آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 62

گوش کرون۔ سُننا، سودا نے ترجمہ کیا : یہ سنگ ریزہ ہوا ہے دُرِ عدن مجھ سے

کب اس کو گوش کرے تھا جہاں میں اہلِ کمال
یہ سنگ ریزہ ہوا ہے دُرِ عدن مجھ سے​

بُوکردن، سُونگھنا، سودا نے ترجمہ کیا :

دیکھوں نہ کبھی گل کو ترے مُنھ کے میں ہوتے
سنبل کے سوزِ زلف تری بُو نہ کرونمیں​

اور میر صاحب نے اس سے بڑھ کر کہا :

گل کو محبوب ہم قیا س کیا
فرق نِکلا بہت جو باس کیسا​

خوابم بُرد یا خوابم و ربود ۔ یعنی مجھے نیند آ گئی، جرات :

کل واں سے آتے ہی جو ہمیں خواب لے گیا
دیکھا تو پھر وہیں دلِ بے تاب لے گیا​

ہندی کا محاورہ نیند آتی ہے، خواب کا لے جانا محاورہ نہیں۔

زنجیر کرون، قید کرنا۔ سید انشاء :

سود ازدو دل ہے تو یہ تدبیر کرینگے
اِس زُلفِ گرہ گیر سے زنجیر کرینگے​

خاک برسر کردن۔ سودا نے ترجمہ کر دیا :

تو ہی کچھ اپنے سر پر نہ یاں خاک کر گئی
شبنم بھی اس چمن سے صبا چشم تر گئی​

ہندی میں سر پر خاک ڈالنی کہتے ہیں۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض رسمیں اور ٹوٹکے جو ایران اور توران میں ہوتے تھے اس کے اشارے اُردو میں کرنے لگے۔ سودا :

دوانہ اِن لٹوں کا ہوں قسم ہے روحِ مجنوں کی
نہ مارو مجھ کو چوبِ گل بغیر اربید کی چھڑیاں​

میر اور سودا کے حال میں ان مطالب کی توضیح کی ہے۔

داغِ جنوں۔ اُستاد مرحوم عالمِ طفولیت کی ایک غزل میں فرماتے ہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 63

دیوانہ ہوں تیرا مجھے کیا کام کہ لوں گل
زیبائش سر کو ہے مرے داغ جنوں گل​

اور میر صاحب مثنوی میں کہتے ہیں :

سرتاپا آشفتہ دماغی
داغِ جنوں دے جس پہ چراغی​

ولایت میں رسم ہے کہ قلعہ کے محاصرہ میں یا ایک لشکر ہے دوسرے لشکر میں جب قاصد کا پہنچنا ممکن نہیں ہوتا تو خط کا پرزہ تیر میں باندھ کر پھینکتے ہیں، چنانچہ میر و سودا نے اُسے اُردو میں باندھا ہے :

نامہ جو وہاں سے آئے ہے سو تیر میں باندھا
کیا دیجئے جواب اجل کے پیام کا مہر

نہ تھا پیکاں پہ کیا جوہر جو نامہ تیر پر لکھا
اشارہ قتل کا قائل نے کس تقصیر پر لکھا سودا​

اگرچہ اِن باتوں پر فصاحت کے اُصولِ عامہ کے بموجب بہت اعتراض ہوئے مگر احتراز نہ ہوئے کیوں کہ بولنے والوں کی نسلیں اور اصلیں اور گھر اور گھرانے فارسی سے شیر و شکر ہو رہے تھے۔ جتنا اِس کا دخل زیادہہوتا تھا، اُتنا ہی مزہ زیادہ ہوتا تھا اور آج دیکھتے ہیں تو اور ہی رنگ ہے۔ ہمارے قادر الکلام انشا پرداز ترجمے کر کے انگریزی کے خیالوں کے چربے اُتارتے ہیں اور ایسا ہی چاہیے، جہاں اچھا پھول دیکھا چُن لیا، اور دستار نہیں تو کوٹ میں زیبِ گریباں کر لیا۔ ہمارے انشاء پردازوں نے جب دیکھا کہ فارسی والوں نے اپنی قادر سخنی کے زور یا ظرافتِ طبع کے شور سے عربی ترکیبوں کا استعمال کیا تو اُنھوں نے بھی اپنے پیارے ملک کی زبان کو اِس نمک سے بے لُطف نہ چھوڑا۔ سودا فرماتے ہیں :

جیسے کہتا ہے کوئی ہو ترا صفا صفا​

سید رضی خاں رضی مرحوم نے کیا خوب کہا ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 64

تری وہ مثل ہے کہ اے رضی
نہ اِل الذَی نہ اُل الَذی​

دونوں زبانوں کے بابِ تشبیہات میں ایک نکتہ کہے بغیر مجھ سے آگے نہیں بڑھا جاتا۔ یعنی مختلف افرادِ انسان کے طبائع پر غور کرو کہ ہزاروں کوس پر پڑے ہوں اور مختلف طبیعت کے ملکوں میں ہوں، لیکن چونکہ طبیعتِ انسانی متحد ہے اس لئے دیکھو ان کے خیالات کس قدر ملتے جلتے ہوتے ہیں، چنانچہ یہاں بالوں کی تعریف میں ناگوں کے لہرانے اور بھونروں کے اُڑنے سے تشبیہ دیتے تھے۔ فارسی میں زلف کی تشبیہ سانپ کے ساتھ آئی ہے، اس لئے اُردو میں سانپ ہے مگر بھونرے اُڑ گئے۔ اور اس کی جگہ مشک، بنفشہ، سنبل، ریحان آ گئے، جو کبھی یہاں دیکھے بھی نہیں مگر عرب کا سادہ مزاج فصیح اپنی نیچر کا حق ادا کرتا ہے، اور زلف کو کوئلے سے تشبیہ دیتا ہے۔ سانولی رنگت کی تعریف میں شام برن اور میکھ برن کہتے تھے۔ اُس سے کُھلتا رنگ ہوتا تو چنبک برفی کہتے تھے، اب سمن رنگ اور سیم رنگ کے الفاظ حُسن کو بہار دیتے ہیں مگر چندرمکھ اور ماہ رُخ مشترک ہے۔

