ظہیراحمد کی شاعری

  1. ظہیراحمدظہیر

    پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے

    غزل پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے عاشقی اپنے تماشے کی تمنائی ہے مہربانی بھی مجھے اب تو ستم لگتی ہے اک بغاوت سی رَگ و پے میں اُتر آئی ہے سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر خاکِ تخریب میں پوشیدہ توانائی ہے عصرِ حاضر کے مسائل ہوئے بالائے حدود اب نہ آفاقی رہا کچھ ،...
  2. ظہیراحمدظہیر

    پگھل کر روشنی میں ڈھل رہوں گا

    غزل پگھل کر روشنی میں ڈھل رہوں گا نظر آکر بھی میں اوجھل رہوں گا بچھڑ جاؤں گا اک دن اشک بن کر تمہاری آنکھ میں دوپَل رہوں گا ہزاروں شکلیں مجھ میں دیکھنا تم سروں پر بن کے میں بادل رہوں گا میں مٹی ہوں ،کوئی سونا نہیں ہوں جہاں کل تھا ، وہیں میں کل رہوں گا بدن صحرا ہے لیکن آنکھ نم ہے اِسی...
  3. ظہیراحمدظہیر

    یہ کہہ رہے ہیں وہ کالک اُچھالنے والے

    غزل یہ کہہ رہے ہیں وہ کالک اُچھالنے والے ہمی ہیں شہر کی رونق اُجا لنے وا لے ۔ ق ۔ منافقت کی عفونت بھی ساتھ لائے ہیں گلے میں ہار گلابوں کا ڈالنے والے دہن میں لقمۂ شیریں بھی رکھتے جاتے ہیں مرے وجود میں لاوا اُبا لنے وا لے ۔ ہجوم چنتا ہے ساحل پہ سیپیوں سے گہر نظر سے گم...
  4. ظہیراحمدظہیر

    بنا کےپھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم

    غزل بنا کےپھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم اب آگئے ہو تو پھر چھوڑ کر نہ جاؤ تم میں ڈرتے ڈرتے سناتا ہوں اپنے اندیشے میں کُھل کے یوں نہیں کہتا کہ ڈر نہ جاؤ تم کہاں کہاں مجھے ڈھونڈو گے پرزہ پرزہ ہوں مجھے سمیٹنے والے! بکھر نہ جاؤ تم بڑھے ہو تم مری جانب تو ڈر یہ لگتا ہے مرے قریب سے آکر گزر نہ جاؤ تم...
  5. ظہیراحمدظہیر

    منظر سے ہٹ گیا ہوں میں ، ایسا نہیں ابھی

    غزل منظر سے ہٹ گیا ہوں میں ، ایسا نہیں ابھی ٹوٹا تو ہوں ضرور ، پہ بکھرا نہیں ابھی وہ بھی اسیرِ ِ فتنہء جلوہ نمائی ہے میں بھی حصارِ ذات سے نکلا نہیں ابھی آسودہء خمار نہیں مضمحل ہے آنکھ جو خواب دیکھنا تھا وہ دیکھا نہیں ابھی داغ ِ فراقِ یار کے پہلو میں یاس کا اک زخم اور بھی ہے جو مہکا...
  6. ظہیراحمدظہیر

    ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے

    ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے یہ راستہ لیکن کسی رہبر کی عطا ہے کب میری صفائی کوبھلا مانے گی دنیا الزام ہی جب ایسے فسوں گر کی عطا ہے جچتے نہیں آنکھوں میں شبستان و گلستاں یہ دربدری ایسے کسی در کی عطا ہے ساحل کے خزانے نہیں دامن میں ہمارے جو کچھ بھی ملا ، گہرے سمندر کی عطا ہے اُجرت...
  7. ظہیراحمدظہیر

    حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہونگے

    وطنِ عزیز میں ایک الیکشن کے موقع پر یہ مسلسل غزل کئی سال پہلے لکھی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہونگے سحر سے برسرِ پیکار ہم نہیں ہونگے یہ خوابِ غفلت ِبیخود ہمیں گوارا ہے فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہونگے ہمیں عزیز ہے حرمت جہادِ منزل کی شریکِ کاوشِ بیزار ہم نہیں ہونگے کسی حریفِ...
  8. ظہیراحمدظہیر

    آنکھوں میں اب یقین کی جنت نہیں رہی

    آنکھوں میں اب یقین کی جنت نہیں رہی لہجے میں اعتماد کی شدت نہیں رہی آشوبِ دہر ایسا کہ دنیا تو برطرف خود پر بھی اعتبار کی ہمت نہیں رہی - ق - کس کس گلی نہ لے گئی آشفتگی ہمیں کس کس نگر میں درد کی شہرت نہیں رہی ویران اب بھی رہتا ہے عالم خیال کا تنہائیوں میں پہلی سی وحشت نہیں رہی ہر شام اب بھی...
  9. ظہیراحمدظہیر

    ہر روز تازہ حادثہ جب ہو گیا کہیں

    ہر روز تازہ حادثہ جب ہو گیا کہیں تھک ہار کر ضمیر مرا سوگیا کہیں کھولی تھی جس میں آنکھ جوانی کے خواب نے وہ رَت جگوں کا شہر مرا کھوگیا کہیں کچھ دیر کو ملے تھے سر ِراہ ِاحتیاج پھر یوں ہوا کہ میں کہیں ، اور وہ گیا کہیں اُگتی ہے کشتِ ذات میں مایوسیوں کی پود کچھ خواہشوں کے بیج...
  10. ظہیراحمدظہیر

    البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

    البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے بھولے ہوئے کچھ نامے ، بھلائے ہوئے کچھ نام کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل...
  11. ظہیراحمدظہیر

    بس بہت ہوگئے نیلام ، چلو لوٹ چلو

    بس بہت ہوگئے نیلام ، چلو لوٹ چلو اتنے ارزاں نہ کرو دام ، چلو لوٹ چلو نہ مداوا ہے کہیں جن کا ، نہ امیدِ قرار ہر جگہ ہیں وہی آلام ، چلو لوٹ چلو معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات اس سے پہلے کہ ڈھلے شام ، چلو لوٹ چلو ماہِ نخشب سے یہ چہرے ہیں نظر کا دھوکا چاند اصلی ہے سرِ بام ،...
  12. ظہیراحمدظہیر

    ہر گام اُس طرف سے اشارہ سفر کا تھا

    ہر گام اُس طرف سے اشارہ سفر کا تھا منزل سے دلفریب نظارہ سفر کا تھا جب تک امید ِ منزل ِ جاناں تھی ہمقدم دل کو ہر اک فریب گوارا سفر کا تھا رہبر نہیں نصیب میں شاید مرے لئے جو ٹوٹ کر گرا ہے ، ستارہ سفر کا تھا رُکنے پہ کر رہا تھا وہ اصرار تو بہت مجبوریوں میں اُس کی...
  13. ظہیراحمدظہیر

    دل کو ٹٹولئے ، کوئی ارمان ڈھونڈئیے

    دل کو ٹٹولئے ، کوئی ارمان ڈھونڈئیے پھر سے کسی نظرمیں پرستان ڈھونڈئیے یونہی گزر نہ جائے یہ موسم شباب کا آرائشِ حیات کا سامان ڈھونڈیئے کب تک گلاب ہاتھ میں لیکر پھریں گے آپ موسم بہت شدید ہے گلدان ڈھونڈئیے دیوار ہی گری ہے ، یہ بازو نہیں گرے ملبہ اٹھا کے سائے کا امکان ڈھونڈیے...
  14. ظہیراحمدظہیر

    ہوائے مہر ومحبت سوادِ جاں سے چلے

    ہوائے مہر ومحبت سوادِ جاں سے چلے فصیلِ درد گرائے جہاں جہاں سے چلے ہوا ہے شہر میں دستورِ مصلحت کا نفاذ کوئی تو رسمِ جنوں بزمِ عاشقاں سے چلے وصال و ہجر کے موسم گزرچکے ہیں سبھی سو آج ہم بھی تری بزمِ امتحاں سے چلے وہ مرحلے تری جانب جو طے کئے تھے کبھی بُھلا کے ہم تری خاطر لو درمیاں سے چلے فرازِ...
  15. ظہیراحمدظہیر

