بدلہ

عبد الرحمن

لائبریرین
کراکراتی اور چلچلاتی دھوپ میں جمعہ کی نماز پڑھ کر میں مسجد سے باہر نکلا تو چند قدم طے کرنے کے بعد ہی ایک معمر صاحب ایک ہاتھ میں تربوز اور دوسرے ہاتھ میں خربوزے کا بڑا سا تھیلا اٹھائے جھومتے نظر آئے۔ گرمی کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنا پھل انہوں نے خرید تو لیا تھا لیکن اچھی صحت ہونے کے باوجود انہیں اسے گھر لے جانا دشوار ہورہا تھا۔ وہ کبھی سیدھی طرف تو کبھی الٹی طرف لڑکھڑارہے تھے۔ مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا اور آنا فانا ان کے نزدیک پہنچ کر تھیلا ہاتھ میں لیتے ہوئے ان سے کہا۔ "لایے حضرت سامان مجھے دے دیجیے۔ میں گھر تک چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔"

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے تھیلے میری جانب بڑھادیے اور لگے مجھے دعائیں دینے۔ میں نے ان صاحب کے چہرے پر غور کیا تو پتہ چلا ان کے چہرے سے پسینہ ایسے ٹپک رہا تھا جیسے ٹھنڈی بوتل کو فریج سے نکالنے کے بعد اس کے بخارات بہہ رہے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ ابھی بھی مسلسل چکرارہے تھے۔

چوں کہ اب ہم دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے تو میرا تعارف لینا حضرت صاحب کے لیے ناگزیر تھا۔ تاہم اپنا انٹرویو دیتے ہوئے مجھے پتہ ہی نہ چلا میں کب ان کے ساتھ ان کے گھر کے بالکل باہر کھڑا تھا۔ گھر عالی شان تھا اور دور سے ہی آنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا تھا۔ گیٹ پر کھڑے ہوئے ہی میں نے اجازت چاہی تو مشفق بزرگ نے سختی سے انکار کیا اور بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ اندر لے آئے۔ وہ مجھے گھر والوں سے ملوائے بغیر اور خاطر تواضع کیے بنا رخصت کرنے کے حق میں نہیں تھے۔

شرماتا گھبراتا میں ان کے ساتھ اندر چلا آیا۔ گھر کا دروازہ بیچوں بیچ تھا۔ جس کو تین سنگ مرمر کی سیڑھیاں چڑھ کر عبور کرنا پڑتا تھا۔ دائیں طرف بڑا سا باغ جو ہری بھری گھاس اور کیاریوں کے رنگا رنگ پودوں سے سجا ہوا تھا۔ اور دروازے کے بائیں طرف پکا فرش تھا جہاں سفید رنگ کی ایک لمبی گاڑی اور ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی۔

گھر کے اندر داخل ہونے کے بعد وہ مجھے ڈرائنگ روم کے صوفے پر بٹھا کر کچھ دیر کے لیے نظروں سے اوجھل ہوئے اور واپس آکر باتوں کا سلسلہ نئے سرے سے شروع کیا۔ کچھ دیر بعد ان کی زوجہ محترمہ تشریف لائیں اور پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے لال شربت کا گلاس تھما دیا۔ چوں کہ لال شربت اپنی حد سے بڑھی ہوئی مٹھاس کے باعث مجھے کبھی پسند نہ آیا تھا اس لیے میں نے تکلفا اسے قریب ہی دھری میز پر رکھ دیا اور ذہن میں کسی طرح اس سے پیچھا چھڑانے کے منصوبے بنانے لگا۔

باتوں باتوں میں میری پڑھائی اور دیگر سرگرمیوں کی بھی بات چلی جس پر میں نے بڑے پرسوز اطمینان سے یہ انکشاف کردیا کہ میٹرک میں بھی خدا خدا کر کے ریاضی میں "جسٹ پاس" ہوئے تھے لیکن کالج میں تو پاسنگ مارکس کی بھی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ البتہ باقی مضامین میں کارکردگی قابل اطمینان نہیں تو قابل احتساب بھی نہیں۔ گویا دبے لفظوں میں اپنی نالائقی کا اعتراف کردیا تھا۔

"بیٹا کوئی اچھی ٹیوشن کیوں نہیں لیتے؟" دونوں مہربانوں کو میری دل سے فکر ہورہی تھی۔ "معلمی آج کل صرف ایک پیشہ بن کر رہ گیا ہے۔ طالب علم کے جذبات کو سمجھنا، اس کی مشکلات کا ادراک کرنا، اس کی ذہنی سطح پر اتر کر دوستوں کی طرح اسے سبق پڑھانا، اس کے ساتھ دل لگانا یہ سب آج کل کے ٹیوشنوں اور سینٹروں میں مفقود ہے۔ ایسے حالات میں پڑھنے والے پڑھ لیتے ہیں لیکن ہم بالکل نہیں پڑھ پاتے۔ اس لیے اپنی مدد آپ کے تحت جتنا ہم خود پڑھ سکتے ہیں ضرور پڑھتے ہیں۔" میری یہ دانش مندانہ گفتگو سن کر دونوں بالکل خاموش ہوگئے لیکن دل ہی دل میں میرے معترف بھی ہوگئے۔

