بات کی حجت کی دلیل ہیں ، اور وہ یوں کہ اللہ تعالی نے جو حکمت قران کے ساتھ نازل فرمائی ، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان کو سکھائی ، ان کے نفوس کی صفائی فرمائی ، اور یہ چیز کسی بھی غیر صحابی کو میسر نہیں ، اور اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اللہ کی نازل کردہ حکمت سیکھے ہوئے ، اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سے بڑھ کر سوائے انبیا و رسل کے ، کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات کی مراد نہیں جان سکتا خواہ وہ پوی مخلوق میں سب سے زیادہ صاحب عقل ہو ، اور خواہ کسی بھی فہم کا دعوی دار ،
اور بھائی فاروق کے لیے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے علم غیب کے بارے میں بھی کچھ اشارہ ہے ، تفصیل ان شاء اللہ اپنے وقت پر
اب آپ صاحبان مندرجہ بالا باتوں کی گواہی اللہ کے کلام میں پڑہیے ،
((( وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّت طَّآئِفَۃٌ مُّنْہُمْ أَن یُضِلُّوکَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّونَکَ مِن شَیْْء ٍ وَأَنزَلَ اللّہُ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ عَظِیْماً ::: اور (اے رسول ، صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ایک گروہ یہ ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کو راہ (حق ) سے ہٹا دے اور وہ لوگ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں ، اور وہ آپ کو کسی چیز میں سے نقصان نہ پہنچائیں گے (کیونکہ اللہ آپ کی حفاظت کرنے والا ہے ) اور اللہ نے آپ پر کتاب (قران ) نازل کی اور (اس کے ساتھ ) حکمت (نازل کی ) و آپ کو وہ کچھ سیکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت زیادہ ہے ))) سورت النساء ، آیت ۱۱۳
اللہ تعالی نے خبر دی کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر قران کے ساتھ ساتھ حکمت بھی نازل فرمائی ،
سوال ::: اللہ نے یہ حکمت کیوں نازل فرمائی ، اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کس کو براہ راست یہ حکمت سیکھائی ؟؟؟
جواب ::: اللہ تعالی کا فرمان ::: ((( لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ ::: یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے کہ ان میں ان کی جانوں میں سے ہی رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان ( کے دل و دماغ و نفوس ) کی صفائی کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب (قران ) اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک اِس سے پہلے وہ لوگ واضح گمراہی میں تھے ))) سورت آل عمران 164
اور بتایا سبحانہ و تعالی نے ::: (((هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ ::: (اللہ ) وہ ہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ان میں سے ہی رسول بھیجا (جو ) ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان ( کے دل و دماغ و نفوس ) کی صفائی کرتا ہے اور انہیں کتاب (قران ) اور حکمت سکھاتا ہے اور اس سے پہلے وہ لوگ واضح گمراہی میں تھے ))) سورت الجمعۃ ، آیت ۲ ،
اگر انتظامیہ نے کئی ارکان کی خواہش کے مطابق الگ الگ دھاگے کھول دیے یا کھول دینے کی اجازت دے دی تو ان شاء اللہ تعالی مزید تفصیل وہاں بیان ہو گی ، و السلام علیکم۔
 
سلام مسنون

میرا جواب، عادل سے سوال ، اس سوال کی وجہ اور ساتھ میں قرآن کا حوالہ - پیغام نمبر 94 میں :
یہ آپ کا نظریہ ہے۔ اس کا قرآنی حوالہ فراہم کیجئے کہ جو رسول اللہ کی سنت نہیں ہے ، اسے پھر اصحابہ سے سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ آپ اندھے ہو کر نہ گریں، بلکہ غور کریں ۔ دیکھئے ۔

سورۃ الفرقان:25 , آیت:73 اور وہ لوگ جنہیں اگر نصیحت کی جاتی ہے اپنے رب کی آیات سنا کر تو نہیں گرتے اس پر بہرے اور اندھے بن کر (بلکہ غور سے سُنتے ہیں)۔
و علیکم السلام ، فاروق بھائی ، ابھی ایک مراسلہ ارسال کیا ہے اپنی اس بات کا جواب اس میں دیکھیے ،
مراسلہ رقم ۱۷۵ ، و السلام علیکم۔
 
و علیکم السلام ، محترم یہ آپ کی قران فہمی کا اعجاز ہے کہ صحیح اور غیر صحیح کی تمیز رکھے بغیر سنت کو چھانٹی کرنے کا ایک ایسا انداز اپنایا ہے جو بے چاری امت کو چند سال پہلے تک پتہ نہیں تھا اور لاکھوں عام اور خاص ، جاہل و عالم ، خلاف قران کرتے چلے گئے اور کر رہے ہیں ، اگر ایسی نظر کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ،

