Worlds in collision

قیصرانی

لائبریرین
Immanuel Velikovsky کی کتاب Worlds in Collision کے بارے بہت کچھ مثبت اور منفی سنا تھا۔ کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ اس کا ترجمہ کروں۔ سو اب اس کا ترجمہ شروع کر دیا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ بھی واضح کر دوں کہ میں اس کتاب کے تمام تر نظریات سے نہ تو اختلاف کرتا ہوں اور نہ ہی اتفاق، کہ اس کتاب کا پہلا صفحہ میں نے ابھی ترجمہ کرتے ہوئے پڑھا ہے۔ یعنی اس کتاب کو ترجمہ کرنے کا بنیادی مقصد اس کتاب کا مطالعہ ہے۔ سو نتائج اخذ کرنے میں کوئی جلدی مت کیجیے
 

قیصرانی

لائبریرین
پرانی کتاب ہونے کی وجہ سے کافی معلومات بدل گئی ہیں۔ جہاں مناسب سمجھا، وہاں [] کی شکل میں جدید معلومات درج کر دی ہیں۔ مگر یہ ہر جگہ ممکن نہیں ہوگا کہ بقول ابن صفی، بچپن کی تصویر پر قلم سے داڑھی مونچھ بنانا اچھی بات نہیں۔ ابھی پہلے باب کا کچھ حصہ جو ترجمہ ہو چکا ہے، پوسٹ کر رہا ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
پیش لفظ
باب اول
بہت بڑی کائنات میں​
بہت بڑی کائنات میں ایک چھوٹا سا گلوب ایک ستارے کے گرد گھومتا ہے۔ اس خاندان میں اس کا مقام عطارد اور زہرہ کے بعد تیسرا ہے، یعنی زمین۔ اس کے سخت مرکزے کا زیادہ تر حصہ مائع سے ڈھکا ہوا ہے اور اس کے گرد گیس کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ مائع میں بھی جاندار پائے جاتے ہیں اور گیسی غلاف میں بھی جاندار پھرتے ہیں اور گیسی غلاف کی تہہ میں بھی جاندارسطح پر رہتے ہیں۔ انسان کو سیدھا چلنے والا بنایا گیا ہے جو خود کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے۔ اسے یہ احساس اس وقت سے بھی کہیں پہلے ہو گیا کہ جب اس نے ابھی دھاتی پروں پر دنیا کی سیر شروع نہیں کی تھی۔ دنیا کے دوسرے سرے پر موجود اپنے جیسے دوسرے انسان سے بات چیت کرنے سے قبل ہی اسے اپنے دیوتا ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔
آج وہی انسان ایک قطرے میں چھپی خوردبینی دنیا کے علاوہ ستاروں کے اجزاء کو پرکھنے کے قابل ہو گیا ہے۔ اسے کروموسومز کے ساتھ خلیوں کے زندہ رہنے کے قوانین کا علم ہو چکا ہے اور سورج، چاند، سیاروں اور ستاروں پر حکمران قوانین بھی اس کے لیے اجنبی نہیں۔ وہ فرض کرتا ہے کہ تجاذب کی وجہ سے ہی یہ نظام شمسی موجود ہے اور اسی وجہ سے ہی انسان اور دیگر جاندار زمین پر موجود ہیں اور سمندروں کو یہی چیز ان کے کناروں میں محدود رکھتی ہے۔ کروڑوں سال تک انسان کا یہی خیال تھا کہ سیارے اسی طرح اپنے مداروں پر رواں دواں رہے اور ان کے چاند ان کے گرد گردش کرتے رہے اور اس دوران انسان یک خلوی جاندار سے بڑھ کر ہومو سیپینز کے درجے تک جا پہنچا۔
کیا انسان کا علم اپنی معراج کو پہنچنے والا ہے؟ کیا کائنات کی تسخیر کے محض چند مراحل جیسا کہ ایٹم سے توانائی نکالنا–جب یہ کتاب لکھی گئی تو یہ کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچا– کینسر کا علاج، جین کو قابو کرنا، دوسرے سیاروں سے ابلاغ کر کے یہ جاننا کہ آیا وہاں حیات موجد ہے ، ہی باقی ہیں۔ اسی جگہ سے ہومو اگنورامس یعنی حیوانِ لاعلم کا جنم ہوتا ہے۔ اسے یہ علم نہیں کہ زندگی کی اہے یا کہاں سے شروع ہوئی یا یہ بھی کیا اس کی ابتداء غیر نامیاتی مواد سے ہوئی؟ اسے یہ بھی علم نہیں ہے کہ آیا اس نظامِ شمسی میں دیگر سیاروں پر حیات موجود ہے یا یہ کہ دیگر سورجوں کے گرد گھومنے والے سیاروں پر حیات پائی جاتی ہے اور اگر پائی جاتی ہے تو کیا وہ ہمارے اردگرد موجود حیات سے مماثل ہے یا نہیں۔ اسے یہ بھی علم نہیں کہ نظامِ شمسی کیسے بنا تاہم اس بارے اس نے کچھ نظریات ضرور قائم کیے ہیں۔ اسے محض اتنا علم ہے کہ یہ نظامِ شمسی اربوں سال قبل وجود میں آیا۔ اسے یہ علم نہیں کہ تجاذب کی قوت جو اسے اور دیگر جانداروں کو سطح زمین پر جمائے رکھتی ہے، وہ کیا ہے مگر وہ اسے ‘قوانین کا قانون‘ کہتا ہے۔ اسے یہ بھی علم نہیں کہ اس کے قدموں تلے پانچ میل کی گہرائی پر زمین کیسی دکھائی دے گی۔ اسے پہاڑوں کے بننے اور براعظموں کے وجود میں آنے کے بارے کچھ علم نہیں اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ تیل کہاں سے آتا ہے، تاہم اس بارے بھی اس نے کچھ نظریات قائم کیے ہیں۔ نہ ہی اسے یہ علم ہو پایا ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل شمالی امریکہ اور یورپ پر گلیشیر کی موٹی تہہ کیسے چڑھی اور نہ ہی یہ جانتا ہے کہ پام کے درخت پولر سرکل سے اوپر کیوں نہیں اگ سکتے اور نہ ہی یہ جان پایا ہے کہ نئی اور پرانی دنیا کی جھیلوں میں ایک کیسے جیسے جانور موجود ہیں۔ اسے یہ بھی علم نہیں کہ سمندروں میں نمک کہاں سے آتا ہے۔
اگرچہ انسان جانتا ہے کہ وہ کرہ ارض پر لاکھوں سال سے آباد ہے مگر اس کے پاس محض چند ہزار سال کی تاریخ محفوظ ہے۔ یہ چند ہزار سال بھی پوری طرح سے محفوظ نہیں۔
پھر کانسی کا دور لوہے کے دور سے پہلے کیوں شروع ہوا جبکہ لوہا دنیا بھر میں کہیں زیادہ اور عام پایا جاتا ہے اور اس کو قابلِ استعمال بنانے کا طریقہ تانبے اور قلعی کو ملا کر کانسی بنانے سے کہیں آسان ہے؟ کس میکانکی طریقے سے اینڈیز کے بلند پہاڑوں کے اوپر بہت بڑے پتھروں سے تعمیرات کی گئیں؟ کس وجہ سے عالمگیر سیلاب کی روایت دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے؟ کیا قبل از سیلاب (طوفانِ نوح سے قبل) کی اصطلاح کا کوئی معقول معنی دستیاب ہے؟ قیامت سے متعلق مذہبی پیشین گوئیاں کس وجہ سے پیش کی گئیں؟ اس کام کے سلسلے میں، کہ جس کا پہلا حصہ یہ کتاب ہے، ان میں سے کچھ سوالات کے جواب دیے جائیں گے مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ سائنس کے بعض قوانین سے ہمیں صرفِ نظر کرنا پڑے گا۔ اس میں لاکھوں سالوں سے موجود نظامِ شمسی اور زمین کی مستحکم گردش اور نظریہ ارتقا سے متعلق دیگر لوازمات بھی شامل ہیں۔
اجرامِ فلکی کی ہم آہنگی​
سورج مشرق سے طلوع ہوتا اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ سال میں 365 دن، 5 گھنٹے اور 49 منٹ ہوتے ہیں۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور اس کی حالت ہلال سے بدر اور پھر ہلال کو منتقل ہوتی ہے۔ زمین کے محور کا رخ قطبی تارے کی جانب رہتا ہے۔
سردیوں کے بعد بہار آتی ہے اور پھر گرمی اور پھر خزاں۔ یہ عام حقائق ہیں۔ مگر کیا یہ ناقابلِ تغیر قوانین ہیں؟ کیا ہمیشہ یہ ایسے ہی رہیں گے؟ کیا یہ ہمیشہ سے موجود تھے؟ سورج کے نو سیارے ہیں۔ عطارد کا کوئی چاند نہیں، زہرہ کا کوئی چاند نہیں، زمین کا ایک چاند ہے، مریخ کے دو چھوٹے چاند ہیں جو محض چٹانیں ہیں اور ان میں سے ایک کی گردش اتنی تیز ہے کہ مریخ کا ایک دن اس کے ایک ماہ سے طویل ہے۔ مشتری کے گیارہ چاند ہیں ]اب 67[ اور ان کی مناسبت سے گیارہ مختلف ماہ بنتے ہیں، زحل کے نو چاند ہیں ]اب 62[ ، یورینس کے پانچ چاند ہیں ]اب 27[ ، نیپچون کا ایک (یورینس کا پانچواں چاند 1948 میں دریافت ہوا) ]اب 14[ ، پلوٹو کا کوئی چاند نہیں (کوئی مدار بھی مکمل دائرہ نہیں، ان مداروں کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مماثل نہیں اور ہر مدار ایک الگ جانب بیضوی ہے۔ اس بارے یقین سے نہیں کہا جا سکتا مگر کہا جاتا ہے کہ عطارد ہمیشہ سورج کی طرف ایک ہی رخ رکھتا ہے، ویسے ہی جیسے زمینی چاند کا رخ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے چونکہ نیپچون اور پلوٹو زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہیں، اس لیے ان کے گرد پائے جانے والے چھوٹے چاندوں کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکا) ]اب پانچ چاند[۔ کیا ایسا ہمیشہ سے ہے؟ کیا یہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا؟ سورج مشرقی سمت گھومتا ہے۔ سورج کے گرد تمام سیارے اسی سمت گھومتے ہیں (شمال سے دیکھا جائے تو گھڑیال مخالف)۔ ان کے چاندوں کی اکثریت بھی اسی سمت گھومتی ہے مگر بعض کی حرکت اس کے مخالف بھی ہوتی ہے۔ زہرہ کے مختلف طریقوں سے کیے گئے مشاہدات سے ملنے والی معلومات متضاد ہیں، واضح نہیں ہے کہ آیا زہرہ کے گردش کی رفتار اتنی سُست ہے کہ ایک دن ایک سال کے برابر ہے یا پھر اتنی تیزی سے گھومتا ہے کہ سورج کے مخالف سمت کی سطح کو ٹھنڈا ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ مریخ کا ایک دن 24 گھنٹے، 37 منٹ اور 22.6 سیکنڈ (اوسط وقت) پر مشتمل ہے جو زمین سے مماثل ہے۔ مشتری کا حجم زمین سے 1300 گنا زیادہ ہے اور اس کا ایک دن 9 گھنٹے اور 50 منٹ پر مشتمل ہے۔
اس تغیر کی کیا وجہ ہے؟ یہ کوئی قانون تو نہیں ہے کہ سیارے کو گھومنا چاہیے یا اس پر دن اور رات ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ کہ دن اور رات کا کل وقت 24 گھنٹے ہی ہو؟ اگر پلوٹو مشرق سے مغرب کو گھومتا ہے تو وہاں سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ یورینس پر سورج نہ تو مشرق سے نکلتا ہے اور نہ ہی مغرب میں غروب ہوتا ہے (یورینس کی گردش کی نسبت اس کا خطِ استوا 82 ڈگری پر جھکا ہوا ہے)۔ یعنی یہ اصول نہیں ہے کہ نظامِ شمسی میں ہر سیارے کی حرکت مغرب سے مشرق کی سمت ہو اور سورج مشرق سے ہی طلوع ہو۔
زمین کا خطِ استوا اس کی محوری گردش سے 23 ڈگری پر جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے سورج کے گرد ایک گردش کے دوران زمین پر موسم بدلتے ہیں۔ دیگر سیاروں کے محوری جھکاؤ بظاہر ان کی اپنی پسند کے لگتے ہیں۔ یہ کوئی عمومی اصول نہیں کہ ہر سیارے پر خزاں کے بعد سردیاں اور بہار کے بعد گرمیاں ہی آئیں۔
یورینس کا محور اس کے گردشی میدان کے تقریباً وسط میں ہے اور تقریباً بیس سال اس کا ایک قطب سیارے کا گرم ترین مقام رہتا ہے۔ پھر بتدریج رات چھانے لگتی ہے اور بیس سال بعد دوسرا قطب اسی حالت سے گزرتا ہے۔ چاند کا کرہ فضائی نہیں ہے۔ عطارد کے بارے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر کرہ فضائی ہے یا نہیں۔ زہرہ پر کثیف بادل چھائے ہوئے ہیں مگر وہ پانی سے نہیں بنے۔ مریخ پر شفاف کرہ فضائی ہے مگر اس میں آبی بخارات یا آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی ساخت نامعلوم ہے۔ مشتری اور زحل پر گیسی غلاف ہیں اور علم نہیں کہ آیا ان کے ٹھوس مرکزے بھی ہیں۔ یہ بھی کوئی عام اصول نہیں کہ ہر سیارے پر کرہ فضائی ہو یا پانی ملے۔
