برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

الف عین

لائبریرین
مون کی غزل ایک الگ بحر میں کی گئی کوشش ہے۔ مون۔۔ اسے الگ تانے بانے میں کر دیں تو بہتر ہے۔
ویسے اس غزل کی بحر ہوگی۔
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
اور ابنِ سعید کی ابے کھٹ تکنیک سے بھی کسی طرح مطلع کا ’رہ جائیں گے‘ فِٹ نہیں ہوتا۔ محض ’رَ جائیں گے‘ بر وزن مفاعیلن وزن میں آتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم
محترم اساتذہِ کرام سے زیرِنظر کوشش پر نظرِ ثانی کی درخواست ہے۔۔۔
بصد شکریہ
مون

--------------

کچھ خواب آنکھوں کے، آنکھوں میں رہ جائیں گے
ہم لاکھ بھی چاہیں گے پر مل نہیں پائیں گے
یہ دنیا دیوانی ہے، ہر اک کو پرکھتی ہے
پر ہم سے سلگتے دل، ہر جا نہیں پائیں گے
تم خوب جمع کر لو، آنسو نہیں موتی ہیں
جب وقت رُلائے گا، قیمت یہ چُکائیں گے
ہم صورتِ پروانہ، ہر گام پہ جلتے ہیں
جب شامِ ہجر اتری، دل اپنا جلائیں گے
برسوں کی محبت ہے، دل صدیوں سے گھائل ہے
گر چاہتِ دل نہ ملی، کُہرام مچائیں گے
تم خواب کی صورت ہو، سرِ شام اترتی ہو
جب دیکھنا چاہیں گے، آنکھوں کو سُلائیں گے
رنگوں سے سجا کر ہم، جو لفظ بھی لکھیں گے
یہ وعدہ رہا اپنا، تیرے نام لگائیں گے

مُون صاحب کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

آپ کی اس غزل میں وزن کی کچھ غلطیاں ہیں۔ جو میں نے اوپر سرخ کر دی ہیں اور نیچے بھی لکھ رہا ہوں۔

کچھ خواب آنکھوں کے، آنکھوں میں رہ جائیں گے

یہاں خواب اور آنکھوں کے درمیان فَ کے وزن پر ایک حرف کم ہے۔

یہ دنیا دیوانی ہے، ہر اک کو پرکھتی ہے

دنیا کا الف گر رہا ہے جو شاید جائز نہیں ہے کہ یہ عربی لفظ ہے، دیوانی میں سے ی گرانا شاید جائز نہیں ہے، دوانی ہوتا تو صحیح ہوتا۔

تم خوب جمع کر لو، آنسو نہیں موتی ہیں

جمع کا صحیح تلفظ م ساکن کے ساتھ ہے آپ نے اسے جَمَع بر وزن فعو باندھا ہے جو کہ غلط ہے، غالب کا مصرع دیکھیئے

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

یہاں میم ساکن کے ساتھ بندھا ہے اور کیا خوب بندھا، واہ واہ واہ۔

جب شامِ ہجر اتری، دل اپنا جلائیں گے

ہجر کا بھی صحیح تلفظ جیم ساکن کے ساتھ ہے یعنی ہج،ر آپ نے اسے ہجَر باندھا ہے، غلط ہے۔

گر چاہتِ دل نہ ملی، کُہرام مچائیں گے

اگر نہ کو 2 یا فع فرض کریں تو 'ملی' بحر سے خارج ہے، اور اگر اسے 1 یا فَ تصور کریں اور ملی کو فعو تو یہ تصرف اس بحر میں شاید جائز نہیں ہے، سو دونوں صورتوں میں وزن سے خارج ہے۔

تم خواب کی صورت ہو، سرِ شام اترتی ہو

سرِ شام کی ترکیب نے 'سرِ شا' کے وزن کو فَعِلُن بنا دیا ہے جب کہ یہاں مفعول چاہیئے سو وزن سے خارج ہے۔ اور اسی وجہ سے اترتی بھی بحر سے خارج ہے۔

