اساتذہ شعراء

عباد اللہ

محفلین
موضوع یہاں یہ تھا کہ کون شاعر استاد ہے اور کون نہیں۔ اقبال کی شاعری میں سوائے اپنے افکار کی تبلیغ کے اور کچھ بھی نہیں ہے جو کہ صرف ان سے اتفاق رکھنے والے مذہبی گروہ کو اچھی لگتی ہے۔ اس کی تقلید کیونکر کی جائے؟؟
اقبال کے مقام سے اس بحث کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
جون کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں انہوں نے مذہبی طبقے سے یہ شکوہ تھا کہ یہ لوگ اقبال کو مجدد کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں سو
علامہ اقبال کے نظریات کی تشریح میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا تعلق علامہ اقبال کی شاعری سے صرف اسی قدر ہے کہ ان میں جا بجا علامہ اقبال کا نام آ جاتا ہے لیکن اگر ان کے نام کی جگہ شاہ ولی اللہ یا مجدد الف ثانی کا نام لکھ دیا جائے تو صورتِ حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا​
بھلا ہو کہ اس ربط پر یہ مضمون مل گیا اور ہم ٹائیپنگ کی مشقت سے بچ گئے ۔
 

طالب سحر

محفلین
اختلاف والی بات آپ کی سو فیصد درست ہے کہ اقبال نے خواجہ حافظ سے بھی اختلاف کیا
اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ اسرارِ خودی کے پہلے ایڈیشن میں شامل خواجہ حافظ سے متعلق اشعار کا ذکر کررہے ہیں۔ اقبال کی زندگی ہی میں جب اسرارِخودی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا تو اُس میں مذکورہ اشعار اور وحدت الوجود اور تصوف کے خلاف دیباچہ اقبال نے خود ہی شامل نہیں کیا تھا، جس سے یہ استدلال لیا جاتا ہے کہ کسی وجہ سے اقبال نے اپنے خیالات میں تبدیلی کر لی تھی۔ اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ اقبال کا پہلا موقف درست تھا یا بعد والا، لیکن سوانحی تاریخ نگاری کے اصولوں کے مطابق بعد والا موقف ہی اقبال کا موقف سمجھا جائے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس لڑی میں اقبال کے نام کا بار بار آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ واقعی بہت بڑے شاعر تھے اور فنی محاسن پر ان کی گہری نگاہ تھی تاہم وہ معروف معنوں میں استاد کے منصب پر فائز نہ تھے۔ اور اس منصب پر فائز ہونے یا نہ ہونے سے ان کی شاعرانہ عظمت پر کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔
 
اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ اسرارِ خودی کے پہلے ایڈیشن میں شامل خواجہ حافظ سے متعلق اشعار کا ذکر کررہے ہیں۔ اقبال کی زندگی ہی میں جب اسرارِخودی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا تو اُس میں مذکورہ اشعار اور وحدت الوجود اور تصوف کے خلاف دیباچہ اقبال نے خود ہی شامل نہیں کیا تھا، جس سے یہ استدلال لیا جاتا ہے کہ کسی وجہ سے اقبال نے اپنے خیالات میں تبدیلی کر لی تھی۔ اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ اقبال کا پہلا موقف درست تھا یا بعد والا، لیکن سوانحی تاریخ نگاری کے اصولوں کے مطابق بعد والا موقف ہی اقبال کا موقف سمجھا جائے گا۔
میرے خیال میں تو یہ انھوں نے حسن نظامی وغیرہ کے شور مچانے پر کیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو ظاہر ہے وہ اپنی فکر ہی کا اظہار کرتا ہے، اس کے اشعار ہی اس کے افکار ہوتے ہیں، اگر شاعر نے نثر ہی میں اپنے افکار لکھنے ہوتے تو پھر وہ شاعری کاہے کو کرتا۔ اقبال ، افکار کے حوالے سے کچھ شدید تنقید کی زد میں اس لیے زیادہ آ جاتا ہے کہ کچھ مخصوص مذہبی افکار زیادہ ہی بیان ہو گئے ہیں اور یہ کہ کچھ مخصوص لوگ فیشن کے طور پر اقبال کے اتنے بڑے مداح بنتے ہیں اور اس درجے پر فائز کر دیتے ہیں کہ "ٹِٹ فار ٹیٹ" کے اصول کے تحت دوسرے لوگ اقبال کی شاعری کو ذرا بھی وقعت دینے کو تیار نہیں، ہر دو صورتوں میں اقبال کا اپنا کوئی قصور نہیں۔لیکن ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اقبال کی نصف سے زیادہ شاعری تو فارسی میں ہے، جسے وہ خود پختہ شاعری کہتے تھے لیکن اقبال کی فارسی شاعری تو اس دور میں شاید ہی کچھ لوگ پڑھتے اور سمجھتے ہوں۔