مریخ کا حجم زمین کے حجم کا 0.15 حصہ ہے اور اس سے اگلا سیارہ مشتری حجم میں مریخ سے 8٫750 گنا بڑا ہے۔ اس طرح کے نظام میں مقام اور سیاروں کے حجم میں کوئی باقاعدگی نہیں پائی جاتی۔ مریخ پر ‘نام نہاد نہریں‘ اور قطبی برفانی تہہ، چاند پر کھائیاں، زمین پر چمکدار سمندر، زہرہ پر گہرے بادل، مشتری پر پٹیاں اور سرخ نشان جبکہ زحل کے دائرے پائے جاتے ہیں۔
اجرامِ فلکی کی ہم آہنگی مختلف جسامت کے اجسام، مختلف اشکال، حرکت کی مختلف رفتاروں، مختلف زاوے پر گھماؤ، مختلف گردشی سمتوں، مختلف چیزوں سے بنے کرہ فضائی یا بغیر کرہ فضائی، بہت سارے چاندوں یا بغیر چاند کے اور ان چاندوں کی مختلف سمتوں میں حرکات پر مشتمل ہے۔
یہ محض اتفاق ہی محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زمین کا ایک چاند ہے، دن اور رات بھی، جن کا مجموعہ 24 گھنٹے بنتا ہے، موسموں کی ترتیب بھی ہے، سمندر اور پانی بھی موجود ہے، کرہ فضائی اور آکسیجن ہے اور یہ بھی کہ ہمارا سیارہ زہرہ اور مریخ کے درمیان پایا جاتا ہے۔
سیاراتی نظام کی ابتدا​
سیاراتی نظام کی ابتدا اور ان اجرامِ فلکی کی حرکات کو قابو میں رکھنے والی قوتوں کے بارے تمام نظریات تجاذب کے نظریے اور نیوٹن کے اجرامِ فلکی کی میکانکی نظریات سے جا ملتے ہیں۔ سورج تمام سیاروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اگر کوئی مخالف قوت نہ ہو تو یہ سیارے سورج میں جا گرتے۔ تاہم ہر سیارے پر ایک قوت سورج کے مخالف سمت بھی کام کرتی ہے جس کی وجہ سے مدار تشکیل پاتے ہیں۔ عین اسی طرح سیاروں کے چاند پر جو قوت کام کرتی ہے، وہ اسے اپنے میزبان سیارے سے دور کرتی ہے، تاہم میزبان سیارے کی کشش اسے اپنی طرف کھینچتی ہے جو پہلی قوت کی عدم موجودگی میں چاند کو سیارے سے ٹکرا دیتی۔ ان دونوں قوتوں کے اشتراک سے چاند کا مدار تشکیل پاتا ہے۔ جمود کی وجہ سے سیاروں اور چاندوں کی حرکات کے بارے نیوٹن نے نظریہ پیش کیا مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ پہلی قوت کب اور کیسے واقع ہوئی۔ نظامِ شمسی کی ابتدا کے بارے نظریات پوری 18ویں صدی پر چھائے رہے اور انہیں سوئنڈن برگ نامی ایک پادری اور فلسفی نے پیش کیا۔ انہیں سائنسی شکل میں لیپلاس نے ڈھالا مگر اس نے ان نظریات پر تنقیدی نظر نہیں ڈالی۔ مختصراً یہ کچھ ایسے تھے:
کروڑوں سال قبل سورج بہت بڑا سحابیہ یعنی نیبولا تھا اور اس کی شکل طشتری جیسی تھی۔ یہ طشتری بہت وسیع اور تمام سیاروں سے دور تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہ طشتری اپنے مرکز پر گھوم رہی تھی۔تجاذب کی وجہ سے سکڑنے کے عمل کے نتیجے میں اس طشتری کے مرکز میں سورج کروی شکل اختیار کرنے لگا۔ پورے سحابیے کی گردش کی وجہ سے مرکز گریز قوت پیدا ہوئی اور مادے کے ٹکڑے جو اطراف میں تے، سکڑنا شروع ہوئے اور اپنے مرکز کی طرف مزید مادہ جمع کرتے ہوئے سیاروں کی تشکیل شروع کی۔ یعنی سکڑتے ہوئے گردش کرتے سورج میں مادہ ٹکڑوں میں بٹنے لگا اور اس مادے کے حصے سیاروں کو تشکیل دینے لگے۔ ان سیاروں کی گردش کا محور سورج کے خطِ استوا پر تھا۔
اب یہ نظریہ اطمینان بخش نہیں رہا۔ اس پر تین بڑے اعتراضات یہ ہیں کہ ابتدا میں سورج کی محوری گردش کی رفتار اتنی زیادہ نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ مادے کو ٹکڑوں میں توڑ سکتی، اور اگر ایسا ہوا بھی ہو تو وہ کبھی بھی کروی اجسام نہ بن پاتے۔ دوسرا یہ کہ لیپلاس کا نظریہ یہ نہیں بتاتا کہ ان سیاروں کی زاویاتی سمتار کیوں اتنی زیادہ ہے کہ ان سیاروں پر دن رات اور سال کا تصور بن سکے۔ تیسرا یہ کہ بعض سیاروں کی حرکت اکثریت دوسرے سیاروں کی مخالف سمت میں کیوں ہے؟یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ چاہے سورج کی ابتدائی ساخت کچھ بھی رہی ہو، سیاراتی نظام محض سورج کی گردش سے جنم نہیں لے سکتا۔ اگر سورج خلا میں محض اپنی گردش کے بل بوتے پر اپنا سیاراتی نظام نہیں بنا سکتا تو پھر دوسری قوت کا وجود اور اس کی مدد بھی لازمی ہونی چاہیے۔ اس طرح ہمیں مدوجزر کا نظریہ ملتا ہے۔ یہ نظریہ ابھی تک خام حالت میں ہے اور اس کے مطابق ایک ستارہ سورج کے قریب سے گزرا۔ سورج سے مادے کی ایک بڑی لہر پیدا ہو کر دوسرے ستارے کی سمت سورج سے الگ ہوئی مگر سورج کے اثر سے باہر نہ نکل پائی اور اسی سے سیارے بنے۔ اس نظریے کے مطابق سورج سے نکلنے والے مادے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خلا میں جمع ہونا شروع ہوئے، کچھ سورج کی کشش سے باہر نکل گئے اور کچھ واپس سورج میں جا گرے۔ مگر باقی سورج کے گرد تجاذب کی وجہ سے گھومنے لگے۔ باہمی ٹکراؤ اور تجاذب کی وجہ سے انہوں نے مداروں میں گھومنا شروع کر دیا اور ان کے حجم بڑھنا شروع ہو گئے اور پھر سیارے اور ان کے چاند بنے۔
مدوجزری نظریے کے مطابق ایسا ممکن نہیں کہ پہلے سورج سے مادہ ٹوٹ کر الگ ہو اور پھر دوبارہ جمع ہو، بلکہ اس کے مطابق مادہ بہت تیزی سے ٹوٹا اور گیس سے مائع بنا اور پھر مائع سے ٹھوس۔ اس نظریے کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ایسی موج جب پیدا ہوتی ہے تو ‘قطروں‘ کی شکل میں مادہ نکلا ہوگا اور چھوٹے قطرے اطراف میں جبکہ بڑے قطرے وسط میں تشکیل پائیں گے یعنی سورج کے قریب ترین اور دور ترین چھوٹے حصے اور درمیان میں بڑے حصے ہوں گے۔ عطارد سورج کے قریب ترین اور سب سے چھوٹا ہے۔ پھر اس سے بڑا زہرہ اور پھر اس سے معمولی سی بڑی زمین اور پھر مشتری زمین سے 320 گنا بڑا، زحل کا حجم مشتری سے کچھ کم ہے، یورینس اور نیپچون اگرچہ بڑے سیارے ہیں مگر مشتری یا زحل جتنے بڑے نہیں۔ پلوٹو عطارد کی طرح بہت چھوٹا ہے۔
تاہم اس نظریے کی بنیاد ہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، یعنی سیاروں کا حجم۔ زمین اور مشتری کے درمیان ایک چھوٹا سیارہ مریخ موجود ہے جبکہ نظریے کے مطابق اس جگہ زمین سے دس سے پچاس گنا بڑا سیارہ ہونا چاہیے تھا جبکہ مریخ زمین کا محض دسواں حصہ ہے۔ نیپچون یورینس سے چھوٹا نہیں بلکہ بڑا ہے۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ دو ستاروں کے درمیان ایسا ‘ٹکراؤ‘ انتہائی نایاب ہے۔ اس نظریے کے بانیوں میں سے ایک نے ایسے ‘ٹکراؤ‘ کا تخمینہ 50 کروڑ ارب سال میں ایک مرتبہ لگایا ہے جبکہ ستارے اس سے کہیں کم عمر ہوتے ہیں۔ یعنی ہر ایک لاکھ میں سے محض ایک ستارے پر ایسا سیاروی نظام بن سکتا ہے۔ دس کروڑ ستاروں پر مشتمل کہکشاں میں ایسا نظام ہر پانچ ارب سال میں بننے کا امکان ہوتا ہے جبکہ ہمارا نظامِ شمسی محض دو ارب سال پرانا ہے اور شاید اس طرح کا کم عمر ترین نظام ہے۔ چاہے سحابی نظریہ ہو یا مدوجزر کا، ہر جگہ سیاروں کا سورج کی ضمنی پیداوار اور چاندوں کو سیاروں کی ضمنی پیداوار شمار کیا جاتا ہے۔
چاند کی پیدائش کا مسئلہ مدوجزر نظریے کے لیے سردرد کا سبب ہے۔ زمین سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے کا عمل زمین سے بہت پہلے تمام ہو گیا تھا اور اس کے آتش فشاں بھی طویل عرصے سے خاموش ہو چکے ہیں۔ یہ حساب لگایا جا چکا ہے کہ چاند کا مخصوص وزن زمین کی نسبت کم ہے۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ چاند کی تخلیق میں زمین کی بالائی پرتیں استعمال ہوئی تھیں جن میں سیلیکان کی کثرت ہے مگر زمین کا مرکزہ بھاری دھاتوں بالخصوص لوہے سے بنا ہے۔ مگر یہ نظریہ فرض کرتا ہے کہ زمین اور چاند بیک وقت نہیں پیدا ہوئے بلکہ پہلے سورج سے نکلے ہوئے مادے سے زمین بنی اور اس میں بھاری دھاتیں مرکزے میں چلی گئیں اور سیلیکان بیرونی پرتوں پر جا پہنچا۔ پھر ایک نئے ‘ٹکراؤ‘ کے واقعے سے چاند پیدا ہوا۔ اس طرح اس نظریے کے مطابق دو مرتبہ ‘ٹکراؤ‘ ہونا چاہیے، جبکہ نظامِ شمسی میں ایسے ایک واقعے کا ہونا بھی انتہائی بعید از قیاس ہے۔ اگر کسی ایک ستارے کے پاس سے دوسرے ستارے کے گزرنے کا واقعہ دس کروڑ ستاروں والی کہکشاں میں پانچ ارب سال میں ایک بار ہونا ممکن ہے تو ایک ہی ستارے کے ساتھ دو مرتبہ ایسا ہونا انتہائی نایاب ترین واقعہ ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی بہتر نظریہ بھی موجود نہیں، چاندوں کا جنم اس وقت سورج کی کشش سے ہوا جب یہ سیارے اپنے انتہائی پھیلے ہوئے مداروں میں پہلی مرتبہ سورج کے انتہائی قریب سے گزرے۔سیاروں کے گرد ان چاندوں کی گردش موجودہ نظریات کے لیے ایک اور مسئلہ پیدا کرتی ہے۔ لیپلاس کے نظریے کی بنیاد یہ تھی کہ تمام سیارے اور تمام تر چاند ایک ہی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ سورج کی اپنے محور پر گردش اور مدار میں گردش، چھ سیارے، زمینی اور دیگر سیاروں کے چاند اور زحل کے دائرے، کل ملا کر 43 حرکات بنتی ہیں جو سب کی سب ایک ہی سمت میں ہیں۔ ‘ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نظام بننے کے امکانات چار ہزار ارب میں محض ایک کے برابر ہیں۔ تاہم یہ امکانات ان تاریخی واقعات کی نسبت بہتر ہیں کہ جن پر کسی کو کبھی شک نہیں ہوا کہ آیا وہ ہوئے بھی ہوں گے یا نہیں۔‘ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی مشترکہ اور بنیادی اہمیت کی وجہ نے ہی سیاروں اور چاندوں کی حرکات کی سمت کا تعین کیا ہے۔ لیپلاس سے لے کر اب تک نظامِ شمسی کے نئے ارکان بھی دریافت ہو رہے ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ چاندوں کی اکثریت اسی سمت گھومتی ہے جس سمت یہ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں مگر یورینس کی اپنے محور پر گردش سورج کی گردش سے تقریباً عمودی ہے، یورینس کے چاند بھی اسی طرح حرکت کرتے ہیں، مشتری کے گیارہ میں سے تین چاند، زحل کے نو میں سے ایک اور نیچپون کا ایک چاند مخالف سمت گھومتا ہے۔ یہ حقائق لیپلاس کے نظریے کی بنیاد کے خلاف ہیں: ایک گھومتے ہوئے سحابیے سے دو مختلف سمتوں میں گھومنے والے سیارچے نہیں پیدا ہو سکتے۔
مدوجزر نظریے میں سیاروں کی حرکت پاس سے گزرنے والے ستارے پر منحصر ہے: اس کے گزرنے کی سمت وہی ہے جس سمت یہ سیارے گردش کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے یہ مغرب سے مشرق کو گھومتے ہیں۔ مگر یورینس کے چاند عمودی سمت اور مشتری اور زحل کے کچھ چاند الٹی سمت گھومتے ہیں؟ یہ نظریہ اس بات کی وضاحت میں ناکام ہو جاتا ہے۔
تمام موجودہ نظریات کے مطابق چاندوں کی سمتار ان کے سیارے سے کم ہونی چاہیے۔ مگر مریخ کا اندرونی چاند مریخ سے زیادہ تیزی سے گردش کرتا ہے۔
سحابی اور مدوجزر کے لیے جو مشکلات ہیں، وہی مشکلات دیگر نظریات کے لیے بھی موجود ہیں۔ اس کے مطابق سورج ثنائی شمسی نظام کا حصہ تھا۔ پاس سے گزرتا ستارہ دوسرے ستارے سے ٹکرایا اور اس کے ملبے سے نظامِ شمسی تشکیل پایا۔ اس نظریے پر مزید کام کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ بڑے سیارے تو اس ملبے سے بنے اور چھوٹے سیارے جو کہ ارضی سیارے کہلاتے ہیں، بڑے سیاروں کی تقسیم سے چھوٹے سیارے بنے۔
