ایم اے راجا
محفلین
محترم آپ بھی اس تکنیک سے کچھ کام لیتے ہوئے پوسٹ مارٹم کردیں اللہ شفا دیگا۔
السلام علیکم
محترم اساتذہِ کرام سے زیرِنظر کوشش پر نظرِ ثانی کی درخواست ہے۔۔۔
بصد شکریہ
مون
--------------
کچھ خواب آنکھوں کے، آنکھوں میں رہ جائیں گے
ہم لاکھ بھی چاہیں گے پر مل نہیں پائیں گے
یہ دنیا دیوانی ہے، ہر اک کو پرکھتی ہے
پر ہم سے سلگتے دل، ہر جا نہیں پائیں گے
تم خوب جمع کر لو، آنسو نہیں موتی ہیں
جب وقت رُلائے گا، قیمت یہ چُکائیں گے
ہم صورتِ پروانہ، ہر گام پہ جلتے ہیں
جب شامِ ہجر اتری، دل اپنا جلائیں گے
برسوں کی محبت ہے، دل صدیوں سے گھائل ہے
گر چاہتِ دل نہ ملی، کُہرام مچائیں گے
تم خواب کی صورت ہو، سرِ شام اترتی ہو
جب دیکھنا چاہیں گے، آنکھوں کو سُلائیں گے
رنگوں سے سجا کر ہم، جو لفظ بھی لکھیں گے
یہ وعدہ رہا اپنا، تیرے نام لگائیں گے
مون کی غزل ایک الگ بحر میں کی گئی کوشش ہے۔ مون۔۔ اسے الگ تانے بانے میں کر دیں تو بہتر ہے۔
ویسے اس غزل کی بحر ہوگی۔
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
اور ابنِ سعید کی ابے کھٹ تکنیک سے بھی کسی طرح مطلع کا ’رہ جائیں گے‘ فِٹ نہیں ہوتا۔ محض ’رَ جائیں گے‘ بر وزن مفاعیلن وزن میں آتا ہے۔
لگتا ہے وارث نے فتصت میں یہ غزل نہیں دیکھی۔ بہر حل۔۔۔۔
مطلع کے قافئے کو میں تو درست نہیں سمجھتا۔ وارث، یہ کس طرح درست ہو سکتے ہیں۔
محبت میں رکھنا حدیں چاہتا ہے
وہ کیسی عجب الفتیں چاہتا ہے
وزن میں ضرور ہے، لیکن شعر کے مفہوم کی تفہیم میرے بوڑھے ذہن میں نہیں گھس رہی۔۔۔
ملوں نہ اسے پر تپاکی سے راہ پر
وہ ایسی ڈھکی صحبتیں چاہتا ہے
اگر راہ کو رہ کیا جائے تو بحر میں ضرور آتا ہے لیکن محض ’نا‘ کے استعمال کے بعد، ’نہ‘ بر وزن فع غلط مانا جاتا ہے ثق اساتذہ کے ہاں۔ یہاں بھی تفہیم نہیں ہو رہی۔ ڈھکی صحبتیں؟؟؟
کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے
بالکل درست، صاف شعر ہے۔۔۔۔
ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ اب دل یہ، بس فرقتیں چاہتا ہے
الفاظ کی نشست اچھی نہیں لگ رہی، ویسے شعر مکمل وزن میں ہے۔ دل یہ بس‘ اچھا نہیں محسوس ہو رہا۔ ’یہ دل اب تو بس۔۔۔۔‘ کیسا رہے گا۔ یوں بھی ’کہ‘ ضروری نہیں، حشو بھی مانا جا سکتا ہے۔
بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے
درست ہے یہ شعر بھی۔
اے بستی کے حاکم بھلا کس کے لیئے
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے
اے بستی۔۔۔۔۔۔ یہاں فعولن کے وزن پر ’اَبستی‘ تقطیع میں آتا ہےم ے گرتی ہے۔ جو درست نہیں۔
اور لئے بھی بر وزن فعو درست ہے، فعلن (یا یہاں عولن) کے طور پر غلط ہے۔ ’لی اے‘ غلط تلفظ ہے۔
عجب ہے مرے دوست منطق تری تو
زخم دے کے تُو را حتیں چاہتا ہے
اس شعر کا پہلا مصرع تو وزن میں ہے، اگر چہ ’تری تو‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرع میں زخم تو وزن میں آتا ہی نہیں جب تک کہ اس زَخَم۔۔ بر وزن ’فعو نہ باندھیں۔ زخم در اصل خ پر جزم ہے، فتح یا زبر نہیں۔
دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے
مکمل درست۔۔۔ مبارک ہو۔۔
عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے
شعر ہپے تو وزن میں۔۔ لیکن در کی برکتیں؟؟؟؟
لو کر دیا پوسٹ مارٹم۔ وارث، ذرا تم بھی دیکھ لو۔
لیکن وارث باقی اشعار سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ قافئے کا مشترک حصہ ’تیں‘ ہے، ایں نہیں۔۔۔ اس لحاظ سے قافیہ غلط ہے۔ یہ ایطا کے ذیل میں ہی آئے گا۔
اور معانی کی تفہیم کے سلسلے میں بھی کچھ ارشاد ہو۔۔
محترم اسا تذہ کرام السلام علیکم۔
لیجیئے حضور ہم نے خود اپنی غزل کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا ہے، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے۔
کہاں عشق میں شدتیں چاہتا ہے
وہ گم نام سی الفتیں چاہتا ہے
ملوں نہ اسے میں سرِ عام راہ پر
وہ ایسی چھپی صحبتیں چاہتا ہے
کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے
ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ دل اب تو بس فرقتیں چاہتا ہے
بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے
بھلا کسکی خاطر یہ بستی کاحاکم
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے
عجب ہے مرے دوست منطق یہ تیری
عطا کر کے غم را حتیں چاہتا ہے
دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے
عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے