نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

عباس اعوان

محفلین
ثابت کیجئے کہ ایسے افراد ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرے تو پھر سوچ لیجئے کہ آپ اپنے دعویٰ میں کتنے سچے ہیں
برادر محترم، فی الحال اپنے فورم کے دوستوں پر گزارا کیجیے،شاید فورم سے باہر والے لوگ فی الحال آپ کو قبول نہ ہوں۔
بےشک انسان اور چوہے کا جد 75 ملین سال پہلے گزرا ہے


قدیم Apes محض دو شاخوں؛ انسان اور بندر میں ہی تقسیم نہیں ہوئے بلکہ متعدد شاخیں دریافت شدہ ہیں۔ مثلاً تمام انسانی انواع میں سے صرف جدید انسان ہی اب تک زندہ بچا ہے۔ انسانوں کی باقی انواع مثلا نینڈرتھال وغیرہ معدوم ہوتے چلے گئے۔
جبکہ "بندروں" کی بہت سی اقسام معدوم ہوئیں اور بہت سی اب بھی زندہ ہیں۔ جن میں چمپینزی انسان کے قریب تر ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
برادر محترم، فی الحال اپنے فورم کے دوستوں پر گزارا کیجیے،شاید فورم سے باہر والے لوگ فی الحال آپ کو قبول نہ ہوں۔
چوہے اور انسان کے جد کے ایک ہونے کی بات کی جا رہی ہے، آپ ہرگز اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چوہے ان کے جد میں گذرے ہوں گے۔ براہ کرم اپنے الفاظ پر نظرِ ثانی کیجئے :)
 

عباس اعوان

محفلین
چوہے اور انسان کے جد کے ایک ہونے کی بات کی جا رہی ہے، آپ ہرگز اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چوہے ان کے جد میں گذرے ہوں گے۔ براہ کرم اپنے الفاظ پر نظرِ ثانی کیجئے :)
میں اپنے الفاظ حذف کیے دیتا ہوں، اور تمام حضرات سے معذرت بھی چاہتا ہوں گر اُن کا دل میرے الفاظ سے دُکھا ہو۔
لیکن برادر، آپ منطق کو مانتے ہیں، تو انسان اور چوہے کا جد ایک ہونے کا بتانے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد سعد

محفلین
میں نے شروع میں بھی ایک گزارش کی تھی کہ اپنی محدود عقل کی بنیاد پر تفسیریں کر کے خدا کو بتانا شروع نہ کر دیجیے کہ اس نے اپنی مخلوق کیسے پیدا کی۔ اگر آپ اس کو لامحدود طاقت والا خدا مانتے ہیں تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ جن مراحل سے چاہے، اپنی مخلوق کو گزار کر پیدا کر سکتا ہے۔ اور ہر انداز اپنی جگہ ایک معجزہ ہوگا۔
نظریہ ارتقاء کا غلط ہونا بھی ایک معجزہ ہوگا کہ کیسے عدم سے یہ سب کچھ وجود میں آ گیا۔
اور نظریہ ارتقاء کا درست ہونا بھی ایک معجزہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی بھٹیوں میں ہائیڈروجن جیسے ہلکے عنصر کو "پکا" کر اس سے بھاری عناصر پیدا کیے، پھر ان بھاری عناصر کی مختلف ترکیبوں میں زندگی کے اجزاء ترتیب دیے، پھر ان ستاروں کو پھاڑ کر ان "اینٹوں" کو پھیلا دیا، پھر ان کو جوڑ کر مختلف سیارے بنائے اور پھر زمین جیسے ایک سیارے پر انتہائی نامساعد حالات میں زندگی کی ابتداء کی، اور اس زندگی کو کہ جس کے پنپنے کی امید نظر نہ آتی تھی پھیلاتے پھیلاتے اتنا وسیع کر دیا کہ لاکھوں انواع اب اس سیارے پر چلتی پھرتی نظر آتی ہیں، پھر انسان کو پیدا کیا انہی اینٹوں سے جو کھربوں سال تک ستاروں کی بھٹیوں میں پکائی گئی تھیں، اس کو شعور جیسی نعمت عطا کی، محبت کرنے کی صلاحیت عطا کی۔۔۔ کیا اس میں بھی ایک ایک قدم ایک معجزہ نہیں؟
تو پھر کیوں آپ ایک ایسے موضوع پر اپنی رائے کو ہر صورت درست قرار دینا چاہتے ہیں جب قرآن خود اس کی تفصیل پر خاموش رہ کر آپ کو خدا کی تخلیق کے یہ مراحل خود کھوجنے کا موقع دیتا ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
میں اپنے الفاظ حذف کیے دیتا ہوں، اور تمام حضرات سے معذرت بھی چاہتا ہوں گر اُن کا دل میرے الفاظ سے دُکھا ہو۔
لیکن برادر، آپ منطق کو مانتے ہیں، تو انسان اور چوہے کا جد ایک ہونے کا بتانے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح تو اللہ پاک نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ اب بتائیے کہ کیا پانی سب کا جد امجد ہوا؟ :)
 

عباس اعوان

محفلین
جی محترم میں تو یہ نہیں کہہ رہا کہ انسان اشرف المخلوقات میں سے نہیں ہے۔ البتہ میں یہ ضرور کہہ رہا ہوں یہ آیت ارتقا کی نفی نہیں کرتی۔ کیونکہ تخلیق کے معنوں کو اگر آپ اتنا محدود کردیں کہ اس میں اس میں بلا واسطہ بنے بنائے "انسان" کی در آمد کو مانیں تو پھر نطفہ، حمل، شیر خواری، بچپن، لڑکپن، نو جوانی اور جوانی کی ساری منازل کی بھی نفی ہوتی۔ لیکن واضح ہے کہ لفظ "خلق" ان سب مدارج کی نفی نہیں کرتا، تو پھر ارتقا کی نفی کیسے ہوگی اس آیت سے؟
ممکن ہے تخلیقی منازل میں قران کے تفسیری اختلافات کی وجہ سے ارتقا کا ہونا موجود نہ مانا جائے۔ لیکن اس ککی نفی بھی موجود نہیں ہے۔

اس طرح تو اللہ پاک نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ اب بتائیے کہ کیا پانی سب کا جد امجد ہوا؟ :)
سورۃ 24: النُّور، آیت 45
وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِن مَّاء فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
ترجمہ(ہماری ویب): اور خدا ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ تو اس میں بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
آپ حضرات سے درخواست ہے ہے کہ تخلیق اور پیدائش کے فرق کو جانیں۔ رحمِ مادر میں انسان کے حمل سے لے کر پیدائش تک کے مدارج قرآن پاک نے بیان فرما دیے ہیں۔ اور یہ مدارج پیدائش کے ہیں۔
اللہ پاک نے چلنے والے جانداروں کی تخلیق پانی سے فرمائی، ااور بعض از تخلیق، پیدائش کے مرحلے سے ان کی نسل چلی۔
 

زیک

مسافر
یہ کلوننگ نہیں بلکہ ڈٰی این اے میں تبدیلی کر کے مختلف صفات پیدا کی جاتی ہیں
کلوننگ میں افرائش نسل میں ایک ہی فرد الف کے خلیے لے کر الف سے ہو بہو ملتی نئی نسل پیدا کی جاتی ہے

کوئی جسمانی مماثلت اور ڈی این کی مماثلت اس بات کی حتمی دلیل کیسے ہو گئی کہ یہ ارتقاء کے باعث ہوا ہے
یہ تو اس بات کی بھی نہایت مناست دلیل ہو سکتی ہے کہ ( تخلیق کی گئی) مستقل بنیادوں پر الگ الگ نوع کی آپس میں مماثلت ( جسمانی یا جینیاتی) ہے