    خواب آنکھوں میں کئے ایسے کسی نے روشن

    خواب آنکھوں میں کئے ایسے کسی نے روشن بحر ِ ظلمت میں رواں جیسے سفینے روشن چند لمحے جو ترے نام کے مل جاتے ہیں روز اُن کے دم سے ہیں مرے سال مہینے روشن کسی جلوے کی کرامت ہے یہ چشم ِ بینا کسی دہلیز کا احسان جبین ِ روشن میرے اشکوں میں عقیدت کے جہاں ہیں آباد آنکھ میں رہتے ہیں کچھ مکّے مدینے روشن...
  16. ظہیراحمدظہیر

    ورثہٴ درد ہے تنہائی چھپالی جائے

    ورثہٴ درد ہے تنہائی چھپالی جائے اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگالی جائے اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھالی جائے اپنی رفتار سے اب آوٴ گزاریں دن رات وقت کے ہاتھ سے زنجیر چھڑالی جائے آنکھ بھر آئے کسی کی ، نہ...
  17. ظہیراحمدظہیر

    لَو چراغوں کی بہت کم ہے خدا خیر کرے

    لَو چراغوں کی بہت کم ہے خدا خیر کرے بادِ صرصر بڑی برہم ہے خدا خیر کرے سرِ تکیہ کوئی ہمدم بھی نہیں آج کی شب آج تو درد بھی پیہم ہے خدا خیر کرے لذّتِ دردِ نہاں سے نہیں واقف جو ذرا وہ مرا چارہ گرِ غم ہے خدا خیر کرے خوئے لغزش بھی نہیں جاتی مرے رہبر کی جادہء راہ بھی پُرخم ہے خدا خیر کرے جانے...
  18. ظہیراحمدظہیر

    زندگی دشتِ انا ہے یہاں کس کا سایا

    زندگی دشتِ انا ہے یہاں کس کا سایا اپنے سائے کے علاوہ نہیں ملتا سایا دور جائیں جوشجرسے تو جھلس جانے کا ڈر چھاؤں میں بیٹھیں تو اپنا نہیں بنتا سایا بڑھ گئی میری تھکن اور بھی اے شہر ِ امان آزما کر تری دیوار کا دیکھا سایا عکس شیشے کے گھروں میں نظر آتے ہیں ہزار دھوپ آجائے...
  19. ظہیراحمدظہیر

    وہ بھی بدل کے رنگ فضاؤں میں ڈھل گیا

    وہ بھی بدل کے رنگ فضاؤں میں ڈھل گیا مٹی کا آدمی تھا ، ہواؤں میں ڈھل گیا لفظوں سے تھا بنا ہوا شاید وہ شخص بھی اک غم ملا تو کیسی صداؤں میں ڈھل گیا خوفِ شکستِ عشق بنا ہر درد کا علاج اک زہر تھا جو کتنی دواؤں میں ڈھل گیا سینے میں جب جلالیا شعلہ چراغ نے مٹی کا ٹھیکرا تھا ، شعاعوں میں ڈھل...
  20. ظہیراحمدظہیر

    مٹی سے پیار کر تو نکھر آئے گی زمین

    مٹی سے پیار کر تو نکھر آئے گی زمین دامن میں بھر کے اپنے ثمر آئے گی زمین نیچے اتر خلاؤں سے لوگوں کے دکھ سمیٹ شمس و قمرسے بڑھ کے نظر آئے گی زمین کشتی کے آسرے کو ڈبو کر تو دیکھ تُو پانی کے درمیان اُبھر آئے گی زمین بٹ جائیں گی محبتیں لوگوں کیساتھ ساتھ روٹی کے مسئلے میں اگر آئے گی...
Top