معاف کیجیئے گا مجھے آپ کی باتوں کی سمجھ نہیں آئی ایک طرف تو آپ تمام مسلمات کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے کہ قائل ہیں جس پر آپ کہ درج زیل الفاظ شاہد ہیں کہ
اور دوسری طرف آپ خدا کہ وجود کہ ادراک کو روحانی تجربے یا مشاہدے کہ توسط سے مشروط ٹھراتے ہیں ؟ میں کوئی سائنس کا طالب علم تو نہیں لیکن کیا میں اتنا جان سکتا ہوں کہ روحانی تجربات سائنس کہ نقطہ نظر سے کس حد تک قابل قبول ہیں؟اور سائنس ان تجربات کو قبول کرنے کی توجیہ کن ثابت شدہ حقائق کہ تحت کرتی ہے ؟
آپنے ایک بہت اہم سوال اٹھایا ہے۔ شکریہ۔
موجودہ دور کے مایہ ناز سائنسدان روحانیت پر اسلئے یقین نہیں رکھتے کہ یہ انکے رٹے پٹے six sense concept میں نہیں آتا۔ اسکے مطابق ’’حقیقت وہی ہے جسکا مشاہدہ ہماری جسمانی حسیں یا ہماری مادی جدید مشینیں کر سکیں‘‘۔ لیکن حیرت کی انتہاء ہے کہ اکثر سائنسدان گو خدا کے موجود نہ ہونے پر بضد ہیں، البتہ تسخیر کائنات کے بعد بے ساختہ کہتے ہیں کہ یہ پوری کائنات اسقدر پختہ اور بے عیب ہے کہ ضرور اسکے پیچھے ایک ’’باشعور طاقت‘‘ کارفرما ہے۔ یعنی وہ بیچارے آخر کار اپنے ہی جال میں جا پھنستے ہیں۔
نیز سائنس ہر اس نظریے کو ٹھکراتی ہے جسے کوئی دوسرا انسان نقل نہ کر سکے۔ یعنی اگر امریکہ میں کوئی سائنسدان کوئی نیا تجربہ کرتا ہے اور نتائج بتاتا ہے تو پاکستان میں بھی سائنسدان اسی طریقہ کو استعمال کرکے تجربہ کریں اور نتائج یکساں آنے چاہیے۔ بصورت دیگر نظریہ پیش کرنے والا جھوٹا ہوگا۔ آئن اسٹائین اور نیوٹن کے نظریات کی شہرت بھی اسی وجہ سے ہے کہ وہ عام مشاہدات و تجربات میں ۹۹فیصد قوانین قدرت کے عین مطابق ہیں۔
اب اسی کہانی کا دوسرا رخ لیتے ہیں یعنی’’ روحانیات‘‘۔ ایک درویش بزرگ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا اسکی تمام دعائیں قبول کرتا ہے۔ عام لوگ تجرباتی طور پر اس سے دعائیں کرواتے ہیں اور خدا انکی دعائیں قبول کر لیتا ہے۔ یوں اسکونیک نامی، شہرت نیز مریدوں کا ہجوم ملتا ہے۔ اسکے مرید اپنے بزرگ کی طرز پر زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی وہ تمام اخلاق و عادات اپنا لیتے ہیں جو اُس بزرگ میں موجود ہیں۔ کئی سال بیت جاتے ہیں اور بزرگ کی وفات ہو جاتی ہے۔ اسکے مرید بھی اسی بزرگ کی عمر کو پہنچ کر اسی کی طرز پر دعائیں کرتے ہیں لیکن نہ تو انکی ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں ، الٹا انکے اپنے ذاتی حالات مشکلات و آزمائش کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ اب خود ہی بتائیں کیا روحانیت اور سائنس یکجا ہو سکتے ہیں؟
دونوں کی منطق میں زمین آسمان کا فرق ہے! سائنس مادی دنیا کی تسخیر کا علم ہے جو انسانی جسمانی حسوں پر انحصار کرتا ہے۔ اور جو انسان کی پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کا بالکل کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ جبکہ روحانیت اور علم الغیب محض اللہ تعالیٰ کی دین ہے جسے نہ تو انسان اپنی محنت و مشاہدہ و تجربات سے زبردستی پا سکتا ہے، اور نہ ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ اگر میں نیک راہ پر چلوں گا تو نتیجہ نیک ہی نکلے گا۔۔۔۔۔ اسلئے ہر دم خدا سے توبہ و استغفار پر زور دینا چاہیئے کہ خدا ہمیں ہر معاملہ میں خود رہنمائی کرے۔ سائنس محض ہماری دنیا بہتر کرنے کیلئے ہے، جبکہ روحانیت ہماری ’’حقیقی زندگی‘‘ (موت کے بعد والی) بہتر کرنے کیلئے ہے۔ اتنا سا فرق ہے اور جاہل دنیا سائنس میں اتنی غرق ہو چکی ہے چند روزہ دنیا کیلئے پاگل ہو چکی ہے!