خُونی تُھوک
گاڑی آنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔
مسافروں کے گروہ کے گروہ پلیٹ فارم کے سنگین سینے کو روندتے ہوئے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ پھل بیچنے والی گاڑیاں ربڑ ٹائر پہیوں پر خاموشی سے تَیر رہی تھیں۔ بجلی کے سینکڑوں قمقمے اپنی نہ جھپکنے والی آنکھوں سے ایک دوسرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ برقی پنکھے سرد آہوں کی صورت میں اپنی ہوا پلیٹ فارم کی گدلی فضا میں بکھیر رہے تھے۔ دور ریل کی پٹری کے پہلو میں ایک لیمپ اپنی سرخ نگاہوں سے مسافروں کی آمد و رفت کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔پلیٹ فارم کی فضا سگریٹ کے تند دھوئیں اور مسافروں کے شور میں لپٹی ہوئی تھی۔
پلیٹ فارم پر ہر ایک شخص اپنی اپنی دھن میں مست تھا۔ تین چار بنچ پر بیٹھے اپنی ہونے والی سیر کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک گھڑی کے نیچے خدا معلوم کن خیالات میں غرق زیرِ لب گنگنا رہا تھا۔ دور کونے میں نیا بیاہا ہوا جوڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ خاوند اپنی بیوی کو کچھ کھانے کیلیے کہہ رہا تھا۔ وہ شرما کر مسکرا دیتی تھی، پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر ایک نوجوان قلیوں کے ساتھ لڑکھڑا کر چل رہا تھا، جو اسکی بہن کا تابوت اٹھائے ہوئے تھے۔ پانچ چھ فوجی گورے ہاتھ میں چھڑیاں لئے اور سیٹی بجاتے ہوئے ریفرشمنٹ روم سے شراب پی کر نکل رہے تھے۔ بک سٹال پر چند مسافر اپنا وقت ٹالنے کی خاطر یونہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے میں مشغول تھے۔ بہت سے قلی سرخ وردیاں پہنے گاڑی کی روشنی کا امید بھری نگاہوں سے انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ریفرشمنٹ روم کے اندر ایک صاحب انگریزی لباس زیب تن کئے سگار کا دھؤاں اڑا کر وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"قلیوں کی زندگی گدھوں سے بھی بدتر ہے۔"
"مگر میاں کیا کریں آخر پیٹ کہاں سے پالیں؟"
"ایک قلی دن بھر میں کتنا کما لیتا ہوگا؟"
"یہی آٹھ دس آنے۔۔۔۔۔۔۔۔"
"یعنی صرف جینے کا سہارا۔۔۔۔۔۔اور اگر بال بچے ہوں تو اپنا پیٹ کاٹ کر ان کا منہ بھریں۔ جب ان لوگوں کی تاریک زندگی کا خیال ایک دفعہ بھی میرے دماغ میں آجائے تو پہروں سوچتا رہتا ہوں کہ آیا ان کی مصیبت ہماری نام نہاد تہذیب پر بدنما داغ نہیں ہے؟"
دو دوست پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
خالد اپنے دوست کی گفتگو سن کر قدرے متعجب ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا۔ "کیوں میاں یہ لینن کب سے بنے تم؟۔۔۔۔۔۔تہذیب کس بلا کا نام ہے۔۔۔۔۔۔انسانیت کے سرد لوہے پر جما ہؤا زنگ۔۔۔۔۔۔جانے دو ایسی باتوں کو، جانتے ہو میں پہلے ہی سے اپنے حواس کھوئے بیٹھا ہوں۔"
"خالد، سچ کہہ رہے ہو۔ یہ باتیں واقعی دماغ کو درہم برہم کر دیتی ہیں۔ دو روز ہوئے اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ پندرہ مزدور کارخانے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے جلے ہوئے کاغذ کے مانند راکھ ہوگئے۔ کارخانہ بیمہ شدہ تھا، مالک کو روپیہ مل گیا۔ مگر پندرہ عورتیں بیوہ بن گئیں اور خدا معلوم کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ کل تین نمبر پلیٹ فارم پر ایک خاکروب کام کرتے کرتے گاڑی تلے آکر مرگیا۔ کسی نے آنسو تک نہ بہایا۔۔۔۔۔۔جب سے یہ واقع دیکھا ہے، طبیعت سخت مغموم ہے۔ یقین جانو، حلق سے روٹی کا لقمہ نیچے نہیں اترتا، جب دیکھو اس خاکروب کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش آنکھیں باہر نکالے میری طرف گھور رہی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے اس کے گھر ضرور جانا چاہئے، شاید میں اس کے بچوں کی کچھ مدد کر سکوں۔"
