mohsin ali razvi

محفلین
(رباعی)
از درگهت ای رسولِ یثرب مسکن
معذورم اگر به یادم آمد رفتن
نگذاشت مروت که ز گَردِ حرمت
عطری نرسانم به گریبانِ وطن

(ناظم هروی)
تیرے درگاہ سے اے رسول یثرب مسکن
میں عذر خوا ہ ھوں مجھے جانا ھی پڑا
یے مروت میں نہ تہا خاک درو درگاہ سے
نہ ملے عطر گریبان وطن کو آقا
عامل شیرازی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
از دست نوازش تپش دل نشود کم
ساکن نشود زلزلہ از پائے فشردن

جس طرح زمیں پر پاؤں مارنے سے زلزلہ کم نہیں ہوتا اسی طرح دل پر ہاتھ رکھنے سے دل کی تپش کم نہیں ہوتی۔
صائب تبریزی
 

حسان خان

لائبریرین
از دست نوازش تپش دل نشود کم
ساکن نشود زلزلہ از پائے فشردن

جس طرح زمیں پر پاؤں مارنے سے زلزلہ کم نہیں ہوتا اسی طرح دل پر ہاتھ رکھنے سے دل کی تپش کم نہیں ہوتی۔
صائب تبریزی
واہ! مضمون سازی میں صائب کا جواب نہیں۔
اسی غزل سے ایک اور شعر:
هر مائده از خوردنِ بسیار شود کم
جز مائدهٔ غم که شود بیش ز خوردن

(صائب تبریزی)
ہر خوراک زیادہ کھانے سے کم ہو جاتی ہے، سوائے غم کی خوراک کے، کہ جو کھانے کے باعث زیادہ ہو جاتی ہے۔
یعنی غم جتنا کھایا جائے، وہ اُتنا ہی بڑھتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بے تو بوئے گُل مرا دُودِ کبابِ بلبل است
جلوۂ شبنم نمک پاشیدنِ زخمِ گُل است


غنیمت کنجاہی

تیرے بغیر، پھولوں کی خوشبو میرے لیے ایسے ہے جسے بلبل کے کباب سے اٹھتا ہوا دھواں، اور تیرے بغیر شبنم کا جلوہ میرے لیے ایسے ہے جیسے پھولوں کے زخم پر نمک چھڑکنا۔
 

Ijaz Ahmed

محفلین
اگر اس رباعی کا ...صاحب اردو ترجمہ کر دیں تو ممنون ہوں گا
.
ہر چند گفتم نفسِ دُنی را
با ید نہ کردن نا کردنی را
ایں نفس سرکش نہ شنید از من
تا آخرش دید نہ دیدنی را
 
آخری تدوین:

Ijaz Ahmed

محفلین
1753ء میں احمد شاہ ابدالی کی تسخیرِ کشمیر کے بعد راجہ سُکھ جیون مل کو کشمیر کا گورنر مقرر کیا گیا اس نے 8 سال 4 ماہ اور 8 دن کشمیر کا ناظم رہنے کے بعد خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ یہ 1762ء کا واقعہ ہے ۔ راجہ سُکھ جیون مل نےایک مقامی سرکردہ شخص ابوالحسن بانڈے کو ساتھ ملا کر کشمیر کی آذاد خود مختار حکومت قائم کر لی۔ خود اس نے راجہ کا لقب اختیار کیا اور ابوالحسن بانڈے کو وزیر اعظم بنا دیا۔ احمد شاہ ابدالی نے یکے بعد دیگرے دو مہمات اس بغاوت کو کچلنے کیلئے بھیجیں لیکن دونوں میں ناکامی ہوئی ۔ تیسری بار اس نے نورالدین بامزئی کی سرکردگی میں ایک لشکر جرار کشمیر بھیجا ۔ مقابلہ ہوا اور سُکھ جیون مل کو شکست ہوگئی اور وہ گرفتار کر لیا ۔ نور الدین بامزئی نے اس کی دونوں آنکھیں نکال دینے کا حکم دیا۔ سُکھ جیون نے بڑے تحمل اور صبر کیساتھ اس ظلم کو برداشت کیا. اس نے یہ حکم سنتے ہی فی البدیہہ ایک نظم کہی جس کا پہلا شعر یہ تھا ۔

چشم از وضع جہاں پوشیدہ بہ
سر بسر احوال آں نادیدہ بہ

آنکھوں سے محروم ہونے کے بعد وہ اکثر یہ رباعی پڑھتا رہتا تھا

ہر چند گفتم نفسِ دُنی را
با ید نہ کردن نا کردنی را
ایں نفس سرکش نہ شنید از من
تا آخرش دید نہ دیدنی را

( جی ایم میر کی تاریخِ کشمیر پر لکھی گئی کتاب کِشورِ کشمیر سے)
 

حسان خان

لائبریرین
ہر چند گفتم نفسِ دُنی را
با ید نہ کردن نا کردنی را
ایں نفس سرکش نہ شنید از من
تا آخرش دید نہ دیدنی را
نہ تویہ مجھے رباعی معلوم ہو رہی ہے، اور نہ یہ اشعار مجھے موزوں لگ رہے ہیں۔ پھر بھی ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
اگرچہ میں نے اپنے پست نفس کو کئی بار کہا (یعنی سمجھایا) کہ جو کام بھی کیے جانے کے قابل نہ ہو اُسے نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس سرکش نفس نے میری نصیحت نہیں سنی، تا آنکہ اُس نے پیش آنے والے مقدر کو دیکھ نہ لیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غمِ مردن نبود جانِ غم اندوخته را
نیست از برق حذر مزرعهٔ سوخته را
(صائب تبریزی)

جس جان نے غموں کا ذخیرہ کیا ہو اُسے مرنے کا غم نہیں ہوتا؛ (اس کی ایک تمثیل یہ ہے کہ) جو کھیت جل چکا ہو اُسے آسمانی برق کا خوف نہیں ہوتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در کفِ عقل کم از قطرهٔ شبنم بودیم
کاوشی کرد جنون قُلزُمِ زخّار شدیم
(صائب تبریزی)

عقل کے ہاتھوں میں ہم شبنم کے قطرے سے بھی کم تھے؛ (پھر ہمارے) جنون نے ذرا سی کاوش کی اور ہم موجیں مارتا سمندر بن گئے۔

عالمِ بی‌خبری طُرفه بهشتی بوده‌ست
حیف و صد حیف که ما دیر خبردار شدیم

(صائب تبریزی)

بے خبری کا عالم ایک عجیب و حیرت انگیز جنت تھا؛ صد افسوس کہ ہم (اِس بات سے‌) دیر سے واقف ہوئے!
 
آخری تدوین:
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
جا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں
عثمان مروندی
 

محمد وارث

لائبریرین
از ما مپرس حالِ دلِ ما کہ یک زماں
خود را بحیلہ پیشِ تو خاموش کردہ ایم


صبری اصفہانی

ہم سے ہمارا حالِ دل مت پوچھ کہ مدتوں سے ہم خود کو مختلف حیلوں بہانوں اور کوششوں سے تیرے سامنے خاموش رکھے ہوئے ہیں۔
 
كتابي، خلوتي، شعري، سكوتي
مرا لطف و نشان زندگانيست
چه غم گر در بهشتي ره نہ دارم
كه در قلبم بهشتي جاوداني است

فرخ فروغ زاد

کتب ، تنہائی ، شاعری ، خاموشی
میری زندگی آرام و سکون کا نشان ہے
کس قدر اداس جس طرح میں جنت میں نہیں ہوں
جنت ہمیشہ کے لئے میرے دل میں ہے
 
ہمہ قبیلہ من عالمان دین بودند
مرا معلم عشق تو شاعری آموخت
سعدی شیرازی

میں ہوں تو عالمان دین میں سے
مگر مرا استاد عشق ہے اور شاعری میرا عشق
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
ز دستِ دیده و دل هر دو فریاد
که هر چه دیده بیند دل کند یاد
بسازم خنجری نیشش ز فولاد
زنم بر دیده تا دل گردد آزاد

