آخری مکا

زینب

محفلین
احتجاج کے بارے میں سب سے بڑا سوال تو Pppپے اٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔باقی سیاسی پارٹیوں کے پاس جواز ہے احتجاج نا کرنے کا کہ اکثریت گرفتار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔مگر Pppاور فضل الرحمٰن گروپ ہی 2 پارٹیاں ہیں جن کا کوئی ایک ممبر بھی گرفتار نہیں ہوا۔۔۔۔اس کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ درپردہ دونوں مشرف کے اس اقدام کی حامی ہیں۔۔۔۔۔۔۔بی بی بھی صرف ڈرائینگ روم میں بیٹھ کے پریس کانفرنسز سے عوام کو ٹرخا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔جب کے کوئی خاص احتجاج کا ارادہ نہیں رکھتی تو اس کو کس معنی میں لیا جائے ملک میں اتنی بڑی بات ہو گئی اور محترمہ صرف انٹرویو ے کام چلا رہی ہے۔۔عمران خان گرفتار ہے کیا امین فہیم،راجہ پرویز اشرف،فجل الرحمٰن کو نظر بند کرنا ضروری نہیں تھا۔۔۔۔۔اصل میں یہ مشرف کے حمایتی ہیں اور درپردہ مشرف انہیں اقتدار میں شراکت کی ہڈی ڈال چکا ہے اسی لیے خاموش ہیں۔۔۔ایک 2 بیان دے کے اپنا فرض پورا کر چکے ہیں۔۔
 
کیا دھرا فوج کا ہے۔ اگر بے تکے پن سے فوج کے امنے سامنے ہوئے تو انارکی پھیل سکتی ہے۔اچھا سیاستدان کبھی یہ نہ چاہے گا۔ اس معاملہ پر اسٹیک ہولڈر دیکھ بھال کر کام کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہماری بتائے ہوئے راستے اور ہماری خواہش پر عمل کریں۔
عوام کو اپنے حقوق کو غضب کرنے والے کو پہچاننا ہوگا۔ یہ فوج ہے۔
عوام کو اپنے حقوق کی بحالی کی اواز بلند کرنے والوں‌ کا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ سیاستدان ہیں۔
بے شک کچھ سیاستدان فوج کے ایجنٹ ہیں۔ جیسے ق لیگ، ایم کیو ایم وغیرہ۔
ہم کو لوگوں کو انکے درست پس منظر میں‌دیکھنا ہوگا۔ تاریخ سے سبق لے کر قیادت کا انتخاب کرناہوگا۔
 
عمران خان گرفتار نہیں ہے شاید۔ آج اس کا اخبارات میں بیان ہے بحوالہ کسی نیوز چینل کہ میں اتنے آرام سے گرفتاری نہیں دوں گا۔ ;)
 

ساجداقبال

محفلین
کیا دھرا فوج کا ہے۔ اگر بے تکے پن سے فوج کے امنے سامنے ہوئے تو انارکی پھیل سکتی ہے۔اچھا سیاستدان کبھی یہ نہ چاہے گا۔ اس معاملہ پر اسٹیک ہولڈر دیکھ بھال کر کام کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہماری بتائے ہوئے راستے اور ہماری خواہش پر عمل کریں۔
عوام کو اپنے حقوق کو غضب کرنے والے کو پہچاننا ہوگا۔ یہ فوج ہے۔
عوام کو اپنے حقوق کی بحالی کی اواز بلند کرنے والوں‌ کا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ سیاستدان ہیں۔
بے شک کچھ سیاستدان فوج کے ایجنٹ ہیں۔ جیسے ق لیگ، ایم کیو ایم وغیرہ۔
ہم کو لوگوں کو انکے درست پس منظر میں‌دیکھنا ہوگا۔ تاریخ سے سبق لے کر قیادت کا انتخاب کرناہوگا۔
معاف کجییے ہمت بھائی۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں آپ سیاستدانوں کی کیوں حمایت کر رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے حمام میں دنوں فوج اور سیاستدان ننگے ہیں۔ اور بی بی وہ ہمیشہ ڈیلر رہی ہیں لیڈر کب تھیں؟ زیک نے جیسے فرمایا جب کل وکلاء سڑکوں پر مار کھا رہے تھے کہاں تھے وہ جیالے اور پیالے؟
 
