طارق شاہ

محفلین
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے، سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جُستجُو کا صِلہ مِلا نہ سفر کا حق ہی ادا ہُوا
۔۔۔۔۔
ہمیں اِس کا کوئی بھی حق نہ تھا، کہ شریکِ بزْم خلُوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب تھا، نہ کچھ آستیں میں چھپا ہُوا

اقبالعظیم
 

طارق شاہ

محفلین
اُمِید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں
حیاتِ عشق کی، وہ صبْح وشام بھی تو نہیں

بس اِک فریبِ نظر تھا جمالِ گیسوو رُخ
وہ صبح بھی تو نہیں اب، وہ شام بھی تو نہیں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین
گُزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دِیدہ و دِل
سحر کی آس تو ہے، زندگی کی آس نہیں

مُجھے یہ ڈر ہے تِری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین
اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال
کچھ تو، شامِ شبِ ہِجراں چمکے
پھر کوئی دل کو دُکھائے ناصر
کاش یہ گھر کسی عنواں چمکے

ناصرکاظمی
 

طارق شاہ

محفلین
شوق یہ تھا کہ محبّت میں جلیں گے چُپ چاپ
رنج یہ ہے کہ، تماشہ نہ دِکھایا کوئی

شہْر میں ہمدمِ دیرِینہ بُہت تھے ناصر
وقت پڑنے پہ مِرے کام نہ آیا کوئی

ناصرکاظمی
 

طارق شاہ

محفلین
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گُماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مُراد اِمتحاں نہیں

کس منہ سے شُکر کیجئے اِس لُطفِ خاص کا
پُرسِش ہے اور پائے سُخن درمیاں نہیں

اسداللہ خاں غالب
 

طارق شاہ

محفلین
عَقُوبت ہائے فردا سے ڈراتا کیا ہے، اے واعظ
یہی دُنیا! رفتہ رفتہ خود جہنّم ہوتی جاتی ہے
مولانا اقبال سہیل
 

طارق شاہ

محفلین
ہم کیوں یہ مُبتلائے بے تابیِ نظر ہیں
تسکینِ دل کی یا رب، وہ صُورتیں کدھر ہیں

غم خانۂ جہاں میں وُقعت ہی کیا ہماری
اِک نا شُنِیدہ اُف ہیں، اِک آہِ بے اثر ہیں
اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
اُڑتے ہی رنگِ رُخ مِرا، نظروں سے تھا نہاں
اُس مُرغِ پَرشِکسْتہ کی پرواز دیکھنا

ترکِ صنم بھی کم نہیں سَوزِ جَحِیم سے
مومن غمِ مآل کا آغاز دیکھنا
مومن خاں مومن
 

طارق شاہ

محفلین
اُدھر مشکوک ہے میری صداقت
اِدھر بھی بدگمانی کم نہیں ہے
مِری بربادیوں کا ہم نشینوں!
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
اسرارالحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین
خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے
اِسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے

نہیں شکایتِ ہجراں، کہ اِس وسِیلے سے
ہم اُن سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
ضیائے بزْمِ جہاں بار بار مانْد ہوئی
حدیثِ شعلہ رُخاں باربارکرتے رہے
اِنھیں کے فیض سے بازارِعقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنُوں اِختیار کرتے رہے
فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
زہے وہ شوق جو پابند ایں و آں نہ رہا
خوشا وہ سجدہ، جو محدودِ آستاں نہ رہا

جنُونِ سجدہ کی معراج ہے یہی شاید !
کہ تیرے دَرکے سِوا کوئی آستاں نہ رہا

جگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
دیکھ آئیں چلو ہم بھی، جس بزم میں سُنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے، وہ خاک بسر جائے
یا خوف سے در گُزریں یا جاں سے گُزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے، اِک بات ٹھہر جائے
فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ تِرے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

اب گِلہ کیا، کہ ہَوا ہوگئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ، یہ سہْل طلب تیرے نہیں

افتخارعارف
 
Top