آخری مکا

چیف آف ارمی اسٹاف نے مارشل لا کم ایمرجنسی لگا کہ آخری مکا سے پہلے والے مکے کا وار کیاہے اور افواج پاکستان ایک بار پھر جیت گئیں ہیں۔ ارمی آخری مکا جب لگائے گی جب تابوت میں آخری کیل کی ضرورت پڑے گی۔ فی الحال تو ارمی بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں ابدی شمولیت کی اور راہیں‌کھلتی نظر ارہی ہیں۔
 
اللہ کرے کہ فوج اپنے کام تک محدود ہوجائے اور پاکستان کا مزید بیڑہ غرق نہ کرے۔
مگر اثار کچھ اچھے نہیں‌ہیں۔
اس تمام پروسیس میں‌ پاکستانی عوام کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں اور رہ نماوں‌کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں‌ان کی انکھیں‌اب کھل جانا چاہیں۔ فوج اپنے اقتدار کے لیے سب کچھ کرسکتی ہے۔ کاش ہم انکھیں‌کھول کر دیکھیں۔ یہ صرف فرد واحد کامسئلہ نہیں ہے جیسا کہ پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک فرد اپنے اقتدار کے لیے یہ کررہا ہے تو درحقیت وہ اپنے تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے۔ دیکھیے اس عمل موجودہ کا ذمہ دار صرف اور صرف فوج ہے جو اس عمل کا بھرپور عامل ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اللہ کرے کہ فوج اپنے کام تک محدود ہوجائے اور پاکستان کا مزید بیڑہ غرق نہ کرے۔
مگر اثار کچھ اچھے نہیں‌ہیں۔
اس تمام پروسیس میں‌ پاکستانی عوام کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں اور رہ نماوں‌کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں‌ان کی انکھیں‌اب کھل جانا چاہیں۔ فوج اپنے اقتدار کے لیے سب کچھ کرسکتی ہے۔ کاش ہم انکھیں‌کھول کر دیکھیں۔ یہ صرف فرد واحد کامسئلہ نہیں ہے جیسا کہ پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک فرد اپنے اقتدار کے لیے یہ کررہا ہے تو درحقیت وہ اپنے تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے۔ دیکھیے اس عمل موجودہ کا ذمہ دار صرف اور صرف فوج ہے جو اس عمل کا بھرپور عامل ہے۔
محترم یہ سیاستدان اقتدار کے لئے کیا کچھ نہیں‌کر رہے؟ دو ہاتھوں سے بجنے والی تالی ہوتی ہے، ایک ہاتھ سے نہیں‌بجتی
 

ساجداقبال

محفلین
بالکل اگر سیاستدان اپنے کاز سے مخلص ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اور ویسے بھی چودھریوں جیسے لوگ بھی خود کو سیاستدان کہتے ہیں۔
 
محترم یہ سیاستدان اقتدار کے لئے کیا کچھ نہیں‌کر رہے؟ دو ہاتھوں سے بجنے والی تالی ہوتی ہے، ایک ہاتھ سے نہیں‌بجتی

بالکل اگر سیاستدان اپنے کاز سے مخلص ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اور ویسے بھی چودھریوں جیسے لوگ بھی خود کو سیاستدان کہتے ہیں۔

اب بھی انکھ کھولنے پر تیار نہیں‌تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
ویسے کل ایک دلچسپ مکالمہ سننے کو ملا۔ کامران خان اور انصار عباسی بات کررہے تھے اور کامران خان کا زور اس بات پر تھا کہ پنجاب میں‌ اکثریتی ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھالیا ہے جبکہ سندھ میں صرف چار (اس وقت تک) ججز نے حلف اٹھایا ہے۔ اس پر انصار عباسی صاحب نے کہا کہ پنجاب کی اپنی روایت رہی ہے اور کبھی کبھی تو پنجاب کی دومیسائل ہونے پر شرم سی اتی ہے۔ ایک اور موقع پر انصار عباسی نے پنجابی اسٹیبلشمنٹ پر بات کی۔
براہ کرم انکھیں‌کھولیں اور اس بات کا ادراک کریں‌کہ فوج پاکستان کے عوام کے ساتھ اچھا نہیں‌کررہی ہے جس کی وجہ سے ایک صوبےکے لوگ بدنام ہورہیں‌ہیں۔ ایسانہ ہو کہ پھر نقصان ہو۔ بقول حسن نثار فوج محبت کے چشموں‌کا پروپیگنڈا کررہی تھی مغربی پاکستان میں اور مشرقی پاکستان جئے بنگلہ کے نعروں سے گونج رہاتھا۔
 