چھوٹے اور ٹھوس سیاروں کا بڑے گیسی سیاروں سے تشکیل پانا ایک مفروضہ ہے تاکہ بڑے اور چھوٹے سیاروں کے وزن اور جسامت کے فرق کی وضاحت ہو سکے مگر اس سے یہ وضاحت نہیں ہو پاتی کہ چھوٹے سیاروں اور ان کے چاندوں کے وزن میں کیوں فرق ہے۔ زمین کی تقسیم سے ہی چاند پیدا ہوا مگر چاند کا مخصوص وزن بڑے سیاروں سے زیادہ اور زمین سے کم ہے اور مندرجہ بالا نظریے کے مطابق تو زمین کو چاند کی چھوٹی جسامت سے قطع نظر، چاند سے پیدا ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح بات الجھ جاتی ہے۔ سیاروں اور ان کے چاندوں کی پیدائش کا معمہ حل نہیں ہو پایا۔ یہ نظریات نہ صرف ایک دوسرے کو رد کرتے ہیں بلکہ ان کے اندر اپنے آپ کو بھی رد کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ‘اگر سورج کے ساتھ سیارے نہ ہوتے تو اس کی پیدائش اور ارتقا کو سمجھنا بہت آسان ہوتا۔‘
 

قیصرانی

لائبریرین
دمدار ستاروں کی ابتدا​
سحابی اور مدوجزر والے نظریات کا مقصد نظامِ شمسی کی پیدائش پر روشنی ڈالنا تھا مگر اس میں دمدار ستاروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ دمدار ستاروں کی تعداد سیاروں سے کہیں زیادہ ہے۔ کم از کم ساٹھ دمدار ستارے تو یقینی طور پر ہمارے نظام شمسی میں موجود ہیں۔ یہ دمدار ستارے کم مدتی کہلاتے ہیں (یعنی 80 سال سے کم وقت میں اپنے مدار پر گردش مکمل کرتے ہیں) اور ان کے مدار بہت زیادہ پھیلے ہوئے اور بیضوی ہیں اور ایک کے سوا باقی تمام کا مدار نیپچون سے پرے نہیں جاتا۔ اندازہ ہے کہ ان کم مدتی دمدار ستاروں کے علاوہ بھی لاکھوں ایسے دمدار ستارے نظامِ شمسی کا چکر لگاتے ہیں مگر یقین سے کہنا ممکن نہیں کہ آیا وہ مخصوص مدت کے بعد دوبارہ لوٹتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ایسے دمدار ستارے ہر صدی میں کم از کم 500 ضرور ہوتے ہیں اور مانا جاتا ہے کہ ان کا اوسط دورانیہ کئی ہزار سال ہوتا ہے۔
دمدار ستاروں کی پیدائش سے متعلق بھی چند نظریات پائے جاتے ہیں مگر ایک کے سوا باقی کسی نے بھی انہیں ایسے سیارچے نہیں مانا کہ جنہیں اتنی کشش مل پاتی کہ ان کے مدار گول ہو جاتے۔ مگر کوئی ایسا نظام نہیں پیش ہو پایا کہ جو پورے نظام شمسی بشمول سیارے اور دمدار ستاروں کے، ہر چیز کی وضاحت کر پاتا۔ ایسا کوئی اہم نظریہ بن ہی نہیں سکتا جو خود کو محض سیاروں یا دمدار ستاروں تک محدود رکھے۔
ایک نظریے کے مطابق دمدار ستارے ایسے اجرامِ فلکی ہیں جو بین النجمی خلا (انٹرسٹیلر سپیس) سے آئے ہیں۔ سورج تک پہنچنے کے بعد وہ ایک کھلی یا پیرابولک خم کی شکل میں مڑ جاتے ہیں۔ اگر وہ کسی بڑے سیارے کے قریب سے گزریں تو ان کا مدار بیضوی ہو جاتا ہے اور وہ کم مدتی دمدار ستارے بن جاتے ہیں۔
دبوچنے کے نظریے کے مطابق: طویل مدتی یا بغیر مدتی دمدار ستارے جب اپنے راستے سے ہٹتے ہیں تو کم مدتی بن جاتے ہیں۔ مگر طویل مدتی دمدار ستارے بنتے کیسے ہیں، ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔
کم مدتی دمدار ستارے بظاہر کسی نہ کسی طور پر بڑے سیاروں سے متعلق ہیں۔ مشتری کے مدار اور سورج کے درمیان لگ بھگ 50 دمدار ستارے پھر رہے ہیں اور ان کا دورانیہ نو سال سے کم ہے۔ چار زحل کے مدار تک پہنچتے ہیں اور دو یورینس کے مدار کے اندر جبکہ اوسط 71 سال کا دورانیہ رکھنے والے دمدار ستارے نیپچون کے مدار کے اندر موجود ہیں۔ یہ سب مل کر کم مدتی دمدار ستاروں کا نظام بناتے ہیں۔ کم مدتی میں سب سے طویل گردش ہیلی کے دمدار ستارے کی ہے جو 76 سال بنتی ہے۔ پھر ایک بہت بڑا وقفہ آتا ہے اور پھر وہ دمدار ستارے جو یا تو ہزاروں سال میں اپنا چکر پورا کرتے ہیں یا پھر کبھی نہیں لوٹتے۔
کم مدتی دمدار ستاروں کے بارے اندازہ ہے کہ وہ بڑے سیاروں نے دبوچ لیے ہوں گے۔ اس نظریے کی حمایت میں وہ دمدار ستارے ہیں کہ جن کے مدار میں بڑے سیاروں کی مداخلت کا براہ راست مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔
ایک اور نظریہ بھی ہے کہ ان کی تخلیق سورج سے ہوئی ہے۔ اس نظریے کے مطابق سورج پر اٹھنے والے بہت بڑے شمسی طوفانوں نے سورج کی سطح پر موجود دہکتی گیسوں کو باہر نکال پھینکا ہے۔ یہ مظہر ہر روز دیکھا جا سکتا ہے۔ مادہ سورج سے نکل کر پھر سورج پر جا گرتا ہے۔ حساب لگایا گیا ہے کہ اگر اس طرح باہر نکلنے والے مادے کی رفتار 384 میل فی سیکنڈ سے زیادہ ہو تو وہ سورج پر واپس گرنے کی بجائے کم مدتی دمدار ستارہ بن جائے گا۔
تاہم اس طرح دمدار ستارے کی پیدائش کا ابھی تک مشاہدہ نہیں کیا جا سکا اور یہ بھی کہ مادہ 384 میل فی گھنٹہ کی رفتار پا بھی سکے گا یا نہیں، قابلِ بحث ہے۔ سو متبادل کے طور پر فرض کیا جاتا ہے کہ لاکھوں سال قبل سیاروں پر یہ گیسیں زیادہ متحرک تھیں تو بڑے دمدار ستارے انہی سے نکلے۔ ظاہر ہے کہ سورج کی نسبت سیاروں سے فرار کی سمتار کہیں کم ہے۔ حساب لگایا گیا ہے کہ مشتری سے فرار کے لیے مادے کی رفتار 38 میل فی سیکنڈ ہونا کافی ہے جبکہ نیپچون پر اس کی ایک تہائی رفتار کافی ہے۔
تاہم اس متبادل نظریے میں بھی طویل مدتی دمدار ستاروں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک توجیہہ دی گئی کہ جب کم مدتی دمدار ستارے بڑے سیاروں کے قریب سے گزرتے ہیں تو ان کی کشش سے وہ طویل مدتی بن جاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ نظامِ شمسی سے ہی نکل جائیں۔
سورج کے قریب سے گزرتے ہوئے دمدار ستاروں کی دم پیدا ہوتی ہے۔ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ مادہ واپس دمدار ستارے کو نہیں لوٹتا اور خلا میں ہی بکھر جاتا ہے۔ نتیجتاً ان کا دورانِ حیات مختصر ہونا چاہیے۔ اگر قبل از کیمبرین دور سے ہیلی کا دمدار ستارہ موجودہ راستے پر چل رہا ہو تو اب تک اس کی اسی لاکھ مرتبہ دمیں پیدا ہوئی ہوں گی جو ناممکن لگتا ہے۔ اگر دمدار ستارے اس طرح گھلتے رہیں تو نظامِ شمسی میں ان کی تعداد گھٹتی جا رہی ہوگی اور اب تک شاید ہی کسی کم مدتی دمدار ستارے کی دم بچی ہو۔
مگر اس وقت بھی کم مدتی دمدار ستاروں کی اتنی تعداد موجود ہے کہ یا تو وہ یہیں پیدا ہوئے یا پھر نظامِ شمسی کی تکمیل کے بعد انہیں سیاروں اور چاندوں نے دبوچا ہوگا۔ ایک نظریہ بھی ہے کہ نظامِ شمسی کسی سحابیے یا نیبولا سے گزرا ہوگا اور وہیں سے دمدار ستارے پکڑ لیے ہوں گے۔
کیا سورج نے سکڑاؤ یا لہر کی وجہ سے سیارے بنائے اور دمدار ستارے مادے کو باہر پھینک کر؟ کیا دمدار ستارے بین النجمی خلا سے آئے اور انہیں نظامِ شمسی کے بڑے سیاروں نے پکڑ لیا؟ کیا بڑے سیاروں نے تقسیم کے عمل سے چھوٹے سیارے پیدا کیے یا کم مدتی دمدار ستارے پیدا کیے؟ مانا جاتا ہے کہ ہمیں اربوں سال قبل بننے والے ان نظاموں کی ابتدا کے بارے کچھ علم نہیں۔ ‘نظامِ شمسی کی پیدائش اور ارتقا کے عمل پر "مفروضہ" کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ نظام ہمارے وجود سے قبل بنے سو ہم اس بارے کبھی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے قدموں تلے موجود سیارے کے بارے تحقیق کریں تاکہ ہمیں اس کے ماضی کے بارے علم ہو سکے اور پھر ان معلومات کو ہم نظامِ شمسی کے دیگر ارکان پر منطبق کر سکیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب 2
سیارہ زمین
سیارہ زمین پر پتھریلا خول ہے جسے لیتھو سفیئر کہتے ہیں، آتش فشانی چٹانوں پر مشتمل ہے جن میں گرینائٹ یعنی سنگِ خارا اور بسالٹ یعنی مرمر سیاہ اور دیگر رسوبی چٹانیں اس کی بالائی تہہ بناتی ہیں۔ زمین کی بالائی سطح اصل میں آتش فشانی چٹانوں سے بنی ہے جبکہ رسوبی چٹانیں بعد میں پانی کی وجہ سے جمع ہوئیں۔
زمین کی اندرونی ساخت کا زیادہ علم نہیں۔ سائزمک یعنی بھونچالی لہروں کے مشاہدے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ زمین کی بیرونی تہہ 2٫000 میل سے زیادہ موٹی ہے جبکہ پہاڑوں کے حجم کی بنیاد پر لگائے گئے اندازوں کے مطابق یہ موٹائی محض 60 میل ہے۔
بیرونی تہہ میں لوہے کی موجودگی ہو یا مرکزے سے اوپر اس تہہ تک آنے والی بھاری دھاتیں، ان کی درست طور پر وضاحت نہیں دی جا سکی۔ مرکزے سے نکلنے والی دھاتیں ظاہر ہے کہ دھماکے سے خارج ہوئی ہوں گی تاکہ وہ بیرونی تہہ میں پھیل سکیں اور دھماکے کے فوراً بعد ہی وہ ٹھنڈی ہو گئی ہوں گی۔
سحابی اور مدوجزر نظریے کے مطابق اگر ابتدا میں سیارہ مختلف عناصر کا گرم ملغوبہ ہوتاتو اس میں موجود لوہا عملِ تکسید کا شکار ہو جاتا اور تمام تر دستیاب آکسیجن اس پر لگ جاتی۔ مگر نامعلوم وجوہات پر ایسا نہ ہو سکا اور اس لیے فضا میں موجود آکسیجن کی موجودگی ناقابلِ وضاحت ہے۔
سمندری پانی میں عام نمک یعنی سوڈیم کلورائیڈ کی بہت بڑی مقدار موجود ہے
سوڈیم تو شاید چٹانوں سے بارش کے ساتھ بہہ کر آئی ہو مگر کلورین تو چٹانوں میں نہیں پائی جاتی اور جتنی مقدار میں نمک سمندری پانی میں موجود ہے، وہ چٹانوں میں موجود کلورین کی مقدار سے 50 گنا زیادہ ہے۔
گہرائی میں موجود آتش فشانی چٹانی تہوں میں کوئی رکازات نہیں ملے۔ تاہم رسوبی چٹانوں میں مقید بحری اور زمینی جانوروں کے خول تہہ در تہہ ملتے ہیں۔ بہت جگہوں پر آتش فشانی چٹانیں رسوبی چٹانوں میں گھسی دکھائی دیتی ہیں یعنی زمین پر حیات کے ظہور کے بعد بھی یہ چٹانیں پگھلتی اور پھیلتی رہی تھیں۔
جن تہوں پر حیات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ان کے اوپر جانداروں کے خول اور رکاز ملتے ہیں جن کی تعداد بعض اوقات اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ تقریباً پوری چٹان ہی انہی سے بنتی تھی۔ اکثر یہ سخت ترین چٹانوں میں ملتے ہیں۔ زیادہ بلند تہوں پر خشکی کے جانوروں کے ڈھانچے ملتے ہیں جن کی اکثریت اب ناپید ہو چکی ہے اور بہت مرتبہ ان تہوں کے اوپر کی تہوں میں آبی جانوروں کے ڈھانچے ملتے ہیں۔
جانوروں کی انواع اور ان کے جینرا تہوں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تہیں ترچھی ہوتی ہیں تو بعض اوقات بالکل عمودی بھی ہو جاتی ہیں اور کئی مرتبہ تو ٹوٹ پھوٹ کے بعد الٹی بھی ہو گئی ہوتی ہیں۔
کوویئے (1769–1832) فقاریہ جانوروں کے رکازات کا ماہر تھا جو مچھلی سے انسان تک مشتمل ہوتے ہیں، یہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا تھا کہ کیسے حیات کی تصاویر اس طرح ترتیب سے زمین کے اندر محفوظ ہیں۔
