’ کم سے کم‘ والا طرز زندگی: Minimalism یا تقلیل پسندی

جاسم محمد

محفلین

’’ کم سے کم’’ والا طرز زندگی: Minimalism یا تقلیل پسندی —— ندا اسحاق


اگر آپکو کبھی کسی نے براہ راست یہ کہنے کی جرات کی ہے کہ “یہ سوٹ تم نے فلاں جگہ بھی پہنا تھا تم پر کافی جچتا ہے”. یا پھر کسی دوست، رشتہ دار نے آپکو اس خاص نظر سے دیکھا ہو جو چیخ چیخ کر کہے “تمہارے پاس اور کپڑے نہیں ہیں جب دیکھو منہ اٹھا کر یہی پہن آتے ہوتو یقیناً آپ صحیح راہ پر گامزن ہیں، خود کو خوش قسمت گردانیے کیونکہ آپ consumer-zombie نہیں ہیں۔

بحیثیت عورت مجھ پر ہمیشہ یہ دباؤ رہا کہ ایک تو مجھے خوبصورت دکھنا ہے اور دوسرا کوئی ڈریس کسی رشتہ دار کے گھر یا کسی تقریب میں جاتے ہوئے repeat نہیں کرنا (جہالت سے بھرے رسم و رواج صدیوں سے repeat ہورہے ہیں لیکن کپڑے ہر گز نہیں ہوسکتے)۔

چونکہ minimalism اور sustainability گوروں کے چونچلے ہیں، ہمارے یہاں اس پر کوئی بات نہیں کرتا. کیا پاکستان جیسے ملک میں ان نظریات کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے؟؟؟

اربوں روپے advertisements پر خرچ کرنے والی کمپنیاں انتھک محنت کرکے ہمیں صبح شام اس بات پر رضامند کرتی ہیں اگر فلاں برانڈ کی فلاں چیز خرید لیں تو اس سے آپکی زندگی بدل جائے گی وگرنہ آپ یونہی ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے، آپکی اپنی حقیقی شخصیت کی دراصل کوئی اہمیت نہیں۔

میں پچھلے دو سال سے Minimalism نامی نظریے کے اصولوں پر چل رہی ہوں (خواتین کے لیے یہ قطعاً آسان نہیں) جس کا مقصد آپکو ضرورت اور خواہش میں فرق بتانا ہے۔ میرے اس مضمون میں غریب طبقہ زیرِ بحث نہیں ہے جو اپنے روز مرہ کے معاملات کو پورا نہیں کر پاتا وہ consume کہاں سے کرے گا. نہ ہی ایلیٹ کلاس جن کی تعداد بہت کم ہے. میرا اشارہ اس مڈل کلاس کی جانب ہے جس نے اس خرید و فروخت کی ریس میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی دوڑ لگا رکھی ہے۔

کسی دور میں لفظ consume کو تباہی یا کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ منسوب کرنے کا رواج عام تھا لیکن کپڑے، جوتے، سجاوٹ و آرائش کی اشیاء اور برقی آلات وغیرہ کو بھی consume کیا جائے گا، وہ بھی اس قدر extreme level پر اسکا اندازہ تو اس تباہ کن نظام کے بنانے والوں کو بھی نہیں ہوا ہوگا۔

اربوں روپے advertisements پر خرچ کرنے والی کمپنیاں انتھک محنت کرکے ہمیں صبح شام اس بات پر رضامند کرتی ہیں اگر فلاں برانڈ کی فلاں چیز خرید لیں تو اس سے آپکی زندگی بدل جائے گی وگرنہ آپ یونہی ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے، آپکی اپنی حقیقی شخصیت کی دراصل کوئی اہمیت نہیں۔

aid8232633-v4-728px-Practice-Minimalism-As-a-Family-Step-9.jpg


انسانی دماغ (جو آج کل اپنے ہی نفع اور نقصان میں تمیز کرنے سے قاصر ہے) dopamine نامی ایک neuro hormone خارج کرتا ہے، یوں تو اس hormone کے سر کئی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں لیکن اسکا ایک کام ہمیں “خوشی” کا احساس دلانا بھی ہے، یہ ساری industries اسی کا فائدہ اٹھاتی ہیں. شاپنگ کرکے ہمیں خوشی کا جو احساس ہوتا ہے وہ اسی dopamine کی بدولت ہی ہے(retail therapy اسکی مثال ہے). سائنٹفک ریسرچ کے مطابق چیزوں کی زیادہ خرید و فروخت (یعنی زیادہ dopamine کو خارج کرنا) لت (addiction) میں مبتلا کرتا ہے، آپ اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد اشیاء کا ڈھیر لگاتے جاتے ہیں۔

