زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
خوب! ترجمہ درست ہے۔

'شیر می‌غُرّند' کا ترجمہ شاید یہ بھی کیا جا سکتا ہے:
شیر [کی مانند] غُرّا رہے ہوتے ہیں۔۔۔

فرہنگوں میں 'وارسیدن' کے یہ معانی نظر آئے ہیں:
تحقیق و تفتیش کرنا، نزدیک سے دیکھنا؛ پہنچنا، کسی جا پہنچ جانا؛ دریافت کرنا، ادراک کرنا، توجہ و باریک بینی کے ساتھ آگاہی حاصل کرنا، وغیرہ

میرا خیال ہے کہ مذکورہ بیت میں 'وارسیدن' تحقیق و تفتیش کرنا اور غور سے دیکھنا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چای خانه در پهلوی مسجد بوده است۔
کیا اس جملے کا ترجمہ یوں ہے "چائے خانہ مسجد کے پہلو میں رہا ہے۔"
لفظی ترجمہ تو یہی ہے، لیکن اگر اِس کا اردو ترجمہ 'چائے خانہ مسجد کے پہلو میں تھا' کیا جائے تو بہتر ہے۔ گویندہ کی طرف سے 'بود' کی بجائے 'بوده‌است' استعمال کیے جانے سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ گویندے کو اِس بات پر ذرا شک ہے یا پھر اُسے یہ چیز کسی دیگر شخص سے یا شواہد کی بنیاد پر معلوم ہوئی ہے۔
سیاق و سباق سے جملے کا مفہوم مزید واضح ہو گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، شاہنامۂ فردوسی کی داستانِ بیژن و منیژہ میں شامل اِن ابیات کا مفہوم اردو میں بیان کیجیے:

مرا مهربان یار بشنو چه گفت

از آن پس، که گشتیم با جام جُفت
مرا گفت آن ماهِ خورشید‌چِهر
که "از جانِ تو شاد بادا سِپِهر
بپیمای مَی، تا یکی داستان
ز دفتر برت خوانم از باستان
که چون گوشَت از گفتِ من یافت برخ
شِگِفت اندر او مانی از کارِ چرخ
پُر از چاره و مِهر و نیرنگ و جنگ
همه از درِ مردِ فرهنگ و سنگ"
 
برادر محمد ریحان قریشی، بیدل دہلوی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
گل مراد در آغوشِ خویش می‌یابی

چو غنچه دانی اگر دارد انتظار چه حظ
(بیدل دهلوی)
گلِ مراد کو تو اپنی آغوش میں ڈھونڈتا ہے۔
(کیا اچھا ہو) اگر تو غنچے کی طرح جان لے کہ انتظار کیا لطف رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گلِ مراد کو تو اپنی آغوش میں ڈھونڈتا ہے۔
(کیا اچھا ہو) اگر تو غنچے کی طرح جان لے کہ انتظار کیا لطف رکھتا ہے۔
'یافتن' ڈھونڈنے اور تلاش کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ حاصل کر لینے، ڈھونڈ نکالنے، دستیاب کر لینے یا کسی چیز کے مل جانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بہ علاوہ، میں نے آپ کو ایک بار بتایا تھا کہ فارسی میں مضارع اور می + مضارع سے مستقبل کے معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ بیتِ مذکور میں بھی 'می‌یابی' مستقبل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
میں نے اِس بیت کا یہ ترجمہ کیا ہے۔
 
آخری تدوین:
مرا مهربان یار بشنو چه گفت
از آن پس، که گشتیم با جام جُفت
مرا گفت آن ماهِ خورشید‌چِهر
که "از جانِ تو شاد بادا سِپِهر
بپیمای مَی، تا یکی داستان
ز دفتر برت خوانم از باستان
که چون گوشَت از گفتِ من یافت برخ
شِگِفت اندر او مانی از کارِ چرخ
پُر از چاره و مِهر و نیرنگ و جنگ
همه از درِ مردِ فرهنگ و سنگ"