‘جب مسافر ان زرخیز علاقوں سے گزرتا ہے کہ جہاں سے آہستگی سے ندیاں بہہ رہی ہوں اور سبزے کی بہتات ہو اور جہاں بکثرت آبادیاں بھی پائی جاتی ہوں، دیہات، قصبے، شہر، جہاں جنگ کے سوا کبھی کوئی تباہ نہ دکھائی دی ہو، تو اسے اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ فطرت نے اپنے اندر کیسی کیسی تباہیاں چھپائی ہوئی ہیں اور کس طرح زمین کی سطح مختلف انقلابات اور آفتوں کا شکار ہو چکی ہے۔ تاہم جب پرسکون دکھائی دینے والی زمین کو کھدائی کرتے ہی اس کے نظریات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘ کوویئے نے سوچا کہ زمین پر بڑی آفات آئی ہیں اور انہی کی وجہ سے سمندری تہیں براعظم اور براعظم سمندری تہیں بنے ہیں۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ ازل سے تمام انواع اور جینرا ویسے ہی آ رہے ہیں مگر زمین کی مختلف گہرائیوں میں پائے جانے والے جانوروں کے مشاہدے سے اس نے دیکھا کہ انہیں کسی بہت بڑی آفت نے ناپید کیا ہوگا اور زندگی کی نئی اقسام کے لیے جگہ خالی کر دی ہوگی۔ تو پھر یہ دوسرے جینرا کہاں سے آئے؟ یا تو وہ نئے پیدا ہوئے یا پھر وہ دنیا کے دوسرے ایسے حصوں سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے کہ جہاں یہ آفات نہیں آئی ہوں گی۔
تاہم اسے ان آفات کی وجہ نہ مل سکی۔ اس نے ان علامات سے جانا کہ ‘ارضیات میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ حل ہونے کا مستحق ہے‘ مگر اسے احساس ہوا کہ ‘اس کا بہتر حل تبھی مل سکتا ہے جب ان واقعات کی وجوہات کو دریافت کیا جائے‘، جو بذاتِ خود ایک اور مسئلہ تھا۔ اس نے ‘بہت ناکام کوششیں‘ دیکھیں اور خود بھی کوئی حل نہ پیش کر سکا۔ ‘رکازات کی تحقیق کے دوران مجھے یہ سوال ہمیشہ ستاتے رہے۔‘ کوویئے کا یہ نظریہ کہ حیات ہمیشہ سے ایسی ہی تھی اور آفات کے نتیجے میں اقسام کا ناپید ہونا، کی حمایت ہمیں ارضیات (لائل) اور حیاتیات (ڈارون) کے علم میں ہونے والی ترقی سے ملتی ہے۔ پہاڑ دراصل سطح مرتفع کے وہ بچے کچھے نشانات ہیں جو پانی اور ہوا کے کٹاؤ اور رگڑ کی وجہ سے باقی بچ گئے ہیں۔ یہ علم بہت سست ہوتا ہے۔ رسوبی چٹانیں دراصل آتش فشانی چٹانوں کا وہ حصہ ہے جو بارش کی وجہ سے الگ ہو کر سمندر تک پہنچتا ہے اور وہاں بتدریج جمع ہوتا ہے۔ ان چٹانوں میں پرندوں اور ارضی جانوروں کے ڈھانچے دراصل ایسے پرندوں اور جانوروں سے متعلق ہیں جو تیرتے تیرتے ساحلوں کے قریب پہنچ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مگر قبل اس کے کہ مچھلیاں انہیں کھا جاتیں یا سمندری لہریں ان کی ہڈیاں بکھیر دیتیں، ان پر تلچھٹ جمع ہوتی گئی۔ اس بتدریج عمل کو متاثر کرنے کے لیے کوئی عالمگیر آفت نہیں آئی۔ ارتقا کا نظریہ جو کہ ارسطو سے شروع ہوتا ہے، کوویئے کے دور میں لامارک اور ڈارون نے پیش کیا تھا اور ایک صدی کے دوران آہستہ آہستہ نیچرل سائنس میں اسے قبولیت ملتی گئی۔
رسوبی چٹانیں اونچے پہاڑوں پائی جاتی ہیں اور سب سے اونچا کوہ ہمالیہ ہے۔ یہاں سمندری جانوروں کے ڈھانچے اور خول بکثرت ملتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شروع میں یہ مچھلیاں ان پہاڑوں کے اوپر تیرتی تھیں۔ پھر یہ پہاڑ کیسے بلند ہوئے؟ اندر سے انہیں دھکیلنے والی کوئی طاقت یا اطراف سے پڑنے والا دباؤ ہی انہیں بلند کرنے کا سبب بنا ہوگا اور سمندر کی تہہ سے یہ پہاڑ ابھرے اور سمندری تہہ براعظم بنی اور پہلے سے موجود خشکی پانی میں ڈوب گئی۔
اگر ہمیں ان قوتوں کا علم نہیں ہے تو ہم پہاڑوں اور براعظموں کی ابتدا کے بارے کچھ نہیں جان سکتے، چاہے وہ نقشے پر کہیں بھی پائے جاتے ہوں۔
اب دیکھیے کہ شمالی امریکہ کا مشرقی ساحل کیسا سوال اٹھاتا ہے۔ ‘جغرافیائی اعتبار سے ماضی قریب میں نیو جرسی سے فلوریڈا کا علاقہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت سمندر کی لہریں پرانے اپالاچین پہاڑوں سے ٹکراتی ہوں گی۔ اس سے پہلے جنوب مشرقی پہاڑی علاقہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا اور اس پر ریت اور کیچڑ کی تہہ موٹی ہو رہی تھی۔ فانے کی شکل کی بحری تلچھٹ اوپر اٹھی اور اسے دریاؤں نے کاٹنا شروع کیا اور اس طرح ریاست ہائے متحدہ کا بحرِ اوقیانوس کا ساحل بنا۔ یہ اوپر کو کیوں اٹھا؟ مغربی جانب اپلاچین پہاڑ ہیں۔ ارضیات دان ہمیں اس دباؤ والے وقت کے بارے بتاتے ہیں کہ جب الاباما سے نیوفاؤنڈ لینڈ تک کی چٹانی پٹی اپنے اندر گھسی اور پہاڑی سلسلہ بنایا۔ کیوں؟ ایسا کیسے ہوا؟ پرانے دور میں میکسیکو کے میدانوں سے لے کر الاسکا تک سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ پھر یہ تبدیلی کیسے؟ پہاڑی سلسلے کی پیدائش ہوئی جو کہ ‘ایک اور مسئلہ ہوا کیونکہ پہاڑی سلسلے کی پیدائش ابھی تک نہیں سمجھی جا سکی‘۔ یہ عمل دنیا بھر میں جاری و ساری ہے۔ ہمالیہ سمندر کے نیچے تھا۔ اب یوریشیا بحرالکاہل کی تہہ سے 3 میل اوپر ہے۔ کیوں؟ ‘پہاڑوں کی پیدائش ایک مسئلہ ہے: ان کی اکثریت کی بناوٹ میں دبی ہوئی اور دھکے سے سلوٹ کی مانند پیدا ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین کی بیرونی تہہ سے کئی کلومیٹر گم ہونے چاہیئں۔ گولائی کی شکل میں ہونے والا سکڑاؤ ایسی سلوٹیں پیدا نہیں کر سکتا۔ پہاڑوں کی تشکیل کا یہ مسئلہ اصل اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کو آج تک اس مسئلے کا حل نہیں مل سکا۔‘ درسی کتب کے مصنفین بھی اس ضمن میں اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘بہت پرانے دور کے سمندر کی تہیں آج کیسے اونچے علاقے بن گئے ہیں؟ یہ سوال ابھی تک اطمینان بخش جواب کے منتظر ہیں۔‘
پہاڑوں کے بلند ہونے کا عمل بہت سست اور بتدریج خیال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ آتش فشانی چٹانیں جو کہ پہلے سے ہی ٹھوس ہو چکی ہیں، کو پگھلنا چاہیے تاکہ وہ رسوبی چٹانوں کے اندر گھسنے یا اس کو ڈھانپنے کے قابل ہو سکیں۔ اس عمل کی ابتدا کے بارے کوئی علم نہیں مگر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چیز انسان کی آمد سے بہت پہلے ہوا ہوگا۔ اسی وجہ سے جب بعد کے ذخائر سے اولین انسانوں اور اولین ذخائر سے جدید انسان کی ہڈیوں کے ساتھ ناپید جانوروں کی ہڈیاں ملتی ہیں تو مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات کان کنی کے دوران پہاڑ کی وسط سے انسانی کھوپڑی ملتی ہے جس پر گرینائٹ یا بسالٹ کی بہت موٹی تہہ چڑھی ہوتی ہے، جیسا کہ کالاویراس کھوپڑی کیلیفورنیا سے ملی۔ انسانی باقیات، انسان کے بنائے ہوئے ہڈیوں کے اوزار، چمکدار پتھر یا ٹھیکریاں مٹی یا کنکروں کے بہت بڑے ڈھیر سے نکلتے ہیں جو بعض اوقات سو فٹ اونچے بھی ہو سکتے ہیں۔ مٹی، ریت اور کنکروں کے ڈھیر جو کہ آتش فشانی اور رسوبی چٹانوں پر موجود ہوتے ہیں، ایک اور مسئلہ ہیں۔ آئس ایج یعنی برفانی دور کا نظریہ 1840 میں پیش کیا گیا تاکہ اس اور اس جیسے دیگر مسائل کا حل تجویز کیا جا سکے۔ قطبی دائرے میں سپٹزبرگن جتنے شمال تک کورل ریف یعنی مونگے کی چٹانیں پائی جاتی تھی جبکہ یہ چٹانیں استوائی علاقے میں ہی پائی جاتی ہیں، سپٹزبرگن میں کھجور کے درخت پائے جاتے تھے۔ انٹارکٹیکا کے براعظم میں آج ایک بھی درخت نہیں پایا جاتا جبکہ اس میں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر یہ ثابت کرتے ہیں کہ کبھی یہاں جنگلات پائے جاتے تھے۔ ہمارا سیارہ رازوں سے بھرا پڑا ہے۔ نظامِ شمسی کی ابتداء کو سمجھنے کے لیے کرہ ارض کا مطالعہ ہمارے لیے ہرگز مفید نہیں ثابت ہوا کیونکہ ہمیں لتھو سفیئر، ہائیڈرو سفیئر اور فضا میں ہی بے شمار لاینحل مسائل دکھائی دیے ہیں۔ کیا ہم کبھی ارضیاتی اعتبار سے ماضی قریب کے ہی کچھ اسرار حل کر سکیں گے جو کہ پچھلے گلیشیل دور سے متعلق ہیں؟
برفانی دور
ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ چند ہزار سال قبل یورپ اور شمالی امریکہ کے بہت بڑے علاقوں پر گلیشیر موجود تھے۔ مستقل برف نہ صرف اونچے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر پڑی رہتی تھی بلکہ جمع ہوتے ہوتے بڑے تودوں کی شکل میں معتدل علاقوں تک پہنچ گئی تھی۔ آج جس جگہ ہڈسن، البے اور نیپئر کا بالائی بہاؤ ہے، تب یہ جگہیں یخ بستہ صحرا تھے۔ ان کی شکل گرین لینڈ کے بہت بڑے گلیشیر جیسی تھی۔ اس بات کی شہادتیں بھی ملتی ہیں کہ ان گلیشیروں کے سکڑاؤ کے عمل کو بار بار نئی جمع ہوتی برف سے روکا گیا اور ان کی حدود بدلتی رہیں۔ ماہرینِ ارضیات ان گلیشیروں کی حدود کو تلاش کر سکتے ہیں۔ برف بہت آہستگی سے حرکت کرتی ہے اور اپنے آگے پتھروں کو دھکیلتی جاتی ہے۔ سو جہاں جہاں گلیشیر پگھلے، ان جگہوں پر پتھروں اور کنکروں کے ڈھیر ملتے ہیں۔
برفانی دور میں 5 یا 6 مسلسل گلیشیر ادوار کے ثبوت ملتے ہیں۔ بعض قوتوں نے بار بار برفانی تہوں کو معتدل علاقوں کو دھکیلا۔ نہ تو برفانی دور کی آمد اور نہ ہی اس کی رخصت کی وجوہات کا علم ہے اور ان کی آمد و رخصت کے وقت کا تعین بھی محض اندازوں پر مبنی ہے۔
برفانی ادوار کے آغاز اور ان کے اختتام کے بارے بہت سارے نظریات پیش کیے گئے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بعض کے مطابق سورج سے خارج ہونے والی حرارت وقت کے ساتھ کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے زمین پر گرم اور سرد ادوار آتے ہیں مگر سورج کے ‘متغیر ستارہ‘ ہونے کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔
دیگر نظریات کے مطابق خلا میں سرد اور گرم علاقے پائے جاتے ہیں اور جب ہمارا نظامِ شمسی سرد علاقوں سے گزرتا ہے تو برف خطِ استوا تک پھیل جاتی ہے۔ مگر اس نظریے کی تصدیق میں کوئی طبعی ثبوت نہیں مل سکا۔
بعض کے خیال میں اعتدال (شب و روز کی یکساں طوالت) یا زمین کی محوری گردش میں آنے والی سست تبدیلی کی وجہ سے موسم بدلتا ہے۔ تاہم یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ صرف یہ تبدیلیاں گلیشیر ادوار نہیں پیدا کر سکتیں۔
بعض کے خیال میں زمین کے بیضوی مدار کے انتہائی سرے پر گلیشیر پیدا ہوتے ہیں۔ بعض نے اس مقام پر آنے والی سردیوں تو بعض نے اس مقام پر آنےو الی گرمیوں کو اس چیز کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
بعض محققین نے زمین کے محور کے مقام کی تبدیلی کے بارے بات کی ہے۔ اگر زمین سخت ہے، جیسا کہ یقین کیا جاتا ہے تو اس سارے عرصے میں یہ 3 ڈگری سے زیادہ اپنا مقام نہیں بدل سکتی اور اگر یہ لچکدار ہے تو 10 سے 15 ڈگری منتقل ہو سکتی ہے۔
