طارق شاہ

محفلین

وعدۂ شب پر گُمانِ صِدق سے، سوئے نہ ہم
راہ اُس پیماں شِکن کی، رات بھر دیکھا کِئے

یاد میں رُخسارِ تابانِ صنم کی رات بھر !
دیدۂ حسرت سے ہم، سُوئے قمر دیکھا کِئے

اکبرالہٰ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اِک نگہ کر کے اُن نے مول لِیا
بِک گئے آہ ہم بھی کیا سستے

مِیر جنگل پڑے ہیں آج جہاں !
لوگ کیا کیا یہیں تھے کل بستے

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین


نہیں آتی، تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی !
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یا د آتے ہیں

حقیقت کُھل گئی حسرت تِرے ترکِ محبّت کی
تجھے تو، اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

کِسی کی ایک نظر نے بتا دیا مُجھ کو
سُرور، بادۂ بے ساغر و سُبو کیا ہے

تلوک چند محروم
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین


دیکھئے اب کیا دِکھائے قسمتِ بد، بعدِ مرگ !
رنج و اندوہ و الم تو عمر بھر دیکھا کِئے

اکبرالہٰ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مرجائیں

یہ ہَمِیں ہیں، کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے بے خبر جائیں

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین


وصل کیسا؟ وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
شام سے صُبْح ہُوئی اُن کی مداراتوں میں

وہ گئے دن، جو رہے یاد بُتوں کی اے داغ
رات بھر اب تو گزُرتی ہے مناجاتوں میں

داغ دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

قصۂ شوق کہوں، درد کا افسانہ کہوں
دل ہو قابُو میں تو اُس شوخ سے کیا کیا نہ کہوں

خود ہے اِقرار اُنہیں اپنی سِتمگاری کا
پھر بھی اِصرار ہے مجھ سے کہ میں ایسا نہ کہوں

حسرت موہانی
 
Top