ابھی مجھے خاموش ہوئے چند لمحے ہی گزرے ہوں گے جب ڈرائنگ روم میں ایک کسرتی بدن کا لمبا تڑنگا لڑکا داخل ہوا جس کی شرٹ کے اوپری بٹن کھلے ہوئے تھے۔ بال اتنے لمبے تھے کہ چاہتا تو آرام سے پونی بنا سکتا تھا۔ کلین شیو مگر مونچھیں نمایاں تھیں جس کو دونوں جانب سے تاؤ دینے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ گویا غنڈہ گردی کے جو گر وہ اپنے اندر پیدا کرسکتا تھا کر رکھے تھے۔ آتے ہی دیوار کے ساتھ لگے کی ہولڈر سے ایک چابی اٹھائی جو مجھے موٹر سائیکل کی لگی۔ اور ساتھ ساتھ مجھ پر بھی کھا جانے والی نظریں جمادیں۔ "یہ کون ہے؟" درشتی سے اس نے بزرگ سے سوال کیا؟ کہاں جارہے ہو تم؟ اسی درشتی سے بزرگ نے جوابی سوال کیا۔ جس کا اس نے لاپروائی سے یک سطری جواب دیا کہ دوستوں میں جارہا ہوں اور باہر نکل گیا۔ بزرگ کے سوال سے اس کا دھیان میری طرف سے ہٹ گیا تھا۔ بزرگ کو شاید معلوم تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے تاہم پوچھنا پھر بھی ضروری سمجھا۔

"یہ میرا بیٹا ہے۔" اس کے باہر جانے کے بعد پہلا جملہ میں نے بزرگ سے یہ سنا۔ بات کو آگے ان کی اہلیہ نے بڑھایا۔ بہت لاپرواہ اور آوارہ ہوگیا ہے۔ بہت ہوشیار ہے مگر اپنی ہوشیاری کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہا ہے۔ اس لڑکے کے ماں باپ کی پریشانی دیکھ کر میرے چہرے سے بھی فکرمندی ظاہر ہونے لگی۔

ابھی مشکل سے ہی کچھ پل اور گزرے ہوں گے کہ خزاں کے موسم کی مانند سوگوار ماحول میں یکایک بہار کی ٹھنڈی ٹھنڈی دلکش ہواؤں نے انگڑائی لی۔

پہلے ہی لمحے میں اس کی جلوہ گری میرے ذہن میں نقش ہوکر رہ گئی۔ یہ بات نہیں تھی کہ میں اس سے پہلے حسن سے آشنا نہیں تھا۔ لیکن کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو رعنائی اور زیبائی کو ایک نئی تعریف دے جاتے ہیں۔ وہ چہرہ بھی ان لاکھوں چہروں میں سے ایک تھا۔

اس عشوہ طراز نے جامنی رنگ کا لمبا فراک زیب تن کر رکھا تھا، سینے پر دھری لمبے سیاہ بالوں کی کس کر بنائی گئی چٹیا کالے ناگ کی طرح کسی قیمتی خزانے کی حفاظت کا منظر پیش کر رہی تھی۔ نیچے سفید چوری دار پاجامہ اس کے جامنی فراک کے ساتھ بہت جچ رہا تھا۔ گھنی پلکیں اور اس پر قدرتی گہرا کاجل، اس کی آنکھوں میں عجب سا سحر طاری کر رہا تھا۔ وہ سر تا پا ادا ہی ادا تھی جس پر میں فدا ہی فدا ہورہا تھا۔

کبھی پہلو بدل کر اور کبھی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر میں اپنی بے چینی کو قابو میں لانے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ بزرگ پھر گویا ہوئے یہ میری بیٹی ہے۔ اس بار ان کے چہرے پر تبسم تھا۔ جو اس بات کا پتہ دے رہا تھا کہ انہیں اپنی بیٹی کس قدر عزیز ہے۔ میں جو اندر ہی اندر بل کھا رہا تھا بزرگ کے گویا ہونے سے یک دم سنبھل گیا اور اپنے اندر کے امڈتے سیلاب کے آگے بند باندھتا ہوا پھر سے پرانی سنجیدگی میں آگیا۔