سنو! یارِ مہربان نے مجھے کیا کہا:جام سے ہماری پیوستگی کے بعدمجھے اس آفتاب چہر ماہ نے کہاکہ" تیری جان سے آسمان شاد رہے۔شراب کی پیمائش کر تاکہ دفتر میں سے تجھے باستان کی ایک داستان سناتا ہوں۔کہ جب تیرے گوش(کان) میری گفتگو سے حصہ لیں گے (یعنے جب تم سنو گے) تو تُو اس (گفتگو میں) کارہائے آسمان سے حیرت زدہ رہ جائے گا۔(وہ گفتگو) تدبیر، محبت، جادو اور جنگ سے پُر ہے۔(اس میں موجود) سارا کچھ دانش پرور مرد اور سنگ دل مرد پر (مشتمل ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
سنو! یارِ مہربان نے مجھے کیا کہا:جام سے ہماری پیوستگی کے بعدمجھے اس آفتاب چہر ماہ نے کہاکہ" تیری جان سے آسمان شاد رہے۔شراب کی پیمائش کر تاکہ دفتر میں سے تجھے باستان کی ایک داستان سناتا ہوں۔کہ جب تیرے گوش(کان) میری گفتگو سے حصہ لیں گے (یعنے جب تم سنو گے) تو تُو اس (گفتگو میں) کارہائے آسمان سے حیرت زدہ رہ جائے گا۔(وہ گفتگو) تدبیر، محبت، جادو اور جنگ سے پُر ہے۔(اس میں موجود) سارا کچھ دانش پرور مرد اور سنگ دل مرد پر (مشتمل ہے)۔
خوب! آپ نے بہت حد تک مفہوم درستی سے بیان کر دیا ہے۔ میں شادمان ہوں کہ اب آپ شاہنامۂ فردوسی کی زبان و اسلوب بھی سمجھنے لگے ہیں۔ ماشاءاللہ! :)

"از آن پس، که گشتیم با جام جُفت" مصرعِ اول ہی کے ساتھ مربوط ہے یعنی: سنو کہ ہمارے جام کے ساتھ قرین ہونے کے بعد اُس مہربان یار نے مجھ سے کیا کہا۔

لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'پیمودن' نوش کرنے یا نوش کرانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور 'بپیمای مَی' میں یہ مصدر اِنہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔

'از در' یعنی درخور، سزاوار، شایستہ، لائق۔۔۔۔ 'سنگ' یہاں پر وقار و تمکین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ 'از درِ مردِ فرهنگ و سنگ' یعنی باادب و دانش و باوقار مرد کے لائق۔۔۔

میں نے اِن ابیات کا یہ ترجمہ کیا ہے:
سنو کہ ہمارے جام کے ساتھ قرین ہونے کے بعد اُس مہربان یار نے مجھ سے کیا کہا۔ اُس خورشید چہرہ ماہ نے مجھ سے کہا کہ "اے کہ تمہاری جان سے آسمان شاد رہے! جام نوش کرو، جب تک میں تمہیں دفتر سے ایک باستانی داستان سناتا ہوں۔ کہ جب تمہارے گوش میری گفتار کے ایک حصے سے بہرہ ور ہوں گے تو داستان کے دوران تم چرخِ فلک کے کام پر متعجب رہ جاؤ گے۔ یہ داستان تدبیر، محبت، حیلے اور جنگ سے پُر ہے، اور تمام داستان باادب و دانش و باوقار مرد [کے سننے] کے لائق ہے۔


میں اپنی اور آپ کی شاہنامہ خوانی کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے آپ سے شاہنامۂ فردوسی کی مزید ابیات کا ترجمہ کراؤں گا۔ :)
 
آخری تدوین:
خوب! آپ نے بہت حد تک مفہوم درستی سے بیان کر دیا ہے۔ میں شادمان ہوں کہ اب آپ شاہنامۂ فردوسی کی زبان و اسلوب بھی سمجھنے لگے ہیں۔ ماشاءاللہ!
آپ کے ان کلماتِ پُر مہر و الفت کا تہِ دل سے سپاس گزار ہوں۔ہمیشہ شاد باشید۔

میں اپنی اور آپ کی شاہنامہ خوانی کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے آپ سے شاہنامۂ فردوسی کی مزید ابیات کا ترجمہ کراؤں گا۔
میں تو آپ کی دی گئی مشقوں کے لئے ہمیشہ بےچین ہوتا ہوں۔اس سے فارسی شاعری کے ان اسالیب سے آگاہی کا موقع ملتا ہے جو میری نظر سے نہیں گزریں یا جن پر نگاہ نہیں کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی نے یہ سوال پوچھا ہے:
خطا نمودہ ام و چشم آفرین دارم

اس مصرع کا کیا مطلب ہے؟

جواب:
'چشمِ چیزی داشتن' کسی چیز کی توقع یا انتظار رکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ 'نمودن' کا لفظی معنی تو 'دِکھانا' ہے، لیکن یہ 'کردن' کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا مصرعِ مزبور کا مفہوم یہ ہو گا: [اگرچہ] میں نے خطا کی ہے [لیکن] مجھے آفرین کی توقع ہے۔
 
آخری تدوین:
برادر محمد ریحان قریشی نے یہ سوال پوچھا ہے:
خطا نمودہ ام و چشم آفرین دارم

اس مصرع کا کیا مطلب ہے؟

جواب:
'چشمِ چیزی داشتن' کسی چیز کی توقع یا انتظار رکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ 'نمودن' کا لفظی مطلب تو 'دِکھانا' ہے، لیکن یہ 'کردن' کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا مصرعِ مزبور کا مفہوم یہ ہو گا: [اگرچہ] میں نے خطا کی ہے [لیکن] مجھے آفرین کی توقع ہے۔
بہت بہت شکریہ!

