خواب آنکھوں میں کئے ایسے کسی نے روشن

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خواب آنکھوں میں کئے ایسے کسی نے روشن
بحر ِ ظلمت میں رواں جیسے سفینے روشن

چند لمحے جو ترے نام کے مل جاتے ہیں روز
اُن کے دم سے ہیں مرے سال مہینے روشن

کسی جلوے کی کرامت ہے یہ چشم ِ بینا
کسی دہلیز کا احسان جبین ِ روشن

میرے اشکوں میں عقیدت کے جہاں ہیں آباد
آنکھ میں رہتے ہیں کچھ مکّے مدینے روشن

ہاتھ محنت کے ملیں ، آنکھ محبت کی اگر
تبھی کرتی ہے زمین اپنے خزینے روشن

یوں تو دنیا نے جلائے کئی پانی پہ چراغ
دیپ کاغذ پہ کئے ایک ہمی نے روشن

شب کدہ رشکِ چراغاں ہے کہ جس میں ہر سُو
ہوگئے تیری محبت کے قرینے روشن

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۶​

 
واہ واہ، کیا خوبصورت کہا ہے۔
ہاتھ محنت کے ملیں ، آنکھ محبت کی اگر
تبھی کرتی ہے زمین اپنے خزینے روشن
کیا کہنے
یوں تو دنیا نے جلائے کئی پانی پہ چراغ
دیپ کاغذ پہ کئے ایک ہمی نے روشن
 

ابن رضا

لائبریرین
ماشاءاللہ بہت خوب ظہیر صاحب۔ بہت سی داد قبول کیجیے۔ سوائے مکے مدینے میں جمع کا صیغہ استعمال کرنے کے کہ ان دونوں کی نسبت جس طرف ہے ان کی جمع ممکن ہی نہیں۔:) اس ایک اختلاف کے لیے معذرت

مزید بحیثیت مبتدی سوال ہے کہ قوافی میں ایطا محسوس ہو رہا ہے؟ اشکال دور فرما دیجیے

سر الف عین
 
آخری تدوین:

سارہ خان

محفلین
خواب آنکھوں میں کئے ایسے کسی نے روشن​
بحر ِ ظلمت میں رواں جیسے سفینے روشن
ہاتھ محنت کے ملیں ، آنکھ محبت کی اگر​
تبھی کرتی ہے زمین اپنے خزینے روشن​
یوں تو دنیا نے جلائے کئی پانی پہ چراغ​
دیپ کاغذ پہ کئے ایک ہمی نے روشن

بہت ہی خوب ۔۔۔ :applause:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاءاللہ بہت خوب ظہیر صاحب۔ بہت سی داد قبول کیجیے۔ سوائے مکے مدینے میں جمع کا صیغہ استعمال کرنے کے کہ ان دونوں کی نسبت جس طرف ہے ان کی جمع ممکن ہی نہیں۔:) اس ایک اختلاف کے لیے معذرت

مزید بحیثیت مبتدی سوال ہے کہ قوافی میں ایطا محسوس ہو رہا ہے؟ اشکال دور فرما دیجیے

سر الف عین

ابن رضا بھائی ۔ ایطا نہیں ہے ۔ اس غزل میں دو چالبازیاں یا حیلے استعمال کئے ہیں قوافی کے سلسلے میں ۔
مطلع کو دیکھئے ۔ سفینے کا حرفِ روی نون ہے لیکن پہلے مصرع میں کسی نے کا قافیہ استعمال ہو ا ہے ۔ یہاں کسی کے ی کو حرفِ روی ٹھہرا کر نے کو ردیف میں داخل کردیا ہے ۔ چنانچہ بعد کے تمام قوافی میں نے ردیف کا حصہ ہے ۔ قوافی دراصل کسی ، سفی ، مہی ، ہمی ، مدی وغیرہ ٹھہریں گے ۔ اس طرح کی مثالیں غالب کے ہاں موجود ہیں جیسے برا نہ ہوا اور دوا نہ ہوا کا قافیہ روانہ ہوا ۔

اس غزل میں جس شعر کا قافیہ قابلِ اعتراض ہونا چاہیئے وہ یہ ہے:
کسی دہلیز کا احسان جبین ِ روشن