آنکھ کی تعریف میں یہاں مرگ کی آنکھ اور کنول کے پھول اور ممولہ کی اچپلاہٹ سے تشبیہ دیتے تھے، اُردو میں آہو چشم رہے مگر ممولے ہوا ہو گئے اور کنول کی جگہ ساغرِ لبریز اور نرگسِ شہلا آ گئی۔ جو کسی نے یہاں دیکھی بھی نہ تھی بلکہ ترک چشم شمشیرِ نگاہ سے قتل کرنے لگے۔

رفتار کے لئے بھاشا میں ہتنی اور ہنس کی چال ضرب المثل ہے، اب ہنس کے ساتھ ہاتھی بھی اُڑ گیا، فقط کبکِ دری، شورِ محشر اور فتنہ قیامت نے آفت برپا کر رکھی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 65

بھاشا میں ناک کی تشبیہ طوطے کی ناک سے تھی، اب زنبق کی کلی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ آتس کا شعر ہے :

توڑنے والے گلِ زنبق کے ہیں
کانٹے والے چمن کی ناک کے​

فارسی والوں نے کمر کی نزاکت میں بڑی باریکیاں نکالی ہیں مگر سنسکرت نے بھی اپنی جگہ مبالغہ میں کچھ کمی نہیں کی۔ چنانچہ آنکھوں کی تعریف میں ایک شاعر نے کہا،

گوشے ان کے کانوں سے جا ملے تھے​

پہلے یہاں ہوا یا ابر یا ہنس کو قاصد کہتے تھے، اُنھوں نے نسیم اور صبا کو قاصد رکھا۔

بلکہ نالہ ؤ آہ اور اشک سے بھی پیغام رسانی کا کام لیا، اُستاد مرحوم کا شعر ہے :

نالہ ہے اُن سے بیاں دردِ جدائی کرتا
کام قاصد کا ہے یہ تیر ہوائی کرتا

ظفر گر نہیں ہے کوئی نامہ بر
تم آنسو ہیہ اپنا روانہ کرو
(ظفر)

قاصدِ اشک آ کے خبر کر گیا
قتل کوئی دل کا نگر کر گیا
(سودا)​

فارسی والے طفلِ اشک باندھتے تھے، اُنھوں نے بھی اسے لڑکا بنایا اور دیکھو اُستاد مرحوم نے اس کے لئے دامن کیا خوب تیار کیا ہے :

طفلِ اشک ایسا گرا دامانِ مژگاں چھوڑ کر​

اور ظفر نے کہا :

کیا ہی شریر لڑکے یہ اوپر تلے کے ہیں​

اور معروف نے کہا ہے :

ابھی سے نامِ خدا کرنے قاصدی نکلا
یہ طفلِ اشک بڑا پاؤں کا بلی نکلا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 66

بیان کیا کروں اشک کی ابتری کا
یہ لڑکا بداطوار پیدا ہوا ہے​

یہ سمجھنا کہ فارسی ہندی میں تصرف حاکمانہ کرتی رہی، نہیں اُسے بھی یہاں کے الفاظ لئے بغیر چارہ نہیں ہوا، چنانچہ جو الفاظ فارسی اور سنسکرت کے اصلیت میں متفق ہیں، اِن سے قطع نظر کر کے کہتا ہوں کہ سلاطین چغتائیہ کے دفتروں میں صدہا لفظ ہندی کے تھے جو کہ فارسی عبارتوں میں بے تکلف مستعمل ہوتے تھے، اور اب بھی عہدِ مذکور کی تواریخوں میں موجود ہیں۔

مثلاًجھروکہ روشن اور پھول کٹارہ اور کھپوہ مرصع جہانگیر بادشاہ اپنی توزک میں لکھتا ہے، کہ میرا بھائی شاہ مراد کوہستان فتح پور سیکری میں پیدا ہوا تھا، اسی واسطے میرے والد اسے پہاڑی راجہ کہا کرتے تھے۔ اور آرام بانو بیگم میری چھوٹی بہن کو بہت پیار کرتے تھے، اور اکثر مجھ سے کہتے تھے کہ "بابا یجہت خاطرِ من ناز او برداشتہ، بے ادبی و شوخی ہاوے اور ابگز رانی۔" اسی کتاب میں معلوم ہوتا ہے کہ شہجہاں بچپن میں اکبر کو شاہ بابا اور جہانگیر کو شاہ بھائی کہا کرتا تھا۔

اِسی طرح شعراء نے اپنے تصرفات رنگیں کے ساتھ اشعار فارسی کو رونق دی ہے۔ امیر خشرو سو (۱۰۰) برس پہلے کہتے ہیں :

بنشستہ چوں در پالکی نہ چرخ کہار آمدہ​

قِران السعدین میں کہتے ہیں :

خاں کرہ جھجوئے کشور کشا
کز لبِ شاہاں کرہ دارد بیا​

اور دہلی کی یاد میں ایک جگہ کہتے ہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 67

اے دہلی والے بتانِ سادہ
پگ بستہ وہ چیرہ کج نہادہ

سرآں دو چشم گردم کہ چوں ہند وان رہزن
ہمہ را بنوکِ مژگاں زدہ بر جگر کتارہ

در چاشت گہ از شبنم گل گرد فشانست
آں باد کہ در ہند اگر آید جگر آید
(عرفی)

سیر گشتم ز کجرئے ایام
ہوسِ سیم و زر نمے دارم
(عرفی)

سپہر از سر افرا زیش در حساب
زچوکھنڈیش سایہ بر آفتاب
(ظہوری)

چوکھنڈی شکوہش اگر سایہ افگند
فیلِ سپہر شانہ بدوز و بہ زیر بار
(اشرف)

شوخ سوسن رابگو دل میر باید قشقہ ات
ذات رجپوت است ترسم دست برجمدھر کند
(عفرا)

پان خوردہ بمن وادہ اگال آں بُتِ ہندی
ایں بوسہ بہ پیغام چہ رنگیں مزہ دارد
(خسرو)

شود چہرہ زرد خورشید آل
دہندش اگر نازنیناں اُگال
(ظہوری)​

اور سہ نثر میں بادشاہ کے لئے کیا خوب کہا ہے :

"باز جگت گردی عالم بر خود گرفتہ"​

(حاشیہ : فارسی کے استعاروں اور تشبیہوں نے آ کر کیسا زبان کا رنگ بدل دیا۔)

