زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
"وہ اہم نکتہ جس کی جانب توجہ دی جانی چاہیے یہ ہے کہ فارسی کی حیثیت میرزا غالب کی نظر میں محض ایک زبان کی ہی نہ تھی بلکہ ان کے پیشِ نظر معانیِ عالی سے سرشار ثقافت و تہذیب تھی جس کا شمار اس قابلِ قدر دولت سے ہوتا ہے جو حقائق کے جواہر سے مالامال ہو۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ انہیں شدت سے احساس تھا کہ وہ اپنے دہانِ تشنہ کو اس چشمہ سارِ شیریں سے سیراب کر سکیں اور اس طرح وہ اپنی علمی شخصیت اور تہذیبی و ثقافتی دولت میں اضافہ کر سکیں۔
میرزا غالب نے نثری عبارات کی پیچیدگیوں اور اشعار کے مضامین میں جس کثرت سے اصطلاحات اور ادبی، تاریخی، عرفانی و فلسفی مفاہیم کا استعمال کیا ہے وہ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں اس فارسی تمدن و ادب سے جو انہوں نے ایران کے نامور شعراء [و] ادباء سے حاصل کیا تھا قدیم نسبت ہے اور اس میدان میں موصوف کو تجربہ بھی کافی تھا۔ چنانچہ مندرجۂ ذیل اشعار میں ایران کے جن فارسی گو شعراء کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ اس حقیقت کو بخوبی آشکار کر دیتے ہیں کہ انہیں اس بات پر فخر تھا کہ ان میں یہ استعداد موجود ہے کہ وہ ایران کے ان فارسی گو شعراء کا تتبع کر سکتے ہیں جنہیں آج عالمی شہرت حاصل ہے:
شنیدم که در روزگارِ کهن
شده عنصری شاهِ صاحب‌سخن
چو اورنگ از عنصری شد تهی
به فردوسی آمد کلاهِ مهی
چو فردوسی آورد سر در کفن
به خاقانی آمد بساطِ سخن
چو خاقانی از دارِ فانی گذشت
نظامی به مُلکِ سخن شاه گشت
نظامی چو جامِ اجل درکشید
سرِ چترِ دانش به سعدی رسید
چو اورنگِ سعدی فرو شد ز کار
سخن گشت بر فرقِ خسرو نثار
ز خسرو چو نوبت به جامی رسید
ز جامی سخن را تمامی رسید
ز جامی به عرفی و طالب رسید
ز عرفی و طالب به غالب رسید

چنانچہ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ فارسی زبان سے غالب کا عشق و علاقہ محض سطحی و سرسری نہ تھا بلکہ وہ خود کو اس اسلامی تہذیب و تمدن کے بحرِ شیریں میں مستغرق پاتے تھے جس کی تجلی اس زبان میں ہوئی تھی۔"

میرزا غالب دہلوی کے کردار اور عہد پر ایک نظر
سید باقر ابطحی (از ایران)
مترجم: یونس جعفری
ماخذ: سہ ماہی اردو ادب، جنوری فروری مارچ ۱۹۹۹ء
 

حسان خان

لائبریرین
"...یک یادگارِ ایرانی را که در بوداپست پایتخت مجارستان دیده‌ام، و حکایت از نفوذ زبان ادبی فارسی در دولت عثمانی می‌نماید، برای ضبط در تاریخ این زبان می‌افزایم. بالای بلندی دامنه‌ای در این شهر، مقبره یک قاضی عسکر عثمانی وجود دارد که در داخل آن یک قطعه شعر به زبان فارسی آویخته است. این تنها نوشته‌ایست که آنجا دیدم. به ترکی چیزی نبود."
(دکتر محمود افشار، گفتارِ ادبی: کتابِ دوّم)


ترجمہ:
"۔۔۔مجھے مجارستان کے دارالحکومت بوداپست میں جو ایک ایرانی یادگار نظر آئی تھی، اور جو عثمانی سلطنت میں زبانِ ادبیِ فارسی کے نفوذ کی قصہ خواں ہے، اُسے اِس زبان کی تاریخ میں محفوظ کرنے کے لیے ذکر کر رہا ہوں۔ اِس شہر میں ایک دامنِ کوہ کی بلندی پر عثمانی فوج کے ایک قاضی کا مقبرہ موجود ہے جس کے اندر فارسی زبان میں ایک قطعۂ نظم آویزاں ہے۔ وہاں مجھے یہی ایک تحریر نظر آئی۔ ترکی زبان میں کوئی چیز نہیں تھی۔"