یہ وعدہ رہا اپنا، تیرے نام لگائیں گے

نام کی میم گر رہی جو کہ ناجائز ہے سو وزن سے خارج ہے۔



مون صاحب میں نہیں جانتا کہ آپ کا درک عروض میں کتنا ہے سو بغیر تفصیلات کے صرف اغلاط کی نشاندہی کر دی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ اسے درست کر سکتے ہیں۔

یہ بحر ایک انتہائی خوبصورت بحر اور مقطع ہے، اس بحر میں بہت زیادہ نغمگی ہے اور فارسی شعراء نے اسے بہت استمعال کیا ہے۔ اردو میں بھی مستعمل ہے، اسی بحر میں اکبر الہ آبادی کی ایک خوبصورت غزل کا مطلع لکھ رہا ہوں بہت مشہور غزل ہے:

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے۔

اس غزل کا عروضی لحاظ سے مطالعہ شاید سود مند ہو۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
مون کی غزل ایک الگ بحر میں کی گئی کوشش ہے۔ مون۔۔ اسے الگ تانے بانے میں کر دیں تو بہتر ہے۔
ویسے اس غزل کی بحر ہوگی۔
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
اور ابنِ سعید کی ابے کھٹ تکنیک سے بھی کسی طرح مطلع کا ’رہ جائیں گے‘ فِٹ نہیں ہوتا۔ محض ’رَ جائیں گے‘ بر وزن مفاعیلن وزن میں آتا ہے۔

معذرت چاہتا ہوں اعجاز صاحب کے شاید جس وقت آپ پیغام لکھ رہے تھے میں بھی لکھ رہا تھا اور اسی تھریڈ میں اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ایک غزل جس نے مجھے تین راتوں سے سونے نہیں دیا اور چار دنوں سے چین نہیں لینے دیا، آج مکمل کی اور اب چار بجکر دس منٹ ( صبح) آپ کی بصارتوں کی نظر کر رہا ہوں، امید ہیکہ بھرپور توجہ حاصل کرے گی۔ شکریہ۔

محبت میں رکھنا حدیں چاہتا ہے
وہ کیسی عجب الفتیں چاہتا ہے

ملوں نہ اسے پر تپاکی سے راہ پر
وہ ایسی ڈھکی صحبتیں چاہتا ہے

کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے

ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ اب دل یہ، بس فرقتیں چاہتا ہے

بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے

اے بستی کے حاکم بھلا کس کے لیئے
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے

عجب ہے مرے دوست منطق تری تو
زخم دے کے تُو را حتیں چاہتا ہے

دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے

عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے​


اس غزل کے مطلع کے پہلے مصرعے کے قافیہ کو ہزار ہا کوششوں کے باوجود میں تبدیل نہیں کر پایا یا شاید دل نے مانا ہی نہیں کہ اس حقیقت کو تبدیل کروں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے ساگر صاحب اور وزن میں ہے۔

کسی لفظ کی قید سے قافیہ لانا، قافیے کو چار چاند لگا دیتا ہے جیسے ایک کے سوا آپ کے سبھی قافیے 'ت' کی قید سے ہیں، لیکن حدیں میں نہیں ہے، یہ چونکہ مطلع میں ہے اس لیئے جائز ہے، اگر مطلع کے علاوہ کسی دوسرے شعر میں ہوتا تو قافیہ غلط ہو جاتا۔
 
بہت خوب ساگر صاحب بہت عمدہ۔

اب ابے کھٹ کھٹ تکنیک لگاتا ہوں تو ملوں نہ اسے پر تپاکی سے راہ پر کو ملوں نہ اسے پر تپاکی سے رہ پر اور اسی طرح اے بستی کے حاکم بھلا کس کے لیئے کو اے بستی کے حاکم بھلا کس کی خاطر یا اے بستی کے حاکم بھلا کس لئے تو کرنے کو جی چاہتا ہے۔

