کاشفی

محفلین
کہا یہ کس نے کوئی حرف ناروا کہئے
مگر جو کوئی بُرا ہو تو پھر برا کہئے
جو ہو رسول پہ قربان اسے کہیں عاشق
جو بھاگے چھوڑ کے اس کو تو بےوفا کہئے

(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
 

کاشفی

محفلین
حسینیت ، تری تعظیم جابجا ہوگی
یزدیت تری تذلیل برملا ہوگی
ہر ایک دل پہ لگی ہے غم حسین کی مہر
اگر شکست یہی ہے تو فتح کیا ہوگی

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
ممکن نہیں کسی سے عداوت حسین کی
سانسوں میں بٹ رہی ہے سخاوت حسین کی
بازار کے ہجوم سے کہہ دو کہ چپ رہے
قرآن کر رہا ہے تلاوت حسین کی

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
مرضی ہے تیری، فکر میں ترمیم کر نہ کر
سلطانِ عقل و عشق کو تسلیم کر نہ کر
بچپن میں دیکھ لے ذرا دوشِ رسو ل پر
پھر تو مرے حسین کی تعظیم کر نہ کر

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
بشر کا ناز، نبوت کا نورِ عین حسین
جنابِ فاطمہ زہرا کے دل کا چین حسین
کبھی نماز سے پوچھا جورنج و غم کا علاج
کہا نماز نے بے ساختہ حسین! حسین!

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
اگر کسی دل میں بغض حیدر کی دھول ہوگی جنابِ والا
تو پھر عقیدے کی ہر ادا بے اصول ہوگی جناب والا
اگر کسی سے بروزِ محشر خفا خفا ہو نبی کی بیٹی
تو پھر بہشت بریں کی خواہش فضول ہوگی جنابِ والا

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
نوکِ سناں پہ ہے سر مظلوم سرفراز
خنجر غرورِ ظلم کے سینے میں گڑ گیا
کہنے لگے حسین کہ بول اے یزیدیت
بس ایک وار میں ترا چہرہ بگڑ گیا

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
غم حسین کے آنسو ہیں اپنی آنکھوں میں
سجا کے جسم پہ ماتم کے داغ لائے ہیں
سنا تھا قبر کے اندر بڑا اندھیرا ہے
ہم اپنے ساتھ ہزاروں چراغ لائے ہیں

(محسن نقوی شہید)
 
نثار مرتضی ع ہوں، پنجتن سے پیار کرتی ہوں
خزاں جس چمن پہ نہ آئے اس چمن سے پیار کرتی ہوں
عقیدہ مذہب انسانیت میں کب ضروری ہے
میں ہندو ہوں اور اک بت شکن سے پیار کرتی ہوں

ہندو شاعرہ دیوی روپ کمار
 

کاشفی

محفلین
چھَٹے گی کِذب کی گردِ کہن آہستہ آہستہ!
مٹے گی فکرِ انساں کی تھکن آہستہ آہستہ
ابھی تاریخ کو بچپن کی سرحد سے گزرنے دو
کھُلیں گے اس پہ اوصافِ حسن آہستہ آہستہ
(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
میزانِ عَدل میں ہیں برابر کے دو امام
اک سرخرو چمن ہے مقدس چمن کے بعد
لوحِ جبینِ عظمتِ آدم پہ حشر تک
نامِ حسین ثبت ہے لیکن حسن کےبعد

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
عہدِ خزاں سرشت کی غارت گری نہ پوچھ
خوشبو کو خود تلاش حُدودِ چمن کی ہے
اس دورِ فتنہ پرور عصرِ فساد میں!
دُنیا کو بہرِ امن ضرورت حسن کی ہے

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
صاحبِ فکر و نظر، حق کا وَلی کہتے ہیں
کاشفِ کنزو حبیبِ اَزَلی کہتے ہیں
جس کو ڈوبا ہوا سورج بھی پَلٹ کر دیکھے
ہم اُسے اپنے عقیدے میں علی کہتے ہیں

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
ہو خُم پر جس کا اعلانِ اَمیرالمومنیں ہونا
اُسے جچتا ہے سلطانِ فلک، فخرِ زمیں ہونا
بشرتو کیا فرشتے دل ہی دل میں کہہ اُٹھے محسن
علی کو زیب دیتا ہے نبی کا جانشیں ہونا

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
شجاعت کا صدف، مینارہء الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا، بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازش جس کے عَلم کی چھاؤں سے لرزیں
اُسے اَرض و سما والے سخی عباس کہتے ہیں

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
نبضیں لرز رہی ہیں، ضمیرِ حیات کی
سانسیں اکھڑ رہی ہیں، دلِ کائنات کی
عباس کے غضب کا اثر ہے کہ آج تک
ساحل سے دور دور ہیں موجیں فرات کی

(محسن نقوی شہید)
 

کاشفی

محفلین
تاریخ تیرے بخل پہ روئے گی عمر بھر!
ہر اشک ایک طنز ہے تیرے مزاج پر
چھ ماہ کا لال، اور ابھی تک ہے تشنہ لَب؟
اے موجہء فرات، کہیں جا کر ڈوب مر!!

(محسن نقوی شہید)
 
Top