طارق شاہ

محفلین

ہمارا کیا ہے، جو ہوتا ہے جی اُداس بہت
تو گل تراشتے ہیں، تتلیاں بناتے ہیں

دلِ سِتم زدہ کیا ہے، لہو کی بُوند تو ہے
اُس ایک بُوند کو ہم بیکراں بناتے ہیں

احمد مشتاق
 

طارق شاہ

محفلین

مِرا قلب تُو، مِری روح تُو، مِری سانس تُو، مِری جان تُو
مِری موت ہے تِری برہمی، مِری زیست تیرے کرم سے ہے

ہے مقامِ عشق! مقام وہ، جو ہدف ہے میری تلاش کا !
مِرا اِس سے رشتۂ دل وہی، جو سفر کا رشتہ قدم سے ہے


ڈاکٹر جاوید جمیل
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانندِ شمعِ مُختصر ہونے لگی

اب شکیبِ دل کہاں، حسرت ہی حسرت رہ گئی
زندگی اِک خواب کی صُورت بسر ہونے لگی

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

بدلا نہ کسی غم سے، تِرے ہجر کا غم بھی
کیا کچھ، نہ توقّع میں اُٹھا لائے ہیں ہم بھی


دم توڑ چُکی دل میں تِری دید کی خواہش
رُکنے کو کسی پل ہے تِرے ہجر سے دم بھی

شفیق خلش
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

زندگی کش مکش، حاصل و نا حاصل ہے
ماسوا اس کے ہر اک نقشِ جہاں باطل ہے

دلِ محرُوم ہے عشّاقِ تن آساں کا امیر
گرچہ ہر نُورِ گریزاں کا یہی سائل ہے

میرا جی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

شہرمیں سانس بھی لینا ہے مجھے، اب دو بھر
شہر کی تلْخ فضاؤں سے نِکل جاؤں گا

دُور جا بیٹھوں گا ہنگامۂ شوروشر سے
قلْبِ محزوں کو میں تنہائی سے بہلاؤں گا

میرا جی
 

طارق شاہ

محفلین

چراغِ دل تو ہو روشن، رسد لہو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزو ہی سہی '

کوئی تو کام ہو ایسا، کہ زندگی ہو حَسِیں !
نہیں جو پیارمقدّر، توجستجو ہی سہی

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

کبھی سوچتا ہوں گُریز کیوں، اُسے صاف صاف بتا ہی دُوں
مجھے تجھ سے پیار تو اب بھی ہے، مگر اعتبار نہیں رہا

میں ہُوں عشق مجھ کو گُریز کیا، جو بھی دِل نے چاہا، وہ کردِیا
میں خیالِ سُود و زیاں سے تو، کبھی ہمکنار نہیں رہا

اختر عبدالرّزاق
 

طارق شاہ

محفلین

تھی نو آموزِ فنا ہمّتِ دُشوار پسند
سخت مُشکل ہے کہ، یہ کام بھی آساں نِکلا

مرزا اسدالله خان غالب
 

طارق شاہ

محفلین

یوں آئنہ بدست مِلی پربتوں کی برف !
شرما کے دُھوپ لوٹ گئی آفتاب میں

چُوما ہے میرا نام لبِ سُرخ سے شکیب
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

شکیب جلالی
 
Top