بعض ماہرین کے خیال میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ہونے والی کمی برفانی دور کا پیش خیمہ بنی۔ برفانی ادوار کے درمیان آنے والے گرم اوقات کے بارے خیال کیا جاتا تھا کہ وہ زمین کی سطح کے قریب موجود مردہ جانوروں کے گلنے سے وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ گرم چشموں کی کمی بیشی پر بھی غور کیا گیا۔
بعض کے خیال میں آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ سے فضا سے سورج کی روشنی گزرنے کی بجائے منعکس ہوتی رہی اور اس کے الٹ یوں کہہ لیں کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اضافی مقدار سے زمین سے حرارت کا فرار ممکن نہ رہا۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی سے درجہ حرارت گرتا مگر محتاط حساب سے پتہ چلتا ہے کہ اکیلی یہ وجہ برفانی دور کا سبب نہیں بن سکتی۔
بحرِ اوقیانوس میں گرم پانی کی رو کے رخ کی تبدیلی پر بھی غور کیا گیا اور پاناما کو سطح سمندر سے نیچے فرض کر کے خلیجی رو کو بحرالکاہل بھیجا گیا مگر یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ برفانی دور سے قبل ہی بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس الگ الگ ہو چکے تھے، ویسے بھی خلیجی رو کا ایک حصہ تو بحرِ اوقیانوس میں ہی رہتا۔ اس کے علاوہ بار بار گلیشیل ادوار کی آمد و رفت سے پاناما کو مسلسل پانی سے اوپر نیچے ہونا پڑتا۔
دیگر نظریات کے اسی طرح کے مفروضوں پر بنائے گئے ہیں مگر ایسے عوامل کا وجود ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا یا پھر ان سے مطلوبہ اثرات پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔
اوپر بیان کیے گئے تمام تر نظریات اور مفروضات اگر ایک اہم ترین شرط کو پورا نہ کر سکیں تو انہیں ناکام سمجھا جائے گا: زیادہ برف گرنے کے لیے زیادہ بارش یا برف کا گرنا ضروری تھا۔ اس کے لیے زیادہ مقدار میں آبی بخارات کا فضا میں جانا ضروری تھا جو بذاتِ خود سمندروں سے زیادہ مقدار میں پانی کے آبی بخارات بننے سے مشروط تھا اور اس چیز کے لیے زیادہ حرارت درکار تھی۔ بہت سے سائنس دانوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حساب بھی لگایا ہے کہ برفانی دور کی برف کی تہہ کی خاطر تمام تر سمندروں سے بہت فٹ جتنا پانی بخارات بننا لازمی ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں پانی کا بخارات بننا اور پھر معتدل علاقوں میں بھی اچانک جمنے کے عمل سے ہی برفانی دور پیدا ہو سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے: کس وجہ سے اتنا زیادہ عملِ تبخیر ہوا اور پھر فوراً بعد جماؤ؟ کس وجہ سے اتنی تیزی سے حرارت اور جماؤ آئے کہ انہوں نے زمین کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ ‘موجودہ صورتحال میں اتنی بڑی مقدار میں برف بننے کے عمل کی وضاحت ممکن نہیں اور یہ سوال مستقبل کے ارضیاتی ماہرین کے لیے حل طلب چھوڑا جا رہا ہے۔‘ نہ صرف یہ کہ اتنی بڑی مقدار میں برف کے آنے اور جانے کی وجوہات کا علم نہیں بلکہ جن جغرافیائی علاقوں پر برف موجود تھی، وہ بھی ایک مسئلہ ہیں۔ جنوبی نصف کرے سے برفانی چادر افریقہ کے استوائی علاقوں سے ہوتی ہوئی قطب جنوبی کو پہنچی اور مخالف سمت کو کیوں نہیں گئی اور اسی طرح شمالی نصف کرے میں برف کی چار کا رخ خِط استوا سے انڈیا اور ہمالیہ کے بلند علاقوں کو ہوا؟ برفانی دور کے گلیشیر نے شمالی امریکہ اور یورپ کے بڑے حصے کو کیوں ڈھانپا جبکہ شمالی ایشیا برف سے پاک رہا؟ امریکہ میں برفانی چادر 40 ڈگری عرض بلد سے بھی آگے اور یورپ میں 50 ڈگری تک پہنچی جبکہ شمال مشرقی سائبیریا، قطب شمالی کے اوپر اور 75 ڈگری عرض بلد پر بھی مستقل برف موجود نہیں تھی؟ تمام مفروضہ جات جو سورج میں ہونے والی تبدیلیوں، خلا کے سرد اور گرم علاقوں اور اسی طرح کے دیگر جواز پر مبنی ہیں، اس کا جواب نہیں دے سکتے۔
گلیشیر مستقل برفانی علاقوں میں بنتے ہیں، اسی وجہ سے وہ اونچے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر ہوتے ہیں۔ سائبیریا کا شمال دنیا کا سرد ترین مقام ہے۔ پھر اس جگہ برفانی دور کیوں نہ پہنچا جبکہ اس نے مسی سپی کے علاوہ خطِ استوا سے جنوب کے سارے افریقہ کو جکڑے رکھا تھا؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
میمتھ
شمالی مشرقی سائبیریا برفانی دور میں برف سے پاک رہا، میں ایک اور اسرار چھپا ہے۔ برفانی دور کے بعد بظاہر یہاں کا موسم بہت تیزی سے بدلا ہے اور ہر سال درجہ حرارت پچھلے سال کی نسبت کئی ڈگری کم ہوتا رہا۔ تب یہاں پائے جانے والے جانور اب وہاں نہیں رہتے اور اُس دور کے پودے اب یہاں نہیں اُگ سکتے۔ یہ تبدیلیاں بہت اچانک ہوئیں۔ درجہ حرارت میں ہونے والی یہ تبدیلی جو برفانی دور پر منتج ہو، کی وضاحت نہیں کی جا سکی۔
ماحول کی یہ تباہ کن تبدیلی اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر سائبیریا کے تمام میمتھ مر گئے۔
میمتھ کا تعلق ہاتھیوں کے خاندان سے تھا۔ اس کے بیرونی دانت بعض اوقات دس فٹ طویل ہو جاتے تھے۔ دیگر ہاتھیوں کی نسبت ان کے دانت زیادہ جدید اور زیادہ بھاری ہوتے تھے اور ان کی موت کی وجہ محض ارتقا کی جدوجہد میں ناکامی نہیں ہو سکتی۔ میمتھ کا ناپید ہونا آخری گلیشیل دور کے خاتمے سے منسلک کیا جاتا ہے۔
بہت بڑی تعداد میں میمتھ کے بیرونی دانت شمال مشرقی سائبیریا میں پائے جاتے ہیں۔ سائبیریا پر روس کے قبضے کے بعد سے ہی انتہائی اچھی حالت میں محفوظ شدہ یہ دانت چین اور یورپ برآمد کیے جاتے ہیں اور اس سے قبل بھی ان کو بیچا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہاتھی دانت کا بڑا حصہ شمال مشرقی سائبیریا کے ٹنڈرا سے آتا ہے۔
1799 میں میمتھ کی جمی ہوئی لاشیں ٹنڈرا سے برآمد ہوئیں۔ یہ لاشیں بہت اچھی حالت میں تھیں اور گاڑیاں کھینچنے والے کتوں نے جب ان کا گوشت کھایا تو انہیں کچھ نہیں ہوا۔ ‘ان کا گوشت ریشے والا اور چربیلا تھا‘ اور ‘جمے ہوئے بڑے گوشت کی مانند تازہ‘ تھا۔ کس وجہ سے یہ میمتھ مرے اور ان کی نسل ہی ناپید ہو گئی؟ کاویئے نے میمتھ کے ناپید ہونے پر لکھا: ‘بار بار ہونے والی مداخلت اور سمندروں کی پسپائی نہ تو سست تھی اور نہ ہی بتدریج، بلکہ ان پر آنے والی یہ آفت ناگہانی تھی اور ان آفتوں میں سے آخری کو ثابت کرنا انتہائی سہل ہے کہ پہلے سیلاب ایا اور پھر خشکی جو موجودہ دور کی زمین کے کافی حصے پر محیط تھا۔ شمالی علاقوں میں اس نے چوپایوں کے لاشے چھوڑے جو برف میں دفن ہو گئے جو ہماری دور تک بالکل محفوظ رہے اور ان کی ہڈیاں، ان کا گوشت اور ان کے بال بھی بعینہٖ محفوظ رہے۔ اگر ان کی موت کے فوراً بعد ہی یہ جم نہ گئے ہوتے تو ان کے گلنے کا عمل شروع ہو چکا ہوتا۔ دوسری جانب یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ جگہ پہلے سے ہی یخ بستہ نہیں تھی ورنہ یہ جانور وہاں زندہ نہ رہ پاتے۔ سو یہ بات واضح ہے کہ پہلے یہ جانور مرے اور فوراً بعد ہی اس جگہ کو برف نے ڈھانپ لیا۔
یہ واقعہ اچانک اور لمحاتی تھا اور اس سے پہلے والی آفتیں نسبتاً بتدریج تھیں۔ زمین پر آنے والی متواتر آفتوں سے حیات کے ناپید ہونے اور نئی انواع کی پیدائش کے بارے نظریہ ڈیلک نے پیش کیا اور کاویئے نے اسے ترقی دی، مگر سائنسی دنیا اسے قبول نہ کر سکی۔ کاویئے سے قبل لامارک اور اس کے بعد ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ارتقا کا عمل انتہائی سُست اور جین سے منسلک ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی آفت بھی اس طرح کی تبدیلیاں نہیں لا سکتی۔ سو ارتقا کے نظریے کے مطابق یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں اس لیے پیش آئیں کہ جاندار اپنے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے آپ کی بقا کی خاطر خود کو تبدیل کرتے رہے۔
لامارک اور ڈارون کے نظریات کے مطابق جانوروں میں بتدریج تبدیلیاں آتی ہیں اور دسیوں ہزاروں سال بعد ایک معمولی سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ 18ویں اور 19ویں صدی کے ارضیاتی نظریات کے مطابق ارضیاتی عمل بہت آہستگی سے ہوتے ہیں اور ان کا انحصار بارش، ہوا اور مدوجزر سے ہونے والے کٹاؤ پر ہے۔
ڈارون نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ اسے معلوم نہیں میمتھ جیسا بہتر جانور کیسے ناپید ہو گیا جبکہ اس سے کم تر جانور ہاتھی بچ گیا؟ تاہم اس کی حمایت میں ڈارون کے پیروکاروں نے یہ فرض کر لیا کہ بتدریج زمین دھنسنے سے میمتھ کو پہاڑیوں پر منتقل ہونا پڑا اور وہ نئی پیدا ہونے والی دلدلوں کے سبب پہاڑیوں پر پھنس گئے۔ تاہم اگر ارضیاتی عمل آہستگی سے ہوتے ہیں تو میمتھ کبھی بھی اس طرح پہاڑیوں پر نہ پھنستے۔ یہ بات بھی اس نظریے کے خلاف ہے کہ میمتھ خوراک کی کمی سے ناپید نہیں ہوئے۔ ان کے معدوں اور دانتوں میں غیر ہضم شدہ گھاس اور ٹہنیاں پائی گئی ہیں جو میمتھ کی ہلاکت کے مقام سے لگ بھگ 1٫000 میل جنوب میں پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہوتا ہے کہ میمتھ کے ناپید ہونے کے فوراً بعد موسم میں شدید نوعیت کی تبدیلیاں آئیں کیونکہ میمتھ کی لاشیں بالکل بھی خراب نہیں ہوئیں اور برف کے اندر بہترین حالت میں محفوظ رہی ہیں۔ یعنی ان کی موت کے فوراً بعد ہی درجہ حرارت اچانک بہت زیادہ گرا یا پھر ان کی موت کی وجہ ہی درجہ حرارت کی یہ کمی رہی ہو۔
مزید یہ بھی کہ آرکٹک یا قطب شمالی میں میمتھ کے دانت سمندری لہروں سے ساتھ بہہ کر ان جزائر تک پہنچے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس زمین پر میمتھ رہتے تھے اور ڈوبے، اب وہاں بحرِ منجمد شمالی ہے۔
برفانی دور اور انسان کی قدامت
میمتھ انسانی ظہور کے بعد بھی زندہ رہے ہیں۔ قدیم غاروں میں انسان کی بنائی ہوئی تصاویر وسطی یورپ میں ملتی ہیں اور میمتھ کی باقیات بھی وہیں پائی جاتی ہیں۔ پتھر کے دور کے یورپیی انسان کی عارضی قیام گاہوں میں میمتھ کی ہڈیاں بکثرت ملتی ہیں۔ جب یورپ پر برفانی چادر چھا گئی تو انسان نے جنوب کا رخ کیا اور برف کے ہٹنے پر واپس لوٹ گیا۔
