سعود الحسن صاحب
خاصی خوشگوار شخصیت ہیں آپ ۔
تکلم کا شرف حاصل ہونے پر بزعمِ خود نازاں ہوں۔
امید ہے آپ ایسی ہستی کی یہاں موجودگی ہمارے لیئے راہنما
ثابت ہوگی، اپنی نگارشات اور دل موہ لینے والی تحاریر سے
مجھ ایسے کو کسبِ فیض کا موقع فراہم کرتے رہیے گا۔
امید ہے بہت جلد آپ سے دوبدو شرف ِ ملاقات حاصل ہوگا،
ایک وضاح کہ مادری زبان اردو نہ ہونے کی احساسِ کمتری میں
مبتلا ہوں ۔۔ سو جو لفظ سیکھتا ہوں یہاں (فورم) دل کے پھپھولے پھوڑنے
چلا آتا ہوں۔۔ یقیناً بہت احباب چیں بہ جبیں ہوتے ہیں ۔۔ مگر کیا کیا جائے
کہ اپنی اذلی طفلِ مکتب ہونے کے خول سے باہر نہیں آسکتا،
سو گفتگو میں کہیں بھی آپ یہ خیال کیجئے کہ آپ کی شان میں کوئی بھی لفظی
معنوی اور تقدیمی غلطی سرزد ہوئی ہے اطلاع کرکے ممنون ومتشکر ہونے کا موقع فراہم کیجئے گا۔
والسلام
ہنوز ’’ مکتب‘‘ دوراست
م۔م۔مغل
مغل صاحب، پہلے تو ذرا رکیے میں آپ سے کلام کے لیے نیچے تو اتر آوں (آپ نے تو مجھے ایم سی بی ٹاور پر چڑھا دیا)، جی ، ہاں اب صحیح ہے، پاؤں زمین پر لگ گئے۔
باقی احوال یہ ہے کہ ہماری طبعیت کی خوشگواری ، اکثر دوسروں کی طبعیت پر منحصر ہوتی ہے، سو آپ نے ہمیں خوشگوار طبعیت کا پایا تو یہ آپ کی طبعیت کا پرتو ہے ، میرا کمال نہیں۔ (طبعیت کی تکرار زیادہ نہیں ہوگئی)۔
حضرت اگر آپ باہمی کلام پر نازاں ہیں، تو ہمیں بھی ناز اُٹھانے والا پائیں گے۔
جہاں تک بات رہ گئی ہستی کی تو جناب ہم تو "ایک" ہی ہستی کے قائل ہیں، باقی سب تو مایہ ہے، چاہے ہم ہوں یا آپ۔
ملاقات؟؟؟ بندہ حکم کا غلام ہے،
جناب اردو کے مادری زبان ہونے سے کیا ہوتا ہے، آپ ہم سے زیادہ ناموں سے واقف ہوگے جن کے اردو میں لکھے کی وجہ سے ہم اردو کے مادری زبان ہونے پر نازاں ہیں، (آہ فراز)
جناب میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ الفاظ سے زیادہ وزن خیال کا ہوتا ہے۔ آپ کے الفاظ جتنے ہی وزنی کیوں نہ ہوں اگر خیال وزنی نہ ہوں تو کبھی پائیدار اثر نہیں رکھ سکتا۔
باقی یہ کہ آپ اپنی راہ پر لگے رہیے، ہمیں تو آپ کی اس عمر میں یہ اُٹھان دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