نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نبیل

تکنیکی معاون
میری گزارش ہے کہ صرف موضوع سے متعلق گفتگو کی جائے۔ دوبارہ کسی نے ذاتی نوعیت کے ریمارکس دیے تو انہیں حذف کر دیا جائے گا۔
 

dxbgraphics

محفلین
ذاتی نوعیت کے سوال ہم سے بھی پوچھے گئے لیکن ہم نے خلوص دل سے اس کا جواب دیا ہے
انشاء اللہ موضوع سے متعلق ہی گفتگو ہوگی اور اخلاق کے دائرے میں ہی ہوگی۔
منتظمین کی فراخدلی ہے کہ اب تک اس موضوع کو مقفل نہیں کیا
 

باذوق

محفلین
کیا مولا علی واحدانسان تھے جنہوں نے غزوہ خیبر پر متعہ کی حرمت سنی؟

اس جھوٹی روایت کے گھڑنے والے کا جھوٹ یہاں سے بھی پکڑا جاتا ہے کہ خیبر کے موقع پر بہت سے صحابہ نے پالتو گدھوں کے حرام ہونے کا حکم تو رسول ص سے سنا، مگر کسی نے عقد متعہ کو حرام نہ بتلایا۔ دیکھئیے صحابہ کی لسٹ جو صرف اور صرف گدھے کی گوشت کی بات کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کوئی متعہ النساء کے حرام ہونے کی بات نہیں کرتا۔
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔

عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔

کیا یہ آپ کا دعویٰ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]
صرف ایک ہی صحابی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور کسی بھی دیگر صحابی سے روایت نہیں کی گئی ہے؟؟
صرف ہاں یا نہ میں جواب دیجئے گا۔

اور ابو عوانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خیبر میں صرف پالتو گدھوں کے گوشت کا ذکر تھا، متعہ النساء کا نہیں:
وقال أبو عوانة في صحيحه سمعت أهل العلم يقولون : معنى حديث علي أنه نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر ، وأما المتعة فسكت عنها
ترجمہ: اور ابو عوانہ اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو یہی کہتے سنا ہے کہ خیبر والی حدیث میں علی ابن ابی طالب نے صرف پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کا ذکر کیا تھا اور اس میں عقد المتعہ کے مسئلے پر خاموشی تھی (یعنی کوئی ذکر نہ تھا)
حوالے:
1۔ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 145
2۔ نیل الاوطار، جلد 6، صفحہ 146
3۔سنن بیہقی، جلد 7، صفحہ 201
[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]
والی روایت کیا آپ نے بذات خود [arabic]يعقوب بن إسحاق أبي عوانة[/arabic] کی [arabic]مستخرج أبي عوانة[/arabic] میں چیک کی ہے اور وہاں آپ کو ایسی کوئی روایت نہیں ملی جسے [arabic]يعقوب بن إسحاق[/arabic] نے "صحیح" یا حسن کا درجہ دیا ہو ؟؟
صرف ہاں یا نہ میں جواب دینے کی مہربانی کیجئے گا۔
 

dxbgraphics

محفلین
آپ کو ہماری کتابوں میں جو نہیں ہوتا وہ نظر آ جاتا ہے (جیسا کہ آپ نے امام خمینی پر جھوٹ باندھا اور تصحیح کرنے پر اس سے بڑا جھوٹ باندھا کہ کتاب کے سکین سے آپ یہ الزام لگا رہے ہیں)
مگر آپ کی کتابیں جن مسلمانوں کی آپس کی جنگوں سے بھری ہوئی ہے وہ آپ کو نظر نہیں آتیں۔ یا عجب۔۔۔۔ بلکہ گرافک بھیا، آپ کو ہم اتنا اچھی طرح جان گئے ہیں کہ اس رویے پر حیرت بھی ہونا ختم ہو گئی ہے۔

اور کیا وہ مسلمان کنیزیں آپکی دینی و اسلامی بہنیں نہ تھیں جو کہ 1300 سالہ تاریخ میں مستقل طور پر عارضی تعلقات کے ساتھ آگے اور آگے بکتی رہیں؟ کیا اُن کے لیے آپکی غیرت و حمیت ختم ہو گئی ہے کہ اُن سے 1300 سالہ زنا کاری (بقول آپکے) پر آپکی کوئی رگ غیرت نہیں پھڑکتی؟ تو کہاں کہاں بھاگیں گے اور کہاں کہاں تک بگلے کی طرح اپنی اس 1300 سالہ تاریخ سے چھپنے کے لیے اپنا سر اپنی بغل میں دیے رہیں گے؟؟؟