قدیم انسان نے موسم میں انتہائی تبدیلیاں دیکھیں۔ سائبیریا کا میمتھ، جس کا گوشت ابھی تک تازہ ہے، کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ (موراویا میں مستقل منجمد مقام پر قدیم انسان کی رہائش کے آثار ملتے ہیں اور وہاں سے 800 سے 1٫000 میمتھ کے ڈھانچے ملے ہیں۔ میمتھ کے کندھے کی ہڈی انسانی قبر کے لیے استعمال ہوتی تھی۔) کہ وہ آخری گلیشیل دور کے اختتام پر ناپید ہوئے اور عین اسی وقت ان کے ساتھ ساتھ الاسکا اور یورپ کے میمتھ بھی ناپید ہوئے۔ اگر یہ بات درست ہے تو سائبیریا کے میمتھ نسبتاً جدید انسان کے ہم عصر رہے ہوں گے۔ جب یورپ میں برفانی چادر کے قریب رہنے والا انسان ابھی پتھر کے دور میں تھا، اس وقت مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ قریب کے انسان دھاتی عہد تک پہنچ چکے تھے۔ پتھر کے دور کے بارے ہمیں کوئی تاریخی معلومات نہیں کیونکہ تحریر کا نظام تانبے کی دریافت کے ساتھ شروع ہوا تھا جو کانسی کے عہد کا آغاز تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ یورپ میں پتھر کے دور کا انسان اپنے پیچھے تحریر کی بجائے تصویری معلومات چھوڑ گیا تھا، سو برفانی عہد کے خاتمے کا ہمیں درست وقت نہیں معلوم۔
ارضیات دانوں نے آخری گلیشیل دور کا وقت معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں انہوں نے گلیشیر سے نکلے دریاؤں میں بہہ کر آنے والے ملبے کو جھیلوں کی مقدار کو ماپنے کی کوشش کی ہے۔ ایلپس سے نکلنے والے دریائے رون میں بہنے والے ملبے اور اس کے راستے میں آنے والی جھیل جینیوا کی تہہ میں موجود تلچھٹ کی پیمائش سے اندازہ لگایا گیا کہ یہ ملبہ کتنے عرصے میں اور کس مقدار میں بہہ کر آیا ہوگا۔ اس طرح آخری گلیشیل دور میں برفانی چادر کے ہٹنے کے بارے اندازہ لگایا گیا۔ ایک سوئس محقق فرانکوئس فوریل کے مطابق آخری گلیشیل دور میں برفانی چادر کے پگھلنے کا عمل لگ بھگ آج سے 12٫000 سال قبل شروع ہوا تھا۔ یہ تخمینہ حیران کن ہے کہ آخری برفانی دور کے خاتمے کے بارے پچھلا اندازہ 30٫000 سے 50٫000 سال قبل کا تھا۔
تاہم ایسے حساب کتاب میں بالواسطہ مشاہدات کی وجہ سے گربڑ ہوتی ہے کیونکہ جھیلوں میں آنے والے ملبے اور تلچھٹ کی مقدار بدلتی رہتی ہے۔ جب گلیشیر پگھلنا شروع ہوا ہوگا تو بہت بڑا ہوگا اور ابتدا میں آنے والی مٹی وغیرہ بھی بہت زیادہ رہی ہوگی اور اگر برفانی عہد اچانک ختم ہوا تو شروع میں آنے والی مٹی کی مقدار بہت زیادہ رہی ہوگی جو ایلپس میں پگھلنے والی برف کی مقدار سے آنے والی مٹی سے بہت زیادہ رہی ہوگی۔ سو، آخری گلیشیل دور ہمارے اندازوں سے بھی بعد میں ختم ہوا ہوگا۔
ارضیات دانوں کے خیال میں امریکہ کی عظیم جھیلیں برفانی عہد کے خاتمے پر بنیں اور گلیشیر کے پگھلنے پر دبی ہوئی زمین نے جھیلوں کی شکل اختیار کر لی۔
پچھلے دو سو سال میں آبشار نیاگرا جھیل اونٹاریو سے جھیل ایری کی جانب سالانہ 5 فٹ کی رفتار سے منتقل ہو رہی ہے اور کٹاؤ سے چٹانی آبشار کی تہہ میں جمع ہو رہی ہیں۔ اگر یہ رفتار آخری گلیشیل دور سے برقرار ہے تو نیاگرا کو کوئینز ٹن سے موجودہ مقام تک آنے میں لگ بھگ 7٫000 سال لگے ہوں گے۔
چونکہ یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ برفانی دور کے خاتمے سے اب تک نیاگرا میں بہنے والے پانی کی مقدار یکساں ہے، اس لیے اندازہ کیا جاتا ہے کہ 7٫000 سال زیادہ سے زیادہ عرصہ ہوگا۔ شروع میں جب گلیشیر پگھلنا شروع ہوا ہوگا تو پانی کی مقدار بہت زیادہ رہی ہوگی۔ سو بعض اوقات یہ مدت کم کر کے 4 سے 5 ہزار سال کہی جاتی ہے۔ جھیل مشیگن کے ساحل اور تہہ میں موجود تلچھٹ اور کٹاؤ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کا دورانیہ اگر دسیوں ہزاروں کی بجائے محض ہزاروں سال پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں کی جانے والی رکازی تحقیق کے شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل پر جدید نسلِ انسانی یعنی امریکی انڈین آخری گلیشیل دور سے قبل آباد تھے۔ سوچا جاتا ہے کہ آخری گلیشیل دور کے ساتھ یہ انسان جنوب کو منتقل ہوتے گئے اور شمال کو تب لوٹے جب برفانی چادر ہٹ گئی تھی اور عظیم جھیلیں وجود میں آ چکی تھیں، سینٹ لارنس کا طاس وجود میں آ چکا تھا اور نیاگرا آبشار نے جھیل ایری کی جانب منتقل ہونا شروع کر دیا تھا۔
اگر آخری گلیشیل دور محض چند ہزار سال قبل گزرا تو عین ممکن ہے کہ اس وقت تک قدیم تہذیب کے مرکز میں تحریر رواج پا چکی ہو۔ سو انسانی تحاریر اور چٹانوں پر موجود قدرتی شواہد سے ہمیں ایک جیسے ثبوت ملنے چاہیئں۔ سو اب ہم قدیم انسان کی روایات اور اس کے تحریری ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا مقابلہ آثارِ قدرت سے کرتے ہیں۔
زمینی ادوار
دنیا بھر میں مختلف ادوار کا تذکرہ ملتا ہے جو قدرتی طور پر آنے والی تبدیلیوں سے ختم ہوئے۔ مختلف اقوام اور مختلف روایات میں ان ادوار کی تعداد مختلف ہے۔ یہ فرق ان آفات کی تعداد جو لوگوں کو یاد رہی یا جس طرح ایک عہد کا خاتمہ ہوا، کی وجہ سے ہے۔
قدیم ایٹروریا (وسطی اٹلی کا علاقہ) میں ورو کے مطابق 7 گذشتہ ادوار کا تذکرہ ملتا ہے۔ سینسورینس جو تیسری صدی عیسوی کا مصنف اور ورو کو جمع کرنے کی وجہ سے مشہور ہے، نے لکھا ہے: ‘انسان کا خیال ہے کہ مختلف اوقات میں دیوتاؤں نے مختلف عوامل کی مدد سے فانی انسانوں کو ختم کیا ہے۔ وسطی اٹلی کے باسی علم الفلکیات میں ماہر تھے اور انہوں نے ان آفات کا توجہ سے مشاہدہ کیا ہے اور ان کے بارے تفصیلی مشاہدات اپنی کتب میں لکھے۔‘ یونانیوں میں بھی ایسی روایات ملتی ہیں۔ ‘ایک دور ایسا آتا ہے جسے ارسطو نے عظیم ترین سال کا نام دیا ہے اور اس کے آخر پر سورج، چاند اور سیارے اپنے اصل مقامات کو لوٹ جاتے ہیں۔ یہ عظیم سال میں بہت شدید موسمِ سرما اور بہت گرم موسمِ گرما آتا ہے۔ ان مواقع پر دنیا باری باری ایک طرح سے ڈوبتی اور پھر جلتی ہے۔‘ سینسورینس نے لکھا۔
چھٹی صدی قبل مسیح کے اناکسی مینس اور اناکسی میندر اور پانچویں صدی قبل مسیح میں اپالونیا کے دیوجانس نے یہ فرض کیا کہ دنیا کی تباہی اس کی دوبارہ تعمیر سے منسلک ہے۔ ہرقلیطس نے بتایا کہ دنیا ہر 10٫800 سال بعد آگے سے تباہی کا شکار ہوتی ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں ساموس کے ارسطاخرس کا خیال تھا کہ ہر 2٫484 سال بعد دنیا پر دو تباہیاں آتی ہیں، ایک آگ سے اور دوسری سیلاب سے۔ رواقیوں کے خیال میں دنیا مخصوص عرصے بعد آگ کا شکار ہوتی ہے تاکہ نئی شکل سے ظاہر ہو۔ زمین کو آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر فیلون کا تبصرہ کچھ یوں تھا: ‘ہر چیز کے اندر آگ موجود ہے جس کی وجہ سے طویل عرصے بعد ہر چیز اپنے آپ میں گم ہو کر نئی دنیا کو جنم دیتی ہے۔‘
اسی طرح کے ایک واقعے میں ہماری دنیا پر آخری تباہی آئے گی اور وہ ایک اور دنیا سے ٹکرا کر ایٹموں میں بٹ جائے گی اور طویل عرصے بعد انہی ایٹموں سے ایک نئی دنیا کائنات میں کسی اور جگہ پیدا ہو جائے گی۔
فیلون کا خیال تھا، ‘دیموقراطین اور ایپکور کئی دنیاؤں کے بارے نظریہ رکھتے ہیں جو ایٹموں کے باہمی تصادم اور ملاپ سے بنی ہیں اور اس طرح بننے والی دنیائیں آپس میں ٹکرا کر ختم بھی ہوتی ہیں۔‘ جب ہماری زمین پر آخری تباہی آئے گی تو یہ بار بار آنے والی کائناتی تباہی سے گزرے گی اور پھر اس کا اور اس پر رہنے والی ہر زندہ شئے کا دوبارہ جنم ہوگا۔
قدیم ترین یونانی فلسفیوں میں سے ایک ہزیود نے چار ادوار اور انسان کی چار نسلوں کے بارے لکھا ہے جو سیاراتی دیوتاؤں نے تباہ کیے۔ تیسرا دور کانسی کا تھا جسے زیوس نے تباہ کیا اور انسان کی نئی نسل نے زمین کو آباد کیا اور کانسی سے ہتھیار اور اوزار بنانے کے علاوہ لوہے کو بھی استعمال کرنے لگے۔ ٹروجن جنگ کے ہیرو اسی چوتھی نسل سے تھے۔
پھر ایک نئی تباہی کا پروانہ جاری ہوا اور اسکے بعد انسان کی ایک اور نسل آئی جو پانچویں نسل کہلائی۔ یہ نسل لوہے کے دور سے تعلق رکھتی تھی۔ ہزیود نے اپنی ایک اور تحریر میں ایک دور کے خاتمے کا لکھا ہے۔ حیات بخش زمین جلنے لگی، سمندر اُبلنے لگے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے زمین اور آسمان قریب ہو رہے ہوں، جیسے آسمان نے زمین کو کچل دینا ہو۔‘
اس سے مماثل روایات جن میں چار ادوار کی تباہی اور موجودہ پانچویں دور کا ذکر ہو، خلیجِ بنگال اور تبت کے بلند مقامات پر بھی ملتی ہیں۔
مقدس ہندو کتاب بھگوت پرانا کے مطابق چار ادوار آئے تھے اور ان کے متعلق تباہیاں بھی، بنی نوع انسان تباہی کے مختلف ادوار میں معدوم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ پانچواں دور اب چل رہا ہے۔ دنیا کے ان ادوار کو کلپا یا یوگ کہا جاتا ہے۔ ان ادوار کا خاتمہ آتش زدگی، سیلاب اور طوفانوں سے ہوتا تھا۔ ایزور وید اور بھگا وید جو مقدس ہندو کتب ہیں، میں چار ادوار کا حساب لکھا گیا ہے اور ان میں محض ہر دور میں برسوں کی تعداد کا فرق ہے۔ زمینی ادوار نامی باب میں لکھا ہے کہ ‘تین اقسام کی تباہیاں آئی تھیں: پانی، آگ اور ہوا سے آنی والی تباہیاں،‘ مگر سات ادوار ہوئے ہیں اور ہر دور دوسرے سے تباہی کے عوامل کی وجہ سے مختلف ہے۔
اوستا میں ان ادوار اور آفات کے حوالے ملتے ہیں اور ایرانیوں کے قدیم مذہب زرتشتیت کی مقدس تحاریر میں بھی اس بارے معلومات موجود ہیں۔
اوستا کی ایک جلد میں دس ادوار کا ذکر ملتا ہے۔ زرتشت جو کہ زرتشتیت کے بانی ہیں، ‘ہر دور کے اختتام کی علامات، عجائب اور الجھنوں کے بارے‘ بات کرتے ہیں۔
چینی ہر گزرے ہوئے عہد کو کیس کہتے ہیں اور ان کے مطابق دنیا کے آغاز سے کنفیوشس کی آمد تک دس ادوار گزرے ہیں۔ قدیم چینی دائرۃ المعارف سنگ لی تا سیوئن چو میں قدرتی آفات کے بارے بات کی گئی ہے۔ ان آفات کے معیادی ہونے کی وجہ سے ہر دو آفات کے درمیانی عرصے کو ‘عظیم سال‘ کہا گیا۔ اس سال میں جو کہ ایک عہد یا دور ہوتا تھا، فلکیاتی عمل پورا ہوتا اور فطرت کے ایک جھٹکے سے سمندر کا پانی باہر نکل آتا، پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیتے، دریاؤں کا رخ بدل جاتا، انسان اور دیگر تمام جاندار تباہ ہو جاتے اور قدیم اثرات مٹ جاتے۔ ایک قدیم اور بہت مضبوط روایت جس کے مطابق دنیاوی ادوار عالمی آفات سے تباہ ہوتے تھے، امریکہ میں انکا، ازٹیک اور مایا لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ یوکاٹین میں پائے جانے والے پتھروں میں عالمی آفات کے بارے تحاریر درج ہیں۔ ‘ان پتھروں پر امریکی براعظم پر آنے والی معیادی آفات کے بارے درج ہے جو یہاں تباہی کا سبب بنتی رہی ہیں اور ہر قوم میں ان کے بارے باقاعدہ داستانیں پائی جاتی ہیں۔ میکسیکو کی قدیم تحاریر اور ہندوستانی مسنفین نے ماضی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اس میں ان آفات کا واضح تذکرہ ہوتا ہے جن کی وجہ سے زمین پر تبدیلیاں آئیں اور انسانیت کو بہت تباہی ملی۔