یہاں قافیہ تو جبی ہے لیکن ردیف نے کے بجائے نِ ہے ۔ میں نے اسے صوتی ردیف کے طور پر استعمال کیا ہے کیونکہ صوتی طور پر نون بہ اضافت نے کے برابر ہوتا ہے ۔ اسے میری بدعت سمجھ لیجئے ۔ :) ۔ قافیہ میں کشادگی کا قائل ہوں ۔ اس پر کچھ کام بھی آہستہ آہستہ کر رہا ہوں ۔ شاید کوئی کام کی بات نکل آئے ۔

جہاں تک بات مکے اور مدینے والے شعر کی ہے ۔ یہاں جمع شہروں کی استعمال ہوئی ہے اور بطور علامت یا استعارہ استعمال ہوئی ہے ۔ مکے اور مدینے کی نسبت
جن دو ذاتوں کی طرف ہے ان کی جمع کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس شعر میں ان کی بات کی گئی ہے۔ ان دو شہروں کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے ان عقیدت بھرے آنسوؤں کیلئے کہ جو میری آنکھوں میں آباد ہیں۔ یعنی ایک ایک آنسو میں ایک شہر ِ عقیت آباد ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ امید ہے وضاحت ہو گئی ہو گی ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
آپ کی وضاحت کے لے سپاسگزار ہوں۔ تاہم میرا نکتہ ابھی بھی مزید توجہ کا طالب ہے. جو مثال آپ نے دی اس غزل کا مطلع ذیل میں ہے

درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

نکتہ یہ ہے کہ غزل کے مطلع میں روی کا اعلان اور اتحاد مطلوب ہوتا ہے جوکہ یہاں الف کی صورت میں موجود ہے۔ اب باقی ابیات میں صرف الف بطور اصلی یا وصلی روی لانا مقصود ہے تو باقی ابیات میں اگر روانہ وغیرہ لایا جاتا ہے تو وہ عین قاعدے کے مطابق ہے مگر مطلع میں ایسی کوئی مثال اساتذہ کے ہاں موجود ہو تو میرے لیے اضافہِ علم کا باعث ہوگی۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی وضاحت کے لے سپاسگزار ہوں۔ تاہم میرا نکتہ ابھی بھی مزید توجہ کا طالب ہے. جو مثال آپ نے دی اس غزل کا مطلع ذیل میں ہے

درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

نکتہ یہ ہے کہ غزل کے مطلع میں روی کا اعلان اور اتحاد مطلوب ہوتا ہے جوکہ یہاں الف کی صورت میں موجود ہے۔ اب باقی ابیات میں صرف الف بطور اصلی یا وصلی روی لانا مقصود ہے تو باقی ابیات میں اگر روانہ وغیرہ لایا جاتا ہے تو وہ عین قاعدے کے مطابق ہے مگر مطلع میں ایسی کوئی مثال اساتذہ کے ہاں موجود ہو تو میرے لیے اضافہِ علم کا باعث ہوگی۔

ابن رضا بھائی ۔ پھر کوشش کرتا ہوں کہ یہ بات تفصیل سے بیان کرسکوں ۔
حرفِ روی کا تعین مطلع ہی میں کیا جاتا ہے ۔ اردو غزل میں عام بات ہے کہ مطلع میں حیلے کے ذریعے حرفِ روی کو بدل کر اس کا قائم مقام متعین کردیتے ہیں اور پھر اس بہانے بقیہ ابیات کے لئے قافیہ کشادہ کرلیا جاتا ہے ۔ اکثر افعال اور اسما کو مطلع میں اسی طرح سےباہم لایا جاتا ہے۔