بالکل اگر سیاستدان اپنے کاز سے مخلص ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اور ویسے بھی چودھریوں جیسے لوگ بھی خود کو سیاستدان کہتے ہیں۔

یہ درست ہے۔ ان چودھریوں کو اور ان کے ساتھ باقی دوسرے سیاستدانوں کو بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کچھ نہ کچھ اسلامی جمہوریت سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہر صورت عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں‌ہم آہنگی ضروری ہے۔ اگر ہم آہنگی نہیں ہوگی، مسائین کو حل کرنے کے واضح‌ طریقہ کار نہیں‌ہوں گے تو جمہوریت پامال ہوتی رہے گی، وہی ایمرجنسی، مارشل لاء لگتے رہیں ‌گے، جیسے لگتے رہے ہیں۔ ضرورت ہے ایک مظبوط اسلامی جمہوری سیاستدان ٹولہ کی اور سیاسی عمل کی۔
 

زیک

مسافر
سیاسی میدان سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں ہی کے لئے ہونا چاہیئے نہ کہ فوج کے لئے۔ مگر آج کے احتجاج نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی سیاستدان کتنے نکمے ہیں۔ تمام احتجاجات وکلاء کی طرف سے ہیں کسی سیاسی پارٹی کا نام و نشان ہی نہیں۔
 

ساجد

محفلین
اب بھی انکھ کھولنے پر تیار نہیں‌تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
ویسے کل ایک دلچسپ مکالمہ سننے کو ملا۔ کامران خان اور انصار عباسی بات کررہے تھے اور کامران خان کا زور اس بات پر تھا کہ پنجاب میں‌ اکثریتی ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھالیا ہے جبکہ سندھ میں صرف چار (اس وقت تک) ججز نے حلف اٹھایا ہے۔ اس پر انصار عباسی صاحب نے کہا کہ پنجاب کی اپنی روایت رہی ہے اور کبھی کبھی تو پنجاب کی دومیسائل ہونے پر شرم سی اتی ہے۔ ایک اور موقع پر انصار عباسی نے پنجابی اسٹیبلشمنٹ پر بات کی۔
براہ کرم انکھیں‌کھولیں اور اس بات کا ادراک کریں‌کہ فوج پاکستان کے عوام کے ساتھ اچھا نہیں‌کررہی ہے جس کی وجہ سے ایک صوبےکے لوگ بدنام ہورہیں‌ہیں۔ ایسانہ ہو کہ پھر نقصان ہو۔ بقول حسن نثار فوج محبت کے چشموں‌کا پروپیگنڈا کررہی تھی مغربی پاکستان میں اور مشرقی پاکستان جئے بنگلہ کے نعروں سے گونج رہاتھا۔
انصار عباسی صاحب نے تو کھلے پن اور اپنے ضمیر کی آواز پر یہ تک کہہ دیا کہ انہیں پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے پر شرم آتی ہے َ حالانکہ اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے پچاس میں سے صرف 17 جج صاحبان نے حلف اٹھایا تھا یعنی 33 فیصد نے ۔ اب آپ دیکھئیے بلوچستان کی طرف جہاں کا نتیجہ سو فیصد رہا یعنی 5 کے 5 جج صاحبان نے حلف اٹھا لیا لیکن آپ کے قلم کی روانیاں صرف پنجابیوں کو مطعون کرنے تک محدود رہتی ہیں۔ ہمت بھائی ، اسی کو عصبیت کہا جاتا ہے اور آپ اس کا غیر محسوس طریقے سے شکار ہو چکے ہیں۔
براہِ مہربانی ایسی باتیں نہ کیا کیجئیے کہ جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔ ساری کی ساری فوج پنجابیوں پر مشتمل نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھئیے کہ مشرف کا تعلق پنجاب سے نہیں بلکہ سندھ سے ہے۔ ہر حکومت نے بہت کوشش کی کہ سندھییوں کو بھی پاک آرمی میں زیادہ نمائندگی دی جائے لیکن افسوس ہے آپ کے جاگیرداروں اور وڈیروں پر کہ جنہوں نے کبھی یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی ، یہی صورت حال بلوچستان کی بھی ہے۔ اگر سندھ اور بلوچستان کا نوجوان پڑھ لکھ کر آرمی میں چلا جاتا تو ان سرداروں ، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ہاری ، کمی اور اپنی ذاتی افواج کے لئیے نوجوان کہاں سے دستیاب ہوتے؟؟؟ اور آپ ایسے بھولے ہیں کہ اپنے ہی صوبے کے حالات کا تجزیہ ٹھیک طرح سے نہیں کر پاتے اور بات بات پر چڑھائی کر دیتے ہو پنجابیوں پر۔
 

ساجد

محفلین
سیاسی میدان سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں ہی کے لئے ہونا چاہیئے نہ کہ فوج کے لئے۔ مگر آج کے احتجاج نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی سیاستدان کتنے نکمے ہیں۔ تمام احتجاجات وکلاء کی طرف سے ہیں کسی سیاسی پارٹی کا نام و نشان ہی نہیں۔
زیک ،
سیاستدان مفاد پرست ہیں اُن کو جب تک اپنا مفاد نظر نہیں آئے گا وہ اس مارشل لاء کی زبانی مخالفت بھی نہیں کریں گے۔ اور اگر مشرف نے ان کو پھر سے دانہ ڈال دیا تو آپ دیکھنا کہ انہی میں سے بہت سارے اس کا ساتھ بھی دیں گے۔
 
سیاسی میدان سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں ہی کے لئے ہونا چاہیئے نہ کہ فوج کے لئے۔ مگر آج کے احتجاج نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی سیاستدان کتنے نکمے ہیں۔ تمام احتجاجات وکلاء کی طرف سے ہیں کسی سیاسی پارٹی کا نام و نشان ہی نہیں۔

ابھی تو یہ امتحان شروع ہوا ہے اور بقول عمران خان کہ ایک لمبی جدوجہد کی تیاریاں ہیں۔
یہ دیکھیے کہ مقابلہ فوج سے ہے۔ جب بھی عوام اور فوج امنے سامنے ہوئے تو نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ حالات نازک ہیں اور ملکی سلامتی کو خطرہ ہے ۔ بہتر ہے کہ یہ نازک موقع مذاکرات سے ہی حل ہوجائے۔ بے نظیر ایک اچھا رول پلے کرسکتیں ہیں۔ اور انشاللہ کررہی ہیں۔
معطون ارمی جرنیل اور اسٹیبلشمنٹ کو کرنا چاہیے نا کہ سیاسی جماعتوں کو جو کہ خود نشانہ ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ملک میں تو ڈھونڈنے سے بھی کوئی سیاستدان نظر نہیں آتا، یہ تو سب کے سب لوٹے ہیں، جدھر اپنا مفاد نظر آیا ادھر کو لڑھک گئے۔
 
ہمارے ملک میں تو ڈھونڈنے سے بھی کوئی سیاستدان نظر نہیں آتا، یہ تو سب کے سب لوٹے ہیں، جدھر اپنا مفاد نظر آیا ادھر کو لڑھک گئے۔

اس کی وجہ بھی فوج ہے۔ عوامی لیڈروں کو یا تو گولی کا نشانہ بنادیتے ہیں یا بم کا یا پھانسی پر لٹکادیتے ہیں۔ جناب یہ تو ایک قوم کی پوری دانشور قیادت کو موت کی نیند سلادیتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
ہمت فوج کے سیاست سے دور رہنے کا میں حامی ہوں اور سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو pragmatic نظر سے دیکھتا ہوں کہ تمام‌تر برائیوں کے باوجود انہی سے ڈیل کرنا ہے۔ مگر آج جب وکیلوں نے احتجاج کیا تو سیاسی پارٹیان کیوں ساتھ شامل نہ ہوئیں؟
 
Top