Citizen's Portal عوامی شکایات سیل

میں یہ نہیں کہتا کہ عوامی شکایات نہ سنیں بلکہ حیران ہوں کہ کیا سننا چاہتے ہیں۔

کیا بڑھتی ہوئی مہنگائی ، گرتی روپے کی قیمت آپکے علم میں نہیں ؟

کیا بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آپ کے علم میں نہیں۔ اور تو اور بل کی قسطوں کا حق بھی آپکے دور حکمرانی میں چھین لیا گیا ہے۔

اب سے چار دن پہلے آدھی دنیا کے سامنے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت اور بدعنوانی کی دہائی دیتے وہ الفاظ آپ اتنی جلدی بھول گئے ہیں یا سب ٹھیک ہوگیا ہے جو اب بات شکایات سننے تک آپہنچی ہے۔

جناب پہلے کچھ کر کے دکھائیے اور نہیں تو پاکستان کو کم از کم معاشی طور پر آج سے اڑھائی مہینے پہلے والی سطح پر ہی لے آئیے ۔

آپ نے امید ظاہر کی کہ اس سے سرکاری ملازمین کی کارکردگی بہتر ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ آپ سے زیادہ شکایات ہی ملازم طبقے کو ہونگی جن کی سالانہ تنخواہ دس فیصد ، وہ بھی بنیادی تنخواہ کا بڑھتی ہے اور سالانہ بیس فیصد مہنگائی بڑھ چکی ہوتی ہے۔
دور نہ جائیں اپنے سیکریٹیریٹ کے کسی ملازم سے ، جن کو ملک کے باقی ملازمیں کی نسبت بیس فیصد کا اضافی آلونس بھی ملتا ہے ، اس کے ماہانہ بجٹ کا ہی اندازہ لگوا لیجئے۔

اس ملک میں شکایات کےباکس کی کمی نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ، ستانوے میں نواز شریف بھی شکایات کے فون اپنے تمام تر سٹاف کئ مدد سے سنا کرتے تھے ۔مشرف نے ہر محکمے میں مانیٹرنگ کا نظام متعارف کروایا ، شہباز شریف نے ہر محکمے کا شکایات سیل بنایا ، پنجاب کے دفاتر کے بعد بڑا سا بینر لٹکا ہوتا ہے اور اوپر اطلاع کے لئے نمبر درج ہوتے ہیں۔ آپ کیا داد رسی کریں گے اور وہ بھی دو ملازموں کے کی مدد سے

سرکاری دفاتر ، تھانے ، ڈی سی دفاتر حتیٰ کہ ریلوے پھاٹک پر بھی شکایات باکس لٹکے ہوتے ہیں مگر عوام نے ان کو فضول چیز سمجھ کر کبھی ان کی طرف توجہ نہیں دی ۔ عوام کا ان شکایات کے ڈبوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔

پھر شکایات کا آن لائن نظام ، آپ تو واقعی پاکستان کو پیرس سمجھ بیٹھے ہیں ۔ بھول گئے ہیں کہ اس ملک کی اسی فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جن کو بھینس کی چوری کی رپورٹ کے اندراج کے لئے درخواست بھی کسی سے لکھوا کر ایک ایم پی اے یا ایم این اے کی سفارش کے ساتھ تھانے جانا پڑتا ہے۔ تو کیا وہ تھانیدار کے خلاف شکایت کا سوچ سکتا ہے۔ پہلے تو کبھی چوری کی بھینس پکڑی ہی نہیں گئی اور اگر خدانخواستہ پکڑی بھی جائے تو اس غریب دیہاتی کو اپنی چوری کی بھینس کی گھر واپسی کی سپرداری کے لئے پٹواری سے اپنی ملکیتی زمین کے ریکارڈ فرد کے لئے سفازش اور کم از کم دو ہزار کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ کیا وہ اس پٹواری کے خلاف سفارش کرکے اپنے ملکیت کے حق کے ثبوت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کیا چوکوں میں اپنے بدن کی بولیاں لگوانے والا مزدور جو انگلیوں کے پوٹوں پر اپنی دیہاڑیوں کا حساب کرتا ہے ، جس کی سوشل سیکیورٹی کا اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں اس آن لائن پورٹل سسٹم میں اپنی کٹی انگلیوں ، ٹوٹی ٹانگوں اور مفلسی سے مرتی اولاد کی شکایت کرے گا؟

شکایات کی تو وہاں ضرورت ہوتی ہے جہاں بد انتظامی اور بدعنوانی چپھی ہوئی ہو ۔ جس ملک کے نظام میں بد عنوانی اور بد انتظامی کلچر کا حصہ بن چکی ہو وہاں قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔

خدا را پہلے قانون کی حکمرانی لائیے ، اصلاحات لائیے ، تعلیم کی طاقت سے قوم کے اندر جرات پیدا کیجئے اپنی بائیس سالہ زندگی کی نظریاتی تقریروں ، وعدوں اور دعوں کو یاد کیجئے اور ان نظریوں ، دعوں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنائیے ، اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیے ، پھر شکایات سیل بھی فائدہ مند ہونگے۔
 

فرقان احمد

محفلین
میں یہ نہیں کہتا کہ عوامی شکایات نہ سنیں بلکہ حیران ہوں کہ کیا سننا چاہتے ہیں۔

کیا بڑھتی ہوئی مہنگائی ، گرتی روپے کی قیمت آپکے علم میں نہیں ؟

کیا بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آپ کے علم میں نہیں۔ اور تو اور بل کی قسطوں کا حق بھی آپکے دور حکمرانی میں چھین لیا گیا ہے۔

