1857- خطوط غالب کے آئینے میں (بہ ترتیب زمانی) مرتبہ محمد اکرام چغتائی ۔ مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور

( ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)​

صاحب !
تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے اور کیا واقع ہوا؟ وہ ایک جنم تھا کہ جس میں ہم تم باہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں اور تم میں معاملات مہر و محبت درپیش آئے، شعر کہے، دیوان جمع کیئے۔۔۔۔ ناگاہ ، نہ وہ زمانہ رہا ، نہ وہ اشخاص، نہ وہ معاملات ، نہ وہ اختلاط، نہ وہ انبساط۔ پھر چند مدت کے بعد پھر دوسرا جنم ہم کو ملا ۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی۔۔ میں جس شہر میں ہوں اس کا نام بھی دلی اور محلے کا نام بھی بلی ماروں کا محلہ ہے۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں نہیں پایا جاتا
 
(ایضاً۔ ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)


میں غریب شاعر ، دس دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح پر متعلق ہوا ہوں ۔ خواہی اس کو نوکری سمجھو ، خواہی مزدوری جانو۔اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں مَیں نے دخل نہین دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجا لاتا رہااور نظر اپنی بے گناہی پر شہر سے نکل کر نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے، مگر چوں کہ میری طرف بادشاہی دفتر میں یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی لہذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیردار بلائےہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں ، میری کیا حقیقت تھی​
 
(ایضاً۔ ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)

مبالغہ نہ جاننا ۔ امیر غریب سب نکل گئے۔ جو رہ گئے تھے ۔ وہ نکالے گئے۔ جاگیردار۔ پنسن دار، دولت مند، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ہے۔ مفصل حالات لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں ۔ ملازمان قلعہ پر شدت ہے۔ بازپرس اور داروگیر میں مبتلا ہیں مگر وہ نوکر جو اس ہنگام میں نوکر ہوئے اور ہنگامے میں شریک رہےہیں۔​
 
(ایضاً۔ ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)

مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یاز دہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر 1857تک بہ دستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھے معلوم نہیں بلکہ ہنوز ایسے امور کی طرف حکام کی توجہ بھی نہیں، دیکھئے انجام کار کیا ہوتا ہے۔​
 
(ایضاً۔ ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)
غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں ۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا، سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں ۔​
 
(ایضاً۔ ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)
واللہ دھونڈھنے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر ، کیا غریب، کیا اہل حرفہ۔ اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں ۔۔۔۔۔ ہنود البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں​
 
(ایضاً۔ ہرگوپال تفتہ ۔ 5 دسمبر 1857)
یہاں سے باہر اندر کوئی بغیر ٹکٹ کے آنے جانے نہیں پاتا۔ تم زنہار یہاں کا ارادہ نہ کرنا۔ابھی دیکھنا چاہیئے ۔ مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں
 
(حکیم غلام نجف خاں 21 دسمبر 1857)
حقیقت حال اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اب تک جیتا ہوں ، بھاگ نہیں گیا، نکالا نہیں گیا، لٹا نہیں ، کسی محکمے میں ابھی بلایا نہیں گیا، معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئیندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟​
 
(حکیم غلام نجف خاں 26 دسمبر 1857)
انصاف کرو ، لکھوں تو کیا لکھوں ؟ کچھ لکھ سکتا ہوں ؟ کچھ قابل لکھنے کے ہے؟۔۔۔۔۔ بس اتنا ہی ہے کہ اب تک ہم تم جیتے ہیں ۔ زیادہ اس سے نہ تم لکھو گے، نہ میں لکھوں گا​
 