بھائی میں‌اس لیے یہ کہہ رہاہوں‌کہ کم از کم ہم یہ تو جان لیں‌کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔ جب یہ طے ہوجائے کہ اصل ذمہ دار کون ہے تو پھر اپ یہ طے کریں‌کہ کیا کرنا ہے۔
مگر ہم اس ذمہ دار کو چھوڑ کر دوسروں‌کے پیچھے پڑھ جاتے ہیں۔
سیاستداں اگر کرپٹ ہیں‌تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کون ہے جس نے پارلیمنٹ اور ائین کی بار بار توہین کی اور ائین کو ردی کی ٹوکری بنادیا۔
یہ ائین جو متفقہ طور پر سیاسی حکومت نے (پی پی پی کے دور میں) بنایا تھا اس کی توڑنے کا کون ذمہ دار ہے۔ یہ فوج ہی ہے۔
یہ لوٹے سیاستدان کس نے پرورش کیے ہیں۔ فوج نے ۔
بھائی برائیوں‌کی ذمہ دار فوج ہے۔ اور اگر کوئی اس کے مقابل عوام کا نمائندہ ہے تو اس کی حمایت کیا بری ہے؟
 
ابھی تو یہ امتحان شروع ہوا ہے اور بقول عمران خان کہ ایک لمبی جدوجہد کی تیاریاں ہیں۔
یہ دیکھیے کہ مقابلہ فوج سے ہے۔ جب بھی عوام اور فوج امنے سامنے ہوئے تو نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ حالات نازک ہیں اور ملکی سلامتی کو خطرہ ہے ۔ بہتر ہے کہ یہ نازک موقع مذاکرات سے ہی حل ہوجائے۔ بے نظیر ایک اچھا رول پلے کرسکتیں ہیں۔ اور انشاللہ کررہی ہیں۔
معطون ارمی جرنیل اور اسٹیبلشمنٹ کو کرنا چاہیے نا کہ سیاسی جماعتوں کو جو کہ خود نشانہ ہیں۔

معذرت کے ساتھ ہمت علی آپ بھی ابھی تک آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

بے نظیر اچھا نہیں ایک مکروہ رول ادا کر رہی ہے اور مشرف کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے جو پلان اور ڈیل کرکے آتی ہے ملک ، دھماکے کروا کر مشرف کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور پھر اسی ڈیل کے تحت باہر جاتی ہے تاکہ مشرف ایمرجنسی لگا سکے اور پھر زبانی کلامی مشرف کو برا بھلا کہتی ہے تاکہ عوام کو مزید بیوقوف بنا سکے جس کی ویسے ضرورت نہیں پیپلز پارٹی والے ماشاءللہ پہلے ہی بیوقوفی میں خود کفیل ہیں اور اسی طرح بیوقوف بنتے رہیں گے جب تک بی بی چاہے گی۔

یہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں جو مشرف کو ایمرجنسی لگانے اور ہر طرح کے اقدامات کرنے کے لیے کہتی ہیں اور پھر اسے ملک کے بہترین مفادات میں بھی پیش کرتی ہیں۔

یہ سیاسی جماعتیں ہی مشرف سے ڈیل کرکے اسے اقتدار بخش رہی ہیں اور اب بھی ان کی پرفارمنس صفر سے بھی نیچے ہے خصوصا بینظیر تو انتہائی مکروہ کھیل کھیل رہی ہے اور اتنی زیادہ عوامی طاقت ہونے کے باوجود صرف امریکہ اور اپنے اقتدار کے لیے فکر مند ہے اور کچھ بھی نہیں کر رہی ۔

مشرف نے پولیس کو خصوصی احکامات جاری کیے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مجلس عمل کے کارکنان کو گرفتار نہ کیا جائے ، اب بھی آپ کی آنکھیں نہیں کھل رہیں تو جانے کب کھلیں گی۔

مشرف اور اس کو ذرا سا موقع بھی دینے والا ملک سے وفادار نہیں بلکہ دشمن ہے یہ چیز اب سمجھ لینی چاہیے ، اس میں وہ تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح مشرف کو سپورٹ کر رہی ہیں۔

ان سب کو شرم آنی چاہیے اور ان کی حمایت کرنے والوں کو بھی ۔
 

زینب

محفلین
عمران خان گرفتار نہیں ہے شاید۔ آج اس کا اخبارات میں بیان ہے بحوالہ کسی نیوز چینل کہ میں اتنے آرام سے گرفتاری نہیں دوں گا۔ ;)

