میر اب کے ماہِ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں ۔ میر تقی میر

فاتح

لائبریرین
اب کے ماہِ رمَضاں دیکھا تھا پیمانے میں​
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں​
جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے​
بے خودی آئی اچانک ترے آ جانے میں​
وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہماری لیکن​
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں​
آج سنتے ہیں کہ فردا وہ قد آرا ہو گا​
دیر کچھ اتنی قیامت کے نہیں آنے میں​
حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جاؤں میرؔ​
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے میں​
میر تقی میرؔ​
 

کاشفی

محفلین
بہت ہی عمدہ بہت ہی خوب۔۔خوبصورت انتخاب شیئر کرنے کے لیئے بیحد شکریہ فاتح صاحب! خوش رہیئے۔۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت ہی عمدہ بہت ہی خوب۔۔خوبصورت انتخاب شیئر کرنے کے لیئے بیحد شکریہ فاتح صاحب! خوش رہیئے۔۔
شکریہ جناب کاشفی صاحب
لاجواب غزل ہے ۔۔۔ ۔ارسال فرمانے کا شکریہ فاتح الدین بشیرؔصاحب!
مدیحہ گیلانی صاحبہ ممنون ہوں کہ آپ نہ صرف محفل میں تشریف لاتی ہیں بلکہ ادبی دھاگوں میں اپنی موجودگی اور پسند کا اظہار بھی فرمانے لگی ہیں۔
بے مثال غزل ہے۔ کمال ہے۔
بہت شکریہ احمد بلال صاحب
واہ واہ واہ، لاجواب۔
بہت شکریہ فاتح صاحب ارسال فرمانے کیلیے۔
محمد وارث صاحب آپ کی جانب سے حوصلہ افزا پذیرائی پر ممنون ہوں۔
 

احمد بلال

محفلین
اب کی ماہ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
بارے سب روزے تو گزرے مجھے مے خانے میں

جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے
بے خودی آئی اچانک ترے آ جانے سے

وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہمارے لیکن
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں

حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جاؤں گا
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے
 
Top