بیان مذکورہ بالا سے تمھیں اجمالاً معلوم ہو گیا ہو گا کہ اُردو کا درخت اگرچہ سنسکرت اور بھاشا کی زمین میں اُگا مگر فارسی کی ہوا میں سرسبز ہوا ہے، البتہ مشکل یہ ہوئی کہ بیدل اور ناصر علی کا زمانہ قریب گزر چکا تھا اور اُن کے معتقد باقی تھے، وہ استعارہ اور تشبیہ کے لُطف سے مست تھے، اس واسطے گویا اُردو بھاشا میں استعارہ و تشبیہ کا رنگ بھی آیا اور بہت تیزی سے آیا، یہ رنگ اسی قدر آتا کہ جتنا چہرہ پر اُبٹنے کا رنگ آنکھوں میں سُرمہ، تو خوش نمائی اور بینائی دونوں کو مفید تھا۔ مگر افسوس کہ اس کی شدت نے ہماری قوت بیان کی آنکھوں کو سخت نقصان پہنچایا اور زبان کو خیالی باتوں سے فقط توہمات کا سوانگ بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھاشا اور اُردو میں زمین و آسمان کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 68

فرق ہو گیا، چاہتا ہوں کہ دونوں کے نمونے آمنے سامنے رکھ کر ان کے فرق دکھاؤں، مگر اس سے پہلے دو تین باتیں خیال رکھنی چاہئیں، اول تو شاعرانہ اُردو کا نوجوان جس نے فارسی کے دودھ سے پرورش پائی، اُس کی طبیعت میں بہت سے بلند خیالات اور مبالغہ مضامین کے ساتھ وہ حالات اور ملکی رسمیں اور تاریخی اشارے آ گئے، جو فارس اور ترکستان سے خاص تعلق رکھتے تھے اور بھاشا کے طبعی مخالف تھے، ساتھ اس کے فارسی کی نزاکت اور لطافتِ طبعی کے سبب سے اُردو کے خیالات اکثر پیچیدہ ہو گئے کہ بچپن سے ہمارے کانوں میں پڑتے اور ذہنوں میں جمتے چلے آتے ہیں، اس لئے ہمیں مشکل نہیں معلوم ہوتے، اَن پڑھ، انجان یا غیر زبان والا سنتا ہے تو مُنھ دیکھتا رہ جاتا ہے، کہ یہ کیا کہا، اس لئے اُردو پڑھنے والے کو واجب ہے کہ فارسی کی انشاء پردازی سے ضرور آگہی رکھتا ہو۔

فارسی اور اُردو کی انشاء پردازی میں جو دشواری ہے، اور ہندی کی انشاہیں آسانی ہے، اس میں ایک باریک نکتہ غور کے لائق ہے وہ یہ کہ بھاشا زبان جس شے کا بیان کرتی ہے اس کی کیفیت ہمیں ان خط و خال سے سمجھاتی ہے جو خاص اسی سے کے دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے یا چُھونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس بیان میں اگرچہ مبالغہ کے زور یا جوش و خروش کے دھوم دھام نہیں ہوتی ہے، مگر سننے والے کو جو اصل شے کے دیکھنے سے مزہ آتا ہے وہ سُننے سے آ جاتا ہے، برخلاف شعرائے فارس کے کہ یہ جس شے کا ذکر کرتے ہیں، صاف اُسی کی بُرائی بھلائی نہیں دکھا دیتے، بلکہ اِس کے مشابہ ایک اور سے جسے ہم نے اپنی جگہ اچھا یا بُرا سمجھا ہو، اس کے لوازمات کو شے اول پر لگا کر ان کا بیان کرتے ہیں، مثلاً بھول کہ نزاکت رنگ اور خوشبو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۹

میں معشوق سے مشابہ ہے، جب گرمی کی شدت میں معشوق کے حُسن کا انداز دکھانا ہو تو کہیں گے کہ مارے گرمی کے پھول کے رُخساروں سے شبنم کا پسینہ ٹپکنے لگا اور اسی رنگ میں شاعر کہتا ہے۔ خواجہ وزیر :

ہوں وہ بلبل جو کرے ذبح خفا تو ہو کر
روح میری گلِ عارض میں رہے بُو ہو کر​

یہ تشبیہں اور استعارے اگر پاس کے ہوں، اور آنکھوں کے سامنے ہوں تو کلام میں نہایت لطافت اور نزاکت پیدا ہوتی ہے، لیکن جب دور جا پڑیں اور بہت باریک پڑ جائیں تو دقت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہمارے نازک خیال کسی بادشاہ کے اقبال اور عقل کے لئے اس قدر تعریف پر قناعت نہیں کرتے کہ وہ اقبال میں سکندر یونانی اور عقل میں ارسطوئے ثانی ہے، بلکہ بجائے اس کے کہتے ہیں کہ اگر اس کا ہمائے عقل، اوجِ اقبال سے سایہ ڈالے تو ہر شخص کشورِ دانش و دولت کا سکندر اور ارسطو ہو جائے۔ بلکہ اگر اس کے سینہ میں دلائلِ عقلی کا دریا جوش مارے تو طبقہ یونان کو غرق کر دے، اول تو ہما کی یہ صفت خود ایک بے بنیاد فرض ہے اور وہ بھی اسی ملک کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر اقبال کا ایک فلک الافلاک تیار کرنا اور اس پر نقطہ اوج کا دریافت کرنا دیکھئے۔ وہاں ان کے فرضی ہما کا جانا دیکھئے، پھر زمین پر اس خیالی آسمان کے نیچے ایک تدبیر کا یونان بسانا دیکھئے، پھر اس فرضی ہما کی برکت کا اس قدر عام کر دینا دیکھئے جس سے دنیا کا جاہل اس خیالی یونان میں جا کر ارسطو ہو جائے۔

دوسرے فقرے میں اول تو علمائے ہند نے تنور سے طوفان کا نکلنا مانا ہی نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۰