جیو پے ہی ارہا ہے کی عمران خان لاہور میں ان کے گھر میں نطر بند ہیں پہلے دن سے ہی۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجداقبال

محفلین
جیو پے ہی ارہا ہے کی عمران خان لاہور میں ان کے گھر میں نطر بند ہیں پہلے دن سے ہی۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے بھی قاضی صاحب کی روش اپنا لی ہے۔ مزاحمت نہیں کرتے کسی بھی اہم واقعے کے تیس منٹ بعد یہ نظر بند ہو چکے ہوتے ہیں کہ ڈنڈے کھانا کسے اچھا لگتا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
بھائی میں‌اس لیے یہ کہہ رہاہوں‌کہ کم از کم ہم یہ تو جان لیں‌کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔ جب یہ طے ہوجائے کہ اصل ذمہ دار کون ہے تو پھر اپ یہ طے کریں‌کہ کیا کرنا ہے۔
مگر ہم اس ذمہ دار کو چھوڑ کر دوسروں‌کے پیچھے پڑھ جاتے ہیں۔
سیاستداں اگر کرپٹ ہیں‌تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کون ہے جس نے پارلیمنٹ اور ائین کی بار بار توہین کی اور ائین کو ردی کی ٹوکری بنادیا۔
یہ ائین جو متفقہ طور پر سیاسی حکومت نے (پی پی پی کے دور میں) بنایا تھا اس کی توڑنے کا کون ذمہ دار ہے۔ یہ فوج ہی ہے۔
یہ لوٹے سیاستدان کس نے پرورش کیے ہیں۔ فوج نے ۔
بھائی برائیوں‌کی ذمہ دار فوج ہے۔ اور اگر کوئی اس کے مقابل عوام کا نمائندہ ہے تو اس کی حمایت کیا بری ہے؟

بھائی میرے سب کو پتہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور فوج ذمہ دار ہیں۔ جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے تو کون بینظیر اور کون مشرف۔۔۔آپکو سب کی مخالفت کرنی چاہیے۔
 
میرا خیال ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اب سمجھنا شروع کردیا ہے۔ یہی بات میں‌سمجھانا چاہ رہاتھا کہ اصل ذمہ دار فوج ہے اور باقی سب کچھ صرف فوج کا پیدا کردہ کھیل اور کھلاڑی ہیں۔ ائیے کچھ مثالیں‌لیتے ہیں۔
- بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی۔ لوگ جذباتی ہوکر نظام مصطفےٰ (ص) کے لیے جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے بلکہ بہت سی جانیں‌قربان ہوئیں۔ مگر یہ سب کچھ ڈرامہ تھا فوج کاجس نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ سیاسی کٹھ پتلیوں‌کو لوگوں کے جذبات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے اشاروں پر نچایا۔ اور پھر گیارہ سال تک تخت پر بیٹھ گئی۔
- کراچی میں بے انتہا مسائل اور ابادی میں‌اضافہ ہونے کے ساتھ اور تعلیم کی شرح‌زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک امید بندھ چلی تھی کہ شاید سسٹم کے خلاف تبدیلی کا کام شروع ہوجائے۔ مگر فوج نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ قوم پرستی کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کیا۔
- فوج نے انتخابات کو انجینرڈ کیا اور اپنی من پسند حکومت لانے کے لیے ائی جی ائی کی تشکیل دی جس کے روح رواں کے پیٹ میں‌ عدلیہ کی ازادی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔
- فوج ہی کے اشارے پر اس کے ٹٹوں کے الہ کار سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے جو اج عدلیہ عدلیہ کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ اور میڈیا میڈیا کو ورد کررہے ہیں۔

