70 سال میں پہلی بار مجموعی قومی پیداوار منفی: عوام کیسے متاثر ہوں گے؟

جاسم محمد

محفلین
’مجموعی قومی پیداوار‘ منفی ہونے سے عام پاکستانی کو کیا فرق پڑے گا؟
تنویر ملک صحافی، کراچی
  • 12 جون 2020
_112870013__111690608_gettyimages-1207586894.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب ملک کی معاشی سرگرمیاں رک گئیں تو اس کا براہ راست اثر پیداوار، خدمات اور زراعت کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں پر ہوا جس کا نتیجہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے کی صورت میں بر آمد ہوا

ایک فائبرز پولیسٹر پلانٹ کی انتظامیہ کی جانب سے چند ہفتے قبل ملازمین کو مطلع کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پلانٹ بند کر دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں اس کے چلنے کا کوئی امکان نہیں۔

ایک نوٹس کے ذریعے ملازمین کو اطلاع دی گئی کہ ان کی ملازمتیں ختم کر دی گئی ہیں اور ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کے ساتھ ان کے واجبات ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے جائیں گے۔

اس پلانٹ کی انتظامیہ نے ملازمین کو فارغ کرنے کی وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پلانٹ کی بندش کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پیدواری عمل رکنے کی وجہ سے کمپنی کی جانب سے تنخواہیں دینا قابل عمل نہیں رہا۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ دینے کا عمل صرف اس ایک پلانٹ تک محدود نہیں۔

پاکستان میں ریئل سٹیٹ کے ایک بڑے ادارے کی جانب سے کام بند ہونے کی وجہ سے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کا اعلان کیا گیا تو دوسری جانب ایک آن لائن پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی کی جانب سے اپنے 30 فیصد ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔

فائبر تیار کرنے والا پلانٹ مینوفیکچرنگ یعنی پیداوار کا شعبہ ہے اور ریئل اسٹیٹ اور آن لائن پبلک ٹرانسپورٹ سروسز یعنی خدمات کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان شعبوں میں جب کام رک گیا تو اس کا براہ راست اثر پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار پر ہوا جسے جی ڈی پی کہا جاتا ہے۔

جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
جمعرات کو اسلام آباد میں اقتصادی مالی سروے 2019-20 پیش کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ متاثر ہوا اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 رہی ہے جبکہ خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔

_112870881_a74aa418-888f-4564-9eab-80469b1efd57-1.jpg

تصویر کے کاپی رائٹWorld Bank
کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا حساب مینوفیکچرنگ، سروسز اور زراعت کے شعبوں کی مجموعی پیداوار پر کیا جاتا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے جی ڈی پی کے تعین کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان تمام شعبوں کی پیداوار کو اکٹھا کر کے ان کی اوسط نکالی جاتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر جی ڈی پی بڑھ یا گھٹ رہی ہے تو تمام شعبوں میں اضافہ یا کمی نہیں ہو رہی ہے بلکہ کچھ شعبے بہت زیادہ اضافہ دکھا رہے ہوتے ہیں اور کچھ شعبوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق جی ڈی پی کے تعین کے لیے لازمی نہیں ہے کہ ہر سال ہر شعبے کے اعداد و شمار دستیاب ہوں۔

مثال کے طور پر پاکستان میں زراعت کے شعبے میں لائیو سٹاک کے اعداد و شمار ہر 10 سال بعد اکھٹے کیے جاتے ہیں تاہم ہر سال جی ڈی پی کے تعین کے لیے لائیو سٹاک کے اعداد و شمار اندازوں کی بنا پر جی ڈی پی کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح خدمات کے شعبے میں بینکنگ کے ذیلی شعبے میں اضافہ اس قدر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ دوسرے شعبوں میں ہونے والے معمولی اضافے یا کمی کے باوجود خدمات کے شعبے میں نمایاں اضافہ دکھاتا رہا ہے۔

ستر سال میں پیداوار پہلی بار منفی
لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب ملک کی معاشی سرگرمیاں رک گئیں تو اس کا براہ راست اثر ان تینوں شعبوں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں پر ہوا جس کا نتیجہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے کی صورت میں بر آمد ہوا۔ پاکستان کی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق موجودہ مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی 0.38 فیصد رے گی۔

70 سال میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی مجموعی قومی پیداوار منفی رہے گی۔ آخری بار قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد مالی سال 1951-52 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی ایک فیصد رہی تھی۔

_112870621_hi061405068.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image caption ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس میں ملکی معیشت اب پرانے ستونوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی

سات دہائیوں بعد کورونا وائرس کی وجہ سے یہ شرح منفی زون میں جانے کی وجہ پیداوار اور خدمات کے شعبوں میں پیداواری عمل کی بندش تھا۔ اگرچہ زراعت کے شعبے میں شرح نمو میں کچھ اضافہ ریکارڈ کیا گیا لیکن پیداوار اور خدمات کے شعبوں میں خراب کارکردگی نے مجموعی ملکی پیداوار کو منفی کردیا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے جی ڈی پی کے منفی زون میں گرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں مخلتف شعبوں میں شرحِ ترقی کا منفی ہونا وقتاً فوقتاً دیکھنے میں آیا، لیکن جی ڈی پی کا ہی منفی ہو جانا 70 سالوں کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صرف پیداوار کے شعبے کو ہی لے لیں تو گذشتہ دو سال میں اس شعبے میں منفی شرحِ نمو دیکھنے میں ائی۔

جی ڈی پی منفی کیوں ہوئی؟
مجموعی قومی پیداوار کی منفی شرح کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ پاشا نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیداواری عمل کی بندش اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کی ایک نمایاں مثال برآمدی شعبہ ہے جب اپریل کے مہینے میں ملک کی برآمدات 50 فیصد تک گر گئیں۔

ان کے مطابق ملک میں صنعتی شعبہ بند پڑا ہوا تھا اور امریکہ اور یورپ کی منڈیاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ بھی درآمد نہیں کر رہیں جس کا براہ راست اثر اُس ایک عام فرد پر پڑتا ہے جو برآمد ہونے والی مصنوعات کی تیاری کے کسی کارخانے میں کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے رواں مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی ہونے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ملک کی پوری معیشت کا پہیہ رک چکا ہے اور کورونا وائرس کی وجہ سے پیداوار اور خدمات کے شعبوں میں کام بند ہوا تو اس کا براہ راست اثر ملک کی مجموعی قومی پیداوار پر ہوا۔

ڈاکٹر بنگالی نے کہا کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اس سے جی ڈی پی کے منفی ہونے کی وجہ برآمدی شعبے اور خدمات کے شعبوں کی بندش ہے جو ملک کی جی ڈی پی میں اضافے یا کمی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

_112870623_tv061905614.jpg

تصویر کے کاپی رائٹEPA
Image caption ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق جی ڈی پی کی شرح منفی ہو جانے سے بیروزگاری بڑھے گی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا

نتیجہ عام آدمی کی آمدن میں کمی، بیروزگاری میں اضافہ

ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا براہ راست اثر ایک عام فرد پر پڑتا ہے کیونکہ مجموعی قومی پیداوار میں کمی اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب ملک کے صنعتی، زرعی اور خدمات انجام دینے والے اداروں میں کام کی رفتار سست روی کا شکار ہوتی ہے یا ان میں کام بند ہو جاتا ہے۔

ماہر معیشت محمد سہیل کے مطابق قومی پیداوار میں منفی رجحان کا مطلب ہے کہ اس سے عام آدمی کی اوسطاً آمدنی گھٹ جاتی ہے۔ جب پیداواری شعبے میں کام نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا یا پھر ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی جائے گی جس سے ملک میں فی کس آمدنی میں کمی واقع ہوگی۔

محمد سہیل نے بتایا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیداواری شعبے میں کام تقریباً بند ہو گیا ہے چاہے وہ سیمنٹ ہو، کاریں ہوں یا پھر کپڑے، ہر چیز کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے یا پھر سرے سے کوئی پیداوار ہوئی ہی نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پیداوار کے شعبے میں شرح منفی 2.64 رہے گی۔

ان کے مطابق خدمات کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں شرحِ نمو نصف فیصد رہنے کی توقع ہے۔

زراعت کے شعبے کے شرحِ نمو 2.67 رہنے کے بارے میں محمد سہیل نے کہا کہ لاک ڈاؤن شہروں کی بہ نسبت دیہاتوں میں بہت کم تھا یا پھر سرے سے تھا ہی نہیں اس لیے زرعی معیشت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے اور اس کے عام آدمی پر اثرات کے سلسلے میں کہا کہ جی ڈی پی کی شرح منفی ہو جانے سے بیروزگاری بڑھے گی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔

_112870625_tv061850760.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image caption خدمات کے شعبے میں بینکنگ کے ذیلی شعبے میں اضافہ اس قدر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ دوسرے شعبوں میں ہونے والے معمولی اضافے یا کمی کے باوجود خدمات کے شعبے میں نمایاں اضافہ دکھاتا رہا ہے

جب جی ڈی پی میں کمی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں پیداواری شعبے میں کام رک گیا ہے یا پھر وہ سست روی کا شکار ہے، اس صورت حال کا شکار سب سے پہلے ایک عام فرد ہوگا کیونکہ پیداواری عمل میں کمی سے نوکریاں ختم ہوں گی اور تنخواہوں میں کمی لائی جائے گی۔