ہے۔ اس پر طبقہ یونان کا اپنے فلسفہ کی تہمت میں تباہ ہونا وغیرہ وغیرہ ایسی باتیں اور روایتیں ہیں کہ اگرچہ ہمارے معمولی خیالات ہوں، مگر غیر قوم بلکہ ہمارے بھی عام لوگ اس سے بے خبر ہیں۔ اس لئے بے سمجھیں گے اور جب بات کو زبان سے کہہ کر سمجھانے کی نوبت آئی تو لفطفِ زبان کہا اور یہ نہیں تو تاثیر کجا! مزہ وہی ہے کہ آدھی بات کہی، آدھی منھ میں ہے اور سننے والا پھڑک اُٹھا۔ تار بجا اور راگ پوچھا، اِن خیالی رنگینوں اور فرضی لطافتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو باتیں بدیہی ہیں اور محسوسات میں عیاں ہیں، ہماری تشبیہوں اور استعاروں کے پیچ در پیچ خیالوں میں آ کر وہ بھی عالمِ تصور میں جا پڑتی ہیں کیونکہ خیالات کے ادا کرنےمیں ہم اول اشیائے بیجان کو جاندار بلکہ اکثر انسان فرض کرتے ہیں، بعد اس کے جانداروں اور عاقلوں کے لئے جو باتیں مناسبِ حال ہیں ان بے جانوں پر لگا کر ایسے ایسے خیالات پیدا کرتے ہیں جو اکثر ملکِ عرب یا فارس یا ترکستان کے ساتھ قومی یا مذہبی خصوصیت رکھتے ہیں۔

مثلا رات کو اہلِ محبت کے جلسہ میں اول تو ساقی (ساقی عربی لفظ ہے اور ایسا ہے کہ جس کے لئے ہندی لفظ ہے ہی نہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ اس ملک میں ساقی اور جام کی رسم نہیں تھی۔ اس لئے اس کے خیالات بھی نہیں تھے۔) کا آنا واجب ہے، پھر معشوق بجائے ایک نازنیں عورت کے پریزاو لڑکا ہے، اُس کی پیشانی اور رخسارہ سے نورِ صبح روشن ہے۔ مگر زلف کی شام بھی برابر مشک افشاں ہے، صراحی کبھی سرکشی کرتی ہے، اسی لئے جگر خون ہو کر ٹپکتا ہے، کبھی جھکتی ہے، اور خندہ قلقل سے ہنستی ہے، کبھی وہی قلقل حق حق ہو کر یادِ الٰہی میں صرف ہوتی ہے مگر پیالہ اپنے کھلے منھ سے ہنستا ےہ اور اس کے
 

شمشاد

لائبریرین
مکرر پوسٹ ہوا تھا۔

صفحہ ۷۱

آگے دامن پھیلاتا ہے فلک تیر حوادث کا ترکش، کمانِ کہکشاں لگائے کھڑا ہے مگر عاشق کی تیرِ آہ اِس کے سینہ کے پار جاتا ہے، پھر زحل منحوسی کی آنکھ نہیں پھوٹتی کہ عاشق کی صبحِ مراد روشن ہو، یہاں کی محفل میں شمع (شمع عربی میں بمعنی موم ہے، پھر موم بتی کو کہنے لگے، فارس میں آ کر چربی کی بھی بننے لگی مگر نام شمع ہی رہا۔ ہند میں چربی ناپاک ہے۔ اس لئے نہ شمع تھی نہ اس کا نام۔ مرغِ سحر کے ذبح کا مضمون بھی وہیں کا ہے۔) برقع فانوس میں تاجِ زر سر پر رکھے کھڑی ہے، اس لئے پروانہ کا آنا بھی واجب ہے، وہ عاشقِ زار آتے ہی جل کر خاک ہو جاتا ہے۔ چراغ کو ہنساتے ہیں اور شمع کو عاشق کے غم میں رُلاتے ہیں۔ وہ باوفا عشق کے تپ میں سراپا جلتی ہے، اس کی چربی گُھل گُھل کر بہتی ہے، مگر پائے استقامت اُس کا نہیں ٹلتا، یہاں تک کہ سفیدہ سحری کبھی آ کر کافور دیتا ہے، اور کبھی طباشیر، شمع کا دل اس لئے بھی گداز ہے کہ شبِ زندگی کا دامن بہت چھوٹا ہے۔ لیکن صبح دونوں کے ماتم میں گریباں چاک کرتی ہے۔ عاشق بادہ خوار کے لئے مرغِ سحر بڑا موذی ہے، اس کے ذبح کو ہمیشہ تیغ زبان تیز رہتی ہے۔ بادِ سحر قاصدِ خجستہ گام ہے کہ پیغام یار کا بہت جلد لاتا اور لے جاتا ہے، اسی عالم میں آفتاب کبھی تو پنجہ شعاع سے آنکھ ملتا سر برہنہ حجرہ مشرق سےنکلتا ہے، ککبھی فلک کے سبزہ گھوڑے پر سوار کِرن کا تاجِ زرنگار سر پر چمکاتا شفق کا پھریرا اُڑاتا آتا ہے، کیونکہ اپنے حریف شاہِ انجم کی فوج کو پریشان کر کے فتحیاب آیا ہے۔

ان ہی بنیادوں پر جب گلزار کا شگفتگی یا باغ کی بہا ر دکھانی ہو تو ایسے خیالات میں دکھائیں گے کہ شاہدِ گل کے کان میں قاصدِ صبا کچھ ایسا افسوں پھونک گیا، کہ وہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۲

مارے ہنسی کے فرشِ سبزہ پر لوٹ گیا۔ طفلِ غنچہ مُسکرا کر اپنے عاشق بلبلِ شیدا کا دل لُبھاتا ہے۔ کبھی خزاں کا غارت گر آتا ہے، تو گل اپنا جام اور غنچہ اپنی صراحی لے کر روانہ ہو جاتا ہے، اسی طرح ہمارے باغ میں بہار خود ایک معشوق ہے، اس کا چہرہ چمن ہے، گل رخسار ہیں، سنبل بال ہیں، بنفشہ زلف ہے، نرگش آنکھیں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