اساتذہ سے معذرت کے ساتھ
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی بہت شکریہ، مگر دو مزید شعر الہام ہو گئے ہیں جو کہ اس میں ایڈ کر دیئے ہیں، وارث بھائی میں کتنا خوش ہوں یہ بتا نہیں سکتا، آپ بھی تو ہوں گے ناں :) کیونکہ یہ سب آپ ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے ناں، امید ہیکہ اسی طرح آپ کی مدد میرے ہمراہ رہے گی۔

ابنِ سعید صاحب، بہت شکریہ آپ کا اور آپ کی ابے کھٹ کھٹ تیکنیک کا بھی، راہ میں میں نے ہ کو گرایا ہے، جو کہ میرے ناقص علم کے مطابق درست ہے ( جیسا کہ وارث بھائی بھی دیکھ چکے ہیں ) اے بستی کے حاکم کس کے لیئے، کو بہت سے طریقوں سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، مگر پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہیکہ جو کچھ میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ اسکی بھرپور عکاسی نہیں کرتا، اسلیئے میں اسے تبدیل نہیں کر سکا، ویسے آپ نے جو مصرعے دیئے ہیں وہ بھی بہت اچھے ہیں، لیکن بس میں سمجھتا ہوں کہ میرا خیال اسکی تبدیلی سے تبدیل ہو جائے گا۔ امید ہیکہ آپ برا نہیں مانیں گے، اور امیدِ واثق ہیکہ یہ کھٹ کھٹ وال تیکنیک ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی، ویسے اگر سکھا دیں کسی کو تو اسکی زندگی مزید بڑھ سکتی ہے :)
اعجاز صاحب مذکورہ بالا غزل آپ کے انتظار میں سوکھ رہی ہے۔
خرم بھائی آپ کہاں ہیں، یار۔
 

الف عین

لائبریرین
لگتا ہے وارث نے فتصت میں یہ غزل نہیں دیکھی۔ بہر حل۔۔۔۔
مطلع کے قافئے کو میں تو درست نہیں سمجھتا۔ وارث، یہ کس طرح درست ہو سکتے ہیں۔
محبت میں رکھنا حدیں چاہتا ہے
وہ کیسی عجب الفتیں چاہتا ہے
وزن میں ضرور ہے، لیکن شعر کے مفہوم کی تفہیم میرے بوڑھے ذہن میں نہیں گھس رہی۔۔۔


ملوں نہ اسے پر تپاکی سے راہ پر
وہ ایسی ڈھکی صحبتیں چاہتا ہے

اگر راہ کو رہ کیا جائے تو بحر میں ضرور آتا ہے لیکن محض ’نا‘ کے استعمال کے بعد، ’نہ‘ بر وزن فع غلط مانا جاتا ہے ثق اساتذہ کے ہاں۔ یہاں بھی تفہیم نہیں ہو رہی۔ ڈھکی صحبتیں؟؟؟

کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے
بالکل درست، صاف شعر ہے۔۔۔۔

ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ اب دل یہ، بس فرقتیں چاہتا ہے
الفاظ کی نشست اچھی نہیں لگ رہی، ویسے شعر مکمل وزن میں ہے۔ دل یہ بس‘ اچھا نہیں محسوس ہو رہا۔ ’یہ دل اب تو بس۔۔۔۔‘ کیسا رہے گا۔ یوں بھی ’کہ‘ ضروری نہیں، حشو بھی مانا جا سکتا ہے۔

بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے
درست ہے یہ شعر بھی۔

اے بستی کے حاکم بھلا کس کے لیئے
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے
اے بستی۔۔۔۔۔۔ یہاں فعولن کے وزن پر ’اَبستی‘ تقطیع میں آتا ہےم ے گرتی ہے۔ جو درست نہیں۔
اور لئے بھی بر وزن فعو درست ہے، فعلن (یا یہاں عولن) کے طور پر غلط ہے۔ ’لی اے‘ غلط تلفظ ہے۔

عجب ہے مرے دوست منطق تری تو
زخم دے کے تُو را حتیں چاہتا ہے
اس شعر کا پہلا مصرع تو وزن میں ہے، اگر چہ ’تری تو‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرع میں زخم تو وزن میں آتا ہی نہیں جب تک کہ اس زَخَم۔۔ بر وزن ’فعو نہ باندھیں۔ زخم در اصل خ پر جزم ہے، فتح یا زبر نہیں۔

دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے
مکمل درست۔۔۔ مبارک ہو۔۔

عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے
شعر ہپے تو وزن میں۔۔ لیکن در کی برکتیں؟؟؟؟

لو کر دیا پوسٹ مارٹم۔ وارث، ذرا تم بھی دیکھ لو۔
 

شمشاد

لائبریرین
اعجاز بھائی اور وارث بھائی یہ آپ کی ہی ہمت ہے جو اتنی زیادہ تشریح کرتے ہیں۔ جزاک اللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لگتا ہے وارث نے فتصت میں یہ غزل نہیں دیکھی۔ بہر حل۔۔۔۔
مطلع کے قافئے کو میں تو درست نہیں سمجھتا۔ وارث، یہ کس طرح درست ہو سکتے ہیں۔
محبت میں رکھنا حدیں چاہتا ہے
وہ کیسی عجب الفتیں چاہتا ہے
وزن میں ضرور ہے، لیکن شعر کے مفہوم کی تفہیم میرے بوڑھے ذہن میں نہیں گھس رہی۔۔۔


ملوں نہ اسے پر تپاکی سے راہ پر
وہ ایسی ڈھکی صحبتیں چاہتا ہے

اگر راہ کو رہ کیا جائے تو بحر میں ضرور آتا ہے لیکن محض ’نا‘ کے استعمال کے بعد، ’نہ‘ بر وزن فع غلط مانا جاتا ہے ثق اساتذہ کے ہاں۔ یہاں بھی تفہیم نہیں ہو رہی۔ ڈھکی صحبتیں؟؟؟

کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے
بالکل درست، صاف شعر ہے۔۔۔۔

ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ اب دل یہ، بس فرقتیں چاہتا ہے
الفاظ کی نشست اچھی نہیں لگ رہی، ویسے شعر مکمل وزن میں ہے۔ دل یہ بس‘ اچھا نہیں محسوس ہو رہا۔ ’یہ دل اب تو بس۔۔۔۔‘ کیسا رہے گا۔ یوں بھی ’کہ‘ ضروری نہیں، حشو بھی مانا جا سکتا ہے۔

بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے
درست ہے یہ شعر بھی۔

اے بستی کے حاکم بھلا کس کے لیئے
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے
اے بستی۔۔۔۔۔۔ یہاں فعولن کے وزن پر ’اَبستی‘ تقطیع میں آتا ہےم ے گرتی ہے۔ جو درست نہیں۔
اور لئے بھی بر وزن فعو درست ہے، فعلن (یا یہاں عولن) کے طور پر غلط ہے۔ ’لی اے‘ غلط تلفظ ہے۔

عجب ہے مرے دوست منطق تری تو
زخم دے کے تُو را حتیں چاہتا ہے
اس شعر کا پہلا مصرع تو وزن میں ہے، اگر چہ ’تری تو‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرع میں زخم تو وزن میں آتا ہی نہیں جب تک کہ اس زَخَم۔۔ بر وزن ’فعو نہ باندھیں۔ زخم در اصل خ پر جزم ہے، فتح یا زبر نہیں۔

دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے
مکمل درست۔۔۔ مبارک ہو۔۔

عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے
شعر ہپے تو وزن میں۔۔ لیکن در کی برکتیں؟؟؟؟

لو کر دیا پوسٹ مارٹم۔ وارث، ذرا تم بھی دیکھ لو۔


شکریہ اعجاز صاحب، میں نے واقعی اس تھریڈ میں پوسٹ ہونے والی غزل کو غور سے نہیں دیکھا اور وجہ یہ کہ ساگر صاحب نے مجھے یہ غزل ذپ میں دکھائی تھی اور میں نے انہیں کچھ مشورے بھی دیئے تھے اور سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے درستگی کر لی ہوگی سو یہاں پر طائرانہ نظر ہی ڈال سکا۔ بہرحال اب صرف اوزان کے حوالے سے بات کرتا ہوں۔