ائیے اس بات پر نظر دوڑاتے ہیں کہ اپ اس کرائسس میں‌کیا کررہے ہیں۔ صرف انٹرنیٹ پر گالیاں‌لکھ دینے سے اور بری بری تصویریں‌بنانے سے اپ صرف اپنی ذھنیت عیاں‌کررہے ہیں۔
کچھ کرنے کے لیے ایک نظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ہی وجہ سے سیاسی تنظیمیں‌ وجود میں‌اتی ہیں‌ جو معاشروں میں‌لوگوں‌کے جذبات کی اواز ہوتی ہیں۔ یہ سیاسی تنظیمیں ہی لوگوں کے مقاصد کے حصول اور ان کے تحفظ کی علمبردار ہوتی ہیں۔
مگر جب فوج طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوجائے تو پھر اپنی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں‌ کی تشکیل بھی دیتی ہیں تاکہ لوکوں‌کو کنفیوژ رکھ کر اپنا الو سیدھا رکھے۔
یہ ق لیگ، ایم کیو ایم اور بہت عرصہ تک نواز شریف بھی ایسا ہی رول ادا کرتے رہے۔

بہر حال اپنی توانیاں اصل ذمہ دار کو پہچان کر اس ازالہ پر لگایے کہ فوج اقتدار چھوڑ دے اور عوام کی نمائندہ حکومت قائم ہو۔
مجھے برا بھلا کہہ کر تو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ میں تو اپ کے بھلے کے لیے یہ سب لکھ رہاتھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اب سمجھنا شروع کردیا ہے۔ یہی بات میں‌سمجھانا چاہ رہاتھا کہ اصل ذمہ دار فوج ہے اور باقی سب کچھ صرف فوج کا پیدا کردہ کھیل اور کھلاڑی ہیں۔ ائیے کچھ مثالیں‌لیتے ہیں۔
- بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی۔ لوگ جذباتی ہوکر نظام مصطفےٰ (ص) کے لیے جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے بلکہ بہت سی جانیں‌قربان ہوئیں۔ مگر یہ سب کچھ ڈرامہ تھا فوج کاجس نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ سیاسی کٹھ پتلیوں‌کو لوگوں کے جذبات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے اشاروں پر نچایا۔ اور پھر گیارہ سال تک تخت پر بیٹھ گئی۔
- کراچی میں بے انتہا مسائل اور ابادی میں‌اضافہ ہونے کے ساتھ اور تعلیم کی شرح‌زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک امید بندھ چلی تھی کہ شاید سسٹم کے خلاف تبدیلی کا کام شروع ہوجائے۔ مگر فوج نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ قوم پرستی کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کیا۔
- فوج نے انتخابات کو انجینرڈ کیا اور اپنی من پسند حکومت لانے کے لیے ائی جی ائی کی تشکیل دی جس کے روح رواں کے پیٹ میں‌ عدلیہ کی ازادی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔
- فوج ہی کے اشارے پر اس کے ٹٹوں کے الہ کار سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے جو اج عدلیہ عدلیہ کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ اور میڈیا میڈیا کو ورد کررہے ہیں۔

ائیے اس بات پر نظر دوڑاتے ہیں کہ اپ اس کرائسس میں‌کیا کررہے ہیں۔ صرف انٹرنیٹ پر گالیاں‌لکھ دینے سے اور بری بری تصویریں‌بنانے سے اپ صرف اپنی ذھنیت عیاں‌کررہے ہیں۔
کچھ کرنے کے لیے ایک نظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ہی وجہ سے سیاسی تنظیمیں‌ وجود میں‌اتی ہیں‌ جو معاشروں میں‌لوگوں‌کے جذبات کی اواز ہوتی ہیں۔ یہ سیاسی تنظیمیں ہی لوگوں کے مقاصد کے حصول اور ان کے تحفظ کی علمبردار ہوتی ہیں۔
مگر جب فوج طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوجائے تو پھر اپنی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں‌ کی تشکیل بھی دیتی ہیں تاکہ لوکوں‌کو کنفیوژ رکھ کر اپنا الو سیدھا رکھے۔
یہ ق لیگ، ایم کیو ایم اور بہت عرصہ تک نواز شریف بھی ایسا ہی رول ادا کرتے رہے۔

بہر حال اپنی توانیاں اصل ذمہ دار کو پہچان کر اس ازالہ پر لگایے کہ فوج اقتدار چھوڑ دے اور عوام کی نمائندہ حکومت قائم ہو۔
مجھے برا بھلا کہہ کر تو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ میں تو اپ کے بھلے کے لیے یہ سب لکھ رہاتھا۔
پیارے بھائی، پاکستانی فوج کے سپاہی اور افسران کس دنیا سے تشریف لاتے ہیں؟
 