اس لیے آپ کو جواب نہیں ملا کیونکہ آپ کو یہ سوال پوچھنے کا حق ہی نہیں کہ آپ کا مقصد صرف استہزاء ہے۔
یہاں پر صاف صاف طور پر اصول بتا دیے گئے ہیں کہ ہاشمی سادات بیوہ عورتوں پر مکمل طور پر حلال ہے کہ اگر حالات ایسے ہیں کہ اُن کی کثیر اولاد کے باعث یا دیگر کسی وجوہات کی بنا پر نکاح دائمی نہیں ہو پا رہا (جیسا کہ پاکستان میں سالوں تک ایسی بیوہ عورتیں نکاح کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں) تو وہ عقد المتعہ کر سکتی ہیں۔ کیا اس جواب کے بعد ذاتیات پر اترنے کی کوئی ضرورت تھی؟ نہیں، ضرورت تھی کیونکہ شریر نفس اس پر ابھار رہا ہے۔
پتا نہیں کیسے انسان ہیں آپ۔ اگر لوگ آ آ کر آپ کی نوجوان بہن سے سوال کرنے لگیں کہ کیا وہ کسی شادی شدہ شخص سے دوسری یا تیسری شادی کرے گی تو کیا آپ کو اپنی بہن سے ایسے سوالات کیے جانے گوارا ہیں؟
اور رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ شرم و حیا عورت کا زیور ہے اور جب شرعی مسائل بتانے کا مسئلہ آیا تو یہ فرض و لازم ہیں اور حضرت عائشہ نے ایسے شرعی مسائل مرد صحابہ کو بیان کیے۔ مگر جب ذاتیات کی بات آئی اور رسول اللہ ص کو پتا چلا کہ لڑکیاں حیا کی وجہ شادی کا نام سن کر بول تک نہیں پاتیں تو آپ ص نے انکی خاموشی کو اقرار قرار دیا۔ کاش آپ اپنے اس شریر نفس کو قابو میں رکھیں اور دوسروں کی ماں بہنوں کی عزت کریں کہ اُن سے آپ ایسے ذاتی سوالات نہیں پوچھ سکتے بلکہ ایسے میں صرف "اصول" بیان ہوتے ہیں ذاتیات نہیں۔

محترمہ میں ہر ماں بہن کی عزت کرتا ہوں اسی لئے اس فعل متعہ کو کسی بھی ماں بہن بیٹی کے لئے حلال ہرگز نہیں مانتا۔
میرا سوال موضوع پر ہی تھا لیکن جب موضوع کے حولے سے آپ کی ذات پر سوال آیا تو آپ نے یہ کہہ کر فرار اختیار کر لی کہ دوسرے کی ماوں بہنوں کی عزت کریں ۔
یعنی آپ خود اپنے عیال کے لئے اس کو نہیں برداشت کر سکتیں لیکن اس کو حلال کرنے کے لئے ان کتابوں کا سہارا لے رہی ہیں جن پر آپ اعتقاد نہیں رکھتیں۔
شکریہ
 

باذوق

محفلین
میرے خیال میں تو اس موضوع پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ اب نئی تحقیق تو ہونے سے رہی۔
شمشاد بھائی ! کم سے کم میں تو یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا ، ان شاءاللہ۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔
احادیث کی تحقیق کے نام پر غلط تراجم اور جھوٹ و دھوکہ دہی کے سہارے جو خودساختہ نظریات پھیلائے گئے ہیں ، اللہ نے توفیق دی تو وقت آنے پر ان کی حقیقت تمام حوالوں اور ثبوتوں کیساتھ ضرور بتاؤں گا ، ان شاءاللہ !!
 

باذوق

محفلین
اب صحابی عمران بن حصین کی گواہی دیکھیں:
حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (عمر ابن الخطاب) نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔

اگر آپ اس روایت کو عقد المتعہ کے لیے مانیں تو بات ایسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اصرار کریں کہ یہ متعہ الحج کے متعلق ہے تو پھر بھی یہ روایت آپکا گلا چھوڑنے والی نہیں اور آپکو بتلانا ہو گا کہ قرآن کی یہ مخالفت کی گئی اور پھر اس صحابی عمران بن حصین نے تلوار نہیں نکالی؟ کیوں؟
روایت آپکی مگر اس کیوں کا جواب کبھی آپ نہیں دیتے اور الٹا ہم پر برس پڑتے ہیں کہ ہم جواب دیں۔ اور ہم جو جواب دیں اس کا آپ استہزاء کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ یہ تمام تر tactics استعمال کر سکتے ہیں، مگر اپنی جان پھر بھی ان روایتوں سے نہیں چھڑا سکتے اور بہرحال آپکو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ واقعہ ہوا اور صحابہ نے قرآن کی مخالفت ہوتے دیکھی مگر اس پر فورا تلوار نکال کر قتل عام شروع نہیں کر دیا، بلکہ ایسی حالت میں انہوں نے صرف زبان سے ان قرآن مخالف چیزوں کی مخالفت کی اور یہ مخالفت مستقل جاری رکھی اور یہی اسلام کے مفاد میں بہترین تھا بجائے تلواریں نکال کر اسلامی سلطنت میں خانہ جنگی پیدا کرنے کے۔
میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ ان شاءاللہ !
 