- مطلع کا قافیہ مجھے اس لحاظ سے درست لگا تھا کہ اس میں قافیہ "ایں" بنتا ہے اور اگر مطلع میں کسی حرف کی قید کےساتھ قافیے نہ ہوں تو شاید جائز ہیں، ویسے میں نے ساگر صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اس قافیے کو بدلیں۔

- نہ کا کلاسیکی استعمال واقعی وہی ہے جو آپ نے لکھا لیکن اب جدید ماہرینِ عروض اور شعراء 'نہ' کی اس تفریق کو روا نہیں سمجھتے اور اسکو بلا تکلف 'فع' کے وزن پر باندھا جاتا ہے، جیسے پروفیسر یعقوب آسی اور پروفیسر فرانسس پرچیٹ وغیرہ نے لکھا اور میں بھی اسے جائز سمجھتا ہوں کہ اسطرح کی قدغنوں سے عروض مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ 'راہ' میں بھی ہ بلا تکلف گرائی جاتی ہے۔

- 'لیئے' کے بارے میں آپ نے درست کہا اور میں ساگر صاحب سے کہا بھی تھا درستگی کیلیئے۔

- جو غزل ساگر صاحب نے مجھے ارسال کی تھی اس میں 'زخم' نہیں تھا، بہرحال یہاں انہوں نے 'زخم' لگا دیا :) اور میں نے بھی نہ دیکھا۔

ایک بار پھر شکریہ آپ کا اعجاز صاحب۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن وارث باقی اشعار سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ قافئے کا مشترک حصہ ’تیں‘ ہے، ایں نہیں۔۔۔ اس لحاظ سے قافیہ غلط ہے۔ یہ ایطا کے ذیل میں ہی آئے گا۔
اور معانی کی تفہیم کے سلسلے میں بھی کچھ ارشاد ہو۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ساگر بھائی آپ بہت اچھے جارہے ہیں انشاءاللہ بہت جلد کامیاب ہو جائے گے بہت شکریہ اختر صاحب اور وارث صاحب آپ کی اصلاح کا ۔ غزل بہت اچھی ہے اور کچھ شعر تو بہت ہی اچھے ہیں مجھے تو بہت پسند آئی لیکن فنی غلظیاں تو اساتذہ ہی نکال سکتےہیں نا ۔ ساگر بھائی جلد از جلد اس کو ٹھیک کر کے دوبارہ ارسال کرے شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
لیکن وارث باقی اشعار سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ قافئے کا مشترک حصہ ’تیں‘ ہے، ایں نہیں۔۔۔ اس لحاظ سے قافیہ غلط ہے۔ یہ ایطا کے ذیل میں ہی آئے گا۔
اور معانی کی تفہیم کے سلسلے میں بھی کچھ ارشاد ہو۔۔

وارث بھائی اور اعجاز صاحب میں آپ کا بیحد ممنوں ہونکہ آپ مجھ پر اتنی توجہ فرما رہے ہیں، وارث بھائی آپ کی پوسٹ کا انتظار ہے، پھر میں اسکا دوبارہ پوسٹ مارٹم کروں گا۔

محبت میں‌رکھنا حدیں چاہتا ہے
وہ کیسی عجب الفتیں چاہتا ہے

اعجاز صاحب ذرا اس پر دوبارہ ( معنی پر) غور کرنا فرمائیے گا، اور اس طرح کے قافیئے( مطلع) میں، میں مشہور شعرا کے ہاں دیکھ چکا ہوں، مگر کم علمی کی وجہ سے مزید کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
استاد صاحبان ذرا دوبارہ اس غزل پر نگاہ ڈالیئے گا۔ کیوں کہ یہ میں نے بے بحر سے بحر میں لانے کی ایک کوشش کی ہے اور میری پسندیدہ غزل بھی ہے۔ شکریہ۔