"مجھے اب اجازت دیجے۔" میں نے اب نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ "آپ نے شربت تو پیا ہی نہیں۔" میں چونکا۔ شربت کی طرف توجہ دلانے والے ماں باپ نہیں بلکہ اُن کی لاڈلی صاجزادی تھی۔ میں ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھ کر شرم سے پھر نظریں چرا گیا۔ کچھ کہے بنا میں نے گلاس اٹھا لیا اور بڑے بڑے گھونٹ لیتا ہوا شربت پی لیا۔ اس کی زبان سے نکلنے والا جملہ اس قدر میٹھا تھا کہ لال شربت کی چاشنی بھی مجھے پھیکی پھیکی سی لگی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ میرے لیے ناگوار ہوگیا۔ لیکن اس وقت میری یہ حالت تھی کہ اگر وہ مجھے زہر بھی پینے کو دیتی تو میں اسی طرح چپ چاپ پی لیتا۔

میری بیٹی نے بی کام کیا ہے۔ میتھس میں بہت اچھی ہے۔ تم کل سے پڑھنے آجاؤ میتھس کے ساتھ ساتھ باقی سبجیکٹس بھی پڑھادے گی۔ میری حالت اس وقت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔

مجھے لگ رہا تھا میں ایک لفظ بھی بولوں گا تو ہمیشہ کے لیے قوت گویائی سے محروم ہوجاؤں گا۔ بڑی مشکل سے اتنا کہہ سکا کہ کیا فیس لیں گی آپ؟ اس پر وہ سب ہنس پڑے۔ وہ بھی دھیمے سے مسکائی۔ اور اس کی مدھر سی مسکان نے میرے رہے سہے حواس بھی معطل کردیے۔

اگلے دن سے ہی میں اُس ماہ پارہ کے گھر ٹیوشن پڑھنے کے لیے پہنچ گیا۔ سب سے دعا سلام کرلینے کے بعد وہ مجھے سیدھا اپنے کمرے میں لے گئی اور میری پچھلی کارکاردگی کا ایک سرسری سا جائزہ لینے کے بعد مجھے ابتدا سے پڑھانا شروع کردیا۔ آج اُس کے بال مکمل کھلے تھے۔ اُس کی اڑتی زلفوں پر ایک ایسا مسحور کن اندھیرا تھا جس کے آگے ہزاروں روشن سویرے خوشی خوشی قربان تھے۔ اُس کے دلنشین انداز بیان کی وجہ سے میں اُس کے سامنے گونگا ہوکر بیٹھا رہتا تھا اور ہر سوال کی تفہیم پر سر ہلاتا رہتا تھا۔ سلام دعا کے علاوہ اُس نے میری آواز کبھی نہ سنی تھی۔ میں اُس سے ریاضی کے متعلق کوئی سوال نہ کرتا تھا۔ بس پلکیں جھپکائے بغیر اُس کو دیکھتا ہوا سنتا رہتا تھا۔ لیکن ایک بات جس پر میں سراپا تعجب تھا وہ یہ کہ مجھے اب ریاضی میں مزہ آنے لگا تھا۔ ایک دم سے جیسے کوئی معجزہ ہوا تھا جس نے میرے کند ذہن میں روشنیاں بھردی تھیں۔ مشق میں دیے جانے والے سوال جب میں اُسے حل کر کے دکھاتا تھا تب وہ بہت خوش ہوتی تھی۔

آخر کار میری طرف سے جب خاموشی کا روزہ نہ توڑا گیا تب ایک بار زچ ہوکر وہ خود ہی بول پڑی۔ " یہ تم مجھے اس طرح سے کیوں دیکھتے رہتے ہو؟ کیا میری صورت بہت اچھی ہے؟ تمہیں پتہ نہیں ہم دونوں کی عمر میں کتنا فرق ہے؟"

"جی۔۔۔۔۔؟" میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس کے اندر چلا جاؤں۔ "نہیں۔۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔ معافی چاہتا ہوں کل سے پڑھنے نہیں آؤں گا۔"

تم پاگل ہو؟ میں نے تمھیں جانے کا کہا ہے؟ ایک سوال پوچھا ہے اس کا سیدھا سیدھا جواب نہیں دے سکتے تم؟"

میری جان میں کچھ جان آئی اور رکا ہوا سانس تھوڑا بحال ہوا۔ میں نے آخری سوال تو نظر انداز کردیا۔ لیکن پہلے دو سوالوں پر میری توجہ کچھ زیادہ ہی مرکوز ہوگئی۔ بہت اچھی صورت؟ میں نے حیرانگی سے کہا۔ "اگر خدا کو جنت کی حوروں کا نمونہ دنیا والوں کو دکھانا ہو تو وہ مثال کے طور پر یقینا آپ کو ہی پیش کرے گا۔"

میرا یہ برجستہ تبصرہ سن کر وہ بدک گئی اور شرم سے لال ہوگئی۔ سرخی و سفیدی کا یہ امتزاج اُس پر بہت جچ رہا تھا۔