اقبال اگر فقط بطور شاعر لیے جائیں گے تو پھر صرف شاعری اور ساری شاعری کو مدِ نظر رکھ کر شاعروں میں اقبال کا مقام متعین کرنا پڑے گا، اور وہ کچھ ایسا کم بھی نہیں ہے۔ درست ہے کہ اقبال ، "اُستادی"کے اُس درجے پر فائز نہیں جس پر سکہ بند اُستاد شاعر فائز ہوتے ہیں یا وہ سرے سے اُستاد ہی نہیں یا ان کا کلام سند نہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے مثال کے طور پر ایک ناسخ مستند استاد ہیں کہ جن کا برتا ہوا ہر لفظ سند اور پختہ سند ہے لیکن اردو شاعری کے سارے تنقید نگار متفق ہیں کہ وہ اسم با مسمیٰ تھے یعنی اچھی شاعری کو منسوخ کر دیا، ایک اُستاد ذوق ہیں، اِن سے بڑا اُستاد کون ہو سکتا ہے؟ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ذوق کا شاعری میں کیا مقام ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسری بات یہ کہ کسی شاعر کی شاعری پر بات کرتے ہوئے ہم اُس کی شاعری کو ہوا میں معلق کر کے نہیں دیکھ سکتے بلکہ اس شاعر کی شاعری کے وقت کے مخصوص حالات کو مدِ نظر رکھنا از بس ضروری ہے اور نہ ہی کسی شاعر کی شاعری کو اُس کے زمانے سے اُٹھا کر اپنے زمانے کے حالات و واقعات کے درمیان لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میر اور درد کے زمانے میں دہلی جس طرح لٹتی اور اجڑتی رہی تو اس کا اثر ان کی شاعری میں آیا۔ مزید پیچھے جائیں تو خواجہ حافظ شیرازی کے زمانے میں جس طرح امیر تیمور نے تباہی مچائی تھی اس کا اثر اُن کی شاعری میں آیا اس طرح کی بے شمار مثالیں مل جا ئیں گی۔ اسی طرح اقبال کے زمانے میں برصغیر کے جو سیاسی حالات و واقعات تھے اقبال کی شاعری پر بات کرتے ہوئے ، ان کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہےوگرنہ غلط نتیجے پر پہنچ جانا کچھ دور نہیں۔
 

طالب سحر

محفلین
میرے خیال میں تو یہ انھوں نے حسن نظامی وغیرہ کے شور مچانے پر کیا تھا۔

خواجہ حسن نظامی بھی اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس معاملے میں اقبال کی بہت مخالفت کی تھی، اور اقبال نے اُن کے اعتراض کے جواب میں ایک خاصا تفصیلی مضمون امرتسر کے کسی اخبار میں چھپوایا بھی تھا۔ اقبال اُن کے اعتراضات سے متفق نہیں تھے۔

حافظ محمد اسلم جیراجپوری کے نام اپنے ایک خط مورخہ 17 مئی 1919 میں اقبال نے لکھا:

"خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا۔ مگر عوام اس باریک امتیاز کوسمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے د ے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حُسن حُسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔"
[اقبال نامہ: مجموعہ مکاتیب اقبال ربط]​
 

طالب سحر

محفلین
باقی یہ ہے کہ اقبال کو اساتذہ شعراء میں نہیں رکھا جاسکتا۔ وجہ اس کی کوئی تعصب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کہ اقبال اردو شاعری میں مضامین کی حد تک تو درست مگر زبان و بیان میں اکثر ایسی اغلاط چھوڑ گئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس لڑی میں کافی پہلے اقبال کی زبان و بیان کی اغلاط کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ اعتراض تو پرانا ہے، لیکن آج ہی شمس الرحمٰن فاروقی کی لغاتِ روزمرہ کے دیباچے میں یہ جملے نظر آئے:

اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں علاقائی تلفظ اور استعمالات کو مناسب جگہ دی گئی ہے۔ میں بنیادی طور پر اس تصور کا مخالف ہوں کہ زندہ زبانوں کے معاملے میں کسی ایک شہر، یا علاقے، یا خطہء ملک میں رائج قول و عمل تمام لوگوں کے لئے حجت کا حکم رکھتا ہے۔ اس غلط تصور کا ایک افسوس ناک نتیجہ یہ ہے کہ اس صدی کے سب سے بڑے شاعر اقبال کی زبان بہت سے لوگوں کے نزدیک مستند نہیں، کیونکہ ان کے خیال میں اقبال "اہلِ زبان" نہ تھے-​
 

