ام اویس

محفلین
کبھی کبھی دن کا آغاز دکھ تکلیف اور رنج کے ساتھ ہوتا ہے ۔ بہت سی تکلیف دہ باتیں جو شعور میں موجود ہوتی ہیں انسانی ذہن کو شدت سے متاثر کرتی ہیں ۔ انسانوں کے عمومی روئیے ، بچھڑوں ہوؤں کی یاد ، معاشرے کی ظالمانہ رسمیں ، رشتہ داروں کی قطع رحمی اور خود غرضی ، عزیزوں کی بے حسی اور لاپرواہی دل ودماغ کو متاثر کرتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مذاق اور ذمہ داران کی طرف سے غیر سنجیدہ سوچ وعمل ، ملکی سطح کے مسائل پھر گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا بھر کے مسائل ہر حساس انسان کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔
جس کا پہلا اثر سب سے قریبی تعلق رکھنے والوں پر پڑتا ہے ۔
انسانی دماغ اتنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا ۔۔۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس پر اسکا زور چلتا ہے اسی پر سارے رنج ، غم ، فکر اور پریشانی کا غبار نکال دیتا ہے ۔ حالات ومصائب کے اس بھنور میں بجائے کچھ بہتری لاسکنے کے اپنے عزیز ترین رشتوں کو بھی کھو دیتا ہے ۔ ذرا سی کوتاہی اس سے اس کے ہمدردوں کو بھی دور کردیتی ہے ۔
ایسے موقعے پر صبر وتحمل کا دامن تھام رکھنا بہت مشکل کام ہے ۔ ایسے موقع پر ہی انسان کی برداشت کا امتحان ہوتا ہے ۔ اگر وہ تحمل و تدبر سے کام لے لے ۔ حالات کی جس قدر اصلاح ممکن ہو کرکے الله تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر معاملے کو الله کے حوالے کردے ، الله کے حضور دست دعا پھیلا دے اور اسی کو اپنے ہر معاملے کا وکیل و مدد گار مقرر کردے تو اس مشکل مرحلہ سے آسانی سے گزر سکتا ہے ۔
الله کریم اس فانی انسان کا خالق ومالک ہے پھر اس کا وعدہ ہے کہ میں کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا
تو انسان کو چاہیے کہ وہ الله کا بندہ بن کر اس سے اپنے ذہنی ، جسمانی ، معاشی ، معاشرتی ، ملکی اور بین الاقوامی ہر قسم کے بوجھ ہلکا کردینے کی دعا کرے ۔ اسی سے اپنا تعلق مضبوط کرے اسی کو احکم الحاکمین تصور کرتے ہوئے ہر معاملے کے حل کی اسی سے دعا و التجا کرے ۔
الله کو اپنے بندے سے یہی یقین مطلوب ہے
 

ام اویس

محفلین
*محبت کی پہلی نشانی محبوب کی تعریف کرنا ہے ۔ ایک ماں سے اس کے بچے کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ اس کی تعریف کرنا شروع کردیتی ہے ۔ وہ ایسا ہے ، وہ ایسے کرتا ہے ، وہ ایسے خوش ہوتا ہے ۔۔ اگر ایسے کریں تو وہ ناراض ہوجاتا ہے ۔*

*خالق و مالک سے محبت بھی اس کی حمد و ثنا سے شروع ہوتی ہے ۔ سبحان الله ۔۔۔ وہ ہر عیب سے پاک ہے ، الحمد لله ۔۔ ہر طرح کی تعریف کا مستحق صرف اور صرف وہی ہے ۔ الله اکبر ۔۔ وہ عظیم ہے ہر لحاظ سے اور ہر ایک سے ۔*
*اور محبت کی بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی پسند ناپسند کے بارے میں پوری آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میرے پیارے کو کیا پسند ہے ؟ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے ؟ اور کون سی باتیں اس کی ناپسندیدگی کا سبب بن سکتی ہیں ؟*

*حقیقی محبت آداب محبت خود سکھا دیتی ہے ۔ پھر بندہ اس فکر میں رہتا ہے کہ میرےمالک کو کیا پسند ہے ۔ کون سی باتیں اور کون سے کام ہیں جو اس کو ناگوار ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے دلوں میں الله جل شانہ کی محبت بیدار کرنی چاہیے ۔ اس کی عطا کردہ بے بہا نعمتوں کو ہر وقت نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ اور اس کی عنایات کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ یہی اس خالق ومالک کا حق ہے ، اور یہی اس سےمحبت کی شان ۔*

*سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم ۔*
 

ام اویس

محفلین
دھیان ہر پل تری ثنا میں رہے
گمان ہر پل ترے گماں میں رہے

مکان دل کا توہی مقیم رہے
غیر کی فکر نہ گماں میں رہے
 
Top