اٹھانوے فی صد مماثلت ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے
سب سے پہلے تو ۹۸ فی صد یکسانیت کے نظرئیے کو واضح کردینا چاہیے کہ جو انسان اور چیمپینزی کے ڈی این اے کے حوالے سے ارتقا پرستوں نے پھیلایا ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ انسان اور چیمپینزی کی جینیاتی بناوٹ کے درمیان ۹۸ فی صد مماثلت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کرتے ہوئے انسانی جینوم کی طرح چیمپینزی کے جینوم کی بھی نقشہ کشی کی جاتی او رپھر دونوں کے جینوم کا موازنہ کیا جاتا۔ اس موازنے کے نتائج کا مطالعہ کیا جاتا۔ جبکہ ایساکوئی مطالعہ دستیاب نہیں ہے، کیونکہ اب تک صرف انسانی جین کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ چیمپینزی کے لیے اب تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور بندر کے جین کے درمیان ۹۸ فی صد مماثلت جو ایک اہم موضوع بن چکا ہے، ایک غلط پروپیگنڈا ہے جو آج سے برسوں پہلے تیار کرلیا گیا تھا۔ دراصل انسان اور چیمپینزی میں پائی جانے والی تیس چالیس بنیادی پروٹینز کے امائنو ایسڈز کے سلسلوں (Sequences) کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا تیار کیا گیا اور غیر معمولی مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس مماثلت کو بیان کیا گیا۔ اس سلسلے کا تجزیہ ’’ڈی این اے ہائبریڈائزیشن‘‘ (DNA hybridization) نامی طریقے سے کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس طریقے میں پروٹین کا تجزیہ شامل ہے، لیکن اس میں محدود پیمانے پر پروٹینز کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں۔چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے ۹۸ فی صد جینز یکساں ہیں۔ دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل ’’ڈی این اے کا موازنہ‘‘ (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے۔ یہ موازنہ ۱۹۸۷ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور ’مالیکیولر ایوولوشن‘ (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہواتھا۔ تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیارکیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32) ۔ ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی ۱۹۹۶ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت ۹۸ فی صد نہیں، ۲ء۹۶ فی صد ہے۔ انسان کا ڈی این اے کیڑے، مچھر اور مرغی سے بھی مماثل ہے اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے۔ انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر ہفتہ روزہ ’نیو سائنٹسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین ۷۵ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ (نیوسائنٹسٹ، ۱۵ مئی ۱۹۹۹ء، صفحہ ۲۷) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف ۲۵ فی صد فرق پایا جاتا ہے۔ ارتقا پرستوں کے تیار کردہ ’’ شجرۂ نسب‘‘ (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum236جس میں انسان شامل ہے) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے) اور انسانی جینز میں ۶۰ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا۔ حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ ’مگر مچھ‘ کا تھا۔ (نیو سائنٹسٹ، ۱۶ ؍ اگست۱۹۸۴ء، صفحہ ۱۹) انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے ۴۸ کروموسوم اور انسان کے ۴۶ کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طورپر بیان کرتے ہیں۔ لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ ’’ٹماٹر‘‘ سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس! جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا۔ او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جینیاتی مماثلتیں ’’ارتقائی ضابطہ‘‘ کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’حیاتی کیمیائی مماثلتوں‘‘ کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے۔ ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کرسکے۔ جریدہ ’’سائنس میگزین‘‘ میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:
“Molecular evolution is about to be accepted as a method superior to palaeontology for the discovery of evolutionary relationships. As a molecular evolutionist I should be elated. Instead it seems disconcerting that many exceptions exist to the orderly progression of species as determined by molecular homologies; so many in fact that I think the exception, the quirks, may carry the more important message” (Christian Schwabe ‘On the Validity of Molecular Evolution’, Trends in Biochemical Sciences. V.11, July 1986)
سالماتی حیاتیات میں ہونے والی نئی دریافتوں کی بنیاد پر ایک ممتاز حیاتی کیمیا داں پروفیسر مائیکل ڈینٹن کا اس ضمن میں خیا ل ہے کہ :
“Each class at molecular level is unique, isolated and unlinked by intermediates. Thus,molecules like fossils, have failed to provide the elusive intermediates so long sought by evolutionary biology… At a molecular level, no organism is ‘ancestral’ or ‘primitive’ or ‘advanced’ compared with its relatives… There is little doubt that if this molecular evidence had been available a century avo… the idea of organic evolution might never been accepted.” (Michael Denton, Evolution; A Theory in Crisis, London; Burnett Books 1985 pp.290-291)
مماثلتیں ارتقا کا نہیں، تخلیق کا ثبوت ہیں انسانی جسم کا کسی دوسری جان دار نوع سے سالماتی مماثلت رکھنا ایک بالکل قدرتی عمل ہے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے سالموں سے بنائے گئے ہیں، یہ سب ایک ہی پانی اور فضا استعمال کرتے ہیں اور ایک جیسے سالموں پر مشتمل غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نظام ہائے استحالہ (میٹابولزم) اور جینیاتی بناوٹیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان تمام انواع (انسان اور حیوان) کا جدِ امجد ایک ہی تھا۔یہ ’’یکساں مادہ‘‘ ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کا ’’یکساں ڈیزائن‘‘ ہے، گویا ان سب کو ایک ہی منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہے۔ اس موضوع کو ایک مثال سے واضح کرنا ممکن ہے: دنیا میں تمام عمارات ایک جیسے مادے (اینٹ، پتھر، لوہا، سیمنٹ وغیرہ) سے تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ تمام عمارتیں ایک دوسرے سے ارتقا پذیر ہوئی ہیں۔ وہ تمام علیحدہ علیحدہ، مگر یکساں مادے سے تیار کی گئی ہیں۔ یہی بات جان داروں (انسانوں اور حیوانوں) کے لیے بھی درست ہے۔ یہ زندگی ایک غیر شعوری، غیر منصوبہ بند سلسلہ عوامل کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ارتقا پرست دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ خالق عظیم اللہ عز و جل کی تخلیق کا نتیجہ ہے جو لامحدود علم اور حکمت کا مالک ہے۔
http://quraniscience.com/theory-of-darwinism-is-wrong/
چمپینزی کی جینوم سیکوینسنگ ہو چکی ہے