پھر بہار موسمِ جوانی ہے، درخت جوانانِ چمن ہیں کہ عروسانِ گلشن سے گلے مل مل کر خوش ہوتے ہیں۔ شاخیں انگڑائیاں لیتی ہیں، تاکِ سیہ مست پڑا اینڈتا ہے۔ اطفالِ نیات دایہ بہار کی گود میں پرورش پاتے ہیں، خضرِ سبزہ کی برکت سے نسیمِ سحری مردہ ہزار سالہ دمِ عیسوی کا کام دیتی ہے، مگر بلبلِ زار عشقِ شاہدِ گل میں اُداس ہے۔ آبِ رواں عمرِ گزراں ہے، اس کی کوج کی تلوار سے دل کٹتے جاتے ہیں۔ سرو کے عکس کا اژدھا نگلے جاتا ہے، شبنم کے آنسو جاری ہیں، بلبل کبھی خوش ہے کہ گُل اس کا پیارا پاس ہنس رہا ہے کبھی افسردہ ہے کہ خزان کا خوں ریز جھونکا اِن سب کو قتل کرے گا یا اس کے دشمن یعنی گلچیں و صیاد اسے یہاں سے نکالیں گے۔ سرو یا شمشاد کے عشق میں قمری کا گیروا لباس ہے۔ اس کے نالہ کا آرہ دلوں کو چیرتا ہے، کبھی عاشق زار بھی وہیں آ نکلتا ہے۔ وہ بجائے اپنے معشوق کے حسرت و غم سے ہمکنار ہے، روتا ہے اور قاصدِ صبا کو پیغام دیتا ہے کہ میرے تغافل شعار کو ذرا میرے حال کی خبر کر دینا۔

بیانِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا ہو گا کہ ان میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو خاص فارس اور ترکستان کے ملکوں سے طبعی اور ذاتی تعلق رکھتی ہیں، اس کے علاوہ بعض خیالات میں اکثر اُن داستانوں یا قصوں کے اشارے بھی آ گئے ہیں، جو خاص ملک فارس سے علاقہ رکھتے تھے، مثلاً بجائے عورت کے لڑکوں کا عشق، ان کے خط کی تعریف، شمشاد، نرگس،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۳

سنبل، بنفشہ، موئے کمر، قدِسرو وغیرہ کی تشبیہیں، لیلی، شیریں، شمع، گل، سرو وغیرہ کا حُسن، مجنوں، فرہاد، بُلبل، قمری، پروانہ کا عشق، فانوس کا برقع، غازہ اور گلگونہ، مانی و بہزاد کی مصوری، رستم و اسفندیار کی بہادری، زحل کی نحوست، سہیلِ یمن کی رنگ افشانی، مشاہیر فارس و یونان اور عرب کے قصے، راہِ ہفتخوان، کوہِ الوند، کوہِ بے ستون، جوئے شیر، قصرِ شیریں، جیحوں، ہیحوں وغیرہ وغیرہ، ہر چند سب معاملات عرب اور فارس سے متعلق ہیں، مگر اُردو میں بہت سے خیالات انہی کی بنیاد پر نظم و نثر میں پیدا ہوتے ہیں۔

تعجب ہے کہ اِن خیالوں نے اور وہاں کی تشبیہوں نے اِس قدر زور پکڑا کہ ان کے مشابہ جو یہاں کی باتیں تھیں اُنھیں بالکل مٹا دیا، البتہ سودا اور سید انشاء کے کلام میں کہیں کہیں ہیں اور وہ اپنے موقع پر نہایت لطف دیتی ہیں۔

غرضکہ اب ہماری انشاء پردازی ایک پُرانی یادداشت ان تشبیہوں اور استعاروں کی ہے کہ صدہا سال سے ہمارے بزرگوں کو دستمال ہو کر ہم تک میراث پہنچی ہے۔

ہمارے متاخرین کو معنی آفرینی کی آرزو ہوئی تو بڑا کمال یہ ہے کہ کبھی صفت بعدصفت، کبھی استعارہ در استعارہ سے اسے اور تنگ و تاریک کیا۔ جس سے ہوا تو یہ ہوا کہ بہت غور کے بعد فقط ایک وہمی نزاکت اور فرضی لطافت پیدا ہو گئی کہ جسے محالات کا مجموعہ کہنا چاہیے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ بجائے اس کے کلام اِن کا خاص و عام کے دلوں پر تاثیر کرے، وہ مخصوص لوگوں کی طبع آزمائی کے لئے ایک دقیق معمہ اور عوام کے لئے ایک عجیب گورکھ دھندا تیار ہو گیا، اور جواب اُن کا یہ ہے کہ کوئی سمجھے تو سمجھے، جو نہ سمجھے وہ اپنی جہالت کے حوالے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۴

اب اس کے مقابلے میں دیکھو، بھاشا کا انشاء پرداز برسات میں اپنا باغ کیونکر لگاتا ہے، درختوں کے جھنڈ چھائے ہیں، گھن کے پتے ہیں، اِن کی گہری گہری چھاؤں ہے، جامن کی ٹہنیاں آم کے پتوں میں کھچڑی ہو رہی ہیں، کھرنی کی ٹہنیاں فالسے کے درخت پر پھیلی ہوئی ہیں، چاندنی کی بیل کمرک کے درخت پر لپٹی ہے، عشق پیچہ ککروندہ پر چڑھا جاتا ہے، اِس کی ٹہنیاں لٹکتی ہیں، جیسے سانپ لہرا رہے ہیں، پھولوں کے گچھے پڑی جُھوم رہے ہیں، میوے دانے زمین کو چوم رہے ہیں، نیم کے پتوں کی سبزی اور پھولوں کی سفیدی بہار پر ہے، ام کے بور میں اِس کے پھولوں کی مہک آتی ہے، بھینی بھینی بُو جی کو بھاتی ہے، جب درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں، مولسری کے پھولوں کا مینھ برستا ہے، پھل پھلاری کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے، دھیمی دھیمی ہوا اُن کی بُو باس میں بسی ہوئی روشوں پر چلتی ہے، ٹہنیاں ایسی ہلتی ہیں جیسے کوئی جوبن کی متوالی اٹکھیلیاں کرتی چلی جاتی ہے، کسی ٹہنی میں بھونرے کی آواز، کسی میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ الگ ہی سماں باندھ رہی ہے۔ پرند درختوں پر بول رہے ہیں اور کلول کر رہے ہیں۔ حوض میں چادر اِس زور سے گرتی ہے کہ کان پری آواز نہیں سُنائی دیتی، اس سے چھوٹی چھوٹی نالیوں میں پانی لہراتا جاتا ہے، تو عجب بہار دیتا ہے، درختوں سے جانور اُترتے ہیں، نہاتے جاتے ہیں، آپس میں لڑتے جاتے ہیں، پروں کو پھڑپھڑاتے ہیں اور اُڑ جاتے ہیں، پرند زمین پر چوکڑیاں بھرتے پھرتے ہیں، ایک طرف سے کوئل کی کوک ایک طرف سے کوکلے کی آواز، اسی جمگھٹ میں عاشق مصیبت زدہ بھی کہیں اکیلا بیٹھا جی بہلا رہا ہے اور اپنی جُدائی کے دُکھ کو مزے لے کر اُٹھاتا ہے۔