میکسیکو کی قدیم تحاریر میں درج ہے: ‘قدما جانتے تھے کہ موجودہ آسمان اور زمین سے قبل انسان پہلے ہی موجود تھا اور زندگی بھی، اور ایسا چار مرتبہ ہو چکا تھا۔‘ متواتر تخلیق اور تباہی کی ایک روایت ہمیں بحرالکاہل میں ہوائی اور پولی نیشیا سے بھی ملتی ہے کہ نو ادوار آئے اور ہر دور میں زمین پر ایک مختلف آسمان ہوتا تھا۔ آئس لینڈ کے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں نو مختلف ادوار آئے اور یہ روایت ان کی قدیم کتاب ایڈا میں درج ہے۔
تالمودی تصورات میں بھی قدیم ادوار کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہماری موجودہ زمین کی تخلیق سے قبل بہت مرتبہ دنیا بنی اور تباہ ہوئی۔
‘اس نے ہم سے قبل بہت ساری دنیائیں بنائیں اور انہیں تباہ کر دیا۔‘ یہ زمین بھی خدائی منصوبے کے مطابق نہیں بنائی گئی۔ اس کی شکل بہت مرتبہ تبدیل ہوئی۔ ہر تباہی کے بعد نئے حالات پیدا ہوئے۔ چوتھی زمین پر بابل کے معلق باغات والے انسان آباد تھے۔ ہمارا تعلق ساتویں دور سے ہے۔ ہر دور یا ‘زمین‘ کا ایک الگ نام ہے۔
سات آسمان اور سات زمینیں تخلیق ہوئیں: زیادہ تر ختم ہو گئیں اور ساتویں اریتز، چھٹی آدمہ، پانچویں آرکہ، چوتھی ہرابہ، تیسری یباشہ، دوسری تیول اور ہماری اپنی زمین ہیلید کہلاتی ہے۔ ہر دو کے درمیان تباہی، بے ترتیبی اور پانی پائے جاتے ہیں۔ عظیم آفات سے زمین کی صورت تبدیل ہوئی۔ ایک یہودی فلسفی فیلو نے لکھا: ‘کچھ تو سیلاب میں ڈوب گئیں اور کچھ کو آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا۔‘ ایک مذہبی عالم رشی کے مطابق قدیم روایات میں متواتر تباہی کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ایک تو عالمگیر سیلاب سے ہوئی تھی۔ یہ تباہیاں ہر 1٫656 سال بعد آتی رہی ہیں۔ آرمینین اور عرب روایات میں ہر دور کی معیاد مختلف ہے۔
شمسی ادوار
ایک متواتر دہرائی جانے والی روایت یہ بھی ہے کہ ہر دور کے آغاز پر ایک نیا سورج آسمان پر ابھرتا ہے۔ دنیا بھر میں بہت ساری اقوام سورج کی جگہ دور کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔
مایا نے ادوار کی گنتی کا کام سورج کے ناموں کی ترتیب سے شمار کیا ہے۔ ان کے نام ‘آبی سورج‘، ‘زلزلہ سورج‘، ‘بحری طوفان سورج‘ اور ‘آتشی سورج‘ تھے۔ یہ نام ہر دور کی تباہی کا سبب بننے والے عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ایکستلل ساکاتل (1568–1648) ایک مشہور ہندوستانی محقق گزرا ہے۔ اس نے تزکوکو کے بادشاہوں کے بارے لکھا ہے اور دنیا کے ادوار کو ‘سورج‘ کے نام سے پکارا ہے۔ آبی سورج یعنی پانی کا سورج سب سے پہلا دور تھا جو سیلاب پر منتج ہوا اور تقریباً تمام تر مخلوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ زلزلہ سورج نامی دور کا اختتامایک بہت بڑے زلزلے سے ہوا جس سے زمین میں دراڑیں پڑ گئیں اور پہاڑ گر پڑے۔ بحری طوفان سورج کا خاتمہ انتہائی بڑے سمندری طوفان سے ہوا۔ شمسی سورج میں دنیا کے خاتمے کے لیے آتشی بارش ہوئی۔ ‘میکسیکو کی اقوام کا عقیدہ ہے کہ ان کی قدیم تصاویر کے مطابق موجودہ دور کے سورج سے قبل چار ایسے سورج بجھ چکے ہیں۔ ہر سورج ایک دور کی نمائندگی کرتا تھا اور وہ ادوار سیلاب، زلزلوں، آگ اور طوفان سے ختم ہوئے۔ چاروں عناصر میں سے ہر ایک باری باری ان آفات کی شکل میں نازل ہوا اور متعلقہ دور کی تباہی کا سبب بنا۔
میکسیکو کے قبل از کولمبین دور کی ادبی دستاویزات میں ان سورجوں کی علامات چھاپی گئی ہیں۔ گومارا نے میکسیکو کی جیت پر لکھا کہ سورجوں کے پانچ ادوار تھے۔ ایک رومن مصنف Lucius Ampelius نے گومارا کی بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ‘وہاں پانچ سورج تھے۔‘ گومارا نے یہی تصور جدید دنیا میں بھی پایا۔
میکسیکو کی تاریخی دستاویزات جو 1570 عیسوی میں لکھی گئی تھیں اور قدیم ماخذ کے حوالے سے تھیں، میں سات ادوار کا ذکر ملتا ہے۔ ان سات ادوار کو فلکیاتی ڈرامے کے سات حصے بھی کہا جاتا ہے۔ بدھ مت کی مقدس کتاب وسودھی مگا میں دنیاوی ادوار پر ایک باب موجود ہے۔ پھر ہمیں تین تباہیاں بھی ملتی ہیں، ایک پانی سے، ایک آگ سے اور ایک ہوا سے۔ سیلاب کی تباہی کے بعد جب طویل عرصہ بارشیں نہ ہوئیں تو دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ درمیانی عرصے میں دنیا مایوسی سے گھری رہی تھی۔ جب دوسرا سورج نمودار ہوا تو دن اور رات کا فرق مٹ گیا اور بے رحم گرمی نے دنیا کو جکڑ لیا۔ پانچویں سورج کی نموداری کے بعد سمندروں کا پانی بتدریج خشک ہوتا گیا۔ چھٹے سورج کے ساتھ دنیا دھوئیں سے بھر گئی۔ ایک اور طویل مدت کے بعد ساتواں سورج نمودار ہوا اور پوری دنیا کو آگ لگ گئی۔ بدھ مت کی کتاب میں ایک اور قدیم سات سورجوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ برہمن ہر دو تباہیوں کے درمیانی عرصے کو عظیم دن کے نام سے پکارتے تھے۔ الہامی کتاب میں ادوار کے بارے تذکرے ہیں جن کے دوران دنیا میں تباہی اور پھر نمو ہوئی۔
ایک پیشین گوئی کے مطابق: ‘نو سورج نو ادوار ہیں۔۔۔۔ اب ساتواں سورج ہے۔‘ اس پیشین گوئی کے مطابق ابھی مزید دو ادوار آنے باقی ہیں جو آٹھواں اور نواں دور ہوں گے۔ شمالی بورنیو کے قدیم قبائل آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل میں آسمان کافی نیچے تھا اور چھ سورج ختم ہو چکے ہیں اور موجودہ دنیا کو ساتواں سورج منور کر رہا ہے۔ مایا کی تحاریر کے علاوہ بدھ مت کی مقدس کتب اور پیشین گوئیوں کی کتب میں بھی سات شمسی ادوار کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہر جگہ ان سورجوں سے مراد اہم ادوار لیے گئے ہیں اور ہر دور کا خاتمہ بہت بڑی اور عام تباہی کی صورت میں نمودار ہوا۔
کیا دونوں نصف کُرّوں میں سورج سے دور مراد لیا جانا سورج کی چمک دمک اور آسمان پر اس کے راستے سے متعلق ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی
آپ ٹرانسلیشن کے لیےکونسا سافٹ وئیر استعمال کرتے ہیں؟ اومیگا ٹی یا کوئی اور
آپ ٹرانسلیشن میموری ، گوگل ٹرانسلیٹ کو عطیہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح گوگل ٹرانسلیٹ کے ترجمہ کا معیار بھی بہتر ہوگا۔
بدقسمتی سے میں محض اپنا لیپ ٹاپ استعمال کرتا ہوں۔ اس کی سکرین پندرہ انچ والی ہے، سو گوگل ٹرانسلیٹر ٹول کٹ سے محروم ہوں۔ آپ کچھ تجویز کریں کہ اس صورت میں کیسے ایسا ہو سکتا ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ اوّل
زہرہ
کوئی کتاب یا مجموعہ کتب انسانی تاریخ میں عہد نامہ قدیم سے زیادہ نہ تو پڑھا گیا اور نہ ہی پھیلا اور نہ ہی اس پر تحقیق کی گئی۔ آر ایچ فیئفر، عہد نامہ قدیم کا تعارف

باب 1
ناقابلِ یقین کہانی
معجزات کے بارے سب سے زیادہ ناقابلِ یقین کہانی جوشوا بن نن کے متعلق ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کنعانی بادشاہوں کے تعاقب بیتھ ہورون کے مقام پر انہوں نے سورج اور چاند کو رکنے کا حکم دیا۔ اسرائیل کے پاس پہنچ کر انہوں نے چاند اور سورج کو جبعون کے مقام پر رکنے کا حکم دیا۔ یہ مقام عجالون کی وادی میں ہے۔ جب تک لوگ اپنے دشمنوں سے بدلہ نہ لے چکے، سورج اور چاند اپنے اپنے مقامات پر رکے رہے۔ کیا ایسا سفر یاشر میں نہیں درج؟ سو، سورج آسمان کے درمیان کھڑا رہا اور پورا ایک دن وہیں قیام رکھا (جوشوا 10:12-13)۔
یہ کہانی انتہائی پُر تخیل یا انتہائی متقی انسان کے لیے بھی ناقابلِ یقین ہے۔ سمندر کی طوفانی لہریں کسی کو ڈبو دیں تو کسی کو بچا لیں۔ زمین تڑخے اور انسانوں کو نگل لے۔ اردن کا کنارہ ٹوٹ کر دریا میں گرے اور اس کا بہاؤ روک دے۔ جیریکو کی دیواریں ڈھول تاشوں سے نہیں بلکہ عین اسی وقت انے والے اتفاقی حادثے سے ٹوٹ سکتی تھیں۔
مگر سورج اور چاند کا اپنی اپنی جگہ تھم جانا محض تخیل کا کارنامہ، شاعرانہ تعلّی، استعارہ اور جب عقیدے سے جوڑا جائے تو بدصورت دقت بن کر سامنے آتا ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے تو خالقِ حقیقی کی شان میں بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔
جب جوشوا کی کتاب لکھی گئی، تب تو نہیں، مگر ہمارے دور کے علم کے مطابق ایسا ہونا تبھی ممکن ہے جب زمین کی گردش کسی وجہ سے رک جائے۔ مگر ایسی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ہمارے دور کے علم میں ایسا دور دور تک کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ہر سال میں 365 دن، 5 گھنٹے اور 49 منٹ ہوتے ہیں۔
زمین کی باقاعدہ گردش میں پیدا ہونے والے خلل کی وجہ ممکن تو ہے، مگر اس کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ کوئی اتنا بڑا جرمِ فلکی زمین کے قریب سے گزرا ہو جس نے زمین کی گردش عارضی طور پر روک دی ہو۔
یہ بات سچ ہے کہ شہابِ ثاقب متواتر زمین کے قریب سے گزرتے رہتے ہیں جن کی تعداد ہزاروں یا دسیوں ہزار تک بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ان کی وجہ سے آج تک زمین کی گردش پر کوئی فرق نہیں پایا گیا۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بڑا جرمِ فلکی یا بڑی مقدار میں اجرامِ فلکی ہمارے کرہ ارض سے نہیں ٹکرا سکتے۔ مریخ اور مشتری کے درمیان شہابیوں کی بہت بڑی تعداد سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہاں محوِ گردش کوئی سیارہ تباہ ہوا ہوگا۔
شاید کسی دمدار ستارے نے اسے تباہ کر دیا ہو۔
اگرچہ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ کوئی دمدار ستارہ ہماری زمین سے ٹکرائے مگر ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ اجرامِ فلکی کی حرکات بہت نپی تلی ہوتی ہیں مگر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بھٹکے ہوئے آوارہ دمدار ستارے خلائے بسیط میں گھومتے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے توازن میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔
کچھ دمدار ستارے ہمارے نظامِ شمسی سے منسلک ہیں۔ ان کی واپسی اکثر ہوتی رہتی ہے مگر باقاعدگی سے نہیں کیونکہ ہر چکر پر بڑے سیاروں کی کشش ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر بے شمار دیگر دمدار ستارے جو اکثر محض دوریین سے دکھائی دیتے ہیں، کائنات کے دوردراز مقامات سے انتہائی تیز رفتاری سے آتے اور پھر ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتے ہیں۔ کچھ دمدار ستارے چند گھنٹوں کے لیے دکھائی دیتے ہیں تو کئی کچھ دنوں یا کچھ ہفتوں کے لیے دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ مگر سورج کے ایک جگہ رک جانے سے متعلق: ‘مذہبی کتابیں انسان کو فلسفہ سکھانے کی خاطر نہیں آئیں اور نہ ہی فیثاغورث کے نکتہ نظر سے اس دنیا کی وضاحت پیش کرنے آئی ہیں۔ اسی طرح پیغمبران اور دیگر مقدس کتابوں کے مصنفین اوّل تو فلسفی نہ تھے اور وہ ان باتوں کی وضاحت ایسے طریقے سے ہی کر سکتے تھے کہ ہر خاص و عام کو سمجھ آ جائے۔‘