S. H. Naqvi

محفلین
شمشاد بھایٔ میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے صرف بحث برائے بحث ہی ہے کہ تاریخ کے فلاں موڑ پر "نقطہ" نہیں ڈالا گیا اور "محرم" تو "مجرم" ہے اور فلاں موڑ پر نقطہ ڈالا گیا تھا، یہ "مجرم" تو اصل میں "محرم" ہے۔۔۔۔۔۔! باقی اس بحث کی وجہ سے ایک کافی وسیع ذ خیرہ علم اکٹھا ہو گیا ہے اب باقی نصیب اور توفیق کی بات ہے کہ کون کیا پاتا ہے۔۔۔۔! لیکن پھر بھی اگر میرے فاضل دوست اس بحث کو مزید پھیلانا چاہیں تو پھر دلایٔل اور رد دلایٔل کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے مگر ذاتیات سے بچ کر۔۔۔۔۔۔۔! اس سے اس مسٔلے کا کم از کم کویٔ پہلو تشنہ نھیں رہے گا اور یہ تھریڈ ایک مکمل اور مربوط شکل اختیار کر لے گا جو اس موضوع کا ہر طرح سے احاطہ کیے ہوئے ہو۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
شوکت بھائی صاحب نے اوپر جتنی روایات نقل کی ہیں، وہ صرف اور صرف ایک صحابی کے متعلق ہیں جسکا تعلق قبیلہ اسلم سے ہے اور انکا نام ماعز ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی اصول نہیں‌ کہ متعہ معاشرے میں رائج ہو تو کوئی زنا نہیں کرتا سوائے شقی القلب کے ؟؟؟

ملاحظہ کیجئے یہ روئتیں‌ جو من لایحضر الفقیہ سے لی گئی ہیںِ۔۔۔۔۔ یہ اس دور کی روائتیں ہیں جب متعہ کو روکنے والا کوئی تھا ؟؟؟

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔ 5016
یونس بن یعقوب نے ابی مریم سے انہوں نے حضرت امام محمد سے روایت کہ ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضرت امیر المومنین کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا پھر وہ پلٹی اور آپ کے منہ کے سامنے آئی کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے دوسری طرف منہ پھیر لیا پھر وہ آپ کے سامنے آئی اور کہا میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اس س ےمنہ پھیر لیا وہ سامنے آئی اور اس نے کہا میں نے زنا کیا تو آپ نے حکم دیا وہ قید کر لی گئی اور وہ حاملہ تھی تو وضع حمل تک ٹھہرے رہے اس کے بعد آپ نے حکم دیا اورا یک گڑھا مقام رحمبہ میں کھودا گیا اور اس کو نئے کپڑے پہنائے گئے اور اس اس گڑھے مییں کمر سے چھاتی تک داخل کر دیا گیا اور رحمبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا اور آپ نے اس کو ایک پتھر مار کر کہا اے اللہ میں تیری کتاب کی تصدیق اور تیرے نبی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے (اسے رجم کر رہا ہوں) پھر قنبر کو حکم دیا اس نے بھی ایک پتھر مارا پھر آپ گھر میں چلے گئے اور قنبر کو حکم دیا کہ اصحاب محمد کو داخلہ کی اجازت دے دو چنانچہ وہ سب لوگ اندر آئے اور ان سب نے ایک ایک پتھر مارا۔۔۔۔۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔5017۔
سعد بن طریف نے اصبغ بن نباتہ سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یا امیر المومنین میں نے زنا کیا ہے آپ علیہ السلام مجھے پاک کر دیں تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اس سے کہا بیٹھ جاؤ۔ پھر آپ نے مجمع کی طرف رخ کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں میں سے کوئی یہ نہیں کر سکتا کہ اس طرح برائیوں کو جس طرح اللہ چھپاتا ہے تم بھی چھپاؤ۔ اتنے میں وہ شخص کھڑا ہوا اور بولا یا امیر المومنین میں نے زنا کیا ہے آپ مجھے پاک کر دیں۔ فرمایا توبہ سے بہتر اور کون سی طہارت ہو سکتی ہے یہ کہہ کر آپ پھر اپنے اصحاب سے باتیں کرنے لگے اتنے میں وہ شخص پھر اٹھا اور بولا یا امیر المومنین میں نے زنا کیا ہے ۔ آپ مجھے پاک کر دیجئے آپ نے فرمایا اے شخص تو تھوڑا بہت قرآن پڑھتا ہے اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اچھا کچھ پڑھو۔ اس نے قرآن پڑھا اور صحیح پڑھا آپ نے فرمایا تم اپنی نماز ، زکوٰۃ کے اندر جو اللہ تعالٰی کے حقوق تم پر لازم ہیں انہیں جانتے ہو اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے مسائل پوچھے اور اس نے صحیح جواب دیئے۔ آپ نے فرمایا اے شخص مجھے کوئی مرض تو لاحق نہیں یا تیرے سر میں درد یا تیرے بدن میں کوئی شے یا تیرے دل میں کوئی غم تو نہیں ہے ؟ اس نے کہا یا امیر المومنین اس میں سے کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے فرمایا تجھ پر وائے ہو واپس جا میں تجھ سے تنہائی میں پوچھوں گا جس طرح اب میں نے سب کے سامنے پوچھا ہے۔ اور اگر تو پھر واپس نہ آیا تو میں تجھے تلاش بھی نہ کراؤں گا۔ پھر آنجناب نے اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا بالکل صحیح حالت میں ہے اس کو کوئی مرض نہیں یہ خیال غلط ہے۔ چنانچہ وہ شخص دوبارہ آپ کے پاس آیا اور عرض کیا یا امیر المومنین میں نے زنا کیا ہے آپ مجھے پاک کر دیجئے ۔ آپ نے فرمایا اگر تو میرے پاس پلٹ کر نہ آتا تو میں تجھے تلاش بھی نہ کراتا لیکن اب میں حکم خدا کو ترک بھی نہ کروں گا جس کا جاری کرنا تجھ پر لازم ہے۔ ۔۔۔۔