فاتح

لائبریرین
سر جس صف میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کو شامل کی جاتا ہے
یہ دونوں بالکل الگ فہرستوں کے شعرا ہیں۔ نقادوں کی بہت بڑی تعداد فیض کو "بڑا شاعر" نہیں مانتی۔
اسی لیے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کے خیال میں "بڑے شاعر" کی کیا تعریف ہے تا کہ آپ کی تعریف کے مطابق آپ کے سوال پر غور کیا جا سکے۔ میری بات کو وارث صاحب کے اس مراسلے کی روشنی میں پڑھیں تو شاید واضح ہو جائے:
ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو ظاہر ہے وہ اپنی فکر ہی کا اظہار کرتا ہے، اس کے اشعار ہی اس کے افکار ہوتے ہیں، اگر شاعر نے نثر ہی میں اپنے افکار لکھنے ہوتے تو پھر وہ شاعری کاہے کو کرتا۔ اقبال ، افکار کے حوالے سے کچھ شدید تنقید کی زد میں اس لیے زیادہ آ جاتا ہے کہ کچھ مخصوص مذہبی افکار زیادہ ہی بیان ہو گئے ہیں اور یہ کہ کچھ مخصوص لوگ فیشن کے طور پر اقبال کے اتنے بڑے مداح بنتے ہیں اور اس درجے پر فائز کر دیتے ہیں کہ "ٹِٹ فار ٹیٹ" کے اصول کے تحت دوسرے لوگ اقبال کی شاعری کو ذرا بھی وقعت دینے کو تیار نہیں، ہر دو صورتوں میں اقبال کا اپنا کوئی قصور نہیں۔لیکن ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اقبال کی نصف سے زیادہ شاعری تو فارسی میں ہے، جسے وہ خود پختہ شاعری کہتے تھے لیکن اقبال کی فارسی شاعری تو اس دور میں شاید ہی کچھ لوگ پڑھتے اور سمجھتے ہوں۔

اقبال اگر فقط بطور شاعر لیے جائیں گے تو پھر صرف شاعری اور ساری شاعری کو مدِ نظر رکھ کر شاعروں میں اقبال کا مقام متعین کرنا پڑے گا، اور وہ کچھ ایسا کم بھی نہیں ہے۔ درست ہے کہ اقبال ، "اُستادی"کے اُس درجے پر فائز نہیں جس پر سکہ بند اُستاد شاعر فائز ہوتے ہیں یا وہ سرے سے اُستاد ہی نہیں یا ان کا کلام سند نہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے مثال کے طور پر ایک ناسخ مستند استاد ہیں کہ جن کا برتا ہوا ہر لفظ سند اور پختہ سند ہے لیکن اردو شاعری کے سارے تنقید نگار متفق ہیں کہ وہ اسم با مسمیٰ تھے یعنی اچھی شاعری کو منسوخ کر دیا، ایک اُستاد ذوق ہیں، اِن سے بڑا اُستاد کون ہو سکتا ہے؟ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ذوق کا شاعری میں کیا مقام ہے۔
 
یہ دونوں بالکل الگ فہرستوں کے شعرا ہیں۔ نقادوں کی بہت بڑی تعداد فیض کو "بڑا شاعر" نہیں مانتی۔
اسی لیے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کے خیال میں "بڑے شاعر" کی کیا تعریف ہے تا کہ آپ کی تعریف کے مطابق آپ کے سوال پر غور کیا جا سکے۔ میری بات کو وارث صاحب کے اس مراسلے کی روشنی میں پڑھیں تو شاید واضح ہو جائے:
سر آپ نے میرا مسلئہ ہی حال کر دیا کچھ دوست کہتے ہیں ساحر ساغر سے بڑا شاعر ہے جیسے مانے کو دل نہیں کرتا اسی لیے یہ سوال کیا
سر کیا واقعی ساحر ساغر سے بڑا شاعر ہے؟ اور یہ دونوں کسی فہرست کے شاعر ہیں ؟
سر ایک طالبِ علم کے سوال
اور ساغر کے لیے اگر میں یہ کہو میری پہلی محبت ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا :) شاید کچھ جذباتی ہو گیا
 

فاتح

لائبریرین
سر آپ نے میرا مسلئہ ہی حال کر دیا کچھ دوست کہتے ہیں ساحر ساغر سے بڑا شاعر ہے جیسے مانے کو دل نہیں کرتا اسی لیے یہ سوال کیا
سر کیا واقعی ساحر ساغر سے بڑا شاعر ہے؟ اور یہ دونوں کسی فہرست کے شاعر ہیں ؟
سر ایک طالبِ علم کے سوال
اور ساغر کے لیے اگر میں یہ کہو میری پہلی محبت ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا :) شاید کچھ جذباتی ہو گیا
آپ کے نزدیک "بڑے شاعر" کی کیا تعریف ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
میرے مطابق بڑے شاعر وہ ہے جس کا کلام آپ کے دل پہ اثر کرے اور جس کا شعر آپ کو چھیڑ دیتا ہو وہی بڑا شاعر ہے
اس تعریف کے مطابق منیر نیازی اور ساغر صدیقی دونوں بڑے شعرا ہیں۔ اور ان سمیت لاکھوں بڑے شعرا ہیں۔۔۔ بلکہ تقریباً ہر شاعر ہی بڑا شاعر ہے کیونکہ مجھے تو ہر شاعر کا کوئی نہ کوئی شعر چھیڑ دیتا ہے۔
 
Top