اگر آج ہماری زمین پر ایسا ہو جائے تو کیا زمین بہت بڑی مقدار میں دمدار ستاروں سے جا ٹکرائے گی، یہ چٹانی اجسام ہمارے نظام شمسی میں آزاد پھر رہے ہیں۔
کافی جوش و جذبے کے ساتھ پچھلی صدی میں اس کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ ایگس پوٹامی میں گرنے والا شہابِ ثاقب جو کئی دن تک آسمان پر دکھائی دیتا رہا تھا، دراصل ہوا نے زمین سے اٹھا کر بلند کیا اور پھر اس جگہ جا گرایا۔ 26 اپریل 1803 کو فرانس میں ایگل کے مقام پر شہابِ ثاقب کی بارش ہوئی اور اس کو فرنچ اکیڈمی آف سائنسز میں زیرِ تحقیق رہا۔ ان دونوں واقعات کے درمیان کوپرنیکس، گیلیلیو گیلیلی، کیپلر، نیوٹن اور ہائجنس بھی گزرے ہیں جو آسمان سے پتھر گرنے کو یکسر جھوٹ سمجھتے تھے۔ حالانکہ بہت مرتبہ شہابِ ثاقب مجمع کے سامنے بھی گرے اور ایک بار تو شہنشاہ میکسیملین اور اس کے دربار کے سامنے 7 نومبر 1492 کو شہابِ ثاقب گرا۔
1803 سے ذرا قبل پیرس کی سائنس اکیڈمی نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ آسمان سے کبھی پتھر گرے ہوں گے۔ 24 جولائی 1790 کو جنوب مغربی فرانس کا واقعہ ‘طبعی طور پر ناممکن‘ قرار دیا گیا۔ تاہم 1803 سے محققین نے یہ بات تسلیم کر لی کہ پتھر آسمان سے گر سکتے ہیں۔ تاہم اگر ایک چھوٹا شہابِ ثاقب یا کئی شہابیے زمین پر گر سکتے ہیں تو دمدار ستارہ اڑتے ہوئے زمین سے کیوں نہیں ٹکرا سکتا؟ حساب لگایا گیا کہ ایسا امکان تو ہے مگر انتہائی معمولی۔
اگر دمدار ستارے کا سر یا مرکزہ زمین کے مدار کے اتنے قریب سے گزرے کہ زمین کی گردش پر فرق ڈال سکے تو دوسرے مظاہر بھی ممکن ہیں: جیسا کہ شہابیوں کی بہت زیادہ بارش۔ زمین کی فضا سے گزرتے ہوئے جھلسنے والے پتھر گھروں اور انسانوں پر بھی گر سکتے ہیں۔
جوشوا کی کتاب میں دو اشعار ہمیں سورج کے بارے بتاتے ہیں جو سوا نیزے پر کئی گھنٹوں تک رک گیا تھا، آگے یہ قطعہ ملتا ہے:
‘جب وہ (کعنانی بادشاہ) اسرائیل کے سامنے سے بھاگ نکلے اور بیتھ ہرون جا رہے تھے تو خدا نے ان پر آسمان سے بڑے بڑے پتھر برسائے اور وہ مر گئے: بنی اسرائیل کی تلوار سے زیادہ ان پتھروں نے انہیں قتل کیا۔‘
ظاہر ہے کہ جوشوا کی کتاب کے مصنف کو ان دونوں کے درمیان کسی تعلق کا علم نہیں ہوگا۔ یہ توقع کرنا فضول ہوگا کہ اسے شہابِ ثاقب اور اجرامِ فلکی کے تجاذب وغیرہ کے بارے کوئی علم رہا ہوگا۔ چونکہ تحریر میں دونوں واقعات کا ایک ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ باتیں مفروضے کی بنا پر کہی گئی ہوں گی۔ شہابیوں کی بارش ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ رہی ہوگی تبھی تلوار اسے زیادہ دشمن ان کی وجہ سے مرے۔ ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کے لیے شہابیوں کا سیلاب سا آیا ہوگا۔ اتنی بڑی مقدار میں پتھروں کا گرنا یا تو شہابیوں کی بارش کی وجہ سے ہوا ہوگا یا پھر دمدار ستارہ زمین سے ٹکرایا ہوگا۔
بائبل میں جاشیر کی کتاب کا اقتباس مختصر ہے اور اس سے تاثر ابھرتا ہے کہ یہ واقعہ مقامی تھا اور عجالون اور جبیون تک محدود رہا تھا۔ تاہم اس امر کے عالمگیر ہونے کے بارے ہمیں اشارہ جوشوا کیی یومِ شکرانہ کی دعا میں ملتا ہے:
سورج اور چاند آسمان پر تھم گئے اور ہم پر ظلم ڈھانے والوں پر تیرا غضب نازل ہوا
زمین کے تمام سردار اٹھ کھڑے ہوئے اور قوموں کے بادشاہ جمع ہوئے
تو نے اپنے غضب میں انہیں برباد کر دیا
تو نے اپنے غصے سے انہیں تباہ کر دیا
تیرے غضب سے سلطنتیں تباہ ہوئیں
تو نے ان پر اپنا غصہ اتارا
تو نے انہیں اپنے غضب سے دہشت زدہ کر دیا
تیرے غضب کے شور سے زمین لرزتی اور کانپتی رہی
تیرے طوفان نے ان کا پیچھا کیا
تیرے بھیجے بگولے نے انہیں ختم کر دیا
ان کی لاشیں کوڑے کرکٹ کی مانند بکھری رہیں
اس فلکیاتی مظہر کی وسعت کے بارے دعا میں ذکر ہے: ‘تمام سلطنتیں تباہ ہو گئیں۔‘
آسمان سے شہابیوں کی بہت بڑی بارش، زلزلہ، بگولہ اور زمین کی گردش میں خلل، یہ چاروں عوامل ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بڑا دمدار ستارہ زمین کے بہت قریب سے گزرا ہوگا اور اس کی گردش کو متاثر کیا ہوگا، اس کی گردن اور دم میں موجود پتھروں نے زمین پر بارش کی ہوگی۔
جوشوا کی کتاب کو بنیاد بنا کر کیا ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ دوسرے ہزار سال کے وسط میں ہماری زمین کی باقاعدہ گردش میں تبدیلی آئی ہوگی؟ ایسی کوئی بھی بات فرض کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، سو بے سوچے سمجھے ایسا کہنا ٹھیک نہیں۔ اگرچہ میرا ایسا کہنا ہے کہ اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، مگر موجودہ تمام تر تحقیق ہی دستاویزات اور دیگر شواہد کا آپس میں الجھا ہوا جال ہے جن کا اس کتاب میں بھی تذکرہ ملے گا۔
ہمارے سامنے موجود مسئلہ میکانیات سے متعلق ہے۔ گھومتے ہوئے گلوب کی بیرونی تہوں پر موجود نقاط (خصوصاً وسط کے قریب والے) اندرونی نقاط کی نسبت زیادہ خطی سمتار یعنی Linear Velocity سے حرکت کرتے ہیں مگر ان کی زاویاتی سمتار یعنی Angular Velocity ایک ہی رہتی ہے۔ سو اگر ہم زمین کی گردش کو روکنے (یا کم کرنے) کی کوشش کریں تو اندرونی تہیں شاید رک جائیں (یا رفتار کم ہو جائے) مگر بیرونی تہیں ویسے ہی گھومتی رہیں گی۔ اس طرح مائع یا نیم مائع تہوں کے درمیان رگڑ پیدا ہوگی جس کی وجہ سے حرارت جنم لے گی اور سب سے بیرونی تہہ اکھڑ جائے گی اور اس تہہ پر موجود پہاڑ اور براعظم تہہ و بالا ہو جائیں گے۔
آگے چل کر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسے پہاڑ مٹے اور ان کی جگہ دوسرے پہاڑ زمین کی سطح سے بلند ہوئے، زمین پر سمندر بنے اور براعظموں کو گرمی ملی، کئی جگہوں پر سمندر ابلنے لگے اور پتھر پگھل گئے، آتش فشاں پھٹے اور جنگلات آگ سے تباہ ہوئے۔ خطِ استوا پر لگ بھگ ایک ہزار میل فی گھنٹے سے زیادہ تیزی سے گھومتی ہوئی زمین جب اچانک رکے تو کیا پوری دنیا تباہ نہیں ہو جائے گی؟ مگر دنیا ابھی تک قائم و دائم ہے، سو ایسا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے جو بیرونی تہوں کو سست کر دیتا۔ یا پھر کوئی ایسا طریقہ جو ان تہوں کی رگڑ کو حرارت کے علاوہ کسی اور طور پر خارج کر سکتا۔ اگر گردش اسی طرح جاری رہتی، ارضی محور شاید اس طرح گھوم جاتا کیونکہ زمین کا مقناطیسی میدان کافی طاقتور ہے اور اس طرح شاید سورج کی حرکت رکی ہوئی دکھائی ہو۔ ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے اس کا تذکرہ اختتام پر کریں گے۔
سمندر کی دوسری جانب
جوشوا کی کتاب اس سے پہلے والی جاشیر کی کتاب سے اخذ کی گئی ہے، میں واقعات کی ترتیب بیان کی گئی ہے۔ ‘جوشوا۔۔۔ گلگل سے ساری رات اوپر رہا۔‘ علی الصبح وہ اپنے بے خبر دشمنوں پر جا گرا اور ‘بیتھ ہرون جانے والے راستے تک ان کا پیچھا کرتا رہا۔‘ جونہی وہ بھاگے، آسمان سے بڑے بڑے پتھر ان پر گرنے لگے۔ اُسی دن سورج جیبون اور چاند عجالون کی وادیوں پر رکے رہے۔ ان مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت سورج کا مقام دوپہر کا رہا ہوگا۔ جوشوا کی کتاب بتاتی ہے کہ چاند اور سورج آسمان کے درمیان رکے رہے۔
طول بلد کے فرق کی وجہ سے مغربی نصف کرے پر اس وقت رات یا علی الصبح کا وقت رہا ہوگا۔
اب ہم ان کتب کو دیکھتے ہیں جن میں وسطی امریکہ کے مقامی افراد کی تاریخی روایات موجود ہیں۔
کولمبس اور کورتیس کے ملاح جب امریکہ پہنچے تو انہیں وہاں تعلیم یافتہ افراد ملے جن کی اپنی کتب تھیں۔ ڈومینیکن راہبوں نے زیادہ تر یہ کتب سترہویں صدی میں جلا دی تھیں۔ قدیم مسودات میں سے بہت کم ہی بچ پائیں اور اب وہ پیرس، ویٹی کن، پراڈو اور ڈریسڈن کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ انہیں کوڈیسی کہا جاتا ہے اور ان کے متن پر تحقیق جاری ہے اور جزوی طور پر پڑھے جا چکے ہیں۔ تاہم ہسپانوی قبضے کے بعد اور اگلی صدی تک پڑھے لکھے لوگوں کو ان کتب تک رسائی تھی اور وہ انہیں پڑھ سکتے تھے۔
میکسیکو کی قدیم مذہبی کتب میں میکسیکو اور کلہیوکان کی سلطنت کی تاریخ لکھی ہے جو سترہویں صدی میں لکھی گئی، بتایا گیا ہے کہ ماضی بعید میں کسی آسمانی آفت کی وجہ سے رات بہت عرصے تک چھائی رہی۔
بائبل میں اس واقعے کے بارے لکھا ہے کہ سورج آسمان میں ایک اضافی دن تک رکا رہا (دن کے بارے ابھی بات کرتے ہیں)۔ تصویری شکل میں موجود قدیم روایات کی کتابوں میں درج ہے کہ سورج اور چاند چھتیس اِیٹم تک کھڑے رہے جو لگ بھگ اٹھارہ گھنٹے بنتے ہیں۔ یعنی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک دن کی لمبائی کل چھتیس گھنٹے بنی۔
میکسیکو کی قدیم کتب میں اس بارے درج ہے کہ وہاں سورج کی روشنی چار گنا طویل رات تک غائب رہی۔ ظاہر ہے کہ قدیم وقت میں دن یا رات کی طوالت ماپنے کے لیے ہماری طرح سائنسی نظام نہیں ہوتا تھا۔
سہاگن، ایک ہسپانوی صوفی تھا، کولمبس سے ایک نسل بعد یہاں آیا اور اس نے مقامی افراد کی روایات جمع کیں۔ ان میں ایک جگہ ذکر ملتا ہے کہ ایک آسمانی آفت کے دوران سورج افق سے ذرا سا ابھرا اور بہت وقت تک وہیں ٹھہر گیا اور چاند بھی اپنی جگہ ساکن رہا۔
میں مغربی نصف کرے کی بات پہلے کر رہا ہوں کیونکہ جب یہ علاقے دریافت ہوئے تو یہاں بائبل کی داستانیں پہلے نہیں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ سہاگن کی جمع کردہ داستانوں سے کہیں بھی مشنریوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اس میں کہیں بھی ہمیں جوشیوا بن نن اور اس کی کنعانی بادشاہوں کے خلاف کی گئی جنگ کا اشارہ تک نہیں ملتا اور افق سے ذرا ابھرنے والا سورج بائبل کے متن سے فرق سہی، مگر اس کے متضاد نہیں۔
ہم کرہ ارض کے گرد ایک چکر لگا کر ہر جگہ کی روایات میں طویل رات اور طویل دن کے بارے پوچھ سکتے ہیں جس میں سورج اور چاند اپنے مقامات سے غائب دکھائی دیے ہوں اور زمین پر آسمان سے پتھروں کی بارش کی وجہ سے آگ لگی ہو۔ مگر ابھی ہم اس سفر کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کرتے ہیں۔ انسانی یاداشت میں ایک سے زیادہ ایسی آفات کا تذکرہ ملتا ہے کہ جب زمین نے اپنی محوری گردش روک دی تھی۔ پہلے ہمیں ان واقعات کو الگ کرنا ہے جو صرف ایک بار ہوئے اور ان میں کچھ واقعات مندرجہ بالا واقعے سے پہلے اور کچھ بعد میں ہوئے اور کچھ اس سے زیادہ وسیع اور کچھ کم وسعت رکھتے تھے۔
 
Top