ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
نایاب
جب سب پہ یہ یقین ہے کہ کوئی بھی محبت کا انکار نہیں کرے گا ۔ تو پھر اظہار سے دامن بچانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
یاسر شاہ
کون لب پر بات نہیں لایا؟ صراحت ہونی چاہیے -میں شاید یوں کہتا: وہ دل کی اگر منھ سے نہ کہہ پائے تو کیا ہے
ایوب ناطق
اکثر احباب نے اس شعر پر کسی نہ کسی زاویے سے دبے لفظوں میں تنقید کی ہے' اور ان دوستوں کے سوالات کا بغور جائزہ لینے سے تین اعتراضات سامتے آتے ہیں
1۔ پہلے مصرعے میں کیا لفظ 'تو' کے بغیر بھی بات مکمل ہوتی ہے
2۔ دوسرے مصرعے میں 'اک' سے ابہام میں اضافہ ہوا
3۔ اور مجموعی طور پر شعر کا مضمون روائتی ہے
اگر پہلے مصرعے میں ''ان'' کو الف کی کسرہ کے ساتھ پڑھے تو شعر کا مفہوم ابھر تو آتا ہے لیکن ''اک بات'' کے ساتھ تو ''اس'' کا استعمال آنا چائیے تھا' اور وہ اایک بات ہے کیا ؟ کیا اظہارِ محبت ؟
لگتا ہے کہ ہمیں شعر کی کلید نہیں مل رہی' محترم
سید شہزاد ناصرکے رائے جاننے کی کوشش کرتے ہیں
سید شہزاد ناصر:
1۔ میری ناقص رائے میں "تو" کے بغیر شعر کا حسن مانند پڑجاتا ہے کسی طور پر بھی اضافی محسوس نہیں ہوتا
2۔ جب پہلے مصرعے میں وضاحت کر دی ہے "ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا" اور یہ ہی "اک بات" ہے جو وہ لب پر لانے سے گریزاں ہیں اس میں ابہام والی کوئی بات نہیں۔
3۔ آپ کے تیسرے اعتراض کی مجھے سمجھ نہیں آئی لہذا اس کی وضاحت سے معذور ہوں
معروضات:
جنابِ نایاب نے "اُن" کو جمع کے صیغے میں لیا ہے، یہاں یہ واحد تکریمی ہے۔ سید شہزاد ناصر کی توضیح بہت مناسب ہے، تاہم عرض کر دوں کہ محبت جیسی بات کا لفظاً زبان پر نہ لانا ضروری نہیں کہ انکار ہی ہو۔ کچھ خاموش اقرار بھی ہوا کرتے ہیں۔ جنابِ یاسر شاہ! فاعل "اُن" کا موجود ہونا میرا خیال ہے کہ دونوں مصرعوں کے لئے کافی ہے۔ جنابِ ایوب ناطق، یہ اک بات وہی ایک بات ہے جس کا انکار نہ ہونے کی توقع اس شعر میں پائی جاتی ہے۔مضمون کے روایتی ہونے پر اعتراض ہونا تو نہیں چاہئے، کہ محبت، نفرت، انکار، اقرار، جھجک مستقل اقدار و روایات میں شامل ہیں۔ سو جب تک روایات اور اقدار باقی ہیں، ان کا ذکر بھی باقی رہے گا۔ آپ کی رائے کے احترام میں کچھ اس لئے بھی خاموشی اختیار کرتا ہوں کہ فانی بدایونی کی سی چابک دستی میری رسائی میں کہاں! آپ اپنی ترجیح کے مطابق "اُن" کو "اِن" پڑھتے ہیں تو شعر کی تفہیم مشکل تر ہو جائے گی۔