http://en.m.wikipedia.org/wiki/Chimpanzee_genome_project
 

زیک

مسافر
http://genecuisine.blogspot.com/2011/03/human-dna-similarities-to-chimps-and.html
اگر کیلے کا جینوم، انسانی جینوم کے غالباً 50 فیصد تک مماثل ہے، تو کہیں بہت پہلے انسان اور کیلے کا جد ایک ہی ہوگا، جیسا کہ بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ انسان کے سلسلہء نسب میں بندر اور چوہے بھی شامل ہیں۔
معلوم نہیں وہ کیا حالات ہوں گے کہ ایک ہی مخلوق کے آف سپرنگز میں سے ایک نے ارتقاء کرتے ہوئے درختوں سے لٹک کر زندگی بچانے کیے لیے اپنے ڈی این اے میں تبدیلی کر لی، اور دوسرے نے چوہے اور بندر سے ہوتے ہوئے انسان کی شکل اختیار کر لی۔۔۔
دوستو کوئی خبر ملی کہ انسان اور کیلے کے درمیان کی کڑی بھی موجود ہے ، یا کہ ارتقاءمیں اپنا حصہ ڈال کر یکسر غائب ہو گئے، اور ایسے غائب کے اپنے فوسلز بھی نہیں چھوڑے۔
تمام زندگی کا ماخذ ایک ہی ہے
 
سورۃ 24: النُّور، آیت 45
وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِن مَّاء فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
ترجمہ(ہماری ویب): اور خدا ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ تو اس میں بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
آپ حضرات سے درخواست ہے ہے کہ تخلیق اور پیدائش کے فرق کو جانیں۔ رحمِ مادر میں انسان کے حمل سے لے کر پیدائش تک کے مدارج قرآن پاک نے بیان فرما دیے ہیں۔ اور یہ مدارج پیدائش کے ہیں۔
اللہ پاک نے چلنے والے جانداروں کی تخلیق پانی سے فرمائی، ااور بعض از تخلیق، پیدائش کے مرحلے سے ان کی نسل چلی۔

میں پیدائش کے مدارج کی نفی نہیں کر رہا جناب۔ نہ میں تخلیق کی نفی کر رہا ہوں۔۔ میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ آپ جو جو آیات پیش کررہے ہیں ان میں سے "کسی میں بھی نظریۂ ارتقا کی نفی نہیں ہے۔"

والسلام۔۔
 
حاصل بحث محض یہ ہے کہ سائنس ، مذہب۔۔۔ اور مذہب سائنس کو سمجھنے میں مدد گار نہیں۔ اسی لیے سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ :)
یہ ان لوگوں کا نکتہ نظر ہے جو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے :)
اسلام کچھ دوسرے مذاہب کی طرح صرف اخلاقیات اور عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔ :)
 

زیک

مسافر
یہ ان لوگوں کا نکتہ نظر ہے جو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے :)
اسلام کچھ دوسرے مذاہب کی طرح صرف اخلاقیات اور عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔ :)
آپ کو مکمل ضابطہ حیات کا مطلب نہیں معلوم۔
 

عباس اعوان

محفلین
میں پیدائش کے مدارج کی نفی نہیں کر رہا جناب۔ نہ میں تخلیق کی نفی کر رہا ہوں۔۔ میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ آپ جو جو آیات پیش کررہے ہیں ان میں سے "کسی میں بھی نظریۂ ارتقا کی نفی نہیں ہے۔"