× مجارستان = ہنگری
 
فارسی میں فعل "کرده است" فعلِ ماضیِ قریب ہے، جو کہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ وہ کام حالا ہوا ہے۔فعل "می کرده است" کون سا فعل ہے اور یہ کس زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ یہ فعل میں نے تاحال کلاسیکی فارسی میں مستعمل نہیں دیکھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا نباشی حریفِ بی‌خِرَدان
که نکوکار بد شود ز بدان
(سنایی غزنوی)

خبردار! بے عقلوں کا یار و ہم نشیں مت بننا کہ بدوں [کی صحبت] سے نیکوکار بد ہو جاتا ہے۔
تا دل ندهی به خوب‌رویان
کز غصه تلف شوی و رنجه
(سعدی شیرازی)

خبردار! خوب رُویوں کو دل مت دینا کہ تم غم سے تلف اور رَنجُور ہو جاؤ گے۔
تا دل به غرورِ نفسِ شیطان ندهی
کز شاخِ بدی کس نخورد بارِ بهی
(سعدی شیرازی)

خبردار! نفسِ شیطانی کے فریب کو دل مت سپرد کرنا کہ شاخِ بدی سے کوئی شخص ثمرِ خوب نہیں کھاتا۔
حقیر تا نشماری تو آبِ چشمِ فقیر
که قطره قطرهٔ باران چو با هم آمد جُوست

(سعدی شیرازی)
خبردار! فقیر کی چشم کے آب کو حقیر مت شمار کرنا کہ جب بارش کے قطرے باہم ہو جائیں تو نہر بن جاتی ہے۔
اَلا تا ننْگری در رُویِ نیکو
که آن جسم است و جانش خُویِ نیکو
(سعدی شیرازی)

خبردار! چہرهٔ زیبا پر نگاہ مت کرنا کہ وہ جسم ہے اور اُس کی جان اَخلاقِ نیک ہیں۔
'تا' فارسی زبان میں 'زینهار' کے معنی میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے، جیسا کہ مندرجۂ بالا پانچ اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لفظ اِس معنی میں گاہے 'زینهار'، 'اَلا'، 'نِگَر'، اور 'هان' کے بعد آتا تھا اور گاہے اُن کلمات کے بغیر استعمال ہوتا تھا اور دونوں صورتوں میں 'تا' کا معنی 'زینهار' ہوتا تھا۔
اگرچہ 'زینهار' اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے، لیکن جب یہ کلمۂ تنبیہ و تحذیر کے طور پر استعمال ہو تو اِس کا ترجمہ 'خبردار'، 'آگاہ رہو'، '(اِس سے) پرہیز کرو'، 'ہوشیار!'، 'ہوشیار رہو'، 'برحَذر رہو'، 'الحذر!' وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔
قابلِ توجہ ہے کہ تائے تنبیہی و تحذیری کے بعد ہر جا صیغۂ امری کی بجائے صیغۂ شرطی و تمنائی استعمال ہوا ہے، یعنی 'مباش'، 'مده'، 'مشمار' اور 'منگر' کی بجائے بالترتیب 'نباشی'، 'ندهی' 'نشماری' اور 'ننٌگری' کام میں لائے گئے ہیں۔
'فرهنگِ زبانِ تاجیکی' میں اِس 'تا' کے معانی میں 'هرگز' بھی درج ہے، لہٰذا جہاں یہ 'تا' کلمۂ تأکید و ندا کے طور پر استعمال ہو، وہاں سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے اِس کا ترجمہ 'ہرگز' بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن لغت نامۂ دہخدا میں یہ معنی درج نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کاره کردن
ماوراءالنہری فارسی میں 'اثر کرنے' اور 'کارگر ہونے' کے معنی میں 'کاره کردن' کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ علاقائی فعلِ مرکّب ایرانی فارسی اور کہنہ ادبی فارسی میں مستعمَل نہیں ہے۔