پاکستانی فوج سے جب مراد ہوتی ہے تو یہ مطلب نہیں‌کہ ہر سپاہی ہی کرپٹ ہے۔ بجائے بال کی کھال نکالنے کے اور حقیقت کو دیکھنے کے کیوں‌ریت میں منہ چھپا لیتے ہیں۔ فوج کا کردار بطور ایک ادارہ کے برا ہے۔ فوج کا ادارہ پاکستان میں‌موجود تمام اداروں‌سے زیادہ مضبوط اور مربوط ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے مگر اس ادارے میں‌جب اقتدار مرتکز ہوجاے تو برائی ہوجاتی ہے۔
 

ساجد

محفلین
میرا خیال ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اب سمجھنا شروع کردیا ہے۔ یہی بات میں‌سمجھانا چاہ رہاتھا کہ اصل ذمہ دار فوج ہے اور باقی سب کچھ صرف فوج کا پیدا کردہ کھیل اور کھلاڑی ہیں۔ ائیے کچھ مثالیں‌لیتے ہیں۔
- بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی۔ لوگ جذباتی ہوکر نظام مصطفےٰ (ص) کے لیے جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے بلکہ بہت سی جانیں‌قربان ہوئیں۔ مگر یہ سب کچھ ڈرامہ تھا فوج کاجس نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ سیاسی کٹھ پتلیوں‌کو لوگوں کے جذبات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے اشاروں پر نچایا۔ اور پھر گیارہ سال تک تخت پر بیٹھ گئی۔
- کراچی میں بے انتہا مسائل اور ابادی میں‌اضافہ ہونے کے ساتھ اور تعلیم کی شرح‌زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک امید بندھ چلی تھی کہ شاید سسٹم کے خلاف تبدیلی کا کام شروع ہوجائے۔ مگر فوج نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ قوم پرستی کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کیا۔
- فوج نے انتخابات کو انجینرڈ کیا اور اپنی من پسند حکومت لانے کے لیے ائی جی ائی کی تشکیل دی جس کے روح رواں کے پیٹ میں‌ عدلیہ کی ازادی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔
- فوج ہی کے اشارے پر اس کے ٹٹوں کے الہ کار سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے جو اج عدلیہ عدلیہ کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ اور میڈیا میڈیا کو ورد کررہے ہیں۔

ائیے اس بات پر نظر دوڑاتے ہیں کہ اپ اس کرائسس میں‌کیا کررہے ہیں۔ صرف انٹرنیٹ پر گالیاں‌لکھ دینے سے اور بری بری تصویریں‌بنانے سے اپ صرف اپنی ذھنیت عیاں‌کررہے ہیں۔
کچھ کرنے کے لیے ایک نظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ہی وجہ سے سیاسی تنظیمیں‌ وجود میں‌اتی ہیں‌ جو معاشروں میں‌لوگوں‌کے جذبات کی اواز ہوتی ہیں۔ یہ سیاسی تنظیمیں ہی لوگوں کے مقاصد کے حصول اور ان کے تحفظ کی علمبردار ہوتی ہیں۔
مگر جب فوج طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوجائے تو پھر اپنی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں‌ کی تشکیل بھی دیتی ہیں تاکہ لوکوں‌کو کنفیوژ رکھ کر اپنا الو سیدھا رکھے۔
یہ ق لیگ، ایم کیو ایم اور بہت عرصہ تک نواز شریف بھی ایسا ہی رول ادا کرتے رہے۔