ایک Minimalist ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی کر کے سنیاس لے لیا جائے. دراصل اس طرزِ زندگی کا مقصد آپکو ایک معیاری زندگی سے روشناس کرانا ہے. جب خواتین گھنٹوں صرف یہ سوچنے میں گزار دیتی ہیں کہ انہیں کیا پہننا اور کیسا نظر آنا ہے، دراصل یہ بھی غلامی کی ہی ایک شکل ہے. اچھے سے اچھا دکھنے کی یہ دوڑ ہمیں احساس کمتری اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ہمیں حقیقت سے دور کردیتی ہے کیونکہ حقیقت میں آپ ہر وقت خوبصورت نہیں دِکھ سکتے. کم چیزیں خریدنا اور انہیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا آزادی کا احساس دلاتا ہے، احساس کمتری اور ہر وقت پرفیکٹ دکھنے اور کچھ نیا پہننے کی ذمہ داری سے آزادی……. وقت اور پیسوں کی بچت الگ۔

64857586_451954342048584_6817785172470005760_n.jpg


جس دنیا میں لوگوں کا رویہ اور سلوک آپکے status اور پیسوں پر مبنی ہو وہاں ایک t-shirt یا dress کو کئی مواقع پر زیب تن کرنے پر لوگ آپکو جج کر سکتے ہیں. مہنگے تحائف کا تبادلہ نہ کرنے پر رشتہ دار اور دوست degrade بھی کر سکتے ہیں. خوبصورت گھر یا گھر میں خوبصورت آرائشی سامان نہ ہونے پر اکثر آپکو حقارت کی نظر سے بھی دیکھا جائے گا. مہنگا موبائل ہاتھ میں نہ ہونے پر دوستوں کا آپکو غریب اور low standard خیال کرنا بھی ممکن ہے، اب ایسے میں ایک minimalist بن کر رہنا ہرگز آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔

اپنی خوشی کو محض اشیاء سے جوڑ کر رکھنا اپنی ہی ذات کی توہین کرنے کے مترادف ہے. موجودہ وقت میں ہم نے اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں کو محض اشیاء سے باندھ رکھا ہے. آج کل اچھے والدین وہی ہیں جو بچوں کو اچھے برینڈز لے کر دیتے ہیں، وقت دیں نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا. یہاں میں والدین کو ایک چھوٹی سی suggestion دینا چاہوں گی۔

آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے گرہیز کریں(اگر لائیں بھی تو گھر میں انٹر ہوتے وقت کبھی نہ دیں)، گھر آکر انہیں ایک hug دیں اور اس بات کا احساس دلائیں آپکا وقت اور آپکی محبت سے قیمتی کوئی چیز نہیں اس دنیا میں. بچوں کا dopamine اشیاء کو گفٹ کرنے کی بجائے انکو وقت دے کر release کرائیں.”

بے جا خرید و فروخت نہ صرف ہمارے ذہنوں کے لیے مضر ہے بلکہ ہمارے گھر یعنی Planet Earth کے لیے بھی شدید نقصان کا باعث ہے۔
 
یہ "گرہیز" شاید گریز اور پرہیز کے درمیان کا کوئی لفظ ہے! :)
ایک دفعہ ایک دوکان پر ایک خاتون اپنے بچے کی شرارتوں سے تنگ آ کر کہتی ہیں، "ایک چمیٹ لگاؤں گی، سیدھے ہو جاؤ گے۔" غالباً چماٹ کہتے کہتے چپیڑ کہہ دیا یا وائس ورسا۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک دفعہ ایک دوکان پر ایک خاتون اپنے بچے کی شرارتوں سے تنگ آ کر کہتی ہیں، "ایک چمیٹ لگاؤں گی، سیدھے ہو جاؤ گے۔" غالباً چماٹ کہتے کہتے چپیڑ کہہ دیا یا وائس ورسا۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔ :)
ایسا عام طور پر ان مصنفین کے ساتھ ہوتا ہے جو بہتر سےبہتر الفاظ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مجھے کچھ یوں لگتا ہے کہ لکھنےوالے نے تحریر کی روانی میں کچھ یوں لکھا ہوگا کہ "آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے پرہیز کریں" اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے لکھتے ہوئے کئی خیالات بھی ذہن میں چل رہے ہوتے ہیں اور چلتے ہوئے جملے کے مختلف الفاظ بھی۔ مصنفہ نے لکھتے لکھتے سوچا ہوگا کہ اس جملے میں "پرہیز" سے بہتر "گریز" کا لفظ رہے گا سو پرہیز کی پے تو گاف سے تبدیل کر دی لیکن ہ کو ختم کرنا بھول گئیں اور وہ "گرہیز" بن گیا۔ چھوٹی سی غلطی ہے عام طور پر دوبارہ پڑتے ہوئے بھی روانی میں علم نہیں ہوتا۔:)
 

