آج کس مست کی رخصت ہے میخانے سے - ضامن علی جلال لکھنوی

کاشفی

محفلین
جلال لکھنوی
تعارفِ شاعر: ضامن علی نام- جلال تخلص۔ حکیم اصغر علی داستانگو کے بیٹے اور لکھنؤ کے رہنے والے تھے ۔ 1250ہجری کو محلہ پار لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے نواب آصف الدولہ کے مدرسہ میں تعلیم پائی۔ عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے ہی تھے کہ شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اوّل امیر علی خان ہلالی کو اپنا کلام دکھاتے رہے۔ چونکہ طبیعت کو شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔ چند ہی روز میں کیا سے کیا ہوگئے۔ جب ہلالی نے ان کے کلام اور اپنی اصلاح کا اندازہ کر لیا تو خود انہیں لے جا کر میر علی اوسط رشک کا شاگرد کرادیا۔ کچھ عرصہ تک ان سے اصلاح لیتے رہے۔ جب وہ کربلائے معلّیٰ چلے گئے تو یہ مرزا محمدرضا برق سے اصلاح لینےلگے۔
غدر 1857ء کے بعد رام پور چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر بائیس برس کی تھی۔ ان کے باپ یوسف علی خاں کی سرکار میں داستانگوئی پر مقرر تھے۔ یہ بھی وہیں نوکر ہوگئے۔ ان کے بعد نواب کلب علی خاں نے بھی ان کی قدردانی فرمائی۔ عرصہ تک سو روپے ماہوار وظیفہ ملتا رہا۔ کئی دفعہ استعفادے دے کر چلے آئے۔ نواب نے ہر دفعہ بلوایا اور کام نہ کرنے کے زمانہ کی تنخواہ بھی عنایت فرمائی۔
منگرولی کے نواب حسین میاں بھی ان کو پچیس روپے ماہوار دیتے تھے۔ اور ہر قصیدہ پر سو روپے دیا کرتے تھے یہ مفت کسی کو بھی اصلاح نہ دیتے تھے۔
ان کو اپنی زباندانی کا بڑا دعویٰ تھا اور اس بات پر ناز تھا۔ کہ وہ محاورہ غلط نہیں بولتے ۔ اگرچہ وہ مغرور تھے لیکن پھر بھی اہلِ کمال سے جھک کر ملتے تھے۔
نواب کلب علی خاں کے مرنے کے بعد یہ پھر لکھنؤ چلے آئے اور منصور نگر میں ایک مکان خرید کر رہنے لگے۔
چھہتر برس کی عمر پائی۔ 20 اکتوبر 1909ء میں انتقال کیا۔
"سرمایہ زبان اردو" کے نام سے ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔ جس میں محاورے اور کنایے اور اصطلاحیں اردو زبان کی بیان کی ہیں۔ ایک رسالہ مفید الشعرا بھی ان کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں اسموں کی تذکیر و تانیث کی بحث ہے۔ ایک اور رسالہ قواعد المنتخب بھی ہے۔ جس میں بعض مفرد اور مرکب لفظوں کی تحقیق کی گئی ہے۔ علاوہ ان کے چار دیوان بھی ہیں۔
جلال ناسخ کے خاندان کی شاعری کے یاد گارتھے۔
ان کےیہاں خاص لکھنؤ کی ٹکسالی زبان پائی جاتی ہے۔
کلام کا نمونہ مندرجہ ذیل لڑیوں میں ملاحظہ فرمائیں۔
1 - آج کس مست کی رخصت ہے میخانے سے
2 - اس سے کچھ میرا بھی ذکر اے دل ناشاد رہے
 

کاشفی

محفلین
غزل
(ضامن علی جلال )
آج کس مست کی رخصت ہے میخانے سے
شیشہ مل مل کے بہت روتا ہے پیمانے سے
کٹ گئی پاؤں کی بیڑی جو پہن لی زنجیر
ہوشیاری کوئی سیکھے ترے دیوانے سے
دیکھ سکتا نہیں دل یار سے پہلو خالی
ہم کو معلوم ہوا آنکھ کے بھر آنے سے
نہ چھپا خون کیا ہے جو ہمارے دل کا
کھل گیا اس نگہ شوخ کے سمجھانے سے
حسرتیں دل میں نکلتی ہی چلی آتی ہیں
بستیاں ہوتی ہیں پیدا مرے ویرانے سے
اُس کے آنے کی نہ ٹھہرے گی یہ ثابت ہے جلال
آپ سے آپ طبیعت کے ٹھہر جانے سے
 
Top