70 سال میں ہم نے کیا کیا ہے؟

جاسم محمد

محفلین
70 سال میں ہم نے کیا کیا ہے؟
01 اکتوبر ، 2019
image3.jpeg
عمار مسعود

دنیا کا ہر ملک کچھ نہ کچھ بیچتا ہے اور اس ملک کا سربراہ اس پراڈکٹ کی مارکیٹنگ پر مامور ہوتا ہے۔
امریکہ دنیا کے سامنے اپنا ’اسلحہ‘ بیچتا ہے۔ جاپان ہر فورم پر اپنی ’گاڑیوں‘ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔
آسٹریلیا ’لائیو سٹاک اور ایگری کلچر‘ پر نازاں ہے۔ جرمنی دنیا کی سب سے بہتر ’انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی‘ کا نعرہ لگاتا ہے۔ سعودی عرب ’تیل‘ بیچتا ہے۔ ہانگ کانگ اپنی ’فنانشل سروسز‘ کے اشتہار لگاتا ہے۔ انڈیا ’آئی ٹی‘ سیکٹر میں چمپیئن ہونے کا دعوٰی کرتا ہے۔ تھائی لینڈ ’سیاحت کے فروغ‘ کو مارکیٹ کرتا ہے۔
ہالینڈ اپنے ہاں کے ’ٹیولپس کے پھولوں‘ کو دنیا میں سب سے بہتر بتاتا ہے۔ بلیجیئم اپنی ’چاکلیٹ‘ پر فخر کرتا ہے۔ فرانس ’پرفیوم‘ کی انڈسٹری کا سرپنچ بنتا ہے۔ سنگاپور اپنی ’ویلیو ایڈڈ سروسز‘ کے بہترین ہونے کا نعرہ لگاتا ہے۔ افریقہ اپنے ’جنگلات، جنگلی حیات اور افریقن سفاری‘ کی اہمیت دنیا کے سامنے اجاگر کرتا ہے۔ حتیٰ کی بنگلہ دیش بھی اپنے ’چاول اور پٹ سن‘ کے قصیدے گاتا ہے۔
چین اپنے ہاں کی سب سے معیاری اور ارزاں پروڈکٹس کے گن گاتا ہے۔ عموماً ان ممالک کے سربراہان بہانے بہانے سے اپنے ملک کی پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔

فورم کوئی بھی ہو وہ بات سے بات نکالنے کے انداز میں کچھ نہ کچھ بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ چاہے اقوام متحدہ کا اجلاس ہو یا سلامتی کونسل میں کسی قرارداد پر بات، سارک ممالک کی کانفرنس ہو یا پھر اسلامی ممالک کا سمٹ، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوں یا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشنز کی ملاقات، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہو یا گلف ٹریڈ کارپوریشن کی کوئی میٹنگ، ورلڈ اکنامک فورم کی کوئی کارروائی ہو یا کسی اور اہم موقع کی کوئی ہنگامی میٹنگ، یورپیئن ممالک کے ٹریڈنگ بلاک سے خطاب ہو یا افریقی ممالک کی تجارتی انجمن کا اعلامیہ۔
ہر ملک کا سربراہ دنیا میں کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہوتا ہے، جبکہ باقی حکومتی عہدیدار بھی اپنے ملک کی مصنوعات یا خدمات کی پبلسٹی کر رہے ہوتے ہیں۔
000_x94kk.jpg

ہالینڈ اپنے ہاں کے ’ٹیولپس کے پھولوں‘ کو دنیا میں سب سے بہتر بتاتا ہے: فوٹو: اے ایف پی