والسلام۔۔
میرے دوست، میرے بھائی، بتائیں تو سہی کہ جب خلق احسن تقویم پر ہو گئی، تو آپ کیسے بندر سے ارتقاء کروا رہے ہیں ؟؟؟
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق احسن اور کامل ہونے کے بعد اس میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہوئی ہیں، جیسے کہ آنکھوں کا رنگ وغیرہ تو یوں کہیں، ورنہ آپ تو مکمل طور پر ارتقاء کروانا چاہ رہے ہیں۔
یہ بات یاد رہے کہ ارتقاء، ترقی ہے، نہ کہ تغیر۔ آپ جب لفظ ارتقاء استعمال کر رہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے احسن تقویم پر خلق ہونے کے بعد بھی اس میں گنجائش تھی اور مزید ترقی ہوئی۔
ارتقاء اور تغیر کے تفاوت کو جانیں برادر۔
 
میرے دوست، میرے بھائی، بتائیں تو سہی کہ جب خلق احسن تقویم پر ہو گئی، تو آپ کیسے بندر سے ارتقاء کروا رہے ہیں ؟؟؟
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق احسن اور کامل ہونے کے بعد اس میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہوئی ہیں، جیسے کہ آنکھوں کا رنگ وغیرہ تو یوں کہیں، ورنہ آپ تو مکمل طور پر ارتقاء کروانا چاہ رہے ہیں۔
یہ بات یاد رہے کہ ارتقاء، ترقی ہے، نہ کہ تغیر۔ آپ جب لفظ ارتقاء استعمال کر رہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے احسن تقویم پر خلق ہونے کے بعد بھی اس میں گنجائش تھی اور مزید ترقی ہوئی۔
ارتقاء اور تغیر کے تفاوت کو جانیں برادر۔

میرا کل مدعا یہ ہے کہ تخلیق اور ارتقا آپس میں ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے۔ خدا نے انسان کو تخلیق کیا۔ یہ قران میں ہے۔ اب اس تخلیق کے راستے کیا کیا ہیں؟ سائنس اسی کو بتاتی ہے کہ دیکھو ارتقا ایک بہتر توجیہہ ہے کہ تخلیقِ آدم ان طریقوں سے ہوئی ہوگی۔ واضح رہے کہ میں یہاں نظریۂ ارتقا کی وکالت نہیں کر رہا۔ اور میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ نظریۂ ارتقا کو آنکھ بند کرکے قرانی نظریہ مان لیجئے۔ البتہ سوچنے کے زاویوں کو پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات خود قرانی آیاتِ کونیہ کی تفسیر کی تاریخ کے بھی خلاف ہے۔
اب اس میں کیا اعتراض ہے میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔
بہت آداب۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے دوست، میرے بھائی، بتائیں تو سہی کہ جب خلق احسن تقویم پر ہو گئی، تو آپ کیسے بندر سے ارتقاء کروا رہے ہیں ؟؟؟
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق احسن اور کامل ہونے کے بعد اس میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہوئی ہیں، جیسے کہ آنکھوں کا رنگ وغیرہ تو یوں کہیں، ورنہ آپ تو مکمل طور پر ارتقاء کروانا چاہ رہے ہیں۔
یہ بات یاد رہے کہ ارتقاء، ترقی ہے، نہ کہ تغیر۔ آپ جب لفظ ارتقاء استعمال کر رہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے احسن تقویم پر خلق ہونے کے بعد بھی اس میں گنجائش تھی اور مزید ترقی ہوئی۔
ارتقاء اور تغیر کے تفاوت کو جانیں برادر۔
ابھی کچھ اوپر ہی یہ بات طے ہوئی ہے کہ انسان بندر اور بندر انسان نہیں بنے، بلکہ یہ ان کے ایک مشترکہ جد کی طرف اشارہ ہے، لیکن آپ پھر بندر کو بیچ میں لا رہے ہیں؟ یہ بحث کے آداب کے خلاف ہے حضرت :)
 