چلو آج بہت پڑھ لیا۔ تم ویسے خود کو نالائق کہتے ہو لیکن ہو بڑے لائق۔ خیر آج ہم باتیں کرتے ہیں۔ تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں؟ "جی نہیں، اعتراض کیسا؟" میں نے بمشکل خشک ہونٹوں کو تر کرتے ہوئے جواب دیا۔ میرا دل اس زور سے دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا ابھی باہر نکل آئے گا۔ میری یہ مشکل بھی اسی نے آسان کی اور بے تکلف ہوکر بولتی چلی گئی۔

اُس دن پتہ چلا وہ بولتی بہت تھی۔ لیکن میرے کانوں میں تو رس ہی گھولتی تھی۔ اُس کی باتیں کوئی گہری فلسفیانہ مظاہر کی علامت نہیں ہوتی تھی مگر مجھے پھر بھی بہت لطف آتا تھا۔ باتوں باتوں میں اُس نے سنگھار میز سے اپنی تین ہری چوڑیاں میرے آگے لہرائیں اور اُنہیں پہنتے ہوئے کہنے لگی: "جانتے ہو یہ میری پسندیدہ چوڑیاں ہیں۔ لیکن ٹوٹ ٹوٹ کر بس تین ہی بچی ہیں۔ لیکن مجھے یہ تین بھی اتنی پسند ہیں کہ انہیں بھی خوشی خوشی پہنتی ہوں۔"

اُسے چوڑیاں پسند ہیں؟َ میں نے خود سے یقین دہانی والے لہجے میں سوال کیا۔ میں من ہی من کچھ طے کرچکا تھا۔ جب وہاں سے خوب سیر ہوکر باہر نکلا تو سیدھا چاچا کرمو کی دکان میں گھس گیا۔ چاچا کرمو کی آرٹی فیشل جیولری کی بڑی دکان تھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ چاچا چیزیں تو آرٹی فیشل بیچتے تھے۔ لیکن ان کے اخلاق بالکل آرٹی فیشل نہیں تھے۔ گاہک ہو یا کوئی عام سوالی سب سے خندہ پیشانی سے ملتے۔ رعایتی قیمتوں پر سودا کرنے کے قائل تھے۔ لالچ اور حرص سے کوسوں دور تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مجھ پر بہت مہربان تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم چاچا! وعلیکم السلام ببوے! آج ادھر کیسے؟

"وہ چاچا ایک چھوٹا سا کام ہے آپ سے۔" میں نے جھجھکتے ہوئے کہا۔ "ہاں شہزادے کام ہے تبھی تو چاچے کے پاس آیا ہے ورنہ تو یہاں تُو پھٹکتا بھی نہیں۔

اچھا بول کیا چاہیے؟"

چاچا نے سیدھا سوال کرڈالا تو میں بھی سیدھا بول پڑا۔

"وہ ہری والی چوڑیاں۔"

میں نے شو کیس کے ایک طرف اشارہ کیا تو چاچا نے پہلے حیرانی سے چوڑیوں کو پھر مجھے دیکھا۔ "تجھے چوڑیاں پہننے کا کب سے شوق ہوگیا پگلے؟ یہ کنیاؤں کے کام ہوتے ہیں۔"

"مجھے اپنے لیے نہیں چاہیے چاچا لیکن مجھے چاہیے۔"

مجھے چاچا کا جواب معلوم تھا اس لیے میں نے جواب پہلے سے ہی تیار کررکھا تھا۔ "کس کے لیے؟َ" چاچا نے بھنویں اچکا کر حیرانی سے پوچھا۔ جواب میں میری مسکراہٹ پر جہاں دیدہ چاچا بھی اس طرح مسکرادیے جیسے پورا معاملہ سمجھ گئے ہوں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ چاچا پورا معاملہ سمجھ گئے تھے۔

"تولے جا۔ منع کیا ہے کبھی تجھے۔" "نہیں ایسے نہیں۔ محنت مزدوری کرکے۔ ورنہ نہیں۔"

مفت کا مال محبوبہ کے قدموں میں ڈال دینا میری غیرت کے خلاف تھا۔ خون پسینے سے پیش کی گئی چیز کا کیا مول ہوتا ہے یہ سمجھایا نہیں جاسکتا صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

چاچا میری عادات سے واقف تھے۔ اس لیے کچھ نہیں بولے سوائے اس کے کہ اچھا جو کرنا ہے کر۔

چاچا نے میرا جتنا دھیان رکھنے کی کوشش کی میں نے اتنا ہی کام کا بوجھ اپنے اوپر لے کر چوڑیاں حلال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

چاچا بکریوں کے بہت شوقین تھے۔ بقرہ عید میں تو الگ مگر یوں بھی سال بھر بکریاں پالا کرتے تھے اور اپنی دکان کے باہر ہی باندھ دیا کرتے تھے۔ لیکن اس طرح کہ آنے جانے والوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