ایطائے جلی معلوم کرنے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ دونوں قوافی کے آخر ی مشترک ٹکڑے کو نکال دیا جائے اور باقی بچنے والے دونوں ٹکڑوں کو دیکھا جائے ۔ اگر وہ دونوں ٹکڑے بامعنی الفاظ ہیں تو ان کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ اور اگر وہ ہم قافیہ نہیں ہیں تو پھر ایطا کا عیب موجود ہے ۔ چانچہ ستم گر اور قلم گر تو درست قوافی ہیں لیکن ستم گر اور گدا گر درست نہیں ۔ لیکن اگر باقی بچنے والے ٹکڑے بامعنی الفاظ نہیں ہیں تو ایطا کا عیب موجود نہیں ۔ میری اس غزل کا مطلع اسی بات کی ایک مثال ہے ۔ کسی نے اور سفینے کا آخری مشترک ٹکڑا نے اگر نکال دیا جائے تو کسی اور سفی باقی بچتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ سفی بامعنی نہیں ہے اس لئے یہ قوافی درست ہیں ۔ یہاں میں نے ایک حیلے سے کسی کے حرفِ روی ی کا سہارا لیکر سفینے کی ی کو قائم مقام روی بنادیا ہے حالانکہ سفینے کا روی نون ہے ۔ اور یہ ساری باتیں آپ بخوبی جانتے ہیں ۔
قافیے کو اس طرح لانا کہ ردیف کا کچھ حصہ بھی لفظِ قافیہ میں آجائے اکثر کے نزدیک محاسنِ کلام میں سے ہے ۔ بہت سارے اساتذہ نے اسے استعمال کیا ہے ۔ چونکہ ایسا قافیہ قاری کے لئے غیر متوقع ہوتا ہے چنانچہ اس کے استعمال سے ایک طرح کا خوشگوار حیرت آمیز تاثر پیدا ہوتا ہے جو شعر کو چمکا دیتا ہے۔ غالب کی ایک مثال اوپر آہی چکی ہے ۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا ایسا مطلع میں بھی کیا جاسکتا ہےیا نہیں ۔ تو بھائی میرا سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں ؟ جب ایسا کرنا بقیہ اشعار مین جائز ہے تو مطلع میں کیوں نہیں ؟ اگر قافیہ میں کشادگی پیدا کرنامقصود ہے تو اس کے استعمال میں کیا قباحت ہے ۔ جہاں تک اساتذہ سے کسی نظیر لانے کا تعلق ہے تو میر کی ایک غزل دیکھئے جس کی ردیف " سے " ہے۔

کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشمِ تر سے
کیا کیا نہ ابر آکر یاں زور زور برسے

دل کی طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
بہتر کیا ہے میں اس عیب کو ہنر سے

اس غزل کے بقیہ اشعارکے آخر میں رہگزر سے اور پَر سے وغیرہ آتے ہیں ۔

میر کے مطلع میں اگرچہ برسے کا حرفِ روی س ہے لیکن پہلے مصرع میں تر لا کر ر کو حرفِ روی ٹھہرا دیا گیا ہے ۔ اور اسی روی کی پابندی بقیہ غزل مین لازم ہے ۔ امید ہے وضاحت ہوگئی ہوگی۔ لیکن بھائی میں اپنی بات آپ تک اگر اب بھی نہ پہنچا سکا ہوں تومعذرت ۔ حکم دیجئے میں پھر حاضر ہوجاؤں گا ۔

ابنِ رضا بھائی ۔ علم قافیہ کچھ تو پیچیدہ ہے ہی لیکن کچھ اس کو پیچیدہ تر بنا بھی دیا ہےہمارے علما نے۔ اکثر کتب میں مبہم بلکہ بعض اوقات متضاد قسم کی باتیں ملتی ہیں ۔ قافیہ کشادہ کئے بغیر اردو غزل کی گاڑی کامیابی سے آگے نہیں چلے گی ۔ اب کہاں تک وہی گنے چنے قافیے ردیف بدل بدل کر استعمال ہوتے رہیں گے؟ افعال کو تو قافیے سے دیس نکالا ملا ہوا ہے۔ جب تک مطلع میں کوئی حیلہ نہ استعمال کیا جائے افعال کو قوافی بنانا محال ہے ۔ نئے لکھاری تو قافیے کی اس گمبھیرصورتحال سے گھبرا کر دور بھاگتے ہیں ۔ میری رائے میں علم قافیہ کی تسہیل اور تجدید بہت ضروری ہے ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بھائی ۔ پھر کوشش کرتا ہوں کہ یہ بات تفصیل سے بیان کرسکوں ۔
حرفِ روی کا تعین مطلع ہی میں کیا جاتا ہے ۔ اردو غزل میں عام بات ہے کہ مطلع میں حیلے کے ذریعے حرفِ روی کو بدل کر اس کا قائم مقام متعین کردیتے ہیں اور پھر اس بہانے بقیہ ابیات کے لئے قافیہ کشادہ کرلیا جاتا ہے ۔ اکثر افعال اور اسما کو مطلع میں اسی طرح سےباہم لایا جاتا ہے۔

ایطائے جلی معلوم کرنے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ دونوں قوافی کے آخر ی مشترک ٹکڑے کو نکال دیا جائے اور باقی بچنے والے دونوں ٹکڑوں کو دیکھا جائے ۔ اگر وہ دونوں ٹکڑے بامعنی الفاظ ہیں تو ان کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ اور اگر وہ ہم قافیہ نہیں ہیں تو پھر ایطا کا عیب موجود ہے ۔ چانچہ ستم گر اور قلم گر تو درست قوافی ہیں لیکن ستم گر اور گدا گر درست نہیں ۔ لیکن اگر باقی بچنے والے ٹکڑے بامعنی الفاظ نہیں ہیں تو ایطا کا عیب موجود نہیں ۔ میری اس غزل کا مطلع اسی بات کی ایک مثال ہے ۔ کسی نے اور سفینے کا آخری مشترک ٹکڑا نے اگر نکال دیا جائے تو کسی اور سفی باقی بچتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ سفی بامعنی نہیں ہے اس لئے یہ قوافی درست ہیں ۔ یہاں میں نے ایک حیلے سے کسی کے حرفِ روی ی کا سہارا لیکر سفینے کی ی کو قائم مقام روی بنادیا ہے حالانکہ سفینے کا روی نون ہے ۔ اور یہ ساری باتیں آپ بخوبی جانتے ہیں ۔
قافیے کو اس طرح لانا کہ ردیف کا کچھ حصہ بھی لفظِ قافیہ میں آجائے اکثر کے نزدیک محاسنِ کلام میں سے ہے ۔ بہت سارے اساتذہ نے اسے استعمال کیا ہے ۔ چونکہ ایسا قافیہ قاری کے لئے غیر متوقع ہوتا ہے چنانچہ اس کے استعمال سے ایک طرح کا خوشگوار حیرت آمیز تاثر پیدا ہوتا ہے جو شعر کو چمکا دیتا ہے۔ غالب کی ایک مثال اوپر آہی چکی ہے ۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا ایسا مطلع میں بھی کیا جاسکتا ہےیا نہیں ۔ تو بھائی میرا سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں ؟ جب ایسا کرنا بقیہ اشعار مین جائز ہے تو مطلع میں کیوں نہیں ؟ اگر قافیہ میں کشادگی پیدا کرنامقصود ہے تو اس کے استعمال میں کیا قباحت ہے ۔ جہاں تک اساتذہ سے کسی نظیر لانے کا تعلق ہے تو میر کی ایک غزل دیکھئے جس کی ردیف " سے " ہے۔

کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشمِ تر سے
کیا کیا نہ ابر آکر یاں زور زور برسے

دل کی طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
بہتر کیا ہے میں اس عیب کو ہنر سے

اس غزل کے بقیہ اشعارکے آخر میں رہگزر سے اور پَر سے وغیرہ آتے ہیں ۔

میر کے مطلع میں اگرچہ برسے کا حرفِ روی س ہے لیکن پہلے مصرع میں تر لا کر ر کو حرفِ روی ٹھہرا دیا گیا ہے ۔ اور اسی روی کی پابندی بقیہ غزل مین لازم ہے ۔ امید ہے وضاحت ہوگئی ہوگی۔ لیکن بھائی میں اپنی بات آپ تک اگر اب بھی نہ پہنچا سکا ہوں تومعذرت ۔ حکم دیجئے میں پھر حاضر ہوجاؤں گا ۔

ابنِ رضا بھائی ۔ علم قافیہ کچھ تو پیچیدہ ہے ہی لیکن کچھ اس کو پیچیدہ تر بنا بھی دیا ہےہمارے علما نے۔ اکثر کتب میں مبہم بلکہ بعض اوقات متضاد قسم کی باتیں ملتی ہیں ۔ قافیہ کشادہ کئے بغیر اردو غزل کی گاڑی کامیابی سے آگے نہیں چلے گی ۔ اب کہاں تک وہی گنے چنے قافیے ردیف بدل بدل کر استعمال ہوتے رہیں گے؟ افعال کو تو قافیے سے دیس نکالا ملا ہوا ہے۔ جب تک مطلع میں کوئی حیلہ نہ استعمال کیا جائے افعال کو قوافی بنانا محال ہے ۔ نئے لکھاری تو قافیے کی اس گمبھیرصورتحال سے گھبرا کر دور بھاگتے ہیں ۔ میری رائے میں علم قافیہ کی تسہیل اور تجدید بہت ضروری ہے ۔

