ہوں پارسا تیرے پہلو میں شب گزار کے بھی :: سلیم صدیقی

ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی
میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی

ہر ایک سر کو بلندی عطا نہیں کرتے
اصول ہوتے ہیں کچھ تو صلیب و دار کے بھی

ہمارے عکس بھی دھندلے ہوئے تو ہم سمجھے
کہ آئینوں سے ہیں رشتے یہاں غبار کے بھی

نہ آبلوں سے ہے رغبت نہ پاؤں سے رنجش
عجب سلوک ہیں میدانِ خارزار کے بھی

وہ بے یقین بھروسہ نہ کر سکا ورنہ
تھے میرے ساتھ کئی لوگ اعتبار کے بھی

فقط تمہیں کو نہیں اپنی سادگی پہ غرور
دماغ عرش پہ رہتے ہیں خاکسار کے بھی

میں جس کے پاؤں کی آہٹ کا منتظر تھا سلیم
وہ جا چکا مجھے دہلیز سے پکار کے بھی

سلیم صدیقی
 
Top