جاسم محمد

محفلین
ایک دفعہ ایک دوکان پر ایک خاتون اپنے بچے کی شرارتوں سے تنگ آ کر کہتی ہیں، "ایک چمیٹ لگاؤں گی، سیدھے ہو جاؤ گے۔" غالباً چماٹ کہتے کہتے چپیڑ کہہ دیا یا وائس ورسا۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔ :)
کوئی ممی ڈیٹی ٹائپ خاتون ہو ں گی :)
 

عرفان سعید

محفلین
ایسا عام طور پر ان مصنفین کے ساتھ ہوتا ہے جو بہتر سےبہتر الفاظ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مجھے کچھ یوں لگتا ہے کہ لکھنےوالے نے تحریر کی روانی میں کچھ یوں لکھا ہوگا کہ "آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے پرہیز کریں" اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے لکھتے ہوئے کئی خیالات بھی ذہن میں چل رہے ہوتے ہیں اور چلتے ہوئے جملے کے مختلف الفاظ بھی۔ مصنفہ نے لکھتے لکھتے سوچا ہوگا کہ اس جملے میں "پرہیز" سے بہتر "گریز" کا لفظ رہے گا سو پرہیز کی پے تو گاف سے تبدیل کر دی لیکن ہ کو ختم کرنا بھول گئیں اور وہ "گرہیز" بن گیا۔ چھوٹی سی غلطی ہے عام طور پر دوبارہ پڑتے ہوئے بھی روانی میں علم نہیں ہوتا۔:)
بس یہ ثابت ہوا کہ تحریر آپکی ہی ہے!
:)
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا عام طور پر ان مصنفین کے ساتھ ہوتا ہے جو بہتر سےبہتر الفاظ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مجھے کچھ یوں لگتا ہے کہ لکھنےوالے نے تحریر کی روانی میں کچھ یوں لکھا ہوگا کہ "آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے پرہیز کریں" اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے لکھتے ہوئے کئی خیالات بھی ذہن میں چل رہے ہوتے ہیں اور چلتے ہوئے جملے کے مختلف الفاظ بھی۔ مصنفہ نے لکھتے لکھتے سوچا ہوگا کہ اس جملے میں "پرہیز" سے بہتر "گریز" کا لفظ رہے گا سو پرہیز کی پے تو گاف سے تبدیل کر دی لیکن ہ کو ختم کرنا بھول گئیں اور وہ "گرہیز" بن گیا۔ چھوٹی سی غلطی ہے عام طور پر دوبارہ پڑتے ہوئے بھی روانی میں علم نہیں ہوتا۔:)
Overthinking اور شدید فراغت کی عمدہ مثال :)
 

محمدصابر

محفلین
ایسا عام طور پر ان مصنفین کے ساتھ ہوتا ہے جو بہتر سےبہتر الفاظ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مجھے کچھ یوں لگتا ہے کہ لکھنےوالے نے تحریر کی روانی میں کچھ یوں لکھا ہوگا کہ "آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے پرہیز کریں" اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے لکھتے ہوئے کئی خیالات بھی ذہن میں چل رہے ہوتے ہیں اور چلتے ہوئے جملے کے مختلف الفاظ بھی۔ مصنفہ نے لکھتے لکھتے سوچا ہوگا کہ اس جملے میں "پرہیز" سے بہتر "گریز" کا لفظ رہے گا سو پرہیز کی پے تو گاف سے تبدیل کر دی لیکن ہ کو ختم کرنا بھول گئیں اور وہ "گرہیز" بن گیا۔ چھوٹی سی غلطی ہے عام طور پر دوبارہ پڑتے ہوئے بھی روانی میں علم نہیں ہوتا۔:)
میں چیٹ کرتے ہوئے اکثر کرتا ہوں۔
 
Top