[/b] [/size]

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
غیر قرانی واقعات کو رسول صلعم سے منسوب کرنے کی حدیث کا ترجمہ آپ ہی نے کیا تھا اور یہ بھی مانا تھا کہ یہ مستند حدیث رسول ہے۔ جو غیر قرانی ہے وہ غیر قرآنی ہے اور قران اس کی کسوٹی ہے ۔آپ لاکھ سر مار لیجیئے یہ بات آپ تبدیل نہیں‌کرسکتے ہیں۔ اہل یہود کا وطیرہ رہا ہے کہ قرآن سامنے آتے ہی بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں اس کو چھپانے کی۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائیو ، ان آیات کو غور سے پڑہیے ، حدیث قول ، فعلی اور تقریری ، کی حجت اور حیثیت اور حفاظت ، اور ، صحابہ کے فہم کی حجت و حیثیت اور صحیح حدیث میں کسی بات کی وضاحت نہ ملنے کی صورت میں ان کی اجتماعی بلا خلاف بات کی حجت کی دلیل ہیں ، اور وہ یوں کہ اللہ تعالی نے جو حکمت قران کے ساتھ نازل فرمائی ، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان کو سکھائی ، ان کے نفوس کی صفائی فرمائی ، اور یہ چیز کسی بھی غیر صحابی کو میسر نہیں ، اور اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اللہ کی نازل کردہ حکمت سیکھے ہوئے ، اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سے بڑھ کر سوائے انبیا و رسل کے ، کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات کی مراد نہیں جان سکتا خواہ وہ پوی مخلوق میں سب سے زیادہ صاحب عقل ہو ، اور خواہ کسی بھی فہم کا دعوی دار ،
اور بھائی فاروق کے لیے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے علم غیب کے بارے میں بھی کچھ اشارہ ہے ، تفصیل ان شاء اللہ اپنے وقت پر
اب آپ صاحبان مندرجہ بالا باتوں کی گواہی اللہ کے کلام میں پڑہیے ،
((( وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّت طَّآئِفَۃٌ مُّنْہُمْ أَن یُضِلُّوکَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّونَکَ مِن شَیْْء ٍ وَأَنزَلَ اللّہُ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ عَظِیْماً ::: اور (اے رسول ، صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ایک گروہ یہ ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کو راہ (حق ) سے ہٹا دے اور وہ لوگ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں ، اور وہ آپ کو کسی چیز میں سے نقصان نہ پہنچائیں گے (کیونکہ اللہ آپ کی حفاظت کرنے والا ہے ) اور اللہ نے آپ پر کتاب (قران ) نازل کی اور (اس کے ساتھ ) حکمت (نازل کی ) و آپ کو وہ کچھ سیکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت زیادہ ہے ))) سورت النساء ، آیت ۱۱۳
اللہ تعالی نے خبر دی کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر قران کے ساتھ ساتھ حکمت بھی نازل فرمائی ،
سوال ::: اللہ نے یہ حکمت کیوں نازل فرمائی ، اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کس کو براہ راست یہ حکمت سیکھائی ؟؟؟
جواب ::: اللہ تعالی کا فرمان ::: ((( لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ ::: یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے کہ ان میں ان کی جانوں میں سے ہی رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان ( کے دل و دماغ و نفوس ) کی صفائی کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب (قران ) اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک اِس سے پہلے وہ لوگ واضح گمراہی میں تھے ))) سورت آل عمران 164
اور بتایا سبحانہ و تعالی نے ::: (((هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ ::: (اللہ ) وہ ہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ان میں سے ہی رسول بھیجا (جو ) ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان ( کے دل و دماغ و نفوس ) کی صفائی کرتا ہے اور انہیں کتاب (قران ) اور حکمت سکھاتا ہے اور اس سے پہلے وہ لوگ واضح گمراہی میں تھے ))) سورت الجمعۃ ، آیت ۲ ،
اگر انتظامیہ نے کئی ارکان کی خواہش کے مطابق الگ الگ دھاگے کھول دیے یا کھول دینے کی اجازت دے دی تو ان شاء اللہ تعالی مزید تفصیل وہاں بیان ہو گی ، و السلام علیکم۔

میں اس ضمن میں‌پہلے لکھ چکا ہوں جو آپ پڑھنا نہیں‌چاہتے۔ اس آیت کا حوالہ بھی دیا کہ غیب میں‌سے صرف اور صرف وہی رسول اللہ کو عنائت ہوا جو -- ما شاء اللہ ---- ہوا یعنی جو بھی اللہ کی مرضی سے تھا۔ باقی رسول نے خود بتایا کہ ان کو اس ما شاء اللہ کے علاوہ کچھ علم نہیں‌تھا تو پھر ان سے پیشین گوئیاں کو منسوب کرتے ہو بھائی؟
 