اور ظاہر ہے جو خود کو رجم کیلئے پیش کر دے وہ شقی القلب نہیں‌ہوتا ۔۔۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
غزوہ خیبر میں اہل کتاب سے نکاح یا متعہ جاری ہی نہیں ہوا تھا

وہ تو اس کے کافی عرصے بعد بھی جاری نہیں‌ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4588۔
سعدان نے ابی بصیر سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ زن یہودیہ سے نکاح نہیں ہوتا اور نہ زن نصرانیہ سے نکاح ہو گا۔ متعہ کا نکاح ہو یا غیر متعہ کا نکاح۔

متعہ کی حلت ذرا اپنی ہی کتابوں کے آئینے میں‌ دیکھیں۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4584-
حضرت امام رضا نے فرمایا کہ متعہ صرف اسی شخص کے لئے حلال ہے جو اس کی معرفت رکھتا ہو اور جو اس سے جاہل اور ناواقف ہو تو اس کے لئے حرام ہے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4592۔
حفص بن بختری نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کہ ہے ایک ایسے شخص کے متعلق کہ جو ایک پاکیزہ عورت سے متعہ کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس کے گھر والوں کے نزدیک معیوب ہے اس لئے مکروہ ہے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4598۔
جمیل بن صالح نے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ متعہ کے متعلق میرے دل میں کچھ شکوک پیدا ہوگئے ۔ اس لئے میں نے حلف اٹھا لیا کہ تا ابد کوئی نکاح متعہ نہیں کروں گا۔ تو حضرت امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے حکم خدا کی نافرمانی کی تو گنہگار ہو گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا یہ آپ کا دعویٰ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]
صرف ایک ہی صحابی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور کسی بھی دیگر صحابی سے روایت نہیں کی گئی ہے؟؟
صرف ہاں یا نہ میں جواب دیجئے گا۔


[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]
والی روایت کیا آپ نے بذات خود [arabic]يعقوب بن إسحاق أبي عوانة[/arabic] کی [arabic]مستخرج أبي عوانة[/arabic] میں چیک کی ہے اور وہاں آپ کو ایسی کوئی روایت نہیں ملی جسے [arabic]يعقوب بن إسحاق[/arabic] نے "صحیح" یا حسن کا درجہ دیا ہو ؟؟
صرف ہاں یا نہ میں جواب دینے کی مہربانی کیجئے گا۔

یہ طریقہ سوال مناظرانہ طور طریقوں میں آتا ہے اور اس سے مسئلے کو سمجھنے میں کبھی مدد نہیں ملتی۔ بہرحال، جواب ہے

۱۔ نہیں
۲۔ نہیں

اب آپ آگے گفتگو کر سکتے ہیں، مگر یاد رکھئیے گا میں بھی آپ سے اب ایسے سوال کا حق رکھتی ہوں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
متعہ میں عدت میں ہیر پھیر کیا جا سکتا ہے!
من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4599۔
اور یونس بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام رضا سے دریافت کیا کہ میں نے ایک عورت سے متعہ کیا تو ا س کے گھر والوں کو معلوم ہو گیا اور ان لوگوں نے ایک دوسرے شخص سے اس عورت کا نکاح کر دیا اور وہ عورت صالحہ اور نیکوکار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک متعہ کی مدت اور اس کی عدت پوری نہ ہو جائے وہ اپنے شوہر کو اپنے نفس پر قابو نہ دے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کی مدت تو ایک سال کی ہے اور اس کا شوہر اس مدت تک صبر نہیں کر سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا شوہر اللہ سے ڈرے اور اس عورت کےپر جتنے ایام (متعہ ) باقی رہ گئے وہ اسے بخش دے اس لئے کہ وہ بیچاری مصیبت میں مبتلا ہے اور یہ دنیا باہمی صلح و سکون کی جگہ ہے اور مومنین تقیہ میں بسر کر رہے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ اچھا ایام متعہ بخش دے تو پھر وہ عورت کیا کرے آ پ نے فرمایا کہ جب اس کا شوہر اس کے پاس آئے تو اس سے کہہ دے اے جناب میرے گھر والے مجھ پر جھپٹ پڑے مجھ سے اجازت نہیں لی اور بغیر میری اجازت کے میرا نکاح آپ سے کر دیا اور اب میں راضی ہوں آپ مجھ سے اپنا صحیح نکاح کر لیں جو میرے اور آپ کے درمیان ہو (کوئی گواہ اور شاہد نہیں ہو گا)۔
راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے حضرت امام رضا سے عرض کیا کہ ایک عورت متعہ کرتی ہے اور اس کے ایام متعہ پورے ہو جاتے ہیں تو عدہ کی مدت پورے ہونے سے پہلے کسی دوسرے مرد سے نکاح یا متعہ کر سکتی ہے ، آپ نے فرمایا تجھے اس سے کیا مطلب اس کا گناہ اس عورت پر ہے۔