مرا بہ سادہ دلی ہائے من تواں بخشید
خطا نمودہ ام و چشمِ آفریں دارم

مجھے میری سادہ دلیوں پر بخشا جا سکتا ہے کہ اگرچہ میں نے خطا کی ہے لیکن مجھے آفرین کی توقع ہے۔

نظیری نیشاپوری

جوابِ خواجہ نظیری نوشتہ ام غالب
خطا نمودہ ام و چشمِ آفریں دارم

غالب میں نے خواجہ نظیری (کی غزل) کا جواب لکھا ہے (یعنی) خطا کی ہے اور مجھے آفرین کی توقع ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
روزِ آدینه به مقصوره در آ تا خوانَد
خطبهٔ سلطنتِ حُسن به نامِ تو خطیب
(عبدالرحمٰن جامی)

جمعے کے روز منبر کے پاس چلے آؤ تاکہ خطیب سلطنتِ حُسن کا خطبہ تمہارے نام پر پڑھے۔
زمانۂ ماسبق میں خطباء حاکمِ وقت کے نام کا خطبہ پڑھا کرتے تھے۔
مقصورہ = مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کا چھوٹا حجرہ
آدینہ = جمعہ
نظّارگیانت را هنگامِ تماشایت
هر شب چو شبِ قدر است هر روز چو آدینه
(شاه نیاز بریلوی)

تمہارے تماشاگروں کو تمہارے دیدار کے وقت ہر شب شبِ قدر کی طرح اور ہر روز روزِ جمعہ کی طرح ہے۔
آدِینه
اگرچہ فارسی میں روزِ جمعہ کو معمولاً جمعہ ہی کہتے ہیں، لیکن فارسی زبان میں اِس روز کے لیے ایک فارسی لفظ 'آدینہ' بھی موجود ہے۔ اِس لفظ کے بارے میں احمد کسروی کے ایک مضمون 'روزهای هفته' میں یہ چیز خواننے (پڑھنے) کو ملی ہے:
"دربارهٔ روز جمعه و اینکه آن را در فارسی <آدینه> می‌خوانند، در فرهنگ ناصری می‌نویسد که ایرانیان آن را <شش شنبه> می‌نامیدند ولی چون اسلام بر ایران چیرگی یافت و تازیان جمعه را <یوم‌الزینه> می‌نامیدند، در پارسی نیز از ریشهٔ <آذین> که به معنی زینت است نام <آدینه> را درست کردند.
این گفته دور از قاعده نیست ولی دلیلی تا در دست نباشد تنها به پندار و انگار بسنده نمی‌توان کرد."

ترجمہ: "روزِ جمعہ اور اُس کو فارسی میں 'آدینہ' پکارے جانے کے بارے میں فرہنگِ ناصری میں لکھا ہے کہ اہلِ ایران اُسے 'شش شنبہ' کہتے تھے لیکن جب اسلام نے ایران پر غلبہ پایا اور چونکہ عرب جمعہ کو 'یوم الزینہ' کہتے تھے، فارسی میں لفظِ 'آذین' کے بُن سے، کہ جس کا معنی زینت ہے، نامِ 'آدینہ' وضع کر لیا گیا۔
یہ سخن بعید نہیں ہے لیکن جب تک کوئی دلیل نہ ہو صرف پندار و گمان پر کفایت نہیں کی جا سکتی۔"

× بُن = جڑ


ماوراءالنہر میں یہ لفظ بچّوں کے نام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہ فرمائیے کہ ماوراٗالنہر سے کون سا علاقہ مراد ہے؟ کیا نہر سے مراد نہرِ فرات ہے؟
ماوراءالنہر میں 'نہر' سے دریائے آمو (جیحون) مراد ہے جو افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر بہتا ہے۔ مسلم جغرافیہ میں اِس دریا کے اُس طرف کی سرزمین کو 'ماوراءالنہر' کا نام دیا گیا تھا۔ موجودہ تاجکستان اور ازبکستان اُس خطّے میں واقع ہیں، اور سمرقند و بخارا وہاں کے سیاسی، دینی، ادبی و ثقافتی مراکز رہے ہیں۔
Aral_map.png


فُرات اور دجلہ کے مابین کی سرزمین کو 'بین النہرین' کہتے ہیں۔
 
ماوراءالنہر میں 'نہر' سے دریائے آمو (جیحون) مراد ہے جو افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر بہتا ہے۔ مسلم جغرافیہ میں اِس دریا کے اُس طرف کی سرزمین کو 'ماوراءالنہر' کا نام دیا گیا تھا۔ موجودہ تاجکستان اور ازبکستان اُس خطّے میں واقع ہیں، اور سمرقند و بخارا وہاں کے سیاسی، دینی، ادبی و ثقافتی مراکز رہے ہیں۔
Aral_map.png