ڈاکٹر پاشا کے مطابق پاکستان میں موجودہ دور میں فی کس آمدنی ڈالروں میں اوسطاً 1500 اور پاؤنڈ میں 1100 سالانہ ہے اور جی ڈی پی میں کمی یا اس کے منفی ہونے سے یہ فی کس آمدنی گرے گی۔

محمد سہیل نے اس سلسلے میں کہا کہ فی کس آمدنی میں کمی کا اثر پاکستانیوں پر اس لیے بھی زیادہ سنگین ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں بچتوں کا رجحان کبھی حوصلہ افزا نہیں رہا، جو مشکل معاشی حالات میں مالی طور پر امداد دے سکیں۔

ڈاکٹر پاشا نے بتایا پاکستان میں چھ کروڑ افراد پر مشتمل ورک فورس ہے جس میں سے کورونا وائرس سے پہلے 50 لاکھ افراد بیروزگار تھے جو مجموعی ورک فورس کا تقریباً چھ سے سات فیصد بنتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب کاروبار ٹھپ ہوگئے اور معاشی سرگرمیاں کو بریک لگ گیا تو اس سے بیروزگاری مزید بڑھ گئی ہے۔

ان کے تخمینے کے مطابق پاکستان کے بیروزگار افراد میں 75 سے 80 لاکھ افراد کا اضافی ہو سکتا ہے جس سے ملک میں بیروزگار افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ اس صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن اور معیشت میں سست روی کی وجہ سے ہر پانچ مزدوروں میں سے ایک مزدور بیروزگار ہو چکا ہے جو ان کے مطابق ایک سنگین صورت حال ہے۔

انھوں نے کہا کہ جی ڈی پی میں اضافہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔ ان کی مطابق پاکستان کی آبادی میں ہر سال 2.1 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ملک کی مجموعی پیداوار میں منفی رجحان ایک نہایت سنگین خطرہ ہے۔

پاکستان کو منفی شرحِ نمو سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟
مجموعی قومی پیداوار کو دوبارہ مثبت زون میں لانے کے بارے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس میں ملکی معیشت اب پرانے ستونوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی اور ملکی معیشت کو اب نئی بنیادوں پر تعمیر کرنا پڑے گا۔

ان کے مطابق پاکستان کی معیشت میں جدت لانی پڑے گی کیونکہ اب روایتی اشیاء کی پیداوار اور ان کی برآمدات سے کام نہیں چلے گا۔

_112870628__107107287_ee269688-aaae-482c-a5e7-885553573024.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption آخری بار قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد مالی سال 1951-52 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی ایک فیصد رہی تھی

ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی برآمدات بڑی حد تک ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر منحصر ہیں اور ان میں کمی صرف چند مہینوں کے لیے نہیں ہوگی بلکہ اس کا اثر اگلے چند سالوں تک رہے گا۔

انھوں نے بتایا کہ اب پاکستان میں کپڑا بنانے والے کارخانوں کو دیگر ممالک کے بجائے ملکی منڈی کے لیے کپڑا تیار کرنا پڑے گا جو سستا ہو تاکہ ملک میں محدود آمدنی رکھنے والے بھی اسے آسانی سے خرید سکیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا یورپ اور امریکہ میں بھی کساد بازاری کی وجہ سے قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ اُن منڈیوں میں اب ہماری مصنوعات کی کھپت مشکل سے ہو۔ ’اس لیے پاکستان کی معیشت میں اضافے کے لیے اب مقامی منڈیوں پر انحصار کرنا پڑے گا، جو ملکی کارخانوں میں سستی مصنوعات کی تیاری کی صورت میں ممکن ہے تاکہ پاکستان میں صارفین کی قوت خرید کے اندر ہو۔‘

دنیا کے بعض دیگر ملکوں میں معاشی نمو کی صورتحال
دنیا بھر میں مختلف ملکوں کی معیشت میں منفی رجحان کے بارے میں ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اکثر دنیا میں ایسے ملکوں کی مجموعی قومی پیداوار منفی زون میں گرتی ہوئی نظر آئیں جو جنگ، اندرونی خانہ جنگی یا سیاسی عدم استحکام وغیرہ سے دوچار تھے۔

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق اگر بیرونی دنیا کا جائزہ لیا جائے کہ جب کسی ملک کی قومی پیداوار منفی رہی، تو اس کی سب سے نمایاں مثال وینیزویلا کی ہے جس کی معیشت مکمل طور پر برباد ہوچکی ہے اور ان کی مقامی کرنسی کی قدر میں ایک ہزار گنا سے زیادہ کی کمی دیکھنے میں آئی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح میانمار اور افغانستان خطے میں دو ایسے ممالک ہیں جہاں بہت عرصے سے ان کی معیشت میں منفی شرح دیکھنے میں آئی۔

ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں معیشتوں کی خراب صورتحال کی وجہ سے عالمی شرح میں کمی آئے گی یا وہ بغیر اضافے کے سابقہ سطح پر برقرار رہیں گی۔
 
Top