عباس اعوان

محفلین
میرا کل مدعا یہ ہے کہ تخلیق اور ارتقا آپس میں ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے۔ خدا نے انسان کو تخلیق کیا۔ یہ قران میں ہے۔ اب اس تخلیق کے راستے کیا کیا ہیں؟ سائنس اسی کو بتاتی ہے کہ دیکھو ارتقا ایک بہتر توجیہہ ہے کہ تخلیقِ آدم ان طریقوں سے ہوئی ہوگی۔ واضح رہے کہ میں یہاں نظریۂ ارتقا کی وکالت نہیں کر رہا۔ اور میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ نظریۂ ارتقا کو آنکھ بند کرکے قرانی نظریہ مان لیجئے۔ البتہ سوچنے کے زاویوں کو پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات خود قرانی آیاتِ کونیہ کی تفسیر کی تاریخ کے بھی خلاف ہے۔
اب اس میں کیا اعتراض ہے میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔
بہت آداب۔
آپ دو باتیں بھول رہے ہیں۔
تخلیقِ انسان احسن تقویم پر ہوئی۔ جس میں تغیر تو ممکن ہے کہ جیسے بھورے بال، نیلی آنکھیں وغیرہ۔ لیکن ترقی نہیں کہ تخلیق ہی احسن اور کامل ہوئی، جسے آپ انگریزی میں پرفیکٹ کہتے ہیں۔ اور آپ کو پتا ہے کہ پرفیکشن کے بعد ترقی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اور سائنس تو ایک ہی نسل سے انسان، بندر، چوہے حتیٰ کہ کیلے کو جینوم میں مماثلت کی بنا پر ایک ہی جاندار جد سے پیدا اور ارتقاء شدہ مانتی ہے۔ سائنس ابھی وہاں تک نہیں پہنچی جہاں تک مذہب نے علم دے دیا۔
تخلیقِ آدم پر مزید آیات بھی موجود ہیں، مزید دیکھیے https://www.facebook.com/MonaElRo7/posts/277026969022721
 

عباس اعوان

محفلین
ابھی کچھ اوپر ہی یہ بات طے ہوئی ہے کہ انسان بندر اور بندر انسان نہیں بنے، بلکہ یہ ان کے ایک مشترکہ جد کی طرف اشارہ ہے، لیکن آپ پھر بندر کو بیچ میں لا رہے ہیں؟ یہ بحث کے آداب کے خلاف ہے حضرت :)
آپ ماشا ء اللہ تعالیٰ منطقی بندے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور سمجھ جا ئیں گے۔
جاندار A جدِ مشترک ہے۔
جاندار B ارتقاء شدہ یعنی انسان ہے اور وہ جاندار A کا آف سپرنگ ہے۔
جاندار C غیر ارتقاء شدہ یعنی بندر ہے اور وہ جاندار A کا آف سپرنگ ہے اور چونکہ غیر ارتقاء شدہ ہے، اس لیے بالکل اپنے جد جیسا ہے۔
اب جاندار A کو، جو کہ جاندارC جیسا ہے، جاندار B کا جد نہ مانا جائے ؟؟
 
لیکن ترقی نہیں کہ تخلیق ہی احسن اور کامل ہوئی، جسے آپ انگریزی میں پرفیکٹ کہتے ہیں۔ اور آپ کو پتا ہے کہ پرفیکشن کے بعد ترقی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
مسئلہ وہی ہے.
ارتقا کا نظریہ تو ابھی تک انسان کے بہترین مخلوق ہونے کو بھی نہیں جھٹلاتا.
بس معانی مراد لینے کا مسئلہ ہے. آپ کہتے ہیں کہ انسان ڈائرکٹ بلا واسطہ اسی شکل میں تخلیق کیا گیا ہے. اور میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس تشریح کو حتمی قرار دینا مناسب نہیں. :)
نظریہ ارتقا پر اعتراضات اسے قران سے متصادم بتائے بغیر بھی اٹھائے جاسکتے ہیں. تو کیا ضرورت ہے کہ اسے زبردستی قران کے خلاف نظریہ بتایا جائے. جبکہ ایسی کوئی مجبوری بھی لاحق نہ ہو.
 
آپ ماشا ء اللہ تعالیٰ منطقی بندے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور سمجھ جا ئیں گے۔
جاندار A جدِ مشترک ہے۔
جاندار B ارتقاء شدہ یعنی انسان ہے اور وہ جاندار A کا آف سپرنگ ہے۔
جاندار C غیر ارتقاء شدہ یعنی بندر ہے اور وہ جاندار A کا آف سپرنگ ہے اور چونکہ غیر ارتقاء شدہ ہے، اس لیے بالکل اپنے جد جیسا ہے۔
اب جاندار A کو، جو کہ جاندارC جیسا ہے، جاندار B کا جد نہ مانا جائے ؟؟

بندر غیر ارتقا شدہ نہیں ہے. بندر اور انسان دونوں ارتقا کے نتیجے میں ظاہر ہوئے ہیں.
بمطابق نظریہ ارتقا.
 
Top