بہر حال اپنی توانیاں اصل ذمہ دار کو پہچان کر اس ازالہ پر لگایے کہ فوج اقتدار چھوڑ دے اور عوام کی نمائندہ حکومت قائم ہو۔
مجھے برا بھلا کہہ کر تو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ میں تو اپ کے بھلے کے لیے یہ سب لکھ رہاتھا۔
ہمت بھائی ،
نفاذِ نظامِ مصطفیٰ کی تحریک کو جنرل ضیاء نے مہمیز دی تھی تا کہ اسلام کے نام پہ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر لے ، اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔ اس سے پہلے بھٹو کے دور میں یہ تحریک مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھی اور اس میں مذہب کا دخل صرف اس حد تک تھا کہ بھٹو صاحب کی حد سے زیادہ روشن خیالی کے مخالف اس تحریک کے حامی تھے ، اس تحریک یا اتحاد کا نام قومی اتحاد تھا۔ جس کا انتخابی نشان ہل تھا۔ یہ 9 پارٹیوں کا اتحاد تھا اور 9 ستاروں کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
اب اگر آپ کی یادداشت کمزور نہیں تو واقعات کے تسلسل کو ذہن میں لائیے اور دیکھئیے کہ اس قومی اتحاد کو فنا کرنے کے لئیے بھٹو صاحب نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ حکومتی ایجنسیوں کی طاقت کا اس سے بھی زیادہ بے دریغ استعمال کیا گیا جتنا کہ آج مشرف کر رہا ہے۔ لوگوں کو ننگا کر کے بازاروں میں عورتوں اور بچیوں کے سامنے گھمایا گیا ( اس کا میں چشم دید گواہ ہوں )۔ اگر آپ کو یاد ہو تو بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئیے ایک سپیشل سیکورٹی فورس بھی تشکیل دی تھی ، جو انتہائی ظالمانہ طریقے سے ہر اس زبان کو خاموش کرواتی تھی جو بھٹو کے خلاف بولے۔ سب یاد ہے نا؟؟؟
جیالوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی سرکاری دفتر میں گھس کر ہر اس افسر کی ایسی تیسی کر ڈالیں جو بھٹو مخالف ہو۔ "سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے" کے نعرے کا عملی نفاذ اس طرح سے کیا گیا کہ گلیاں اور بازار تک لوگوں کے خون سے سرخ کر دئیے گئے۔ اور پھر آپ کو یہ بھی یاد کروا دوں کہ ڈاکٹر کیپٹن نصیر احمد نکیل کیس ، جو کہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا ، وہ اسی پیپلز پارٹی کے جی آلوں کے ہاتھ ہی انجام پایا تھا کہ جس میں ایک قابل اور سابق آرمی ڈاکٹر کیپٹن نصیر احمد کی ناک میں نکیل ڈال کر انہیں میرے شہر کے بازار اور گلیوں میں بندر کی طرح ناچنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ میں اس وقت چھوٹا تھا اور یہ منظر دیکھ کر اس قدر خوف زدہ ہوا تھا کہ راتوں کو سو نہیں سکتا تھا۔
ہمت بھائی ، پیپلز پارٹی جمہوریت کی نہیں سول آمریت کی علم بردار ہے۔ اگر آپ ہمیں سیستدانوں کا ماضی دیکھ کر فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں تو پھر خود بھی دیکھئیے کہ پیپلز پارٹی کا ماضی کیا ہے۔ بھٹو کی لاکھ کمزوریوں کے باوجود اس کے مرنے تک اس پارٹی کی کچھ عزت باقی تھی جو کہ محترمہ نے پہلے تو کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کر کے اور اب مشرف سے ڈیل کر کے مٹی میں ملا دی ہے۔ محترمہ ، مشرف کو ایک دن بھی برداشت کرنے والی نہیں ہے لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ مشرف کے ہاتھ میں ان کی کرپشن کے مصدقہ ثبوت ہیں اور مشرف ان ثبوتوں کی بنیاد پر ہی محترمہ کو ڈرا دھمکا کر خاموش رکھے ہوئے ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محترمہ نے ایمر جنسی پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا؟ اور محترمہ کو اس خاموشی کا پھل 15 نومبر کے بعد جلد ہی اقتدار ( قومی حکومت یا جھرلو انتخابات ) کی شکل میں ملنے والا ہے۔ یعنی ہم بدقسمت پاکستانی فوجی آمریت کے ساتھ ساتھ سول آمریت کو بھی بھگتیں گے۔
ہمت علی ، یہ دو مجرم ہیں جو ایک دوسرے کو بلیک میل کر کے وقت گزاری کر رہے ہیں اور جیسے ہی دونوں میں سے کسی ایک کا داؤ دوسرے پہ چل گیا تو پھر تماشہ دیکھنا۔
 

زینب

محفلین
بہت اچھے ساجد بھائی ۔میں بھی کہوں آپ کہاں رہ گئے جو ابھی تک یہاں نہیں آئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
یہ زیادہ تر الزامات ہیں‌جو فوج نے ضیا الحق کے دور میں‌ گھڑے۔
فوج پاکستانی سیاست اور پاکستان کا ستیاناس کرنے کی واحد ذمہ دار ہے۔
ایے ملکر فوج کو اس کے مقام تک محدود کریں اور عوامی حکمرانی کی راہ ہموار کریں۔
کسی پوسٹ‌میں‌پڑھا تھا کہ کوئی صاحب مارشل لا (موجودہ )کو عورت کی حکمرانی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ان سے عرض کے کہ ہر شخص عورت کی حکمرانی میں ہی انکھ کھولتا ہے اور وہ ہی اس کی پہلی استاد ہوتی ہے۔
 