بہت نوازش جناب۔ بات واضح ہو گئی کہ مطلع میں" کسی" کا "ی" اصلی روی ہے اور سفینے کا "ی" وصلی روی شمار کیا گیا اسی رعایت کو آگے استعمال کیا گیا بہت عمدہ۔ امید ہے کہ اس طرح کے اشکال ہم سے مبتدیوں کو نئی راہیں سجھانے میں معاون ثابت ہوتے رہیں گے اور آپ کو ناگوار نہ گزرے ہوں گے ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت نوازش جناب۔ بات واضح ہو گئی کہ مطلع میں" کسی" کا "ی" اصلی روی ہے اور سفینے کا "ی" وصلی روی شمار کیا گیا اسی رعایت کو آگے استعمال کیا گیا بہت عمدہ۔ امید ہے کہ اس طرح کے اشکال ہم سے مبتدیوں کو نئی راہیں سجھانے میں معاون ثابت ہوتے رہیں گے اور آپ کو ناگوار نہ گزرے ہوں گے ۔

ابن رضا بھائی ۔ اس میں ناگوار گزرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ یہ تو علمی اور تکنیکی گفتگو ہے اور اس میں کسی بات کا برا ماننا کیسا۔ بس وقت کی قلت مارےڈالتی ہے ورنہ کوشش تو کرتا ہوں کہ شمع سے شمع جلنے کا عمل جاری رہے ۔ اب قافیہ پر گفتگو ہو ہی رہی ہے تو میں ایک اشکال آپ کا اور دور کرتا چلوں۔ اصلی اور وصلی روی کی جو اصطلاحات آپ نے استعمال کی ہیں وہ یہاں بے محل ہیں ۔ ان اصطلاحات سے مراد کچھ اور ہوتا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں حرفِ روی عمومًا کسی بھی مفرد لفظ کا آخری حرف ہوتا ہے ۔ مثلًا کتاب ، یار ، چل ، سزا و غیرہ میں حروفِ روی بالترتیب ب ، ر ، ل اور الف ہیں ۔ ان مفرد الفاظ میں موجود تمام حروف کواصطلاحًا اصلی حروف کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ حروف جو اصل لفظ میں موجود ہیں۔ اب اردو میں اکثر اوقات ان مفرد الفاظ کے آگے ایک یا دو یا تین حروف کا اضافہ کرکے ان اصل الفاظ سے مشتقات بنائے جاتے ہیں ۔ مثلًا محولہ بالا الفاظ سے: کتابوں ، کتابیں ، یاری ، یاریاں ، چلا، چلی ، چلیں ، سزاؤں ، سزائیں وغیرہ ۔ ان مشتقات میں جو حرف یا حروف اصل لفظ کے آگے لگائے گئے ہیں وہ زائد حروف کہلاتے ہیں ۔
اردو قافیہ میں حرفِ روی کے بعد ایک سے لیکر تین تک زائد حروفِ قافیہ آسکتے ہیں ۔ اصطلاح میں حرفِ روی کے فورًا بعد آنے والا حرفِ قافیہ حرفِ وصل کہلاتا ہے ۔ جیسے یاری کا ی اور چلا کا الف۔ فرض کیجئے اگر کسی مطلع کے قوافی سزا اور چلا ہیں ۔ تو یہاں حرفِ روی الف قرار پاگیا ۔ سزا کا الف اصلی ہے کیونکہ یہ اصل لفظ کا حصہ ہے ۔ اس لئے اسے اصلی روی کہا جائے گا ۔ لیکن چلا کا الف اصل لفظ کا حصہ نہیں بلکہ حرفِ روی( ل )کے بعد آنیوالا حرفِ وصل ہے ۔ اس لئے اس الف کو وصلی الف کہا جائے گا ۔ مطلع میں ایک حرفِ روی اصلی اور ایک وصلی لایا جاسکتا ہے ۔ کلی اور بجھی کو مطلع میں ہم قافیہ کیا جاسکتا ہے گو کہ ان دو الفاظ کے اصل حروفِ روی مختلف ہیں ۔ چنانچہ اس حیلے کے ذریعے حرفِ وصل کو حرفِ روی بنالیا جاتا ہے ۔ امید ہے یہ چھوٹا سا نکتہ کسی کام آسکے گا۔