اِس کے استعمال کی چند مثالیں:

"آهِ سردم به دلت کاره نکرد"
(لایق شیرعلی)

ترجمہ: میری آہِ سرد نے تمہارے دل میں اثر نہ کیا۔

"چشمِ الماسیِ تو در شیشهٔ دل کاره کرد"
(میرزا تورسون‌زاده)

ترجمہ: تمہاری چشمِ الماسی نے میرے شیشۂ دل میں اثر کیا۔

"سوز و سازِ دُودِ آهت بر تنِ من کاره کرد"
(رعنای صفرزاد)

ترجمہ: تمہارے دُودِ آہ کے سوز و ساز نے میرے تن پر اثر کیا۔

"تیرِ عشقش در دلِ ما کاره کرد"
(امین‌جان جلیلوف)

اُس کے تیرِ عشق نے ہمارے دل میں اثر کیا۔

"این گونه فضای مِهرافزون طبیعی‌ست که در جسم و جانِ انسان کاره می‌کند."
ترجمہ: یہ فطری چیز ہے کہ اِس طرح کی محبت افزوں فضا انسان کے جسم و جاں میں اثر کرتی ہے۔

"در صدایش سوزِ نهانی‌ای داشت، که به دل‌ها کاره می‌کرد."
ترجمہ: اُس کی صدا میں ایک سوزِ نہانی تھا جو دلوں میں اثر کر رہا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

ز خسرو چو نوبت به جامی رسید
ز جامی سخن را تمامی رسید
ز جامی به عرفی و طالب رسید
ز عرفی و طالب به غالب رسید
------------------------------------
تھے ظہوری و عرفی و طالب
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اب، نہ طالب ہے
اسد اللہ خان غالب ہے
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں فعل "کرده است" فعلِ ماضیِ قریب ہے، جو کہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ وہ کام حالا ہوا ہے۔فعل "می کرده است" کون سا فعل ہے اور یہ کس زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ یہ فعل میں نے تاحال کلاسیکی فارسی میں مستعمل نہیں دیکھا۔
نشاطِ جم طلب از آسماں نہ شوکتِ جم
قدح مباش ز یاقوت بادہ گر عنبی ست

مباش کے کیا معنی ہیں اس شعر میں؟
اِن دو سوالوں کے جواب میں بعد میں دوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں 'هفده (۱۷)' اور 'هجده/هژده (۱۸)' کے اصلی تلفظ 'هَفدَه' اور 'هَجدَه/هَژدَه' تھے، لیکن معاصر ایرانی فارسی میں اِنہیں 'هِفدَه' اور 'هِجدَه/هِژدَه' تلفظ کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب، ماوراءالنہری فارسی میں 'سیزده (۱۳)' اور 'هفده (۱۷)' کی بجائے 'سینزده (senzdah/сенздаҳ)' اور 'هَبدَه' بھی مستعمَل ہیں۔
ایرانی فارسی میں '۱۸' کے لیے عموماً 'هِجدَه'، جبکہ ماوراءالنہری و افغان فارسی میں 'هَژدَه' رائج ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نشاطِ جم طلب از آسماں نہ شوکتِ جم
قدح مباش ز یاقوت بادہ گر عنبی ست

مباش کے کیا معنی ہیں اس شعر میں؟
یہاں مباش کا معنی 'مت ہو' یا 'مت بنو' ہی ہے۔
شعر کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے:
آسمان سے [نہ] نشاطِ جمشید طلب کرو، نہ شوکتِ جمشید۔۔۔ اگرچہ شراب انگوری ہو، [لیکن] تم یاقوتی قدح مت بنو۔
میرا خیال ہے کہ یہاں شاعر شاہانہ شان و شوکت اور طمطراق سے دور رہنے کی نصیحت کر رہا ہے۔

یہ شعر کس کا ہے؟
 
آخری تدوین:
یہاں مباش کا معنی 'مت ہو' یا 'مت بنو' ہی ہے۔
شعر کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے:
آسمان سے [نہ] نشاطِ جمشید طلب کرو، نہ شوکتِ جمشید۔۔۔ اگرچہ شراب انگوری ہو، [لیکن] تم یاقوتی قدح مت بنو۔
میرا خیال ہے کہ یہاں شاعر شاہانہ شان و شوکت اور طمطراق سے دور رہنے کی نصیحت کر رہا ہے۔