اب سے چار دن پہلے آدھی دنیا کے سامنے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت اور بدعنوانی کی دہائی دیتے وہ الفاظ آپ اتنی جلدی بھول گئے ہیں یا سب ٹھیک ہوگیا ہے جو اب بات شکایات سننے تک آپہنچی ہے۔

جناب پہلے کچھ کر کے دکھائیے اور نہیں تو پاکستان کو کم از کم معاشی طور پر آج سے اڑھائی مہینے پہلے والی سطح پر ہی لے آئیے ۔

آپ نے امید ظاہر کی کہ اس سے سرکاری ملازمین کی کارکردگی بہتر ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ آپ سے زیادہ شکایات ہی ملازم طبقے کو ہونگی جن کی سالانہ تنخواہ دس فیصد ، وہ بھی بنیادی تنخواہ کا بڑھتی ہے اور سالانہ بیس فیصد مہنگائی بڑھ چکی ہوتی ہے۔
دور نہ جائیں اپنے سیکریٹیریٹ کے کسی ملازم سے ، جن کو ملک کے باقی ملازمیں کی نسبت بیس فیصد کا اضافی آلونس بھی ملتا ہے ، اس کے ماہانہ بجٹ کا ہی اندازہ لگوا لیجئے۔

اس ملک میں شکایات کےباکس کی کمی نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ، ستانوے میں نواز شریف بھی شکایات کے فون اپنے تمام تر سٹاف کئ مدد سے سنا کرتے تھے ۔مشرف نے ہر محکمے میں مانیٹرنگ کا نظام متعارف کروایا ، شہباز شریف نے ہر محکمے کا شکایات سیل بنایا ، پنجاب کے دفاتر کے بعد بڑا سا بینر لٹکا ہوتا ہے اور اوپر اطلاع کے لئے نمبر درج ہوتے ہیں۔ آپ کیا داد رسی کریں گے اور وہ بھی دو ملازموں کے کی مدد سے

سرکاری دفاتر ، تھانے ، ڈی سی دفاتر حتیٰ کہ ریلوے پھاٹک پر بھی شکایات باکس لٹکے ہوتے ہیں مگر عوام نے ان کو فضول چیز سمجھ کر کبھی ان کی طرف توجہ نہیں دی ۔ عوام کا ان شکایات کے ڈبوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔

پھر شکایات کا آن لائن نظام ، آپ تو واقعی پاکستان کو پیرس سمجھ بیٹھے ہیں ۔ بھول گئے ہیں کہ اس ملک کی اسی فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جن کو بھینس کی چوری کی رپورٹ کے اندراج کے لئے درخواست بھی کسی سے لکھوا کر ایک ایم پی اے یا ایم این اے کی سفارش کے ساتھ تھانے جانا پڑتا ہے۔ تو کیا وہ تھانیدار کے خلاف شکایت کا سوچ سکتا ہے۔ پہلے تو کبھی چوری کی بھینس پکڑی ہی نہیں گئی اور اگر خدانخواستہ پکڑی بھی جائے تو اس غریب دیہاتی کو اپنی چوری کی بھینس کی گھر واپسی کی سپرداری کے لئے پٹواری سے اپنی ملکیتی زمین کے ریکارڈ فرد کے لئے سفازش اور کم از کم دو ہزار کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ کیا وہ اس پٹواری کے خلاف سفارش کرکے اپنے ملکیت کے حق کے ثبوت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کیا چوکوں میں اپنے بدن کی بولیاں لگوانے والا مزدور جو انگلیوں کے پوٹوں پر اپنی دیہاڑیوں کا حساب کرتا ہے ، جس کی سوشل سیکیورٹی کا اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں اس آن لائن پورٹل سسٹم میں اپنی کٹی انگلیوں ، ٹوٹی ٹانگوں اور مفلسی سے مرتی اولاد کی شکایت کرے گا؟

شکایات کی تو وہاں ضرورت ہوتی ہے جہاں بد انتظامی اور بدعنوانی چپھی ہوئی ہو ۔ جس ملک کے نظام میں بد عنوانی اور بد انتظامی کلچر کا حصہ بن چکی ہو وہاں قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔

خدا را پہلے قانون کی حکمرانی لائیے ، اصلاحات لائیے ، تعلیم کی طاقت سے قوم کے اندر جرات پیدا کیجئے اپنی بائیس سالہ زندگی کی نظریاتی تقریروں ، وعدوں اور دعوں کو یاد کیجئے اور ان نظریوں ، دعوں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنائیے ، اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیے ، پھر شکایات سیل بھی فائدہ مند ہونگے۔
آپ کی قریب قریب تمام باتوں سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں تاہم یہ پیچیدہ معاملات یک دم درست نہیں ہو سکتے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی اس بات کا شدت سے احساس ہو چلا ہے یا کم از کم ہونا ضرور چاہیے۔ آپ کے مراسلے میں جامع اصلاحات کے حوالے سے جو اشارہ کیا گیا ہے، وہ کلیدی نوعیت کا ہے تاہم اس کے لیے نعرے بازی سے ہٹ کر سنجیدہ طرز فکر اپنانی ہو گی تاہم لگتا نہیں ہے کہ ایسا ہو گا۔ جس ملک کے وزرائے کرام تک جگت بازیوں میں مصروف ہوں تو وہاں روایتی سیاست کی توقع ہی رکھی جانی چاہیے؛ یہ ایک المیہ ہے۔
 
Top