برسات کا سماں باندھتے ہیں تو کہتے ہیں، سامنے سےکالی گھٹا جھوم کر اٹھی،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۵

دُھواں دھار ہے، بجلی کوندتی چلی آتی ہے، سیاہی میں سارس اور بگلوں کی سفید سفید قطاریں بہاریں دکھا رہی ہیں، جب بادل کڑکتا ہے اور بجلی چمکتی ہے تو کبھی پرندے دبک کر ٹہنیوں میں چُھپ جاتے ہیں، کبھی دیواروں سے لگ جاتے ہیں، مور جُدا جھنکارتے ہیں، پہپہیے الگ پکارتے ہیں، محبت کا متوالا چنبیلی کے جھرمٹ میں آتا ہے تو ٹھنڈی ہوا لہک کر پھوار بھی پڑنے لگتی ہے، مست ہو کر وہیں بیٹھ جاتا ہے اور شعر پڑھنے لگتا ہے۔

جب ایک شہر کی خوبی بیان کرتے ہیں، شام ہونے ایک مقام پر پہنچا دیکھتا ہے کہ پہاڑیاں ہری بھری ہیں، اردگرد سرسبز میدانوں میں بسے ہوئے گاؤں آباد ہیں، پہاڑ کے نیچے ایک دریا میں زِمل جل بہہ رہا ہے، جیسے موتی کی آب بیچوں بیچ میں شہر آباد، جب اس کے اُونچے اُونچے مکانوں اور برجیوں کا عکس پڑتا ہے تو پانی میں کلیاں جگ مگ جگ مگ کرتی ہیں، اور دوسرا شہر آباد نظر آتا ہے، لب دریا کے پیڑ بوٹوں اور زمین کی سبزی کو برسات نے ہرا کیا ہے کہ دودہلن گایوں اور بکریوں کا چارہ ہو جائے۔

جب اُداسی اور پریشانی کا عالم دکھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آدھی رات اِدھر آدھی رات اُدھر، جنگل سنسان، اندھیر بیانان، مرگھٹ میں دُور دُور تک راکھ کے ڈھیر، جلے ہوئے لکڑ پڑے، کہیں کہیں چتا میں آگ چمکتی ہے، بُھوتوں پریتوں کی ڈراؤنی صورتیں اور بھیانک مورتیں ہیں، کوئی تاڑ سا قد، لال لال دیدے پھاڑے لمبے لمبے دانت نکالے گلے میں کھوپڑیوں کی مالا دالے ہنس رہا ہے، کوئی ایک ہاتھی کو بغل میں مارے بھاگا جاتا ہے کوئی ایک کالا ناگ ککڑی کی طرح کھڑا چبا رہا ہے۔ پیچھے غل ہوتا چلا آتا ہے کہ لیجیو، ماریو، جانے نہ پائے، دم بھر میں یہ بھوت پریت غائب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۶

ہوتے ہیں، غل شور تھمتا ہے، پھر مرگھٹ کا میدان سنسان ہے، پتے ہوا سے کھڑکتے ہیں، ہوا کا سناٹا، پانی کا شور، اُلو کی ہوک، گیدڑوں کا بولنا اور کتوں کا رونا، یہ ایسی وحشت ہے کہ پہلے ڈر بھی بھول جاتے ہیں۔

دیکھو یہ دونوں باغ آمنے سامنے لگے ہیں؟ تم نے مقابلہ کیا؟ دونوں کے رنگ ڈھنگ میں کیا فرق ہے؟ بھاشا کا شاعر فصیح استعارہ کی طرف بھول کر بھی قدم نہیں رکھتا۔ جو جو لُطف آنکھوں سے دیکھتا ہے اور جن خوش آوازیوں کو سنتا ہے یا خوشبوؤں کو سونگھتا ہے انہی کو اپنی میٹھی زبان سے بے تکلف بے مبالغہ صاف صاف کہہ دیتا ہے۔

لیکن یہ نہ سمجھنا کہ ہندوستان میں مبالغہ کا زور تھا ہی نہیں، سنسکرت کا انشاء پرداز ذرا بگڑ جائے تو زمین کے ماتھے پر پہاڑ تیوری کے بل ہو جائیں اور دہانِ غار پتھروں سے دانت پیسنے لگیں۔ ان مضامین کو دیکھ کر اول ہمیں وہ عام قاعدہ یاد آتا ہے کہ ہر ملک کی انشا پردازی، اپنے جغرافیے اور سر زمین کی صورتِ حال کی تصویر بلکہ رسم و رواج اور لوگوں کی طبیعتوں کا آئینہ ہے، سبب اس کا یہ ہے کہ جو کچھ شاعر یا انشا پرداز کے پیشِ نظر ہوتا ہے وہی اس کی تشبیہوں اور استعاروں کا سامان ہوتا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایران، خراسان اور توران کی زمین میں بہار کا موسم دلوں کو شگفتہ کرتا ہے، یہاں برسات کا موسم دلوں میں ذوق و شوق پیدا کرتا ہے، وہاں بہار میں بُلبل ہزار داستان ہے، یہاں کوئل اور پپیہا ہے، برج بھاشا کے انشاء پرداز برسات کے لُطف اور اِس کی کیفیتیں بہت خوب دکھاتے ہیں، جہانگیر نے توزک میں سچ کہا ہے کہ ہندوستان کی برسات ہماری فصل بہار ہے، اور کوئل یہاں کی بُلبل ہے۔ اس موسم میں عجب لطف سے بولتی ہے، اور مستیاں کرتی ہے، بہار کے موسم کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۷

کچھ لطف یہاں ہے تو بسنت رُت کا سماں ہے، جس میں ہولی کے رنگ اُڑتے ہیں، پچکاریاں چھٹتی ہیں، گلال کے قمقمے جلتے ہیں۔ وہ باتیں نہیں جو فارسی والے بہار کے سمے کرتے ہیں۔