(بابا طاهر همدانی)
آنکھ اور دل دونوں کے ہاتھوں فریاد ہے! کہ آنکھ جو کچھ بھی دیکھتی ہے، دل اُسے یاد کرتا ہے؛ میں ایک فولادی نوک والا خنجر بناؤں گا اور اُسے (اپنی) آنکھ پر ماروں گا تاکہ دل آزاد ہو جائے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
روزِ آدینه به مقصوره در آ تا خوانَد
خطبهٔ سلطنتِ حُسن به نامِ تو خطیب
(عبدالرحمٰن جامی)

جمعے کے روز منبر کے پاس چلے آؤ تاکہ خطیب سلطنتِ حُسن کا خطبہ تمہارے نام پر پڑھے۔
زمانۂ ماسبق میں خطباء حاکمِ وقت کے نام کا خطبہ پڑھا کرتے تھے۔
مقصورہ = مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کا چھوٹا حجرہ
آدینہ = جمعہ

جوششِ دریای فضلت نیک و بد را شامل است
گرچه از بد بدترم حاشا که مانم بی‌نصیب

(عبدالرحمٰن جامی)
تیرے فضل کے دریا کی طغیانی نے نیک و بد دونوں کو گھیرا ہوا ہے؛ اگرچہ میں بد سے بھی بدتر ہوں لیکن حاشا و کلا کہ میں (تیرے فضل) سے بے نصیب رہ جاؤں!

ز نقدِ عشق اگر خالی بوَد جیب
چه سود از گنجِ افریدونم ای دوست

(عبدالرحمٰن جامی)
اے دوست! اگر جیب عشق کی دولت سے خالی ہو تو پھر مجھے افریدون کے خزانے سے کیا فائدہ؟
[افریدون/فریدون = ایک اساطیری ایرانی بادشاہ]

هر نشان کز خونِ دل بر دامنِ چاکِ من است
پیشِ اهلِ دل دلیلِ دامنِ پاکِ من است

(عبدالرحمٰن جامی)
میرے دامنِ چاک پر خونِ دل کا جو بھی نشان ہے وہ اہلِ دل کے نزدیک میری پاک دامنی کی دلیل ہے۔

مرغی ز گِلم گر ز پسِ مرگ بسازند
جایی نپرد جز به در و بامِ سرایت

(عبدالرحمٰن جامی)
اگر موت کے بعد میری مٹی سے کوئی پرندہ بنائیں تو وہ تمہارے مکان کے در و بام کے علاوہ کسی اور جگہ اڑ کر نہیں جائے گا۔

دلم ضعیف و ز هر سو ملامتی چه کنم
که شیشه نازک و هر جا که می‌روم سنگ است

(عبدالرحمٰن جامی)
میرا دل ضعیف ہے اور ہر جانب سے کوئی ملامت ہوتی رہتی ہے۔۔۔ کیا کروں کہ شیشہ نازک ہے اور میں جس جگہ بھی جاتا ہوں وہاں پتھر (ہی پتھر) ہیں؟

هر کجا حالِ شب و بی‌خوابیِ خود گفته‌ام
زان فسانه خلق را رحم و ترا خواب آمده‌ست

(عبدالرحمٰن جامی)
میں نے جس جگہ بھی اپنی شب اور اپنی بے خوابی کا حال کہا ہے، اُس افسانے کو سن کر لوگوں کو رحم اور تمہیں نیند آئی ہے۔ [یعنی تم اتنے بے رحم ہو کہ میرے اس رحم انگیز افسانے کو سن کر تمہیں ہر جگہ نیند آنے لگی۔]

گر ترا جنسِ وفا باید به شهرِ عشق جوی
کان متاع اندر دیارِ حُسن نایاب آمده‌ست

(عبدالرحمٰن جامی)
اگر تمہیں جنسِ وفا چاہیے تو عشق کے شہر میں اس کی تلاش کرو کیونکہ یہ متاع دیارِ حُسن میں (بہت) نایاب واقع ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top