فُرات اور دجلہ کے مابین کی سرزمین کو 'بین النہرین' کہتے ہیں۔
تشکر
 

حسان خان

لائبریرین
هیج = هیچ

معاصر معیاری ماوراءالنہری فارسی میں 'هیچ' کی بجائے 'هیج/ҳеҷ' استعمال ہوتا ہے، جس کا تلفظ 'hej' کیا جاتا ہے۔
کہنہ ادبی فارسی میں 'هیچ' ہی استعمال ہوتا تھا، اور ماوراءالنہر میں استعمال ہونے والا 'هیج' اُسی کی مُحرَّف شکل ہے۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ تاجکستان میں جو قدیم متون شائع ہوتے ہیں، اُن میں بھی عموماً 'هیچ' کو 'هیج' لکھا جاتا ہے۔

عشقِ نوآغازِ ما را هیج انجامی مباد"
(لایق شیرعلی)
ہمارے عشقِ نوآغاز کا کوئی اختتام نہ ہو!

"آن‌ها نیت داشتند، که عیسیٰ را دست‌گیر کنند، لیکن این کار را شبانه کردن می‌خواستند، تا که هیج کس آن‌ها را نبیند."
"وہ لوگ عیسیٰ کو گرفتار کرنے کی نیت رکھتے تھے، لیکن وہ اِس کام کو شب کے وقت کرنا چاہتے تھے تاکہ کوئی شخص اُنہیں نہ دیکھے۔"
لیکن این کار را شبانه کردن می‌خواستند
'کردن می‌خواستند' ماوراءالنہری محاورہ ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ عصرِ حاضر کی نَوِشتاری ماوراءالنہری فارسی میں اِس کی بجائے ایرانی فارسی ہی کی طرح 'می‌خواستند بکنند' کے نحو کو ترجیح دی جاتی ہے، اور 'کردن می‌خواستند' وغیرہ کو عامیانہ اور گفتاری تصور کیا جانے لگا ہے۔


ایرانی فارسی میں 'هیچ' کا تلفظ 'hîç' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پردیس
فارسی زبان میں بھی ایک لفظ 'پردیس' موجود ہے، لیکن اِسے ہندی والے 'پردیس' کے ساتھ باہم اشتباہ نہ کیا جائے، بلکہ فارسی میں یہ لفظ 'باغ و بوستان اور فردوس' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ در اصل ایرانِ قدیم میں رائج رہی ایک زبان 'مادی' کے لفظ 'پارادَئِزا' سے ماخوذ ہے، اور عربی کا 'فردوس' اور انگریزی کا 'پیراڈائز' اُسی لفظ کی تغیر یافتہ شکلیں ہیں۔ یہ لفظ متروک ہو چکا تھا، اور اسلامی دور میں آغاز ہونے والی فارسیِ دری میں اِس کا استعمال نہیں ہوا، لیکن حالیہ زمانے میں ایران میں اِس لفظِ مردہ کا اِحیاء ہوا ہے اور اب نُدرتاً یہ لفظ وہاں نظر آ جاتا ہے۔
یہ لفظ ایران میں اصطلاحاً دانشگاہوں کے 'کیمپس' کے فارسی مُعادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ نیز، ایرانی عورتوں کے نام کے طور پر بھی اِس لفظ کا کاربُرد (استعمال) نظر آیا ہے۔
ایرانی فارسی میں اِس لفظ کا تلفظ 'pardîs' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مقبول
افغان فارسی میں، خصوصاً کابُلی گفتاری فارسی میں، لفظِ 'مقبول' زیبا و خوبصورت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
تو بسیار مقبول استی. = تم بہت خوبصورت ہو۔


اگرچہ لغت نامۂ دہخدا میں اِس لفظ کا یہ معنی اور کہنہ ادبی فارسی میں اُس کے استعمال کی چند مثالیں ثبت ہیں، لیکن ایران اور تاجکستان کے لہجوں میں مَیں نے کبھی 'مقبول' کو 'زیبا' کے معنی میں استعمال ہوتے نہیں دیکھا، بلکہ وہاں یہ لفظ قبول شدہ یا موردِ قبول چیز اور پسندیدہ کے معنوں میں کام میں لایا جاتا ہے۔
فارسی میں لفظِ ہٰذا 'مشہور' کے مفہوم میں مستعمَل نہیں ہے۔

تو بسیار مقبول استی. = تم بہت خوبصورت ہو۔
مردُمِ ایران 'استی' کی بجائے 'هستی' استعمال کرتے۔
کابُلی فارسی میں عموماً 'ہ' کا تلفظ نہیں کیا جاتا، اِسی لیے مثلاً وہاں 'هفته' کو 'افته' بولا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top