خالد مسکرایا اور اپنے دوست کا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔ "جاؤ۔۔۔۔۔۔پندرہ مزدوروں کی بیکس بیویوں کی بھی مدد کرو، یہ ایک نیک اور مبارک جذبہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی شہر سے کچھ فاصلے پر چند ایسے لوگ بھی آباد ہیں، جنھیں ایک وقت کیلیے سوکھی روٹی کا نصف ٹکڑا بھی میسر نہیں۔ گلیوں میں ایسے بچے بھی ہیں جن کے سروں پر کوئی پیار دینے والا نہیں، ایسی سینکڑوں عورتیں موجود ہیں جن کا حسن غربت کے کیچڑ میں گل سڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بتاؤ تم کس کس کی مدد کرو گے؟ ان پھیلے ہوئے ہاتھوں میں سے کس کس کی مٹھی بھرو گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں ننگے جسموں میں سے کتنوں کی ستر پوشی کرو گے؟"
"آہ، درست کہتے ہو خالد۔۔۔۔درست کہتے ہو، مگر بتاؤ اس تاریک آندھی کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ اپنے ہم جنس افراد کو ذلت کی زندگی بسر کرتے دیکھنا، ننگے سینوں پر چمکتے ہوئے بوٹوں کی ٹھوکریں کھاتے دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔سخت بھیانک خواب ہے۔"
"واقعات کی رفتار کا نتیجہ دیکھنے کا انتظار کرو، یہ لوگ اپنی طاقت کے باوجود اس طوفان کو نہیں روکتے۔ خود اعتمادی نے انہیں برداشت کرنا سکھا دیا ہے۔۔۔۔۔چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرنا آسان ہے مگر چنگاری کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔بہرحال تمھیں امید رکھنی چاہئے شاید تمھاری زندگی میں ہی مصائب کے یہ بادل دور ہوجائیں۔"
"میں یہ سہانا وقت دیکھنے کیلیے اپنی زندگی کے بقایا سال نذر کرنے کو تیار ہوں۔"
"کاش یہی خیال باقی لوگوں کے دلوں میں بھی موجود ہوتا۔۔۔۔۔مگر یار گاڑی آج کچھ دیر سے آتی معلوم ہوتی ہے۔ دیکھو نا پٹڑی پر روشنی کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔"
خالد کا ساتھی کسی گہری فکر میں غوطہ زن تھا۔ اسلیے اس نے اپنے دوست کے آخری الفاظ بالکل نہ سنے۔ اور اگر سنے تو کچھ اور خیال کرکے کہنے لگا۔ "واقعی یہ خیال پیدا کرنا چائیے اور اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"چھوڑو میاں اب اس فلسفے کو۔۔۔۔۔کچھ پتا بھی ہے، گاڑی کب آنے والی ہے؟" خالد نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔
"گاڑی۔۔۔۔۔۔" اور پھر سامنے والی گھڑی کی طرف نگاہ اٹھا کر بولا۔ "نو بج کر پچیس منٹ، بس دس منٹ تک آجائے گی۔۔۔۔۔یعنی دس منٹ کے بعد ہمارا دوست ہمارے پاس ہوگا۔۔۔۔۔۔ذرا خیال تو کرو، میں وحید کی آمد کو اس دردناک گفتگو کی وجہ سے بالکل بھول چکا تھا۔"
یہ کہتے ہوئے خالد کے دوست نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانا شروع کیا۔
پلیٹ فارم پر لوگوں کا ہجوم تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ مسافر بڑی سرعت سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ قلی اسباب کے ڈھیروں کے پاس خاموش کھڑے گاڑی کے منتظر تھے کہ جلد اپنے کام سے فارغ ہوکر ایک آنہ حاصل کرسکیں۔ خوانچہ والے دوسرے پلیٹ فارموں سے جمع ہو کر اپنی اپنی اپنی مخصوص صدا بلند کررہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا، گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ، مختلف انجنوں کی پھپ پھپ، خوانچہ والوں کی صداؤں، مسافروں کی باہم گفتگو کے شور اور قلیوں کی بھدی آوازوں سے معمور تھی۔۔۔۔۔۔برقی پنکھے بدستور سرد آہیں بھر رہے تھے۔
(جاری ہے)
۔