اور ہاں وارث بھائی جو غزل میں نے آپ کو ارسال کی تھی اسمیں، دے کے درد، تھا جو کہ آپ نے غلط بتایا تھا کہ یہاں دے کی ے نہیں گرتی، سو زخم کیا اور وہ بھی فٹ نہیں دوبارہ لفظ تلاش کرتا ہوں۔:) اور اے بستی کے مالک، کیا یہاں بھی اے کی " ے" گرانا درست نہیں ہو گا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
محترم اسا تذہ کرام السلام علیکم۔
لیجیئے حضور ہم نے خود اپنی غزل کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا ہے، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے۔


کہاں عشق میں شدتیں چاہتا ہے
وہ گم نام سی الفتیں چاہتا ہے

ملوں نہ اسے میں سرِ عام راہ پر
وہ ایسی چھپی صحبتیں چاہتا ہے

کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے

ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ دل اب تو بس فرقتیں چاہتا ہے

بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے

بھلا کسکی خاطر یہ بستی کاحاکم
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے

عجب ہے مرے دوست منطق یہ تیری
عطا کر کے غم را حتیں چاہتا ہے

دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے

عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
محترم اسا تذہ کرام السلام علیکم۔
لیجیئے حضور ہم نے خود اپنی غزل کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا ہے، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے۔


کہاں عشق میں شدتیں چاہتا ہے
وہ گم نام سی الفتیں چاہتا ہے

ملوں نہ اسے میں سرِ عام راہ پر
وہ ایسی چھپی صحبتیں چاہتا ہے

کئی بار ٹھکرا چکا ہے جو مجھکو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے

ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ دل اب تو بس فرقتیں چاہتا ہے

بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے

بھلا کسکی خاطر یہ بستی کاحاکم
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے

عجب ہے مرے دوست منطق یہ تیری
عطا کر کے غم را حتیں چاہتا ہے

دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے

عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے​


جی ساگر بھائی بہت خوب بہت بہتر کر دیا ہے آپ نے جو پہلے شعر کے دوسرے مصرے میں کہاں استعمال کیا ہے مجھے اس پر شق پڑ رہا ہے لیکن اس پر رائے تو وارث بھائی اور اخترصاحب ہی دے گے باقی غزل تو میرے مطابق ٹھیک ہے بہت خوب
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی اور محترم اعجاز صاحب مندرجہ ذیل غزل شفاء پانے کے لیئے آپ کے پر شفاء نشتروں کی منتظر ہے :)

کہاں عشق میں شدتیں چاہتا ہے
وہ گم نام سی الفتیں چاہتا ہے

ملوں نہ اسے میں سرِ عام راہ پر
وہ ایسی چھپی صحبتیں چاہتا ہے

کئی بار ٹھکرا چکا ہے مجھے جو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے

ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ اب دل تو بس فرقتیں چاہتا ہے

بہا کر لہو عدل کا آج پھر سے
یہ منصف، نئی عظمتیں چاہتا ہے

بھلا کسکی خاطر یہ بستی کاحاکم
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے

عجب ہے مرے دوست منطق یہ تیری
عطا کر کے غم را حتیں چاہتا ہے

دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے

عطا ساتھ ساگر کے مولا تری ہے
ترے در کی دل بر کتیں چاہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اچھے جا رہے ہو ساگر۔۔ مبارک ہو۔۔ خوشی ہوئی کہ تم نے خود ہی اصلاح کر لی ہے۔ اب بھی دو تین مصرعے کچھ کھٹک رہے ہیں۔ وز کے مطابق نہیں، الفاظ کی نشست و برخاست کے نقطۂ نظر سے۔ مطلع میں ’کہاں‘، نہ بر وزن نا، اور مقطع عطا کے ساتھ الفاظ کی نشست۔ کچھ سوچ کر بتاؤں گا کہ کیا تبدیلی کی جائے۔
 

الف عین

لائبریرین
کہاں عشق میں شدتیں چاہتا ہے
وہ گم نام سی الفتیں چاہتا ہے

ایک متبادل یہ ممکن ہے:
وہ کب عشق میں شدؔتیں چاہتا ہے
سبک سر سی بس الفتیں چاہتا ہے
 
Top