متعہ میں میراث نہیں اور شادی شدہ مر د اپنے ہی شہر میں متعہ کر سکتا ہے!

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4605۔
موسیٰ بن بکر نے زرارہ سے روایت کہ ہے کہ ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر کو فرماتے ہوئے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ متعہ کے عدہ کی مدت پینتالیس دن ہیں اور میں گویا دیکھ رہا تھا کہ حضرت امام محمد باقر اپنے ہاتھوں پر پینتالیس دن گن رہے تھے اور جب مدت پوری ہو جائے تو بغیر طلاق کے وہ دونوں جدا ہو جائیں گے اور اگر وہ چاہے کہ متعہ کی مدت اور بڑھائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہر کی رقم میں تھوڑا یا زیادہ کچھ اور بڑھائے ۔ مہر میں ہر شے ہو سکتی ہے جس پر دونوں راضی ہو جائیں خواہ متعہ ہو خواہ نکاح دائمی۔ اور متعہ میں ان دونوں کے درمیان میراث نہیں ہو گی اگر ان دونوں میں کوئی ایک اس مدت میں مر جائے ۔ اور مرد اگر چاہے تو اپنی عورت ہونے باجود متعہ کر سکتا ہے اگر چہ وہ اپنی عورت کے ساتھ اپنے شہر میں مقیم کیوں نہ رہے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4597۔
محمد بن نعما ن احول نے آنجناب سے دریافت کیا کہ ایک شخص کم از کم کتنے مہر پر متعہ کرے آپ نے فرمایا کم از کم ایک مٹھی گیہوں پر او راس سے کہے کہ تو مجھ سے اپنے نفس کا عقد متعہ کر کتاب خدا اور سنت رسول کے مطابق یہ نکاح زنا نہیں ہو گا اس عہد پر کہ نہ میں تیرا وارث ہوں گا اور نہ تو میری وارث ہو گی اور نہ میں تیرے بچے کا طلب گار ہو ں گا ایک معینہ مدت کے لئے اور اگر میرا جی چاہا تو میں اس مدت کو بڑھا لوں گا اور تو بھی بڑھائے گی۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4614۔
حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا ۔ اے لوگوں اللہ تعالٰی نے تم لوگوں کے لئے عورتوں کی شرمگاہیں تین طرح سے حلال کی ہیں ایک وہ نکاح جو (ایک دوسرے کا ) وارث بنا دے اور یہ قطعی و دائمی ہے اور دوسرا وہ نکاح جس سے کوئی بھی ایک دوسرے کا وارث نہ بنے اور وہ متعہ ہے اور تیسرا تمہاری کنیزیں۔

دارقطنی میں‌ ہے ۔۔۔۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرما دیا تھا کہ یہ ان لوگوں کے لئے تھا کہ جن کے پاس کوئی اور حل نہ تھا۔ اور اس کو منسوخ کر دیا میراث ، طلاق اور عدت کے احکامات نے۔ (دارقطنی)

امام بہیقی لکھتے ہیں امام جعفر رح سے متعہ کے متعلق پوچھا گیا ، انہوں نے کہا یہ زنا ہی کی ایک شکل ہے۔ (بہیقی، سنن الکبری جلد ۷، حیدر آباد) اسی کا ایک حوالہ پچھلی پوسٹ میں‌ اسماعیلی اور زیدی حضرات کی طرف سے دیا جا چکا ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ذہین نشین رہے کہ یہ صحابہ کنوارے نہیں تھے بلکہ شادی شدہ تھے، مگر پھر بھی ان سے تیس راتوں تک خود کو برائی سے بچائے رکھنا ممکن نہ ہو سکا۔

اور یہ تصویر کا دوسرا رخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحابہ شوق عبادت میں خصی ہونے کو تیار!