صورت حال میرے حق میں کچھ اس طرح ہوگئی تھی کہ چاچا کا واحد ملازم بیماری کی وجہ سے دو دن کی چھٹی پر تھا۔ میں شام کے اوقات میں بکریاں ٹہلانے لے جاتا۔ ان کے گھاس پھوس کا انتظام کرتا۔ چاچا کی روٹی کا اہتمام کرتا۔ اور نجانے کتنے کام جو میرے بس کے نہیں تھے اپنے سر لے لیتا۔ دو دن کی انتھک محنت کے بعد چاچا نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے اور قسم کھا کر کہا کہ تو دو دن میں ایک مہینہ کا کام کرچکا ہے اس لیے اب خود پر نہیں تو مجھ پر رحم کھا اور جو لوٹنے آیا تھا لوٹ کر چلا جا۔

چاچا کی یہ بات سن کر مجھے بلا کا اطمینان ہوا کہ میری محنت پوری طرح وصول ہوئی ہے۔ دو دن کی طے شدہ دہاڑی کے علاوہ اضافی محنت پر جو اضافی پیسے بن رہے تھے اُن سے میں نے لال چوڑیاں خرید لیں۔ اور خوشی خوشی چچا کو گلے لگا کر بے انتہا جوش کے عالم میں وہاں سے چل دیا۔ راستے میں میرے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی اور رونگٹے ایک انوکھی چاہت کے تحت کھڑے ہوتے جارہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ چوڑیاں جب میں نے اگلے دن اُسی کے انداز میں اُس کے سامنے لہرائی تو حیرت سے اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور بڑی ہوگئیں۔ "یہ کیا ہے؟" اُس کی معصومانہ حیرت دیکھنے لائق تھی۔ اسے ہماری اور آپ کی زبان میں چوڑیاں کہتے ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

یہ تو مجھے بھی معلوم ہے مگر کس کی ہیں؟ اُس کی حیرت میں معصومیت کا رنگ مزید نکھر گیا تھا۔

آپ کے لیے ہیں آپ کو پسند ہیں نا؟

اور پھر جب میں نے اُسے بتایا کہ میں نے یہ چوڑیاں کیسے حاصل کی ہیں تو اس کی اُس وقت کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے شاعروں اور ادیبوں کا ہونا بہت ضروری تھا۔

بہت دیر چپ رہنے کے بعد وہ بولی: "تمہیں یاد ہے ایک بار تم نے مجھے چھو کر دیکھنے کی خواہش کی تھی؟" میں سناٹے میں آگیا اور بدھو عاشقوں کی طرح اُسے تکتے ہوئے یاد کرنے لگا کہ وہ کون سا دن تھا جب گونگے کو زبان عطا ہوئی تھی۔ لیکن وہ اور کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی نہ میرا جواب سننے کی منتظر تھی۔ سو مجھے بھینچ کر گلے لگالیا۔

اُس کے حصار میں آنے کے بعد لمحے کا نجانے وہ کون سا حصہ ہوگا جب میں ہوش ہو حواس سے یک لخت بے گانہ ہوچکا تھا۔ مدہوشی اور بے خودی کی ایک ایسی کیفیت مجھ پر طاری تھی جس کے آگے ہر خوش گوار احساس تیاگنا کوئی مشکل نہ تھا۔ بن پیے ایسا مست ہوجانا کہ سارا جہاں رقص کرتا ہوا نظر آئے، شاعر کے اس تخیل کا مطلب آج سمجھ آیا تھا۔

چند لمحوں بعد جب میرے حواسِ خمسہ کچھ بحال ہوئے تو اپنی بے وقوفی پر شدید غصہ آیا۔ اگلے ہی لمحے میں نے اپنی قوت لامسہ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اُس کی کمر کے گرد پوری قوت سے کس دیے۔ ایک ہلکی سی ہچکی اُس کے منہ سے نکلی۔ اُس کے بعد یاد نہیں کہ ہم دونوں اسی حالت میں ایک دوسرے میں کتنی دیر تک مدغم رہے۔

