انسانی خون (معلوماتِ عامہ)

جیا راؤ

محفلین
انسانی خون (معلوماتِ عامہ)

انسان کا خون بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک حصہ مائع اور دوسرا حصہ خلیات یا خون کے ذرات بناتے ہیں۔ مائع کو پلازما کہا جاتا ہے جس میں تقریبا ً 90 فیصد پانی اور 10 فیصد خون کو جمانے والے پروٹین اور دیگر مادے ہوتے ہیں۔
خون میں تین طرح کے خلیات پائے جاتے ہیں۔

سرخ ذرات Red blood cells
سفید ذرات White blood cells
پلیٹیلیٹس Platelets

خون کے سرخ خلیوں میں ایک خاص قسم کا مادہ ّ ہیموگلوبن ہوتا ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ یہ مادہ آئرن(Haem) اور پروٹین(Globin) سے مل کر بنتا ہے۔خون میں ہیموگلوبن کی کمی ہی دراصل Anaemia یا خون کی کمی کہلاتی ہے۔خون کے سرخ ذرات کا دورانیہ حیات ایک سو بیس دن ہے۔

خون کے سفید ذرات پانچ اقسام کے ہوتے ہیں جن کا بنیادی کام بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے بعض ذرات اینٹی باڈیز بناتے ہیں، بّعض ذرات بیکٹیریا، دوسرے خوردوبینی جانداروں اور ضعیف خلیوں کو نگل لیتے ہیں، بعض ذرات وائرس اور طفیلیوں(parasites) کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں اور بعض ذرات الرجی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خون میں سفید خلیوں کی کمی مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور جسم مختلف اقسام کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایڈز کے مرض میں ایچ آئی وی وائرس جسم کے سفید خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کی شدید کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح جسم کی قوتِ مدافعت تقریبا’’ختم ہو جاتی ہے اور جسم بیماریوں کا مرقع بن جاتا ہے۔ خون کے سفید خلیوں کا دورانیہ حیات خون میں چند گھنٹے یا ایک دن ہے۔ بعض ذرات ٹشوز میں داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں سال بھر زندہ رہتے ہیں۔

چوٹ لگنے کی صورت میں جو خلئے خون کو روکنے کا باعث بنتے ہیں انہیں plateletsکہا جاتا ہے۔ خون میں ان ذرات کی کمی بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے مثلا’’ مسوڑھوں سے خون آنا، جسم کے مختلف حصوں سے خود بخود خون کا بہنا وغیرہ۔ ان ذرات کا دورانیہ حیات پانچ سے دس دن ہے۔

اپنا دورانیہ حیات مکمل کرنے کے بعد خون کے ذرات Reticuloendothelial System میں داخل ہو جاتے ہیں جو جگر، تلی(جسے سرخ خلیوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے) اور ہڈیوں کے گودے(Bone Marrow) پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ سسٹم ان خلیات کی توڑ پھوڑ کے بعد ان سے حاصل ہونے والے بعض مادوں کو دوبارہ استعمال میں لے آتا ہے اور بعض کو جسم سے خارج کر دیتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ جیا راؤ صاحبہ اس معلوماتی پوسٹ کیلیئے۔

انسانی جسم اور اسکے مختلف نظام میرے بھی پسندیدہ موضوع ہیں اور ان پر پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے بلکہ پڑھ کر حیران پریشان ہو جاتا ہوں کہ کیا کیا وسیع و عریض جہان موجود ہیں اور کیسے کیسے اعلٰی اور پچیدہ نظام کام کر رہے ہیں۔

امید ہے کہ آئندہ بھی ایسی معلوماتی تحاریر لکھتی رہیں گی اور انکی زیادہ ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ انگلش میں تو پڑھنے کو بہت ملتا ہے لیکن اردو میں ان موضوعات پر، خاص طور پر نیٹ کی دنیا میں، تحاریر خال خال ہی ہیں۔
 

جیا راؤ

محفلین
شکریہ جیا راؤ صاحبہ اس معلوماتی پوسٹ کیلیئے۔

انسانی جسم اور اسکے مختلف نظام میرے بھی پسندیدہ موضوع ہیں اور ان پر پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے بلکہ پڑھ کر حیران پریشان ہو جاتا ہوں کہ کیا کیا وسیع و عریض جہان موجود ہیں اور کیسے کیسے اعلٰی اور پچیدہ نظام کام کر رہے ہیں۔

امید ہے کہ آئندہ بھی ایسی معلوماتی تحاریر لکھتی رہیں گی اور انکی زیادہ ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ انگلش میں تو پڑھنے کو بہت ملتا ہے لیکن اردو میں ان موضوعات پر، خاص طور پر نیٹ کی دنیا میں، تحاریر خال خال ہی ہیں۔


