طارق شاہ

محفلین

آج تو بے سبب اُداس ہے جی
عشق ہوتا ، تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری


ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

محبت میں غلط فہمی اگر اِلزام تک پہنچے
کِسے معلوم ، کِس کا نام ، کِس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹُھکرائے ہُوئے ، وہ لوگ تھے شاید !
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر، جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سُورج
بہت مُشکل سے ، ہم اُن گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کِسی نے بھی ، نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جِن کو !
وہ سارے وَلوَلے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مُفلسوں کی ، تب کہیں اُس بام تک پہنچے

قتیل ! آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبّت کا
اگر تُم چاہتے ہو ، شاعری الہام تک پہنچے

قتیل شفائی
 

طارق شاہ

محفلین

آتے آتے مِرا نام سا رہ گیا
اُس کے ہونٹوں پہ کُچھ کانپتا رہ گیا

جُھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا ، کہ سچ بولتا رہ گیا

وہ مِرے سامنے ہی گیا ، اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے
یہ دِیا کیسے جلتا ہُوا رہ گیا

وسیم بریلوی
 

طارق شاہ

محفلین

مذہب کا ہو کیونکر علم و عمل، دل ہی نہیں بھائی ایک طرف
کرکٹ کی کھلائی ایک طرف، کالج کی پڑھائی ایک طرف

کیا ذوقِ عبادت ہو اُن کو، جو مس کے لبوں کے شیدا ہیں
حلوائے بہشتی ایک طرف، ہوٹل کی مٹھائی ایک طرف

اکبرالہٰ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

غیر سے رکھنا پڑا مجبور ہو کر واسطہ
تم ہمارے دل میں ہو ، دشمن تمہارے دل میں ہے

جل گیا گلشن میں گھر اور قید کی مدت بھی ختم
اب قفس سے چُھوٹنے والا بڑی مُشکل میں ہے

کیا کِسی مظلوُم کی گردن پہ خنجر رُک گیا
دَم بخود اب تک زمانہ کوچۂ قاتل میں ہے

غیر سے ترکِ تعلّق کی قسم والے ، سلام
کون یہ بیٹھا ہُوا، اب غیر کی محفِل میں ہے

جلوہ گر بزمِ حسِیناں میں ہیں وہ اِس شان سے
چاند جیسے اے قمر! تاروں بھری محفل میں ہے

قمر جلالوی
 

طارق شاہ

محفلین


اعتراف

سوچتی ہُوں، مُقدس وفاؤں کی قربان گہ پر چلوں
اعترافِ گنہ آج میں کر نہ لوُں؟
برہمئ دلِ دوستاں کی سزاوار ہُوں
میں خطا کار تھی، میں خطا کار ہُوں
ساتھ ، میں ہر قدم پر تمہارا نہیں دے سکی
میں کبھی منزلوں تم سے آگے رہی
مجھ کو قالین پارے بچھانے کی تو مقدرت ہی نہ تھی
راستے میں مگر جتنے کانٹے مِلے
اُن کو اپنے دِل و جاں میں پیوست کرتی گئی
ہاں مبادا گزند اُن سے پہنچے تمہیں
ساتھ بے شک تمہارا نہیں دے سکی
میں کبھی نقشِ پا کی صفت پیچھے پیچھے چلی
تاکہ مَسلی ہوئی پنکھڑیاں چُن سکوں
جو تمہارے ہی قدموں تلے آ کے روندی گئیں
دل کے آئینہ خانے میں آراستہ اُن کو کرتی رہی
دیکھ لو نکہتِ رائیگاں
آج محفوظ و مامون ہے
ہر گُلِ تر کو تم سے معنون کیا
میں نے خوشبوئے رفتہ کو اپنا لیا
پیرہن تار تار، اُنگلیاں خوُں چکاں
اپنا مسلک مگر برتر اَز جسم و جاں
کند ہوتے نہیں دردِ احساس کے نیشتر
دِل کو پھر بھی نہیں خواہشِ درگزر
جو خطا آج تک مجھ سے سرزد ہُوئی
اُس خطا سے مجھے آج تک پیار ہے
ان رہوں میں کوئی میں اکیلی نہیں
اور آشفتہ سر ساتھ ہیں
وہ جو غیروں کے پتھراؤ پر ہنس پڑے
اور اپنوں کے پُھولوں سے زخمی ہُوئے

ادا جعفری
 
Top