ساجد

محفلین
یہ زیادہ تر الزامات ہیں‌جو فوج نے ضیا الحق کے دور میں‌ گھڑے۔
فوج پاکستانی سیاست اور پاکستان کا ستیاناس کرنے کی واحد ذمہ دار ہے۔
ایے ملکر فوج کو اس کے مقام تک محدود کریں اور عوامی حکمرانی کی راہ ہموار کریں۔
کسی پوسٹ‌میں‌پڑھا تھا کہ کوئی صاحب مارشل لا (موجودہ )کو عورت کی حکمرانی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ان سے عرض کے کہ ہر شخص عورت کی حکمرانی میں ہی انکھ کھولتا ہے اور وہ ہی اس کی پہلی استاد ہوتی ہے۔
ہمت بھائی ،
آپ کون سے الزامات کا ذکر کر رہے ہیں؟ جناب، یہ حقائق ہیں ۔ یہ فوج یا ضیاء مرحوم نے بھی نہیں گھڑے کیوں کہ ان حقائق کا تعلق اس وقت سے ہے جب بھٹو مرحوم بلا شرکتِ غیرے پورے پاکستان کے بادشاہ تھے اور ضیاء مرحوم ان کے انتہائی معتقد تھے۔ اور میں نے بھی صرف وہی کچھ لکھا ہے جس کی گواہ میری آنکھیں ہیں ، کسی سے سنی سنائی بات نہیں لکھی۔ آپ آئیے میرے شہر میں آپ کو ان لوگوں سے ملواؤں گا جن کے نازک جنسی اعضاء کو جی آلوں نے سگریٹوں سے جلایا تھا۔ جن کی دکانوں کو لوٹا تھا۔
ہمت بھائی ، معاملے پر مٹی ہی پڑی رہنے دو تو بہتر ہے اور میں بھی ان چیزوں کو موضوعِ بحث نہیں بنانا چاہتا۔ اگر آپ کو حقیقت جاننے کی آرزو ہے تو جب پاکستان آئیں تو مجھ سے ملیں۔ آپ کی مہمان نوازی میرے لئیے فخر کا باعث ہو گی ۔
جب پاکستان تشریف لے جائیں تو 1972 سے لے کر 1977 تک کے اخبارات کا مطالعہ کر لینا۔ دستیاب نہ ہوں تو میں تلاش میں آپ کی مدد کر دوں گا اور ہاں خاص طور پر اس وقت کا جیالا اخبار مساوات ضرور پڑھنا تا کہ آپ دوسرے فریق کے مؤقف سے بھی آگاہ ہو سکیں۔ وفاق اور نوائے وقت تو حکومتِ وقت کی مخالفت کرتے ہی تھے امروز اور مشرق جیسے ، غیر جانبداری کا دعوی کرنے والے ، اخبارات کی سرخیوں سے ٹپکتا ہوا لہو بھی دیکھنا۔
فوج نے ملک بگاڑا ضرور ہے لیکن اس فوج کو اقتدار میں آنے کا راستہ دکھانے والے سیاستدان ہی ہیں۔ اگر سیاستدان آمروں کی گود میں نہ بیٹھیں یا ملک سے فرار ہو کر ان کے لئیے میدان خالی نہ چھوڑتے تو آمریت پنپ ہی نہ سکتی۔
 
اخباروں‌کا کوئی اعتبار نہیں خاص طور پر اس دور کے۔
بہرحال اپ رہتے کہاں‌ہیں۔ اگر آخبار پڑھنے کی شرط نہ ہو تو اپ کی پیشکش اچھی ہے۔ پچھلے دنوں اسلام اباد کچھ دنوں‌کے لیے انا ہوا تھا اور بہت اچھا لگا وہاں کیونکہ ایک بہت ہی اچھے دوست کا ساتھ بھی رہا۔ ساجداقبال صاحب سے موبائل نمبر بھی لیاتھا مگر مصروفیت کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ انشاللہ انئندہ۔
 
Top