شکریہ وارث صاحب۔
پہلے پہل تو لکھتے ہوئے تھوڑی ہچکچاہٹ ہوئی کہ نجانے لکھتے ہوئے "اردو" کا حق ادا کر بھی پائیں گے یا نہیں مگر پھر اللہ کا نام لے کر لکھ ہی ڈالا۔ یہ نظام واقعی ایسے ہیں کہ انسان مبہوت ہو کر رہ جائے۔ جیسے جیسے آپ ان کے بارے میں جانتے جائیں خدا کی زبردست ذات پر آپ کا یقین کامل ترین ہوتا چلا جائیگا۔
حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر خون میں سرخ ذرات ذیاده هوں تو؟
اگر خون میں سرخ ذرات نارمل حد سے زیادہ ہوں، اور مستقل طور پر زیادہ ہی رہیں، تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مریض کے جسم میں آکسیجن پوری نہیں ہو رہی اور جسم آکسیجن کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سرخ ذرات کی پیداوار کو بڑھا رہا ہے کیونکہ سرخ ذرات کا بنیادی کام ہی آکسیجن کی ترسیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خون میں سرخ ذرات کے زیادتی بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ کسی دیگر بیماری کی نشانی ہے۔ سو اُس اصل بیماری کی تشخیص اور علاج ضروری ہے۔ اس کی وجہ کوئی بڑی بیماری بھی ہو سکتی ہے جیسے دل، پھیپھڑوں یا گردوں کی بیماری وغیرہ اور کوئی معمولی بیماری بھی ہو سکتی ہے، درست تشخیض بہرحال ضروری ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اگر خون میں سرخ ذرات نارمل حد سے زیادہ ہوں، اور مستقل طور پر زیادہ ہی رہیں، تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مریض کے جسم میں آکسیجن پوری نہیں ہو رہی اور جسم آکسیجن کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سرخ ذرات کی پیداوار کو بڑھا رہا ہے کیونکہ سرخ ذرات کا بنیادی کام ہی آکسیجن کی ترسیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خون میں سرخ ذرات کے زیادتی بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ کسی دیگر بیماری کی نشانی ہے۔ سو اُس اصل بیماری کی تشخیص اور علاج ضروری ہے۔ اس کی وجہ کوئی بڑی بیماری بھی ہو سکتی ہے جیسے دل، پھیپھڑوں یا گردوں کی بیماری وغیرہ اور کوئی معمولی بیماری بھی ہو سکتی ہے، درست تشخیض بہرحال ضروری ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بلندی پر رہنے والوں کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے۔
 
انسانی خون (معلوماتِ عامہ)

انسان کا خون بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک حصہ مائع اور دوسرا حصہ خلیات یا خون کے ذرات بناتے ہیں۔ مائع کو پلازما کہا جاتا ہے جس میں تقریبا ً 90 فیصد پانی اور 10 فیصد خون کو جمانے والے پروٹین اور دیگر مادے ہوتے ہیں۔
خون میں تین طرح کے خلیات پائے جاتے ہیں۔

سرخ ذرات Red blood cells
سفید ذرات White blood cells
پلیٹیلیٹس Platelets

خون کے سرخ خلیوں میں ایک خاص قسم کا مادہ ّ ہیموگلوبن ہوتا ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ یہ مادہ آئرن(Haem) اور پروٹین(Globin) سے مل کر بنتا ہے۔خون میں ہیموگلوبن کی کمی ہی دراصل Anaemia یا خون کی کمی کہلاتی ہے۔خون کے سرخ ذرات کا دورانیہ حیات ایک سو بیس دن ہے۔

خون کے سفید ذرات پانچ اقسام کے ہوتے ہیں جن کا بنیادی کام بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے بعض ذرات اینٹی باڈیز بناتے ہیں، بّعض ذرات بیکٹیریا، دوسرے خوردوبینی جانداروں اور ضعیف خلیوں کو نگل لیتے ہیں، بعض ذرات وائرس اور طفیلیوں(parasites) کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں اور بعض ذرات الرجی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خون میں سفید خلیوں کی کمی مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور جسم مختلف اقسام کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایڈز کے مرض میں ایچ آئی وی وائرس جسم کے سفید خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کی شدید کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح جسم کی قوتِ مدافعت تقریبا’’ختم ہو جاتی ہے اور جسم بیماریوں کا مرقع بن جاتا ہے۔ خون کے سفید خلیوں کا دورانیہ حیات خون میں چند گھنٹے یا ایک دن ہے۔ بعض ذرات ٹشوز میں داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں سال بھر زندہ رہتے ہیں۔