حضرت انس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ نے نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خفیہ عبادات کا حال پوچھا یعنی جو عبادت آ پ گھر میں کرتے تھے اور پھر ایک نے ان میں سے کہا کہ میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔ کسی نے کہا میں کبھی بچھونے پر نہ سوؤں گا۔ سو حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی یعنی خطبہ پڑھا اور فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں یعنی رات کو اور سو بھیء جاتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں سو جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔
(صحیح مسلم کتاب النکاح حدیث 3403)

حضرت سعد سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعون نے جب عورتوں سے جدا رہنے کا ارداہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات رد کر دی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتے تو ہم سب خصی ہو جاتے۔ (صحیح مسلم کتاب النکاح حدیث 3404)

اور انہی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ہے۔۔

عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ اے جوانوں کے گروہ تم میں سےجو خرچ کی طاقت رکھے وہ نکاح کر لے اس لیے کہ نکاح آنکھوں کو نیچا کر دیتا ہے اور شرمگاہ کو زنا وغیرہ سے بچا دیتا ہے اور جو خرچ کی طاقت نہ رکھے وہ روزہ رکھے گویا یہ اس کے لیے خصی کرنا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب النکاح حدیث 3400)
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اللہ کا پیغام واضح تھا کہ غلاموں اور کنیزوں سے اچھا سلوک کرو، انہیں اپنا جیسا انسان سمجھو، کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔۔۔۔۔ چنانچہ اُسوقت جب لوگوں نے یہ کام کیا اور جن کی تہدید میں یہ آیت نازل ہوئی، اُن پر کوئی حد جاری نہیں کی جاتی بلکہ قرآن فقط کردار کی اصلاح کے لیے نصیحت پر اکتفا کرتا ہے۔

سوہ النور کی اس آیت کا نزول واضح کرتا چلوں صحیح‌مسلم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ اور جو غلام تم سے مکاتبت یعنی مال دیکر پروانہ آزادی کی تحریر چاہیں اگر تم ان میں صلاحیت اور نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ نے جو مال تمکو بخشا ہے اس میں سے انکو بھی دو۔ اور اپنی باندیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو انکو مجبور کرے گا تو ان بیچاریوں کے مجبور کئے جانے کے بعد اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ 24 النور 33

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے عبداللہ بن ابی بن سلول (منافقوں کا سردار) اپنی لونڈی سےکہتا جا اور خرچی کما کر لا۔ تب اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری مت جبر کرو اپنی لونڈیوں پر زنا کے لیے اگر وہ بچنا چاہیں زنا سے اس لیے کہ دنیا کا مال کماؤ اور جو کوئی لونڈیوں پر زبردستی کرے (حرام کاری کے لیے) تو اللہ تعالیٰ زبردستی کے بعد لونڈیوں کے گناہ بخشنے والا مہربان ہے (یعنی جب مالک اپنی لونڈی سے جبراً حرام کاری کروائے تو گناہ مالک پر ہو گا اور لونڈی اگر توبہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کو بخش دے گا)

جابر بن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے عبداللہ بن ابی کی دو لونڈیاں تھیں ایک کا نام مسیکہ دوسری کا نام امیمہ ۔ وہ دونوں سے جبراً زنا کرواتا تھا۔ انہوں نے اس کی شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تب یہ آیت اتری ولا تکرہوا فتیاتکم۔ (صحیح مسلم۔5752-5753)
 
ش

شوکت کریم

مہمان
چلیں آپ نے اب اس مسئلے پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ہے تو اب آجکے دور کا یہ مثالی معاشرہ بھی بیان فرما دیجئے، ورنہ میں تو آپکے مذہبی مدارس اور وہ علاقے جو بہت زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں اور جہاں عورتیں نظر نہیں آتیں، وہاں قوم لوط کے فعل کی کثرت دکھا چکی ہوں۔

اس کا مدلل جواب میں‌ پہلے بھی دے چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ذرا یہ لنک ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہاں کا حال ہے جہاں عورت صدیوں‌ سے مادر پدر آزاد ہے ؟؟؟

بی بی سی رپورت
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور پھر بات وہی کہ میں نے جو دلیل دی تھی اُس پر سے پھر نظر پھسل گئی کہ یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ آپکی انہی بخاری و مسلم کی کتابوں میں روایات کا کثیر مجموعہ ہے جو بیان کر رہا ہے کہ رسول اللہ ص نے کبھی متعہ الحج سے منع نہ کیا اور اسکے بعد لوگ (صحابی اور تابعین) حضرت ابو بکر کی پوری خلافت میں متعہ الحج کرتے رہے اور پھر حضرت عمر کے دور میں بھی یہاں تک کہ حضرت عمر کو کسی وجہ سے بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے متعہ الحج سے بھی منع کر دیا (آپکی یہ "صحیح" روایت میں پہلے تفصیل سے نقل کر چکی ہوں مگر پھر میں نظریں پھسلنے پر احتجاج کروں تو آپ کو برا ماننے کی بجائے اپنے طریقے پر نظر ثانی کرنی چاہیے)۔