 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بھائی ۔ اس میں ناگوار گزرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ یہ تو علمی اور تکنیکی گفتگو ہے اور اس میں کسی بات کا برا ماننا کیسا۔ بس وقت کی قلت مارےڈالتی ہے ورنہ کوشش تو کرتا ہوں کہ شمع سے شمع جلنے کا عمل جاری رہے ۔ اب قافیہ پر گفتگو ہو ہی رہی ہے تو میں ایک اشکال آپ کا اور دور کرتا چلوں۔ اصلی اور وصلی روی کی جو اصطلاحات آپ نے استعمال کی ہیں وہ یہاں بے محل ہیں ۔ ان اصطلاحات سے مراد کچھ اور ہوتا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں حرفِ روی عمومًا کسی بھی مفرد لفظ کا آخری حرف ہوتا ہے ۔ مثلًا کتاب ، یار ، چل ، سزا و غیرہ میں حروفِ روی بالترتیب ب ، ر ، ل اور الف ہیں ۔ ان مفرد الفاظ میں موجود تمام حروف کواصطلاحًا اصلی حروف کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ حروف جو اصل لفظ میں موجود ہیں۔ اب اردو میں اکثر اوقات ان مفرد الفاظ کے آگے ایک یا دو یا تین حروف کا اضافہ کرکے ان اصل الفاظ سے مشتقات بنائے جاتے ہیں ۔ مثلًا محولہ بالا الفاظ سے: کتابوں ، کتابیں ، یاری ، یاریاں ، چلا، چلی ، چلیں ، سزاؤں ، سزائیں وغیرہ ۔ ان مشتقات میں جو حرف یا حروف اصل لفظ کے آگے لگائے گئے ہیں وہ زائد حروف کہلاتے ہیں ۔
اردو قافیہ میں حرفِ روی کے بعد ایک سے لیکر تین تک زائد حروفِ قافیہ آسکتے ہیں ۔ اصطلاح میں حرفِ روی کے فورًا بعد آنے والا حرفِ قافیہ حرفِ وصل کہلاتا ہے ۔ جیسے یاری کا ی اور چلا کا الف۔ فرض کیجئے اگر کسی مطلع کے قوافی سزا اور چلا ہیں ۔ تو یہاں حرفِ روی الف قرار پاگیا ۔ سزا کا الف اصلی ہے کیونکہ یہ اصل لفظ کا حصہ ہے ۔ اس لئے اسے اصلی روی کہا جائے گا ۔ لیکن چلا کا الف اصل لفظ کا حصہ نہیں بلکہ حرفِ روی( ل )کے بعد آنیوالا حرفِ وصل ہے ۔ اس لئے اس الف کو وصلی الف کہا جائے گا ۔ مطلع میں ایک حرفِ روی اصلی اور ایک وصلی لایا جاسکتا ہے ۔ کلی اور بجھی کو مطلع میں ہم قافیہ کیا جاسکتا ہے گو کہ ان دو الفاظ کے اصل حروفِ روی مختلف ہیں ۔ چنانچہ اس حیلے کے ذریعے حرفِ وصل کو حرفِ روی بنالیا جاتا ہے ۔ امید ہے یہ چھوٹا سا نکتہ کسی کام آسکے گا۔


بہت نوازش قبلہ، خوش رہیں۔ مزید یہ بھی فرما دیجیے کہ سفی میں ی جسے بطور روی شمار کیا گیا ہے تو اس کے لیے کیا اصطلاح مستعمل ہے کہ اسے وصلی شمار نہ کریں تو کیا کہا جائے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت نوازش قبلہ، خوش رہیں۔ مزید یہ بھی فرما دیجیے کہ سفی میں ی جسے بطور روی شمار کیا گیا ہے تو اس کے لیے کیا اصطلاح مستعمل ہے کہ اسے وصلی شمار نہ کریں تو کیا کہا جائے۔
ابن رضا بھائی ایسا قافیہ جس میں ردیف کا کچھ حصہ بھی شامل کرلیا جائے اصطلاحًا قافیہ معمولہ کہلاتا ہے ۔ میں اصطلاحات کے استعمال سے عموما گریز کرتا ہوں کہ اس علم کے پیچیدہ ہونے کی ایک وجہ یہی اصطلاحات ہیں ۔ اصل بات تو قافیے کے بنیادی تصور اور حروف و حرکات کے تعملات کو سمجھنے کی ہے کہ یہی کام کی چیز ہے۔
 
Top