چوٹ لگنے کی صورت میں جو خلئے خون کو روکنے کا باعث بنتے ہیں انہیں plateletsکہا جاتا ہے۔ خون میں ان ذرات کی کمی بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے مثلا’’ مسوڑھوں سے خون آنا، جسم کے مختلف حصوں سے خود بخود خون کا بہنا وغیرہ۔ ان ذرات کا دورانیہ حیات پانچ سے دس دن ہے۔

اپنا دورانیہ حیات مکمل کرنے کے بعد خون کے ذرات Reticuloendothelial System میں داخل ہو جاتے ہیں جو جگر، تلی(جسے سرخ خلیوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے) اور ہڈیوں کے گودے(Bone Marrow) پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ سسٹم ان خلیات کی توڑ پھوڑ کے بعد ان سے حاصل ہونے والے بعض مادوں کو دوبارہ استعمال میں لے آتا ہے اور بعض کو جسم سے خارج کر دیتا ہے۔

اللہ اکبر!
اور تم (جن و انس) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔ (سورۃ الرحمٰن)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر خون میں سرخ ذرات نارمل حد سے زیادہ ہوں، اور مستقل طور پر زیادہ ہی رہیں، تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مریض کے جسم میں آکسیجن پوری نہیں ہو رہی اور جسم آکسیجن کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سرخ ذرات کی پیداوار کو بڑھا رہا ہے کیونکہ سرخ ذرات کا بنیادی کام ہی آکسیجن کی ترسیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خون میں سرخ ذرات کے زیادتی بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ کسی دیگر بیماری کی نشانی ہے۔ سو اُس اصل بیماری کی تشخیص اور علاج ضروری ہے۔ اس کی وجہ کوئی بڑی بیماری بھی ہو سکتی ہے جیسے دل، پھیپھڑوں یا گردوں کی بیماری وغیرہ اور کوئی معمولی بیماری بھی ہو سکتی ہے، درست تشخیض بہرحال ضروری ہے۔
جب آپ کسی ایسی جگہ جا کے رہنےلگتے ہیں جہاں کسی طرح آکسیجن کم ہو یا ہوا ہی کم دباؤ رکھتی ہو یعنی ہوا ہی کم ہو تو آکسیجن بھی کم ہوتی ہے مثلاً سطح سمندر سے کافی بلند پہاڑی علاقے وغیرہ ، تو بھی آپ کے آر بی سی خود بخود زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ اور کچھ وقت تک آپ کا سانس بھی اوسطاً تیز آتا ہے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جب آپ کسی ایسی جگہ جا کے رہنےلگتے ہیں جہاں کسی طرح آکسیجن کم ہو یا ہوا ہی کم دباؤ رکھتی ہو یعنی ہوا ہی کم ہو تو آکسیجن بھی کم ہوتی ہے مثلاً سطح سمندر سے کافی بلند پہاڑی علاقے وغیرہ ، تو بھی آپ کے آر بی سی خود بخود زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ اور کچھ وقت تک آپ کا سانس بھی اوسطاً تیز آتا ہے ۔
جی درست فرمایا آپ نے، لیکن اگر عام حالات میں یہ زیادہ ہوں تو پھر درست تشخیص لازمی ہے، بلکہ ہر صورت میں لازمی ہے :)
 
ہم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کا شمار کر سکتے ہیں۔۔۔
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
بہت ہی اچھی معلومات ہیں۔۔۔اللہ کرے زور قلم میں اور اضافہ ہو۔۔۔
بعض ذرات وائرس اور طفیلیوں(parasites) کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں
میرے ایک عزیز جن کا نام حماد تھا حال ہی میں ان خلیات کے کام کرنے سے انکار کر دینے کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے جو وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔۔ اللہ انکی مغفرت فرمائے آمین۔۔
 

askari

محفلین
ماشاللہ ۔۔۔۔لیکن اگر سفید خوں کے ذرات نارمل سے زیادہ ہو ؟ مثلا نارمل 11000-4000 ہے۔اگر کسی کا 16000 ہو تو ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ماشاللہ ۔۔۔۔لیکن اگر سفید خوں کے ذرات نارمل سے زیادہ ہو ؟ مثلا نارمل 11000-4000 ہے۔اگر کسی کا 16000 ہو تو ؟
خون کے سفید ذرات کا بنیادی کام جسم کے اندر بیماریوں سے لڑنا اور ان کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ سو خون میں سفید ذرات کا زیادہ ہونے کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ جسم میں کسی انفیکشن (بیماری) سے لڑ رہے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے زیادہ تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں یعنی یہ کہ جسم میں کوئی انفیکشن چل رہی ہے جس کی وجہ سے سفید ذرات زیادہ ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے سفید ذرات پیدا کرنے والے نظام میں کوئی خرابی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے زیادہ بن رہے ہیں یا کوئی دوا ایسی استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سفید ذرات زیادہ بن رہے ہیں۔

ڈاکٹر سے مشورہ تمام صورتوں میں ضروری ہے۔
 
Top