اگر ان کے فراہم کردہ ترجمے اور میرے فراہم کردہ ترجمے میں اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے تو ان کا اعتراض کیا ہے؟ ان کے فراہم کردہ ترجمے غیر ضروری تھےکیوں کہ اس بات پر تو اختلاف ہی نہیں کہ رسول اللہ کی اطاعت کرنی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس کو یہ صاحب مستند حدیث کہہ رہے ہیں اس کو ان کا اپنا امام البخاری ضعیف کہہ رہا ہے۔

جو روایت انہوں نے پیش کی وہ امام بخاری نے خود ضعیف لکھی ہے کہ پہلا راوی نامعلوم ہے۔ اور اس پہلے راوی کو ابن حجار نے تحقیق کرکے درست کیا اور پہلی سند لگائی تہذیب التہذیب میں ۔ جس کو سکالرز نے تسلیم نہیں کیا۔

2۔ پھر قرآن سے یہ ثابت کیا کہ رسول اکرم مستقبل کا حال صرف ماشاء اللہ کے مطابق جانتے تھے۔ جو اللہ نے بتایا وہی جانتے تھے۔ اب یہ ان پر چھوڑا کہ اس روایت میں موسیقی کو اللہ نے قرآن میں کہاں حرام قرار دیا ہے۔

اس ساری بحث میں عادل سہیل صاحب نے ان نکات پر سے توجہ ہٹانے کے لئے شور مچانا شروع کردیا کہ میرے الفاظ بدل دئے۔ صاحب اگر قرآن کی آیات اور اس کا ترجمہ عادل سہیل صاحب کے الفاظ ہیں تو ہم ان سے بحث نہیں‌کرسکتے ہیں۔ پھر نعوذ باللہ یہی وہ خدا ہیں جن کو یہودی صدیوں سے ڈھونڈھ رہے ہیں۔
السلام علیکم ، فاروق بھائی ، آپ تو ابھی سے بوکھلائے گئے ، جی ہاں ہمارے اماموں میں سے ایک ہے امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ تعالی ، اللہ ہمارا حشر اس کے ساتھ کرے ، اور آپ دعا کیجیے کہ جن کی آپ پیروی کر رہے اللہ آپ کا حشر ان کے ساتھ کرے ،
اس روایت کو ضعیف کہنے کا جواب ارسال کر چکا ہوں ، اگر کٹ پیسٹ نہیں کرتے تو بڑے بھائی ذرا بتایے کہ امام بخاری نے کہاں اس روایت کو ضعیف کہا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ،
جناب ، قران کی آیت تو یقینا اللہ کا کلام ہے ، اگر آپ کی قرن فہمی کوئی اور فہم رکھتی ہو تو ،،،،، اور اگر ترجمہ کرنے سے مترجم خدا ہوتا ہے تو یہودیوں سے پہلے آپ نے کتنے خدا اپنا لیے ہیں جن کے تراجم اپنی ویب سائٹ پر لگا رکھے ہیں ؟؟؟؟؟؟ انتہائی افسوس ناک بوکھلاٹ ہے کہیں میرے ایمان پر حکم لگا رہے ہیں ، کہیں نیت ہر ، اور کہیں خدائی مہیا فرما رہے ہیں ، ایک باطل معبود کا نام مجھے دے رہے ہیں ، اور دیگر الزامات بھی ، جزاک عند اللہ ، بھائی صاحب ابھی تو مناقشہ شروع ہی نہیں ہوا ، و السلام علیکم۔
 
میں اس ضمن میں‌پہلے لکھ چکا ہوں جو آپ پڑھنا نہیں‌چاہتے۔ اس آیت کا حوالہ بھی دیا کہ غیب میں‌سے صرف اور صرف وہی رسول اللہ کو عنائت ہوا جو -- ما شاء اللہ ---- ہوا یعنی جو بھی اللہ کی مرضی سے تھا۔ باقی رسول نے خود بتایا کہ ان کو اس ما شاء اللہ کے علاوہ کچھ علم نہیں‌تھا تو پھر ان سے پیشین گوئیاں کو منسوب کرتے ہو بھائی؟
السلام علیکم ، ((( و ماینطق عن الھویٰ ، ان ھو الا وحی یوحی ))) سے کسی استثناء کی کوئی دلیل لائیے ۔
فاروق صاحب ،مستقبل کی پیشن گوئیاں ، ماضی کی خبریں ، موت ، قبر ، حشر ، جنت ، جہنم ، کے متعلق ہر خبر کو کٹ کر دیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کہاں پیسٹ کرنے کا ارادہ ہے بڑے بھائی !!!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top