یہ شعر کس کا ہے؟
مرزا غالب۔
 

حسان خان

لائبریرین
بزمِ دَری کے ہم پیالہ برادر اریب آغا نے یہ سوال پوچھا تھا:

"شارحان بخاری نیز حدیث یاد شده را معتبر دانسته و به شرح و بسط آن پرداخته‌اند"
یہاں پرداختن کا کیا مطلب ہوا؟

جواب:
یہاں پرداختن 'کسی کام میں مشغول و سرگرم ہونا' یا 'کسی کام کا اقدام کرنا' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا مندرجۂ بالا جملے کا ترجمہ یہ ہو گا:
بخاری کے شارحوں نے بھی مذکورہ حدیث کو معتبر جانا اور اُس کی تشریح و توضیح میں قلم اٹھایا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
امروز میں نے اپنے صفحے پر یہ لکھا تھا:

علامہ اقبال فرماتے ہیں:
"علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا"
علامہ اقبال کی نصیحت پر عمل کیجیے، اور زبانِ فارسی سیکھ کر سوزِ آتشِ رومی سے فیض یاب ہوئیے۔ کیونکہ فارسی کے علم کے بغیر آتشِ رومی تو ایک طرف، شررِ رومی سے بھی کَمَا ہُوَ حَقُّہُ استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔
فارسی زبان و ادب زندہ باد!
 

حسان خان

لائبریرین
نازم نگهِ شرم که دل‌ها ز میان بُرد
زان سان که خود آن چشمِ فُسون‌ساز ندانست
(غالب دهلوی)

مجھے محبوب کی نگہِ شرمگیں پر ناز ہے کہ جس نے ہزاروں دلوں کو موہ لیا لیکن اس طرح کہ خود اُس کی چشمِ سحر کار کو اس کا پتا نہ چلا۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
اگرچہ 'نازم' کا لفظی ترجمہ تو 'میں ناز کروں' یا 'میں ناز کرتا ہوں' ہے، لیکن لغت نامۂ دہخدا کے مطابق، 'نازم!' اور 'بنازم!' کے کلمات 'زہے!'، 'حبّذا' اور 'آفرین!' کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اِس کی چند مثالیں دیکھیے:

چه خوش صیدِ دلم کردی بنازم چشمِ مستت را
که کس مرغانِ وحشی را از این خوش‌تر نمی‌گیرد
(حافظ شیرازی)

تم نے کس خوبی سے میرے دل کو شکار کر لیا، تمہاری چشم مست پر آفریں! کہ کوئی وحشی پرندوں کو اِس سے خوب تر شکار نہیں کرتا۔

نازم به چشمِ یار که از مستی‌اش شراب
مستیِ طبعِ خویش فراموش می‌کند
(ذوقی اصفهانی)

چشمِ یار پر آفریں! کہ اُس کی مستی سے شراب اپنی طبع کی مستی فراموش کر دیتی ہے۔

صفایِ رویِ عرَق‌ناکِ یار را نازم
که صلح داده به هم آفتاب و شبنم را
(اوجی نظیری)

یار کے عرَق ناک چہرے کی صفا پر آفریں! کہ اُس نے آفتاب و شبنم میں باہم صلح کرا دی ہے۔

چالاکیِ نگاهِ تو نازم که سویِ من
دیدی چنانکه چشمِ ترا هم خبر نشد
(ایجاد همَدانی)

