اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے ::: ڈاکٹر محمد طاہر القادری

اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے
جو دل سے ہر اِک غیر کی چاہت کو بھلا دے


بس دیکھ لیا دنیا کے رشتوں کا تماشہ
مخلوق سے امید کے سب دیپ بجھا دے

پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اداسی
ھرذوقِ طلب شوقِ تمنا ہی مٹا دے

کیوں نیک گمانوں کے سہارے پہ جئیے ہیں
ان سارے فریبوں کو سرابوں کو ہٹا دے

دیکھے یا نہ دیکھے یہ تو محبوب کا حق ھے
نا تو آہ و فغاں کر نہ تو غیروں کو گِلہ دے

دے لذتِ دیدار کی بے ہوشی میں وہ ہوش
جو ہستی کی تعریف و تعین کو گنوا دے


اِک میں ھوں فقط تو ھو اور عالمِ ھو ہو
اے حسِن اَزل سارے حجابات اٹھا دے

ڈاکٹر محمد طاہر القادری
 
ہمممم!

ویسے پڑھنے لکھنے والے لوگ کبھی نہ کبھی شعر گوئی کی طرف راغب ضرور ہوتے ہیں۔ :)
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے ایک انٹرویو میں یہ شعر سنایا تھا

گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے۔۔۔۔
 
Top