بہرحال ہمیں اپنے بزرگوں کی اس صنعت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ہندی بھاشا میں جو اضافت کی طوالت کا کے کی سے ادا ہوتی، وہ فارسی کی اضافت میں آ کر مختصر ہو گئی، اس کے علاوہ استعارہ و تشبیہہ جو بھاشا میں شاید اس سبب سے کم لاتے تھے کہ وہ کتاب یا انشا پردازی کی زبان نہ تھی، یا اس سبب سے کہ برابر کاکا اور کےکے آنے سے کلام بدمزہ ہو جاتا تھا، اسی طرح بہت تشبیہہ میں بھی لفظوں کے بڑھاوے سے کلام مرتبہ فصاحت سے گِر جاتا، اب انھوں نے فارسی کو اس میں داخل کر کے استعارہ و تشبیہہ سے مرصع کر دیا۔ جس سے وہ خیالوں کی نزاکت اور ترکیب کی پختگی اور زور کلا اور تیزی و طراری میں بھاشا سے آگے بڑھ گئی، اور بہت سے نئے الفاظ اور نئی ترکیبوں نے زبان میں وسعت بھی پیدا کی۔

اس فخر کے ساتھ یہ افسوس پھر بھی دل سے نہیں بھولتا، کہ انھوں نے ایک قدرتی پھول کو جو اپنی خوشبو سے مہکتا اور رنگ سے لہکتا تھا، مفت ہاتھ سے پھینک دیا، وہ کیا ہے؟ کلام کا اثر، اور اظہار اصلیت ہمارے نازک خیال اور باریک بین لوگ استعاروں اور تشبیہوں کی رنگینی اور مناسبت لفظی کے ذوق شوق میں خیال سے خیال پیدا کرنے لگے، اور اصلی مطالب کے ادا کرنے میں بے پروا ہو گئے۔ انجام اس کا یہ ہوا کہ زبان کا ڈھنگ بدل گیا اور نوبت یہ ہوئی کہ اگر کوشش کریں تو فارسی کی طرح پنجرقعہ اور مینا بازار، یا فسانہ عجائب لکھ سکتے ہیں، لیکن ایک ملکی معاملہ یا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۸

اس طرح نہیں بیان کر سکتے، جس سے معلوم ہوتا جائے کہ واقعہ مذکور کیونکر ہوا اور کیونکر اختتام کو پہنچا، اور اس سے پڑھنے والے کو ثابت ہو جائے کہ روئداد وقت کی اور صورت حال معاملہ کی ایسی ہو رہی تھی کہ جو کچھ ہوا اسی طرح ہو سکتا تھا، دوسری صورت ممکن نہ تھی اور یہ تو ناممکن ہے، ایک فلسفہ یا حکمت اخلاق کا خیال رکھیں جس کی صفائی کلام لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لگائے اور اس کے دلائل جو حُسنِ بیان کے پردہ میں برابر جلوہ دیتے جاتے ہیں، وہ دلوں سے تصدیق کے اقرار لیتے جائیں اور جس بات سے روکنا یا جس کا جھوکنا منظور ہو، اُس میں پوری پوری اطاعت سُننے والوں سے لے سکیں۔ یہ قباحت فقط نازک خیالی نے پیدا کی۔ استعارہ و تشبیہہ کے انداز اور مترادف فقرے، تکیہ کلام کی طرح ہماری زبانِ قلم پر چڑھ گئے، بے شک ہمارے متقدمین اس کی رنگینی اور نزاکت کو دیکھ کر بھولے مگر یہ نہ سمجھے کہ یہ خیالی رنگ ہمارے اسلی جوہر کو خاک میں ملانے والا ہے، یہی سبب ہے کہ آج انگریزی ڈھنگ پر لکھنے میں یا ان کے مضامین کا پورا پورا ترجمہ کرنے میں ہم بہت قاصر ہیں، نہیں ہماری اصلی انشاء پردازی اس رستہ میں قاصر ہے۔

انگریزی تحریر کے عام اُصول یہ ہیں کہ جس شے کا حال یا دل کا خیال لکھیئے تو اُسے اس طرح اَدا کیجیے کہ خود وہ حالت گزرنے سے یا اس کے مشاہدہ کرنے سے جو خوشی یا غم غصہ یا رحم یا خوف یا جوش دل پر طاری ہوتا ہے بعینہ وہی عالم اور وہی سماں دل پر چھا دیوے۔

بے شک ہماری طرزِ بیاں اور چُست بندش اور قافیوں کے مسلسل کھٹکوں سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۹

کانوں کو اچھی طرح خبر کرتی ہے۔ اپنے رنگین الفاظ اور نازک مضمونوں سے خیال میں شوخی کا لُطف پیدا کرتی ہے، ساتھ اس کے مبالغہ کلام اور عبارت کی دھوم دھام سے زمین و آسمان کو تہ و بالا کر دیتی ہے، مگر اصل مقصود یعنی دلی اثر یا اظہارِ واقفیت ڈھونڈو توذرا نہیں، چند مضمون ہیں کہ ہماری زبانوں پر بہت رواں ہیں مگر حقیقت میں ہم ان میں بھی ناکام ہیں، مثلاً ہم اگر کسی کے حُسن کی تعریف کرتے ہیں، تو رشکِ حور اور غیرتِ پری پر قناعت نہ کر کے اُسے ایک پُتلا ناممکنات و محالات کا بنا دیتے ہیں، مگر کسی حسین کا حُسنِ خداداد خود ایک عالم ہے کہ جو کچھ آنکھوں سے دیکھ کر دلوں پر گزر جاتی ہے، دل ہی جانتے ہیں، بس اسی کو اس طرح کیوں ادا نہیں کر دیتے کہ سننے والے بھی کلیجہ پکڑ کے رہ جائیں۔

