سوری، یہ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا، مگر جب میں پاکستانی جمہوری سسٹم پر یقین نہ رکھنے کے بارے میں تحریر کرتی تھی تو مجھ پر اعتراضات ہوتے تھے کہ میں عوام کو الو کہہ رہی ہوں، یا اکثریت کا فیصلہ صحیح ہے، وغیرہ وغیرہ۔
آج یہ لڑی میری باتوں کی سچائی کا ثبوت ہے۔
اس موضوع پر یعنی " اسلام اور جہموریت " کے ٹاپک پر میں اور فاروق بھائی اپنے اپنے استدال پیش کرچکے ہیں کہ جب تک" امرھم شوری بینا ھم " کے اصول پر حکومت کا نظام وجود میں نہیں آئے گا ۔ ملکویت اور آمریت اسی طرح ہمارے حقوق سلب کرتے رہیں گے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ قوم کی شعوری سطح پر ایسی تعلیم و تربیت نہیں ہوئی ہے کہ جس کے ذریعے وہ کسی صحیح رہنما یا حکومت کو منتخب کرسکیں ۔ وہ صرف تبدیلی چاہتے ہیں ۔ خواہ وہ تبدیلی چور اور لیٹروں کی صورت میں ہو ، یا فوجی جرنیل حکومت کریں ۔ ان کو منظر میں صرف تبدیلی درکار ہوتی ہے ۔ اب خواہ اس تبدیلی میں ان کو نمائندگی ملتی ہے یا نہیں ۔ اس پر اس قوم نے کبھی نہیں سوچا ۔ دیواروں سے کلینڈروں کی طرح حکومتیں تبدیل کرتے ہیں مگر حالات وہی رہتے ہیں ۔ ساری خرابی اسی میں مضمر ہے ۔
تو جب ہم جمہوریت کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں تو میری ترجیحات یہ ہیں:
۱۔ سیاست میں سب کے گریبان کالے ہیں، مگر چونکہ سسٹم انہوں نے ہی چلانا ہے لہذا ان سے ہاتھ ملانا ہو گا۔
مجھے یہاںاعتراض ہے ۔ یہ ہاتھ ہم گذشتہ 60 سالوں سے ملا رہے ہیں ۔ مفاہمت کر رہے ہیں ۔ اس ساری قربانی کا صلہ اب تک کیا سامنے آیا ہے ۔ ؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اب یہ مفاہمت پسندی قوم اور ملک کے لیئے کوئی مثبت کردار ادا کرےگی ۔اگر عوام اپنی خواہشات اور ترجیحات کو پسِ پشت ڈال کر ان سیاسی بازیگروں کو موقع پر موقع دینا چاہتے ہیں تو یہ صرف ریت میں سر ڈالنے کے برابر ہے ۔ اور اسے تو میں مفاہمت پسندی بھی نہیں کہوں گا کہ یہ ایک بدترین شکست ہے کہ آپ اکثریت میں ہونے کے باوجود کوئی ایسی حکومت قائم نہیں کرسکتے جو قوم کے تمام طبقوں کے لیئے نہ صرف قابلِ قبول ہو بلکہ ان کی خوشحالی اور ترقی کے لیئے بھی کچھ کرسکے ۔ یہ آمر اور سیاسی شعبدہ گرآپ کی اس خوش فہمیوں سے 60 سال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اور چند دلکش نعرے لگاکر آپ کو پھر وہیں کھڑا کردیتے ہیں ۔ جہاں سے آپ نے سفر شروع کیا تھا ۔
۲۔ کسی بھی سیاست دان کے کرپٹ ہو جانے کے باوجود اگر وہ ملک کے لیے کوئی اچھا کام کر رہا ہو تو اسکی ہمت افزائی ضروری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کرپٹ سیاستدان کا پہلے کوئی ایسا قدم سامنے آئے جس میں اس نے واقعی کوئی مثبت کام کیا ہو ، جو ملک اور قوم کی بھلائی کے لیئے مختص ہو ۔ یہ دعوے اس وقت تک کھوکھلے رہیں گے ۔ جب تک ان کی شکل عملی میدان میں نظر نہیں آتی ۔ چناچہ حوصلہ افزائی کے لیئے یہ بات ضروری ہے کہ یہ لوگ نعرے بازی اور دعووں کو ترک کرکے کوئی ایسا کام کرکے دکھائیں ۔ جس میں ان کے پچھلے گناہ بھی دھل جائیں ۔ ورنہ اگر یہ حوصلہ افزائی کی بھیڑ چال 60 سالوں سے جاری نہیں رہتی تو ان کے ہم پر مسلط ہونے کی یوں نوبت نہیں آتی جو ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔
۳۔ نواز شریف تو زرداری اور پیپلز پارٹی کے ماضی کو بھلا کر انکے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ تو کیا آپ لوگوں کے لیے یہ چیز ناممکن ہے؟ کیا اس بات پر آپ نواز شریف کے بھی خلاف ہو جائیں گے؟
ماضی میں ان دونوں کے اختلافات ، میدانِ جنگ جیسے تھے ۔ اور ان کے حامیوں کے ساتھ بھی یہی صورتحال تھی ۔ آج دیکھیں ۔۔۔۔ ق لیگ کے ساتھ وہی صورتحال ہے ۔ اگر یہ دونوں یا کوئی ایک فریق ، کل ق لیگ سے ہاتھ ملا لیتا ہے تو اسے کیا کہا جائے گا ۔ ہم تو پھر وہیں کھڑے ہوجائیں گے ۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کے سمجھوتے اور اختلافات دراصل ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیئے نہیں ہے ۔ یہ سب ذاتی اور انفرادی کاروبار کی نوعیت کی مفاہمتیں ہیں ۔ جو کبھی چھین کر اور کبھی مل بانٹ کر کھائیں جاتیں ہیں ۔ ان کے درمیان ہی سے گذرکر عوام کو اپنے لیئے کوئی محفوظ راستہ بنانا ہے ۔ جو یہ قوم نہیں سمجھ پارہی ۔
۴۔ اور اگر آپ اب بھی اکثریت کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے تو کیا اس طرح بہت جلد آپ اس نئی حکومت کو چلنے سے بھی پہلے گرا نہ دیں گے؟
اکثریت کے فیصلے کی پختگی ( قائم رہنے ) کا دارومدار حکومت کے مثبت کردار پر ہے ۔ آپ کیا سمجھتیں ہیں کہ سابقہ دونوں حکومتیں اپنی پرانی روش کو چھوڑ کر ایک عام آدمی کامعیارِ زندگی بلند کرنے کے عزم سے آئیں ہیں ۔ یہ ناممکنات میں سے ہے ۔ اکثریت کو ان دونوں کے سوا کوئی مل ہی نہیں رہا ہے ۔ لہذا یہ تبدیلی بھی ایک " بدترین تبدیلی " ثابت ہوگی ۔ جیسا کہ میںپہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔
زرداری کا ماضی بہت داغدار ہے، مگر قوم کو یہ داغ ووٹ دینے سے قبل دیکھنے چاہیے تھے۔
اس المیے کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں ۔ ( آپ کی بات بہت صحیح ہے )
مگر پاور میں آ جانے کے بعد سے لیکر ابتک زرداری نے بہت ہی سیاسی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ کراچی میں اگلے 5 سال ایم کیو ایم سے لڑائی نہ ہو، بلوچستان کے قوم پرست کسی معاہدے پر آمادہ ہو جائیں، انتہا پسندی کنٹرول میں آ جائے۔۔۔۔۔ تو اسکی کرپشن کے باوجود میں کہوں گی کہ یہ شخص پاکستان کے لیے اچھا ثابت ہوا۔
اگلے چند ہفتوں میںکراچی میں 1992 سے لیکر 1999 تک کی صورتحال پیدا ہونے کا شدید اندیشہ ہے ۔ اور باقی چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے لیئے صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