بمشکل جب ہم بہت دیر بعد ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو لب ساکت تھے مگر آنکھیں گویا تھیں۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم ایک دوسرے سے اجازت طلب کر رہے تھے۔ وہ یک دم سنگھار میز پر رکھی اپنی نئی چوریوں میں منہمک ہوگئی اور میں نے باہر نکلنے کے لیے کمرے کے دروازے کی راہ لی۔ پلٹتے ہوئے میں اُس کے امرد رس جیسے لبوں کی دلکش مسکان کو دیکھ چکا تھا اور جوابا میرے ہونٹوں پر بھی دبی دبی سی ایک معنی خیز مسکراہٹ نمایاں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعے میں کھویا ہوا ابھی میں صدر دروازہ عبور کرنے ہی والا تھا کہ میرے دائیں کندھے پر کسی کا وزنی ہاتھ آکر جم گیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ وہی جوان تھا جس کو میں نے پہلی ہی نظر میں ناپسندیدہ قرار دے دیا تھا۔ یقینا یہی ناپسندیدگی سامنے والے کی طرف سے بھی ہوگی۔ کچھ پل ایک دوسرے کو گھوڑتے ہوئے خاموشی میں بیت گئے۔ پھر بات اُسی نے دوستانہ انداز میں شروع کی۔

اتنے دن سے آرہے ہو لیکن کبھی تم سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ آؤ کچھ دیر ساتھ بیٹھتے ہیں۔ وہ میرے کندھے پر بے تکلفانہ ہاتھ دھر کر چلنا شروع ہوگیا اور چلتے چلتے مجھے لان میں لے آیا، جہاں ایک چبوترے پر ہم دونوں بیٹھ گئے۔ اب باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد وہ آہستہ آہستہ "مدعا" پر آرہا تھا۔

"تمہیں پتہ ہے ایک مرتبہ جِم میں ایک آدمی مجھ سے پنگا لے رہا تھا میں نے لکڑی کا کیش کاؤنٹر ہوا میں کئی فٹ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پورا جم مجھ سے دہلتا ہے۔"

شکر ہے اُس نے لوہے کا ٹیبل نہیں اٹھایا تھا ورنہ مجھے ہنسی پر قابو پانا مشکل ہوجاتا۔ خیر اب پھینکنے کی باری میری تھی تو میں نے اس سے بھی بڑی ہانک لگائی۔

"یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنی لڑائی میں میں نے ایک گاڑی کو لات ماری تھی اور وہ ہوا میں اڑتے ہوئے ایک ساتھ چار لڑکوں پر گری تھی۔ تب سے وہ گاڑی اسٹارٹ ہونا ہی بھول گئی ہے۔"

"یہ کیسے ہوسکتا ہے؟" میں نے اتنے سنجیدہ انداز میں اس کی بے پر کی کا جواب دیا تھا کہ وہ چونکے بغیر نہ رہ سکا اور میرے دعوے پر یقین کرنے کے لیے مجھ سے مزید دلائل مانگنے لگا۔ "جب وہ ہوسکتا ہے تو یہ بھی ہوسکتا ہے۔" میں نے مذاق اڑانے والے لہجے میں جواب دیا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جس موقع کی تلاش میں وہ کئی دن سے مارا مارا پھر رہا تھا آج وہ موقع میں نے اُسے بڑی آسانی سے مہیا کردیا تھا۔ "بہت زبان چلتی ہے تمہاری۔" "صرف زبان ہی نہیں ہاتھ اور پاؤں بھی خوب چلتے ہیں۔" میرے دوبدو جلے کٹے جواب پر اُس نے تمسخرانہ لہجے میں کھینچ کر "اچھا" کہا اور پوری طاقت کے ساتھ اپنے سیدھے ہاتھ سے میرے بازو پر دھکا مارا۔ میں بینچ سے دفعۃ نیچے جاگرا لیکن جان بوجھ کر لڑکھڑاتا ہوا تھوڑا آگے نکل گیا۔ تاکہ اگلے وار کے لیے خود کو تیار کرسکوں۔ طبلِ جنگ بج چکا تھا۔ اور میری منشا کے مطابق پہل بھی میرے حریف نے کی تھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میں نے اپنے استاد کی لاج رکھی۔ اکیڈمی میں داخلہ کے بعد مجھے پہلا سبق یہی سکھایا گیا تھا کہ جب تک کوئی آپ پر ہاتھ نہ اٹھائے تب تک اپنے ہاتھ قابو میں رکھنے چاہیے۔

خیر! ابھی میں خود کو سنبھالتا ہوا اٹھا ہی تھا کہ میری توقعات کے برخلاف ایک مناسب حجامت کا پتھر میری طرف آیا اور میرے ہونٹوں کو چھوتا ہوا نکل گیا۔ شکر یہ ہوا کہ نشانہ چوک گیا۔ اگر منہ کے بیچوں بیچ پتھر پڑتا تو۔۔۔۔۔۔ آگے کا سوچ کر ہی مجھے جھرجھری سی آگئی۔ یہ دوسرا وار مجھ پر بڑا کاری گزرا۔ میرا نچلا ہونٹ پھٹ چکا تھا اور خون رس رہا تھا۔ ابھی میں اپنی ہتھیلی پر ٹپکتا خون دیکھ کر ہی خوف زدہ ہورہا تھا کہ اس نے آنا فانا میری گردن کو اپنی بغل میں دبوچ لیا۔ میں سخت تکلیف میں آگیا۔ ایک تو ہونٹوں کا خون پھر گردن پر اس بھینسے کا بڑھتا ہوا دباؤ۔ پے در پے اچانک حملوں نے مجھے بالکل بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔

مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اتنے میں اللہ نے مہربانی کی اور ایک جاندار ترکیب مجھے سوجھ گئی۔ میرا منہ اس کی رانوں کے اوپری حصے کے بالکل قریب تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ اپنے دانت اس کی سرین میں گھوپ دیے اور اتنی زور سے کاٹا کہ وہ چیخ مارتا ہوا اچھل کر پرے ہٹا۔ اس کی گرفت جیسے ہی مجھ پر سے ڈھیلی ہوئی میں جھٹکے سے باہر نکل آیا اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر مختلف انداز میں پے در پے تین مکے اس کے سینے پر برسادیے۔

باکسنگ کی اصطلاح میں اسے Punching Combination کہتے ہیں۔ ہر نو آموز مکے باز کو یہ اور اس طرح کے دیگر مجموعے اوائل تربیت میں ہی سکھا دیے جاتے ہیں۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے دو مکے اپنی جگہ سے ہلے بغیر بائیں ہاتھ سے مارے جاتے ہیں۔ جبکہ تیسرا مکا دائیں ہاتھ سے پیچھے کی ٹانگ کو خم دیتے ہوئے مد مقابل پر برسایا جاتا ہے۔ میں نے اس کامبینیشن کی بہت مشق کی تھی۔ حسن اتفاق سے گزشتہ رات ہی میں نے محسوس کیا کہ مجھے اس میں مہارت ہوچلی ہے۔ آخری دو منٹ میں جب میں مسلسل صحیح باکسنگ کررہا تھا تب میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ راؤنڈ ختم ہونے کے بعد جوش کے عالم میں میں نے اتنی زور سے دیوار پر لات ماری تھی کہ دیوار کا رنگ جہاں جہاں سے اکھڑا ہوا تھا سب کا سب اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا۔

بہرحال میرے مکوں سے وہ بری طرح بلبلا اٹھا تھا اور جان چکا تھا کہ اُس کا شکار اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔ اب ہم دونوں آمنے سامنے قدرے فاصلے سے کھڑے ایک دوسرے کی پہل کا انتظار کررہے تھے۔ میں ڈھیٹ بنا اپنی جگہ جما رہا تو وہی دھاڑتا ہوا میری طرف لپکا۔ لیکن میں اس کی چیخوں سے بھلا کہا ڈرنے والا تھا۔ میرے آگے نہ بڑھنے کی بھی ایک وجہ تھی۔ میں سوچ چکا تھا اب مجھے کیا کرنا ہے۔ اس لیے وہ جیسے ہی میرے قریب آیا میں نے بلا کی تیزی سے اس کی گردن کو اپنے داہنے بازو میں جکڑ لیا۔ اس داؤ کو ریسلنگ کی اصطلاح میں Neck Lock کہتے ہیں۔ یہ میرا بہت ہی پسندیدہ اور مؤثر داؤ تھا۔ اسکول کے دنوں کے بڑے بڑے پھڈوں میں میں نے نامی گرامی پھنے خانوں پر یہ پیچ آزمایا تھا اور کبھی بھی مجھے اس میں ناکامی نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار گردن آپ کے بازوؤں کی گرفت میں آگئی تو سامنے والے کے ہاتھوں کی پھرتی ریت کا ٹیلہ ثابت ہوتی ہے۔ وہ صحیح طرح اپنے ہاتھوں کا استعمال کرکے نہ خود کو چھڑا سکتا ہے نہ آپ پر جوابی حملہ کر سکتا ہے۔ بس محبوس پرندہ کی طرح پھڑپھڑاتا رہتا ہے۔ اُس کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ وہ مجھے مغلظات بکتے بکتے "چھوڑ چھوڑ" کی صدائیں بلند کر رہا تھا۔ لیکن وہ جتنا شور کرتا تھا میں اپنا دباؤ اتنا ہی بڑھا دیتا تھا۔

آخر کار رہائی کی راہ نکل ہی آئی، جس سے میں مطلقا غافل تھا۔ اس نے غیر محسوس طور پر گھسٹتے گھسٹتے قریب رکھے گملے سے مٹھی بھر مٹی لی اور میری آنکھوں پر دے ماری۔ میں ایک دم سے پیچھے ہٹا اور بے اختیار میرے ہاتھ میری انکھوں پر گئے لیکن مجھے معلوم تھا اگر اس وقت میں انہیں مسلوں گا تو یہ میرے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوگا۔ یہاں میں خود کو جتنی شاباشی دوں کم ہے کہ اس تکلیف دہ صورت حال میں بھی میں نے اپنی چھٹی حس کو بیدار رکھا۔ میں فوری طور پر دیکھنے کے قابل نہیں تھا لیکن محسوس کر چکا تھا کہ وہ تقریبا میرے سر پر آچکا ہے۔ اندھوں کی طرح زمین پر پیٹھ کے بل گرتے ہوئے میں نے اپنی ٹانگ اُس کی ٹانگوں میں پھنسادی جس کی وجہ سے وہ بھی گر پڑا۔ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر میں نے اس کی ایک ٹانگ پکڑ کر پورے باغ میں اُس کو گھسیٹنا شروع کردیا۔