ایک بلونت جوان کی تعریف کریں گے تو رستم، تہمن، اسفندیار، روئیں تین، شیر بیشہ وغا، نہنگ قلزم ہیجا، وغیرہ وغیرہ لکھ کر صفحے سیاہ کر دیں گے لیکن اس کی بلدن گردن، بھرے ہوئے ڈنٹر، چوڑا سینہ، بازوؤں کی گلاوٹ، پتلی کمر، غرض خوشنما بدن اور موزوں ڈیل ڈول بھی ایک انداز رکھتا ہے، اس کی اپنی دلاوری اور ذاتی بہادری بھی آخر کچھ نہ کچھ ہے، جس کے کارناموں نے اُسے اپنے عہد میں ممتاز کر رکھا ہے، اسی کو ایک وضع سے کیوں نہیں ادا کر دیتے، جسے سُن کر مُردار خیالوں میں اکٹر تکڑ اور کمھلائے ہوئے دلوں میں اُمنگ پیدا ہو جائے۔

ایک چمن کی تعریف سے کبھی فلک کے سبز باغ اور گلشنِ انجم کے دل پر داغ دیں گے، کبھی اُسے فردوسِ بریں اور جنات روئے زمین بنائیں گے بلکہ ایک ایک پُھول اور ایک ایک پتے کی تعریف میں رنگ رنگ سے ورق سیاہ کر دیں گے۔ اس کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۰

اس کی ہریاول کا لہلہانا، پھولوں کا چہچہانا، میٹھی میٹھی خوشبوؤں کا آنا، آبِ رواں کا لہرانا، موزوں درختوں، گلزاروں کے تختوں کی بہار، ہوا کی مہک اور طوطی کی چہک، پپہیے کی کوک، کوئل کی ہوک جو کہ روحانی تفریح کے ساتھ انسان کے دل پر اثر کرتی ہے، اس کا بیان اس طرح نہیں کرتے جس کے پڑھنے سے آنکھوں میں سماں چھا جائے۔ میدانِ جنگ ہو تو زمین کے طبقوں کو اُڑا کر آسمان میں تلپٹ کر دیتے ہیں اور خون کے دریا ملکوں سے ملکوں میں بہا دیتے ہیں، مگر اپنے موقع پر وہ تاثیر جس سے ایک بہادر کی بہادری دیکھ کر دلوں میں قوم کی ہمدردی اور رفیق پر جاں نثار کرنیکا ولولہ پیدا ہو نہیں ہے۔

دوسرے کوچہ میں آ کر علم کی تعریف پر اترتے ہیں تو اس کی برکت سے پیر پیغمبر، ملائک فرشتہ بنا دیتے ہیں، کاش اس کے عوض میں چند ظاہر کُھلے کُھلے فائدے بیان کر دیں جس سے ہر شخص کے دل میں اس کا شوق پیدا ہو اور عالم جاہل سمجھ جائے کہ اگر بے علم رہوں گا تو خواری و ذلت کی زندگی سے دین و دنیا دونوں خراب ہوں گے۔ ہماری تصنیفات میں اس کا کچھ ذکر ہی نہیں، اور افسوس کہ اب تک بھی ہم نے اس پر توجہ نہیں کی (انگریزی میں بہت خیالات اور مضامین ایسے ہیں کہ ہماری زبان نہیں ادا کر سکتی، یعنی جو لطف اِن کا انگریزی زبان میں ہے وہ اُردو میں پورا ادا نہیں ہو سکتا، جو کہ درحقیقت میں زبان کی ناطاقتی کا نتیجہ ہے اور یہ اہلِ زبان کے لیے نہایت شرم کا مقام ہے۔

اگر شائستہ قوموں کی انشاء پردازی سوال کرے کہ اُردو کی انشاء کیوں اس حالت میں مبتلا رہی؟ تو حاضر جوابی فوراً بول اُٹھے گی کہ قوم کی انشاء پردازی بموجب اسکی حالت کے ہوتی ہے اور خیالات اس کے بموجب حالات ملک اور تربیت ملکی کے ہوتے ہیں، جیسی ہندوستان کی تعلیم و شائستگی تھی، اور بادشاہوں اور امیرونکی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۱

قدردانی تھی ویسی ہی انشاپردازی رہی اور خاتمہ کلام اس فقرہ پر ہو گا کہ کوئی پرند اپنے بازوؤں سے بڑھ کر پَر نہیں مار سکتا، اس کے بازو فارسی، سنسکرت، بھاشا وغیرہ تھے۔ پھر اُردو بیچاری انگلینڈ یا روم یا یونان کے محلوں پر کیونکر جا بیٹھتی۔ مگر حقیقت میں عقدہ اس سوال کا ایک اور گرہ میں بند ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک شے کی ترقی کسی ملک میں اسی قدر زیادہ ہوتی ہے، جس قدر شے مذکور کو سلطنت سے تعلق ہوتا ہے، یورپ کے ملکوں میں قدیم سے دستور ہے کہ سلطنت کے اندرونی اور بیرونی زور قوم کی ذاتی اور علمی لیاقتوں پر منحصر ہوتے تھے اور سلطنت کے کل انتظام اور اُس کے سب قسم کے کاروبار، انہی کے شمول اور انہی کی عرق ریز تدبیروں سے قرار پاتے تھے، یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کی تجویزوں کی بنیاد علمی اور عقلی اور تاریخی تجربہ کے زوروں پر قائم ہوتی تھی، پھر لیاقتِ منحصر بھی سینکڑوں ہی میں منحصر نہیں بلکہ ہزاروں میں پھیلی ہوئی تھی، اس میں جہاں اور مہماتِ سلطنت ہیں وہاں ایک یہ بھی تھا کہ ہر امر تنقیح طلب جلسہ عام کے اتفاق رائے سے وابستہ تھا تحریروں اور تقریروں کے موقع پر جب ایک شخص جلسہ عام میں استادہ ہو کر کوئی مطلب ادا کرتا تھا تو اِدھر کی دنیا اُدھر ہو جاتی تھی، پھر جب طرفِ ثانی اس کے مقابلہ میں جواب ترکی بر ترکی دیتا تھا تو مشرق کے آفتاب کو مغرب سے طلوع کر دیتا تھا اور اب تک بھی فقط تقریروں اور تحریروں کے زور سے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو متفق کر کے ایک رائے سے دوسری رائے پر پھیر لیتے ہیں، خیال کرنا چاہیے کہ ان کے بیان میں کیسی طاقت اور زبان میں کیا کیا زور ہوں گے، برخلاف ہندوستان کے یہاں کی زبان میں اگر ہوئے تو ایک بادشاہ کی خوش اقبالی میں چند شعراء کے دیوان ہوئے جو فقط تفریح طبع اور دل لگی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top