نواب یوسف علی خان 14 جنوری 1858​

و از مئی خود آشکار است کہ حال چیست؟ پیوند تعلق با بہادر شاہ جز آن نبود کہ از ہفت ہشت سال بہ تحریر تاریخ سلاطین تیموریہ و از دو سہ سال بہ اصلاح اشعار شہریاری پرداختم۔ درین ہنگامہ خودرا بکنار کشیدم و بدین اندیشہ کہ مبادا گر یک قلم ترک آمیزش کنم خانہ من بتاراج رود، و جان در معرض تلف افتد، بہ باطن بےگانہ و بہ ظاہر آشناماندم ہرگاہ شہر بردست سپاہ انگریز فتح شد، ہمہ جاگیرداران و پنسن داران از شہر بدر رفتند، چناں کہ تا امروز آوارہ دشت و کوہ اند، من از جانہ جنیدم وہم چناں گوشہ گیر ماندم۔ درین بندوبست کہ خاصہ از ببرِ سیاست مجرمان است۔۔۔ و تحقیقاتِ جرم ازروی دفتر قلعہ و اظہار مخبران می کنند، ہیچ گونہ آلایشِ دامنِ من پدید نیامد، و دارو گیرو باز پرس رو نہ داد۔ بودن من در شہر از حکام نہان نیست۔ اما چوں پرسشی درمیان نیست ۔ لاجرم محفوظ ماندہ ام ۔ می بایست کہ خود سلسلہ جنبان گشتمی و با حکام پیوستمی۔ درین بارہ سخن آن ست کہ درین فرماند ہان باہیچ کس سابقہ، معرفتی ندارم و مع ہذا ہنوز موقع و محلِ آن نمی نگرم کہ نامہ نویسم و خواہش ملاقات بہ میان آورم۔راستی این کہ درفتنہ و آشوب خدمتی بجانیاہ وردہ ام ، لیکن مقام شکر است کہ بہ تقدیم نرسیدن خدمت ازراہ بے دستگاہی است، و ذریعہ اخلاص و خلوص ہمان بے گناہی است ۔
(ترجمہ از فیصل عظیم فیصل ۔ کیونکہ یہ خط مکمل فارسی میں ہی منقول ہے اور میں فارسی سے اردو ترجمہ پر اچھی طرح سے قادر نہیں ہوں امید ہے کوئی قاری اس کی اصلاح بھی کر دے گا
کیونکہ اناڑی ہوں لیکن مکمل خط فارسی میں نقل کرتا تو اس دھاگے میں بد مزگی پیدا ہو جاتی لہذا ٹوٹا پھوٹا جیسا تیسا ہوا کر دیا۔)
مئی سے حال تو اپنے آپ سے ظاہر ہے ۔ بہادر شاہ سے سات آٹھ برس کاتعلق سلاطین تیموریہ کی تاریخ لکھنے اور دو تین سال کا شہریاری شاعری کی اصلاح میں گزرا ۔اس ہنگامہ میں قلم ایک طرف رکھ دیا کہ مبادا قلم ترک نہ کیا تو گھر سے ہاتھ دھو بیٹھوں اور سرعام جان گنوا دوں ۔باہر سے ہوش میں اور اندر سے بے گانہ ہوں ۔ شہر کی ہر جگہ انگریز سپاہ فتح یاب ہوئی، کیا جاگیردار کیا پنشن خوار سب شہر بدر ہوئےاور آج تک دشت و کوہ میں دربدر ہوئے پھرتے ہیں۔میں نے اپنی جان لی اور یہیں گوشہ گیر ہو بیٹھا۔اس تعلق سے جو فاتح کا مجرموں سے ہے۔۔۔۔۔اور جرائم کی تحقیات مخبروں اور دفتر قلعہ سے کی جاتی ہیں اس میں کوئی حرج بھی نہیں، میرا دامن چونکہ کسی آلائش سے پاک ہے، مجھ سے کچھ بازپرس نہ کی گئی ، کہ میرا شہر میں وجود حکام سے مخفی نہ ہے۔ اس تفتیش و پرسش میں کوئی نہ بچا۔ میں محفوظ ہوں ۔ میں خود بھی کہیں نہ گیا نہ حکام سے ملا ۔اب کوئی شخص بھی پہلے جیسا نہ ہے۔ اب کچھ جانتا نہیں اور ملاقات یا خط لکھنے کا موقع و محل بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس آشوب اور فتنہ کے وقت میں خدمت کیسی ۔ اور خدمت کا نہ ہونا مقام شکر ہے کہ میری طرف سے نہ تھا۔ گو کہ تنگی ہے اور خلوص اور سچائی اپنے آپ میں بے گناہی کا ثبوت ہوتی ہے۔
 
غلام نجف خان 19 جنوری 1858

جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو، کچھ معلوم نہیں ۔ قلم ہاتھ میں لیے پر ، جی بہت لکھنے کو چاہتا ہے مگر کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔​
 
تفتہ 31 جنوری 1858​
بھائی! میرا حال یہ ہے کہ دفتر شاہی میں میرا نام مندرج نہیں نکلا۔ کسی مخبر نے بہ نسبت میرے کوئی خبر بدخواہی کی نہیں دی۔ حکام وقت میرا ہونا شہر میں جانتے ہیں۔ فراری نہیں ہوں ، روپوش نہیں ہوں، بلایا نہیں گیا، داروگیر سے محفوظ ہوں ، کسی طرح کی باز پرس ہو تو بلایا جاؤں ، مگر ہاں، جیساکہ بلایا نہیں گیا خود بھی بروئے کار نہیں آیا، کسی حاکم سے نہیں ملا، خط کسی کو نہیں لکھا، کسی سے درخواستِ ملاقات نہیں کی ۔
 
ایضا:-تفتہ 31 جنوری 1858
مئی سے پنسن نہیں پایا۔ کہو، یہ نو دس مہینے کیوں کر گزرے ہوں گے۔ انجام کچھ نظر نہیں آتا۔ کہ کیا ہوگا؟ زندہ ہوں مگر زندگی وبال ہے​
 
میر مہدی مجروح 7 فروری 1858
میں مخفی نہیں ہوں ، روپوش نہیں ہوں ، حکام جانتے ہیں کہ یہ یہاں ہے مگر نہ باز پرس نہ گیرودار میں آیا ہوں۔ نہ خود اپنی طرف سے قصد ملاقات کیا ہے ۔ بہ ایں ہمہ ایمن بھی نہیں ہوں ۔ دیکھئے انجام کار کیا ہے؟​
 
Top