بالآخر اسی پتھر نے اس کی مدد کی جس سے اس نے مجھے زخمی کیا تھا۔ وہ پتھر واقعی اس کا وفادار تھا۔ میری ایڑی اس سے ٹکرا گئی اور ایک بار پھر میں عرش سے فرش پر آگیا۔ تاہم ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی گرنے کے بعد اٹھنے میں سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مد مقابل کو بھی کھڑا ہونے کے لیے اتنی مہلت بہت تھی۔

اب ہم ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے بالکل قریب ایک دوسرے میں گتھم گتھا تھے۔ کبھی گلا دبانے کی کوشش کرتے تو کبھی بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو بس میں کرنے کے لیے جتن کرتے۔ کبھی مکے تو کبھی لاتیں تو کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ ابھی یہ سڑک چھاپ لڑائی چل ہی رہی تھی کہ گھر کے سربراہ کی چیخ سنائی دی۔ انہوں نے فورا ہمیں ایک دوسرے سے کھینچ کر الگ کیا۔ میں ان کا احترام کرتے ہوئے فورا اس سے الگ ہوگیا۔ لیکن اس نے چھوڑتے چھوڑتے بھی ایک چانٹا میرے گال پر دے مارا۔ اس کا بدلہ میرے بجائے خود والد بزرگوار نے لیا اور اس سے کئی گنا تیز تھپڑ اپنے بیٹے کو جڑ دیا۔

کچھ ہی فاصلے پر والدہ محترمہ گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کے عالم میں کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھیں اور انہی کے کندھے سے لگی وہ ڈری سہمی ماہ لقا مدھو شالا جیسی آنکھوں میں دو موتی سجائے مجھے ابتدائی طبی امداد فراہم کر رہی تھی۔ والد صاحب بری طرح گرجتے برستے بازو سے کھینچتے ہوئے اپنے بیٹے کو اندر لے جارہے تھے۔ اُن کا مشفقانہ لہجہ اُس وقت کہیں کھو کر رہ گیا تھا اور تصویر کا دوسرا رخ مجھے حیران ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی رہا تھا۔ بیٹے کے پیچھے پیچھے تیز قدموں کے ساتھ والدہ صاحبہ بھی اندر جارہی تھیں۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ دونوں میں سے کسی کا دھیان میری طرف نہیں گیا تھا۔ لیکن مجھے اس کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں تھا۔ کیوں کہ میں جس کا ساتھ چاہتا تھا وہ میرے ساتھ ہی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ پل ایک دوسرے کو دیکھتے رہنے کے بعد ہم ایک رومان انگیز خاموشی کے ساتھ بینچ پر آ بیٹھے تھے۔ میرے ہمدم کی آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو دھوپ کے بنا بھی شبنم کی طرح چمک رہے تھے۔ بہت دیر تک ایک دوسرے میں مست جب میرے جلتے ہونٹوں پر اس نے دھیرے دھیرے اپنی نرم و ملائم انگلیاں پھیرنا شروع کیں تو ایسا لگا بارش کی ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں میرے تپتے وجود کو شاداں و فرحاں کر رہی ہوں۔ لیکن میں اُس وقت بے نیازی کی ایک ایسی حالت میں تھا جس میں مجھے اُس کا احسان بہت برا لگ رہا تھا۔ اس لیے میں نے فورا بدلہ چکانا مناسب سمجھا اور اُس کا کتابی چہرہ اپنے ہاتھوں میں سمو کر نینوں کے راستے جاری آب حیات کو لبوں سے سینچتا ہوا اپنے اندر جذب کرنے لگا۔​
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
فی الوقت رسید حاضر ہے صاحب! ایک تہائی تو ایک نشست میں پڑھ لی۔ اندازِ تحریر لاجواب ہے۔ چند ٹائپوز ہیں، وہ درست کر لیجیے گا، جیسا کہ کسرتی، چوڑیاں اور ایک آدھ ذہن سے نکل گیا۔ :) ماشاءاللہ! بہت رواں دواں اسلوب ہے، جناب! :) زبردست! :) اب تو پہلی فرصت میں یہ کہانی پڑھنا پڑے گی۔ :)
 
Top