میرا علم ناقص ہے لیکن جب سے میں نے اس ملک میں ہوش سنبھالا ہے میں نے کئی سربراہانِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بین الاقوامی فورمز پر تقاریر سنی ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے ذکر کیا ہو کہ ہمارے ہاں کی گندم ایسی لاجواب ہے کہ دانہ دانہ لذت سے بھرا ہے۔
یا پھر کسی نے کہا ہو کہ ہماری کپاس چاندی کو مات دیتی ہے۔ یا پھر کسی نے اپنے ہاں کی چمڑے کی صنعت کبھی مارکیٹ کی ہو، یا پھراپنے کسی وزیر اعظم یا صدر نے ہمارے ہاں کی سٹیل کی مصنوعات کی تعریف کسی بین الا قوامی فورم پر کی ہو، یا پھر کسی نے کہا ہو کہ ہمارے ہاں تعلیم کا ایسا نظام ہے کہ دنیا بھر کے طلبا اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لیےاس مملکت خداداد کا سفر اختیارکرتے ہیں، یا پھر کسی وزیر اعظم یا صدر نے ہماری صحت کی سہولیات کا ذکر کسی انٹرنشل سیمنار میں کیا ہو، یا پھر سرکاری سطح پر ہمارے ہاں کے چاول کبھی دنیا میں مارکیٹ کیے گئے ہوں۔
ہاں البتہ چند سربراہانِ مملکت نے اپنی تقاریر میں شمالی علاقہ جات کے حسن کا ذکر ضرور کیا، سیاحت کو فروغ دینے کی دبی دبی بات ضرور کی مگر جب ان علاقوں میں آنے والے سیاح آئے روز اغوا برائے تاوان کے لیے غائب ہونے لگے تو یہ بات بھی رفتہ رفتہ دم توڑ گئی۔
000_14a4gk.jpg

ستّر ہزار لاشیں کاندھے پر سنبھالے ہم اب تک انہی قربانیوں کی باتیں کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ کیا ہمارے پاس اور کچھ کہنے کو نہیں؟ فوٹو: اے ایف پی

تہتر برس میں ہماری کوئی بھی پراڈکٹ دنیا میں نام بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ کسی ایک بھی ’ایکسپورٹ ایبل پراڈکٹ‘ کا شہرہ نہیں ہوا۔ نہ گندم نہ چاول، نہ شیشہ نہ شربت، نہ سٹیل نہ سریا، نہ نادر پتھر نہ ہیرے جواہرات، نہ فشری کے بزنس نے دنیا میں کوئی نام بنایا نہ ماہی گیری میں ہم نے کوئی تمغہ سینے پر سجایا، نہ سیاحت قابل ذکر ہوئی نہ زراعت قابل فخر بنی۔ نہ مزدور بہت ہنر مند بنے نہ ہیومن ریسورس ہماری پہچان بنی۔ ہم دہائیوں سے ہر بین لاقوامی فورم پر ان معاملات پر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے، ہاں البتہ ماضی قریب کے تمام عہدیداروں ہی نے ایسے بین لااقوامی فورمز پر ایک مشترکہ بیان ضرور دوہرایا کہ ’ہم نے دہشت گری کے خلاف جنگ میں ہزاروں قربانیاں دی ہیں۔‘ عمران خان نے بھی اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں اسی بات کو دوہرایا ہے۔
اس میں کچھ تو وہ جری جوان تھے جو مکار دشمن کے ساتھ لڑتے جام شہادت نوش کر گئے۔ ان میں سے کچھ نماز پڑھنے مسجدوں میں زندہ سلامت گئے تھے اور ٹکڑوں کی شکل میں گھر واپس آئے تھے۔ کچھ بچے تعلیم حاصل کرنے گئے تھے اور ذبح شدہ لاشوں کی شکل میں ماؤں کو لوٹائے گئے تھے۔
کچھ مسافر سفر کو نکلے تھے مگر بسوں میں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیے گئے تھے۔ کچھ عید کے دن کسی پارک میں گھر والوں کے ساتھ نئے کپڑے پہن کے گئے تھے اور کفن پہن کر لوٹے تھے۔ کچھ بازار میں اشیا صرف خریدنے گئے اور خود ایک زرودار دھماکے میں صرف ہو گئے تھے۔
کچھ اتوار کے دن چرچ میں عبادت کے لیے گئے تھے مگر واپس گھر نہ پہنچ سکے۔ کچھ کسی امام بارگاہ میں ماتم کرنے ایسے گئے کہ پھر زمانہ ان کا ماتم کرتا رہا۔ ان سب لوگوں کے بہیمانہ قتل کو، دہشت گردی کو، ظلم کو، خون کو ہم ستّر ہزار قربانیاں کہتے ہیں۔
ستر ہزار لاشیں کاندھے پر سنبھالے ہم اب تک انہی قربانیوں کی باتیں کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ کیا ہمارے پاس اور کچھ کہنے کو نہیں؟
 
Top