تمہاری نگاہ کی چابُکی و تیزی پر آفریں! کہ تم نے میری جانب ایسے دیکھا کہ تمہاری چشم کو بھی خبر نہ ہوئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
برادرِ گرامی اریب آغا نے توجہ دلائی تھی کہ افغانستان اور تاجکستان کے گلوکاروں کے اکثر نغمے معیاری فارسی میں ہوتے ہیں، لیکن اِس کے برعکس ایرانی گلوکاروں کے نغمے تہرانی گفتاری فارسی میں ہوتے ہیں۔ اُن کا مشاہدہ درست ہے۔ ماوراءالنہری گلوکاروں کے تقریباً تمام نغمے معیاری فارسی یا معیاری فارسی سے قریب زبان میں ہوتے ہیں۔ افغان فارسی نغموں میں معیاری فارسی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، اگرچہ میں نے کابلی فارسی میں بھی نغمے سنے ہیں۔ لیکن ایران کا ہر معاصر گلوکار تہرانی فارسی میں نغمہ سرائی کرتا ہے۔ میرے خیال سے اِس کی وجوہات یہ ہیں:
اولاً، ایران میں گفتاری فارسی زبانچے کو ماوراءالنہر اور افغانستان جتنا پست نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اب تو تخیلی داستانی ادب میں بھی، خصوصاً مکالموں میں، تہرانی گفتاری فارسی کا کافی استعمال ہوتا ہے، اور دیگر کتابوں میں بھی گاہے تہرانی فارسی کے عناصر نظر آ جاتے ہیں، اگرچہ مجھے شخصاً یہ چیز پسند نہیں ہے، اور میں تحریر کی سطح پر ہر جگہ عامیانہ زبان کی بجائے فصیح و معیاری زبان دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ خیر یہ تو ایران کی صورتِ حال تھی۔ لیکن ماوراءالنہر میں اِس کے برعکس، فارسی و روسی و ترکی کے شہری گفتاری ملغوبے کو وہاں کے ادب دوست، زبان دوست اور قوم پرستانہ تمایلات رکھنے والے افراد انتہائی ناگواری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا، آزادی کے بعد کے تاجکستان میں کوئی بھی بزرگ تاجک ادیب اپنی تصنیفات میں گفتاری عناصر کو پسند نہیں کرتا، اور اُس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ معیاری زبان استعمال کرے۔ حالیہ زمانے میں کئی مصنفین بالکل ایرانی اسلوب کی پیروی کرنے لگے ہیں۔ چونکہ وہاں کی گفتاری زبان کا رتبہ پست ہے، اِس لیے نغموں میں بھی اُس کا استعمال نہیں ہوتا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران فارسی گو ممالک میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، اور ایرانی قوم کی زیادہ توجہ خود ہی پر رہتی ہے۔ اُنہیں اِس کی پروا نہیں ہوتی کہ اُن کے نغموں کو بیرونِ سرحد کا کوئی فارسی داں سمجھے گا یا نہیں، وہ ایرانیوں ہی کے لیے نغمے گاتے ہیں۔ میں قبلاً لکھ چکا ہوں کہ اِس زمانے میں بھی ایران میں ایسے افراد مل جائیں جو افغانستان، تاجکستان، پاکستان وغیرہ میں فارسی گویوں اور فارسی دانوں کی موجودگی سے ناواقف ہیں۔ بہر‌ حال، افغانستان اور تاجکستان کے اکثر مردم تہرانی گفتاری فارسی سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ اُس کا استعمال عام ہے۔ امّا، تاجکستان کے گلوکار افغانستان اور ایران کو بھی نظر میں رکھ کر اپنے نغمے تیار کرتے ہیں۔ اُنہیں بخوبی معلوم ہے کہ اگر اُنہیں ایران میں مقبول ہونا ہے تو معیاری زبان ہی میں نغمہ سرائی کرنا ہو گی، ورنہ کوئی ایرانی اُنہیں سنے اور سمجھے گا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر بھی ایران کے بیشتر افراد ایرانی گلوکاروں ہی کو سنتے ہیں، اور ایران سے بیرون کے گلوکاروں میں دلچسپی نہیں لیتے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں فعل "کرده است" فعلِ ماضیِ قریب ہے، جو کہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ وہ کام حالا ہوا ہے۔فعل "می کرده است" کون سا فعل ہے اور یہ کس زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ یہ فعل میں نے تاحال کلاسیکی فارسی میں مستعمل نہیں دیکھا۔
'کرده‌است' ایسے کام کے برائے استعمال ہوتا ہے جو ختم ہو چکا ہو یا جو ماضی میں ہوا تھا، لیکن جس کے آثار و نتائج زمانۂ حال سے مربوط ہوں۔ اردو میں اِس کا تحت اللفظی ترجمہ 'وہ کر چکا ہے، اُس نے کر لیا (ہے)، اُس نے کیا ہے' وغیرہ کیا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ فارسی میں 'می' علامتِ استمرار و تکرار ہے، لہٰذا اگر دونوں کے معنوں 'می‌کرده‌است' کی شکل میں یکجا کر لیا جائے تو لفظی ترجمہ کچھ یوں بنے گا 'وہ کر چکا رہا ہے' یا اگر بامحاورہ زبان استعمال کی جائے تو 'وہ کرتا رہا ہے'۔ یہ زمانہ، جسے فارسی میں 'ماضیِ نقلیِ استمراری' کہا جاتا ہے، فارسیِ کہن میں بھی استعمال ہوا ہے، لیکن نُدرتاً۔