حضرت بلال بن الحارث بیان کرتے ہیں ۔
قلت یا رسول اللہ فسخ الحج لنا خاصۃ اولمن بعد نا قال بل لکم خاصۃ (ابو داؤد جلد ا ص ۲۵۲، نسائی۔جلد ۳ص۱۸، ابن ماجہ ص۲۲۰)
میں نہ کہا یا رسول اللہ ! فسح الحج ہمارے ہی لیے خاص ہے یا ہم سے بعد کو آنے والوں کے لیے بھی ہے ۔ آپ نے فرمایا بلکہ یہ تمہارے ہی لیے خاص ہے۔
حضرت ابوذر کی حدیث پہلے پوسٹ میں بیان کی جا چکی ہے۔
حضرت امام نووی رح ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ "علماء فرماتے ہیں کہ ان تمام روایات کا مطلب یہ ہے کہ فسخ الحج الی العمرۃ اسی حجۃ الوداع کے سال تھا اور حضرات صحابہ کرام کے ساتھ خاص تھا اور بعد کو یہ جائز نہیں ہے ۔ حضرت ابوذر کی مراد مطلقاً تمتع کا ابطال نہیں بلکہ فسخ الحج الی العمرۃ ہے ۔جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شرح مسلم جلد ۱ ص ۴۰۲
درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمتع کا انکار نہیں کیا بلکہ جس چیز سے انہوں نے لوگوں کو منع کیا وہ فسخ الحج الی العمرۃ ہے اور وہ حجۃ الوداع کے سال کے بعد ممنوع ہے۔

بہرحال اس موضوع پر بات کرنی ہے تو ایک الگ دھاگہ کھول لیا جائے تو مناسب ہوگا۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
چلیں آپ نے اب اس مسئلے پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ہے تو اب آجکے دور کا یہ مثالی معاشرہ بھی بیان فرما دیجئے، ورنہ میں تو آپکے مذہبی مدارس اور وہ علاقے جو بہت زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں اور جہاں عورتیں نظر نہیں آتیں، وہاں قوم لوط کے فعل کی کثرت دکھا چکی ہوں۔ اورجو ہزاروں طالبعلم و مزدور طبقہ مغرب آتا ہے اسکی حالت بھی بیان ہو چکی ہے۔ بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۸۰ تا ۸۵ فیصد نوجوان جس بڑے پیمانے پر کھل کر گناہ کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پھر آپ نے اس سیدھے سے سوال کا جواب نہیں دیا کہ انسان کے جو فطرت کی جانب سے تقاضے تھے، کیا وہ آج ۱۴۰۰ سال کے بعد ختم ہو چکے ہیں یا پھر آج کے دور میں ڈش اینٹینا، انٹرنیٹ اور میڈیا کی صورت میں شیطانی قوتوں کے مضبوط ہو جانے کے بعد بہکنے کے چانسز پہلے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں؟

میں‌ ایک گراف پیش کر رہا ہوں‌ گوگل ٹرینڈز ذرا دیکھئے تو الحمد للہ پوری دنیا میں پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل دل پاکستان جان جان پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

xkn2bn.jpg


نیلی بار قرآن کی سرچ کو ظاہر کرتی ہے۔

سرخ حدیث‌ سرچ کو ۔۔

اور پیلی اسلام کی سرچ کو ۔

دیکھیے پاکستانی نوجوان نیٹ‌پر کیا تلاش کرتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس کا مدلل جواب میں‌ پہلے بھی دے چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ذرا یہ لنک ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہاں کا حال ہے جہاں عورت صدیوں‌ سے مادر پدر آزاد ہے ؟؟؟

بی بی سی رپورت

یہ تو الٹا آپ ہی کے مؤقف کو کمزور کرتی ہے کہ پادریوں کو شادی نہ کرنے دی گئی تو انہیں جتنا مرضی روحانی تعلیم دینے کی کوشش کر لیں مگر فطرت کے تقاضوں سے مجبور ہو کر پھر وہ عورتوں کی کمی بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے پورا کریں گے۔ اور پتا نہیں جب کلیسا کی بات ہو رہی ہے تو مسلمان اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں کیونکہ بھائی حقیقت یہ بات ہے کہ ہمارے اپنے مدارس میں یہ کام بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس لحاظ سے مسلم و نصاری کا کوئی فرق نہیں تاوقتیکہ ہم ڈبل سٹینڈرڈز نہ اپنا لیں اور اپنے گریبان میں جھانکنا بند نہ کر دیں۔ اب بتلائیں اگر عیسائی پلٹ کر ہمیں ہمارے مدارس یا پھر وہ علاقے دکھانے شروع کر دیں کہ جہاں اسلام کے نام پر عورت تو بالکل گھر میں محصور ہے، مگر اسکے باوجود وہاں پر قوم لوط کا فعل عام ہے، تو پھر ہم کیا جواب دے سکیں گے؟
اور اللہ کہتا ہے کہ انصاف کرو چاہے ایسی قوم سے ہی کیوں نہ کرنا پڑے جو تمہاری دشمن ہو۔

