ساغر صدیقی برگشتہء یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے - ساغر صدیقی

کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر صدیقی)

برگشتہء یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے

تاحّد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوئی ہے

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے

ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل ناداں سے کچھ بھول ہوئی ہے

حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد! ترے عرفاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! بہت عمدہ۔ ساغر کی بہت خوبصورت غزل ہے۔ بچپن میں میں ساغر کو شاعر کی بجائے ایک فقیر سمجھا کرتا تھا کیونکہ ان کا حلیہ بالکل فقیروں والا ہوتا تھا۔ شکریہ کاشفی صاحب۔
 
Top