اِس کے علاوہ، معاصر فارسی میں یہ فعل ایسے کام کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ماضی میں جاری رہا ہو لیکن متکلم خود اُس کام کا شاہد و ناظر نہیں ہو، بلکہ کسی تیسرے ذریعے سے اور غیر مستقیماً اُسے درک، استنباط یا معلوم ہوا ہو۔ گفتاری فارسی میں اِس کا استعمال زیادہ ہے، لیکن نوِشتاری فارسی میں یہ گذشتہ صدی ہی سے استعمال ہونا شروع ہوا ہے۔

مثلاً:
"دیشب که ما خواب بودیم تا صبح باران می‌اومده."
ترجمہ: گذشتہ شب کہ جب ہم سوئے ہوئے تھے صبح تک بارش ہوتی رہی۔
اگر متکلم نے قطراتِ باران کی آواز کو سنا ہوتا تو وہ یہ جملہ استعمال نہیں کرتا، بلکہ شاید واقعے کو کچھ یوں بیان کرتا:
"دیشب تا صبح باران می‌آمد."

اِس کے استعمال کی ایک اور مثال دیکھیے:
"در اواخرِ عهدِ ساسانی پارتی در خراسانِ تکلم نمی‌شده‌است."
ترجمہ: ساسانی دور کے اواخر میں زبانِ پارتی خراسان میں نہیں بولی جاتی تھی۔
یہاں نویسندے نے 'نمی‌شده‌است' اِس لیے استعمال کیا ہے تاکہ وہ ظاہر کر سکے اُس نے جو زبانِ پارتی کے بارے میں یہ چیز بیان کی ہے وہ اُس نے بعض غیر مستقیم شواہد سے استنباط کیا ہے۔ اِس طرح اُس نے کوشش کی ہے وہ اطلاع اور خود کے درمیان ذرا فاصلہ قائم کر سکے اور خود کو ماخذ کی درستی سے متعلق براہِ راست ذمہ داری سے دور کر سکے۔ تاریخ سے متعلق تحریروں میں اِس طرزِ تحریر کا استعمال عام ہے۔

یہ ثانی الذکر چیز معاصر فارسی زبان میں ترکی زبان کے اثر سے آئی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ایران اور ماوراءالنہر دونوں خطّوں کے لہجوں پر ترکی زبان کا اثر بہت رہا ہے، کیونکہ ماوراءالنہر میں ازبک ترک اور ایران میں آذربائجانی ترک صدیوں تک فارسی استعمال کرتے رہے ہیں۔


مزید معلومات کے لیے یہ دو مقالے دیکھیے:
گواه‌نمایی در زبان فارسی امروز
Perfect verb forms as markers [of] evidentiality in Persian
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں لفظِ 'فرزند' پسر اور دختر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے:
"فرح دیبا تنها فرزندِ فریده قطبی و سهراب دیبا بود."
ترجمہ: فرح دیبا فریدہ قطبی اور سہراب دیبا کی واحد فرزند تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
گیر ای دلِ من عِنانِ آن شاهنشاه
اِمشب برِ من قُنُق شو ای رُوت چو ماه

ور گوید فردا مشنو زود بگوی
لا حول ولا قوة الا بالله
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اے میرے دل! اُس شہنشاہ کی لگام تھامو [اور اُس سے کہو] "اے کہ تمہارا چہرہ مثلِ ماہ ہے، اِس شب میرے مہمان بن جاؤ"؛ اور اگر وہ کہے کہ "فردا" تو [اُس کی بات] مت سننا اور فوراً کہنا: "لا حول ولا قوۃ الا باللہ"۔