حضرت بلال بن الحارث بیان کرتے ہیں ۔
قلت یا رسول اللہ فسخ الحج لنا خاصۃ اولمن بعد نا قال بل لکم خاصۃ (ابو داؤد جلد ا ص ۲۵۲، نسائی۔جلد ۳ص۱۸، ابن ماجہ ص۲۲۰)
میں نہ کہا یا رسول اللہ ! فسح الحج ہمارے ہی لیے خاص ہے یا ہم سے بعد کو آنے والوں کے لیے بھی ہے ۔ آپ نے فرمایا بلکہ یہ تمہارے ہی لیے خاص ہے۔
حضرت ابوذر کی حدیث پہلے پوسٹ میں بیان کی جا چکی ہے۔
حضرت امام نووی رح ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ "علماء فرماتے ہیں کہ ان تمام روایات کا مطلب یہ ہے کہ فسخ الحج الی العمرۃ اسی حجۃ الوداع کے سال تھا اور حضرات صحابہ کرام کے ساتھ خاص تھا اور بعد کو یہ جائز نہیں ہے ۔ حضرت ابوذر کی مراد مطلقاً تمتع کا ابطال نہیں بلکہ فسخ الحج الی العمرۃ ہے ۔جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شرح مسلم جلد ۱ ص ۴۰۲
درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمتع کا انکار نہیں کیا بلکہ جس چیز سے انہوں نے لوگوں کو منع کیا وہ فسخ الحج الی العمرۃ ہے اور وہ حجۃ الوداع کے سال کے بعد ممنوع ہے۔

بہرحال اس موضوع پر بات کرنی ہے تو ایک الگ دھاگہ کھول لیا جائے تو مناسب ہوگا۔

پردے ڈالنے کی بہت کوششیں کی گئیں، کبھی کہا گیا یہ ممانعت نہیں مگر ہلکی سی تنزیہہ تھی، کبھی کہا گیا یہ حضرت عمر نے نہیں بلکہ حضرت عثمان نے کیا، کبھی کہا گیا متعہ الحج کی یہ ممانعت ان دونوں نے نہیں بلکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنے دور میں کی (صحیح مسلم)، ۔۔۔۔۔۔

بہرحال:
۱۔ میں خود حضرت عمر کا قول نقل کر چکی ہوں بخاری سے جہاں وہ یہ کہہ کر اسکی ممانعت کر رہے ہیں کہ انہیں پسند نہیں کہ لوگ عمرے کے بعد احرام کھول لیں، اور پھر اپنی بیویوں سے مباشرت کریں اور پھر حج کے لیے ایسے حرم میں داخل ہوں کہ انکے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔

۲۔ پھر عمران بن حصین صحابی کی دو روایات نقل کر دی گئی ہیں جہاں وہ گواہی دے رہے ہیں کہ قرآن میں اللہ نے آیت نازل فرمائی متعہ الحج کے لیے۔ اسکے بعد ایک شخص نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔

۳۔ پھر علی ابن ابی طالب اور حضرت عثمان کے جھگڑے کےمتعلق دو روایات نقل کر چکی ہوں۔ اب آپ اسکے لیے کونسا عذر بنائیں گے؟

اسکے بعد اگر کسی کو شوق ہے تو وہ بالکل الگ تھریڈ کھول کر یہ تمام تر بنائے جانے والے عذر وہاں پیش کر دے۔ شکریہ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4584-
حضرت امام رضا نے فرمایا کہ متعہ صرف اسی شخص کے لئے حلال ہے جو اس کی معرفت رکھتا ہو اور جو اس سے جاہل اور ناواقف ہو تو اس کے لئے حرام ہے۔
2cik747.jpg

شوکت بھایٔ آپ نے پن پوایٔنٹ حوالہ دیا ہے اور یہ حکم تو ان لوگوں کے لیے ہے جو ان کے اپنے ہیں جو اس کتاب کی ہر روایت پر ایمان رکھتے ہیں اس لحاظ سے ہم لوگوں پر تو یہ مطلقاً حرام ٹھہرا نا۔۔۔۔۔۔۔۔!
اور محترمہ مہوش صاحبہ جہاں آپ اتنی روایات دے رہی ہیں وہی میرے سوال کا جواب دیتے ہیوے مولا علی کے خلافت سنبھالنے کے بعد معتہ کے احیاء کی روایت بھی پیش کردیں تاکہ بحث کو کسی انجام تک پہونچایا جا سکے۔
 

گرائیں

محفلین
شمشاد بھائی ! کم سے کم میں تو یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا ، ان شاءاللہ۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔
احادیث کی تحقیق کے نام پر غلط تراجم اور جھوٹ و دھوکہ دہی کے سہارے جو خودساختہ نظریات پھیلائے گئے ہیں ، اللہ نے توفیق دی تو وقت آنے پر ان کی حقیقت تمام حوالوں اور ثبوتوں کیساتھ ضرور بتاؤں گا ، ان شاءاللہ !!

کم از کم مجھے شدت سے انتظار رہے گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top