طارق شاہ

محفلین
روشن جمال ِیار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہُوا ہے آتشِ گُل سے چمن تمام

اللہ ری جسمِ یار کی خُوبی، کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین
حیرت غرورِ حُسن سے، شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں، چلن تمام

دل خون ہوچکا ہے، جگر ہوچکا ہے خاک
باقی ہُوں میں، مُجھے بھی کراے تیغ زن تمام

حسرت موہانی
 

فرقان احمد

محفلین
کیا قیامت ہے ذرا اے اہلِ محشر دیکھنا
اُن کی یہ نیچی نگاہیں ۔۔۔ میرا اُوپر دیکھنا
گنبد چرخ کہن میں اب تو جی لگتا نہیں
دوسری دنیا میں ۔۔۔ کوئی دوسرا گھر دیکھنا

کیفی حیدرآبادی
 

فرقان احمد

محفلین
وہ خفا بے سبب نہ ہو جائے
کہیں ایسا غضب نہ ہو جائے
بے تکلف تو کر دیا تم نے
اب یہ دل بے ادب نہ ہو جائے
عشق پیشہ تو ہم ہوئے کیفی!
یہ بھی اُن کا لقب نہ ہو جائے

کیفی حیدرآبادی
 

فرقان احمد

محفلین
یہ پتا ہے مرے ٹھکانے کا
برق تنکا ہے ۔۔ آشیانے کا
ہم جو روٹھے تو وہ بگڑتے ہیں
یہ نیا ڈھنگ ہے ۔۔ منانے کا
ایسے آنے سے تو نہ آنا تھا
آتے ہی تذکرہ ہے جانے کا
گرچہ کیفی ہے ۔۔۔ خانہ آوارہ
آدمی ہے مگر ۔۔۔۔ ٹھکانے کا


کیفی حیدرآبادی
 

فرقان احمد

محفلین
کس زباں سے حمدِ خالق ہو ادا
بندہء عاجز کجا ۔۔۔۔۔۔ خالق کجا
ایک لفظ کُن سے پیدا کر دیا
سارے عالم کو ہویدا کر دیا

عدیل بلگرامی
 

طارق شاہ

محفلین
طُولِ شبِ وصال ہو، مثلِ شبِ فراق
نِکلے نہ آفتاب، الٰہی سحر نہ ہو
۔۔۔۔۔۔
مُنْہ پھیرکرکہا، جوکہا میں نے حال ِدل
چُپ بھی رہو امیر، مجھے درد سر نہ ہو

امیر مینائی
 

فرقان احمد

محفلین
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ۔۔۔ ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے ۔۔۔ مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

علامہ محمد اقبال
 

فرقان احمد

محفلین
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے ۔۔۔ یہاں کی
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں ۔۔۔ اجل ہے
چلنے والے ۔۔۔۔ نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا ۔۔۔ کچل گئے ہیں

علامہ محمد اقبال
 

فرقان احمد

محفلین
سلسلہء روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہء روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلہء روز و شب تارِ حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہء روز و شب سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہء روز و شب ۔۔۔۔ صیرفیء کائنات!

علامہ محمد اقبال
 

فرقان احمد

محفلین
تم بتا دو وہ راز جو اس گنبد گردوں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے

علامہ محمد اقبال
 

فرقان احمد

محفلین
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا

علامہ محمد اقبال
 

فرقان احمد

محفلین
آ ساقیا اے جان من، ہے نکہت افزا پھر سمن، کلفت ربا پھر نسترن، پھر فکر ہمدوش سخن
پھر نخل بنتے ہیں دولہن، پھر سبزہ صحرا کی پھبن، پھر گل کے سکہ کا چلن، پھر داغ حسرت میں جلن

پھر گل سے بلبل کی لگن، پھر صحن گلشن ہے ختن، پھر نور ہے پرتو فگن، پھر متحد سِر و علن
بدلا ہے پھر دورِ زمن، عالم ہوا رشکِ چمن، نورِ سحر پر خندہ زن، ہر گل کا چاک پیراہن

ہر چشم بیمار چمن، ہر جان نگہدار چمن، ہر دل کو آزارِ چمن، سب عاشق زارِ چمن
جاری ہیں انہارِ چمن، خنداں ہیں ازہارِ چمن، نازاں ہیں اشجارِ چمن، رخشاں ہیں انوارِ چمن

مولوی محمد شفیع
 

فرقان احمد

محفلین
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا
جوہرِانساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

علامہ محمد اقبال
 

فرقان احمد

محفلین
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زماں و مکاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

علامہ محمد اقبال
 
Top