مولانا رومی نے اپنی شاعری میں 'مہمان' کے معنی میں استعمال ہونے والے تُرکی لفظ 'قُنُق' کو کئی بار استعمال کیا ہے۔
مزید مثالیں:

"صوفی‌ای می‌گشت در دورِ اُفُق
تا شبی در خانقاهی شد قُنُق"

ترجمہ: ایک صوفی آفاق میں گھوما کرتا تھا تا آنکہ وہ ایک شب کسی خانقاہ میں مہمان بن گیا۔

"کامدیم، ای شاه، ما این جا قُنُق

ای تو مهمان‌دارِ سُکّانِ اُفُق"
ترجمہ: اے شاہ، اے ساکنانِ جہاں کے مہمان دار، ہم اِس جا بطورِ مہمان آئے ہیں۔

"تا بُوَد خورشیدِ تابان بر اُفُق
هست در هر خانه نورِ او قُنُق"

ترجمہ:جب تک خورشیدِ تاباں اُفُق پر ہو، اُس کا نور ہر گھر میں مہمان ہوتا ہے۔

"امشب قُنُق است یارِ فرّخ‌زادم"
ترجمہ: امشب میرا یارِ فرّخ زاد میرا مہمان ہے۔


"گفتم قُنُقی امشب تو مرا
ای فتنهٔ من شور و شرِ من"
ترجمہ: میں نے [اُس سے] کہا: اے میرے فتنے اور اے میرے شور و شر، امشب تم میرے مہمان ہو۔


گوگل پر تلاش کے باوجود کسی دیگر شاعر کے ہاں اِس لفظ کا استعمال نظر نہیں آیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لادَه

مجھے تاجکستانی شاعر لایق شیرعلی کی شاعری میں ایک نادر لفظ 'لادہ' نظر آیا ہے جس کا معنی 'بے عقل و احمق و سادہ لوح' ہے۔

"مرنج از حسدِ چند ساده و لاده"

(لایق شیرعلی)
چند سادہ و احمق مردُم کے حسد سے رنجیدہ مت ہو۔

یہ لفظ اگرچہ لغت نامۂ دہخدا اور دیگر ایرانی فرہنگوں میں بھی مندرج ہے، لیکن فارسی میں یہ لفظ متروک ہو چکا ہے، اور ادبیاتِ کہن میں بھی چند ایک بار ہی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً عطّار نیشابوری کے ہاں اِس لفظ کے استعمال کی مثال نظر آئی ہے:
قحبهٔ دنیا که او بس لاده است
مُقتدایِ ما طلاقش داده است
قحبۂ دنیا، کہ جو بہت احمق ہے، ہمارے پیشوا نے اُسے طلاق دے دی ہے۔

لغت نامۂ دہخدا میں برہانِ قاطع کے حوالے سے درج ہے کہ اِس کا ایک معنی 'سگِ مادہ' بھی تھا۔ ممکن ہے کہ عطّار نیشابوری نے مندرجۂ بالا بیت میں لفظِ ہٰذا اِس معنی میں استعمال کیا ہو۔
ایک مضمون میں نظر آیا ہے کہ شمالی تاجکستان کے علاقے مست‌چاه کے گفتاری لہجے میں لفظِ مذکور محفوظ رہا ہے اور وہاں اِسے 'شخصِ بے کار (بے روزگار) و کوچہ گرد' کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہ فعل میں نے تاحال کلاسیکی فارسی میں مستعمل نہیں دیکھا۔
چند مثالیں:

حسنِ مطلق داشتم خودبینی‌ام آیینه کرد
اینقدرها هم اثر می‌بوده‌است اوهام را

(بیدل دهلوی)

من شما را سرنگون می‌دیده‌ام
پیش از آن کز آب و گِل بالیده‌ام
(مولوی رومی)


چو می‌دیده که تیغش کارگر نیست
به آن شغل اهتمامش می‌فزوده
(وحشی بافقی)

من دعا کورانه کَی می‌کرده‌ام
جز به خالق کُدیه کَی آورده‌ام
(مولوی رومی)


گر گرفتی دوستانِ نو روا باشد، ولی
ترکِ یارانِ قدیم آخر چرا می‌کرده‌ای؟

(اوحدی مراغه‌ای)
 
آخری تدوین:
Top